انیس ہم صورتِ محبوبِ خدا تھے علی اکبر - میر انیس (مرثیہ)

حسان خان

لائبریرین
ہم صورتِ محبوبِ خدا تھے علی اکبر
شوکت میں شہِ عقدہ کشا تھے علی اکبر
شپیر کی پیری کے عصا تھے علی اکبر
اور بانو کی آنکھوں کی ضیا تھے علی اکبر
جلوہ رخِ پرنور پہ تھا نورِ نبی کا
روشن تھا گھر اس ماہ سے زہرا و علی کا
محبوبِ دلِ خلق ہے شپیر کا جانی
سب ایک زباں تھے کہ یہ ہے یوسفِ ثانی
جن لوگوں نے دیکھی تھی محمد کی جوانی
کہتے تھے زہے خامۂ قدرت کی روانی
ایسا تو حسیں غرب سے تا شرق نہیں ہے
احمد میں اور اس میں سرِ مو فرق نہیں ہے
کیا حُسن ہے دیکھو تو رخِ پاک کی توقیر
نے ماہ میں یہ ضو ہے نہ یہ مہر میں تنویر
نازاں نہ ہو کیونکر قلمِ صانعِ تقدیر
کھینچی ہے محمد سے شہنشاہ کی تصویر
جن و ملک و حور میں افسانہ ہے اس کا
نورِ رخِ خورشید بھی پروانہ ہے اس کا
اس طرح کا محبوب پسر جس کو خدا دے
کیونکر وہ پدر بیٹے کو مرنے کی رضا دے
کس طرح سے ماں دولتِ اولاد لٹا دے
یہ آگ جو بھڑکے تو کلیجے کو جلا دے
فرزندِ جواں کوئی بشر کھو نہیں سکتا
یہ صبر بجز ابنِ علی ہو نہیں سکتا
اٹھارہ برس رنج اٹھا کر جسے پالیں
کس طرح سے داغ اس کی جوانی کا اٹھا لیں
بس ہووے تو آپ اس کے عوض برچھیاں کھا لیں
ناچار ہیں کس طرح کلیجے کو سنبھالیں
واں رحم دلِ فوجِ جفا جو میں نہیں ہے
یاں دل کا یہ عالم ہے کہ قابو میں نہیں ہے
فرزند کا منہ دیکھ کے فرماتے ہیں سرور
عباس نہیں مر گئے ہم مر گئے اکبر
دشمن کو بھی یہ داغ دکھائے نہ مقدر
پہونچا گئے بھائی کو لبِ گور برادر
بابا کے عوض عترتِ حیدر کو سنبھالو
ہم مرنے کو جاتے ہیں تم اب گھر کو سنبھالو
کہتا ہے پسر آپ سے کیونکر نہ جدا ہوں
حضرت پہ تصدق ہوں سب اور میں نہ فدا ہوں
مشہور ہوں ہم صورتِ محبوبِ خدا ہوں
رخصت مجھے دیجئے کہ شریکِ شہدا ہوں
گھر جانے کو فرمائیے اس دم نہ پسر سے
جب آپ نہ ہوں گھر میں تو کیا کام ہے گھر سے
شہ نے کہا کس طرح کہوں مرنے کو جاؤ
میں آنکھوں سے دیکھا کروں تم برچھیاں کھاؤ
اے لال رضا مرنے کی مادر سے تو لاؤ
زینب کو تو راضی کرو آنسو نہ بہاؤ
پوچھا بھی ہے دونوں سے جو مرنے کو چلے ہو
رخصت تمہیں دے کون کہ نازوں کے پلے ہو
یہ سُن کے گئے خیمے میں روتے ہوئے اکبر
ناموسِ رسولِ عربی ہو گئے مضطر
رنگ اڑ گیا بیتاب ہوئی شاہ کی خواہر
بانو نے کہا خیر تو ہے اے مرے دلبر
کیا ظلم ہوا ایسا جو یوں روتے ہو بیٹا
ان آنکھوں کے ماں صدقے ہو کیوں روتے ہو بیٹا
اکبر نے کہا روؤں نہ کیونکر غضب آیا
اب اٹھتا ہے سر پر سے مرے باپ کا سایا
سر دینے کو جاتا ہے ید اللہ کا جایا
کیں منتیں پر اذنِ وغا میں نے نہ پایا
فرماتے ہیں میداں کی اجازت نہ ملے گی
بے مرضیِ مادر تجھے رخصت نہ ملے گی
ماں سمجھی کہ میری ہی طرف ہے یہ اشارا
پردے میں طلب کرتا ہے رخصت مرا پیارا
بھیجوں تو مجھے بے اجل اس داغ نے مارا
روکوں تو جدائی نہیں حضرت کی گوارا
کیونکر کوئی کوہِ غمِ جاں کاہ اٹھائے
ان دونوں سے پہلے مجھے اللہ اٹھائے
یہ ذکر تھا جو خیمے میں آئے شہِ عالم
بس دوڑ کے قدموں پہ گری بانوئے پرغم
شہ نے کہا باقی کوئی مونس ہے نہ ہمدم
روکو نہ کہ اب جاتے ہیں مرنے کے لیے ہم
ہم شکلِ نبی بعد مرے تھامے گا گھر کو
میں چھوڑ چلا ہوں علی اکبر سے پسر کو
ہے شادیِ اکبر کا نہایت تمہیں ارماں
جاؤ جو وطن میں تو کرو بیاہ کا ساماں
نوشاہ بنے گا جو مرے بعد یہ ذی شاں
ہوئیں گے نہ ہم، روح مگر ہوئے گی قرباں
جس وقت قدم مسندِ شاہی پہ دھریں گے
اکبر بھی یقیں ہے کہ ہمیں یاد کریں گے
اس لال کی جس وقت دلہن بیاہ کے لانا
بانو یہ رہے یاد ہمیں بھول نہ جانا
میری بھی طرف سے اُسے چھاتی سے لگانا
پوتا ہو تو مرقد پہ ہمارے اُسے لانا
جب آن کے وہ گھٹنیوں تربت پہ چلے گا
ان چھوٹے سے تلوؤں سے حُسین آنکھیں ملے گا
یہ سن کے جگر ہو گیا اکبر کا دو پارا
مادر سے کیا جوڑ کے ہاتھوں کو اشارا
رخصت مجھے بابا سے دلا دیجئے خدارا
ان باتوں کے سننے کا مجھے اب نہیں یارا
جس طرح ہو اس کام میں کد کیجئے اماں
فرزند کی مشکل میں مدد کیجئے اماں
ماں کانپ گئی بیبیاں رونے لگیں ساری
اکبر کے بھی، زینب کے بھی آنسو ہوئے جاری
بانو نے کہا شہ سے یہ لونڈی گئی واری
اکبر نہیں جینے کے جدائی میں تمہاری
رخصت انہیں کیوں دیتے نہیں سوچتے کیا ہو
کچھ ان کی ہے تقصیر کہ لونڈی سے خفا ہو
تم رہتے سلامت تو میں بیاہ ان کا رچاتی
اور باندھ کے سہرا انہیں نوشاہ بناتی
کس چاہ سے چھوٹی سی دلہن بیاہ کے لاتی
واللہ اب اس ذکر سے شق ہوتی ہے چھاتی
وہ کیجے جو مقصد ہے مرے راحتِ جاں کا
جب آپ نہ ہوں کیسی خوشی، بیاہ کہاں کا
اب تو یہ خوشی ہے کہ یہ کام آپ کے آئیں
حضرت کی حفاظت کریں اور برچھیاں کھائیں
صاحب کے پسینے پہ لہو اپنا گرائیں
لو بخش چکی دودھ بھی سر دینے کو جائیں
رو رو کے کئی بار مرے پاؤں پکڑے تھے
یہ دیر سے مرنے پہ کمر باندھے کھڑے تھے
یہ سنتے ہی قدموں پہ گرے اکبرِ ذی جاہ
چھاتی سے لگا بیٹے کو فرمانے لگے شاہ
بابا پہ ہے دشوار جدائی تری واللہ
خیر اب یہی مرضی ہے تو میدان کی لو راہ
عرصہ نہیں کچھ زیست سے گھبراتے ہیں ہم بھی
تم آگے چلو پیچھے چلے آتے ہیں ہم بھی
یہ کہہ کے جو فرزند سے روئے شہِ مظلوم
خیمے میں جواں بیٹے کی رخصت کی ہوئی دھوم
کہنے لگے ہم شکلِ نبی شہ کے قدم چوم
رکھیے گا دمِ نزع نہ دیدار سے محروم
ماں بولی ہمیں شکل دکھاؤ گے نہ اکبر
صدقے گئی کیا گھر میں پھر آؤ گے نہ اکبر
گھبرا کے کہا بیٹے کے دامن کو پکڑ کر
پھر آنے کا وعدہ تو کرو اے مرے دلبر
بانو سے یہ کہنے لگے رو کر علی اکبر
مہلت جو اجل دے گی تو پھر آئیں گے مادر
دانستہ عزیزوں کو بھلاتا نہیں کوئی
واں جانا ہے جس جا سے پھر آتا نہیں کوئی
شہ روتے رہے بانو بھی کرتی رہی زاری
میدان میں پہونچی علی اکبر کی سواری
مقتل کی زمیں حسن سے روشن ہوئی ساری
اک نور جو چمکا متحیر ہوئے ناری
ثابت ہوا سب کو رخِ روشن کی چمک سے
خورشید زمیں پر اتر آیا ہے فلک سے
میداں میں یہ غل تھا کہ صدا شاہ کی آئی
اب دلبرِ زہرا کا بھتیجا ہے نہ بھائی
باقی تھا یہ بیٹا تو ہوئی اُس سے جدائی
یارو مجھے دیتا نہیں آنکھوں سے دکھائی
ہم شکلِ پیمبر ہے یہ دلبند ہے میرا
اٹھارہ برس کا یہی فرزند ہے میرا
اے ظالمو! یہ ہے مری پیری کا سہارا
مر جاؤں گا میں جیتے جی گر اس کو بھی مارا
بانو کا بھی پیارا ہے یہ میرا بھی ہے پیارا
تصویر ہے اُس کی جو پیمبر ہے تمہارا
قدموں پہ گرو اس کے اگر پاسِ ادب ہے
احمد کی نشانی کا مٹانا تو غضب ہے
ہو صاحبِ اولاد تو نیزے نہ سنبھالو
زخمی مرا دل ہوتا ہے تیغیں نہ نکالو
بیٹوں کی قسم ہے تمہیں اے برچھیوں والو
اس داغ سے بابا کے کلیجے کو بچا لو
بیکس ہے تمہیں اور تو کیا دیوے گا شپیر
بچ جائے گا اکبر تو دعا دیوے گا شپیر
یہ ذکر تھا رن میں جو قیامت ہوئی برپا
ہر سمت سے اکبر پہ کیا فوج نے نرغا
تلواریں چمکنے لگیں مینہ تیروں کا برسا
اکبر نے بھی لے نامِ علی تیغ کو کھینچا
غل تھا کہ کبھی ایسی لڑائی نہیں دیکھی
یہ تیغ کی برش یہ صفائی نہیں دیکھی
لاکھوں میں عجب شان سے لڑتا تھا وہ صفدر
دو چار ہی حملوں میں صفیں ہو گئیں بے سر
گھوڑوں سے اتر لاشوں میں چھپتے تھے ستمگر
اک برق گری جس پہ پڑی ضربتِ اکبر
بیٹے کی صدا جس گھڑی سن پاتے تھے شپیر
سجدے کے لیے خاک پہ جھک جاتے تھے شپیر
تا دیر تو سنتے رہے تلواروں کی جھنکار
تکتے تھے پر اکبر نہ نظر آتا تھا زنہار
لشکر میں ستمگاروں کے یہ غل ہوا اک بار
برچھی علی اکبر کے کلیجے سے ہوئی پار
لو سیدِ مظلوم کے دلدار کو مارا
مارا اسے کیا احمدِ مختار کو مارا
یہ سنتے ہی گھبرا کے گرے خاک پہ شپیر
واں چھاتی پہ برچھی لگی یاں دل پہ لگا تیر
اٹھے جو سنبھل کر تو یہ کرنے لگے تقریر
تقدیر میں تھا داغِ پسر، واہ ری تقدیر
یاں لٹ گئے آباد ہم آئے تھے وطن سے
بیٹے کو اسی واسطے لائے تھے وطن سے
تنہا ہوئے آخر نہ رہا کوئی ہمارا
فریاد کہ اکبر کو ستمگاروں نے مارا
پیری میں کیا جسم کی قوت نے کنارا
تھا جس کا سہارا وہی دنیا سے سدھارا
مشکل میں مدد باپ کی کرتا علی اکبر
ہم جیتے کوئی دن جو نہ مرتا علی اکبر
یہ کہتے ہوئے آئے عجب حال سے رن میں
لغزش جو قدم میں تھی تو رعشہ تھا بدن میں
آنکھوں میں بھرے اشک، زباں خشک دہن میں
جوں شیر ترائی میں کبھی اور کبھی بن میں
پایا نہ کسی جا پہ جو اُس رشکِ قمر کو
گھبرائے ہوئے ڈھونڈھتے پھرتے تھے پسر کو
اتنے میں یہ پُردرد صدا دور سے آئی
اے قبلۂ کونین بڑی دیر لگائی
بیٹے نے انی برچھی کی چھاتی پہ ہے کھائی
مل لیجئے آ کر کہ ہے درپیش جدائی
غش طاری ہے آنکھوں کو بھی کھولا نہیں جاتا
یہ درد ہے سینے میں کہ بولا نہیں جاتا
آوازِ پسر سنتے ہی دوڑے شہِ ذی شاں
دیکھا کہ ہے فرزندِ جواں خون میں غلطاں
لاشے سے لپٹ کر کہا بابا ترے قرباں
کیا حال ہے کھایا ہے کہاں زخم مری جاں
رخ زرد ہے سر تا بہ قدم خوں میں بھرے ہو
مجھ سے تو کہو چھاتی پہ کیوں ہاتھ دھرے ہو
یہ سنتے ہی دم میں علی اکبر کے دم آیا
بابا کی طرف پیار سے ہاتھوں کو بڑھایا
مجروحِ سناں سینے کو بیٹے کے جو پایا
سر پیٹ کے چلّایا کہ فریاد خدایا
دل بندِ محمد کے جگر بند کو مارا
اٹھارہ برس کے مرے فرزند کو مارا
اکبر نے کہا صبر کرو اے شہِ عالم
ہم آپ کی آغوش میں مہماں ہیں کوئی دم
بندے کو تو کچھ مرگِ جوانی کا نہیں غم
افسوس کہ حضرت رہے بے مونس و ہمدم
دشمن ہے ہر اک دشمنِ دیں آپ کی جاں کا
تنہائی ہے اور سامنا دو لاکھ جواں کا
یہ کہتے ہی تیور علی اکبر نے پھرائے
ہمراہ دمِ سرد کے آنسو نکل آئے
سر پیٹ کے شپیر سخن لب پہ یہ لائے
آغوش سے بابا کی چلے بانو کے جائے
کیا بولتے دنیا سے سفر کر گئے اکبر
سوکھی ہوئی دکھلا کے زباں مر گئے اکبر
اس درد سے روتے تھے پسر کو شہِ والا
افلاک کو جنبش تھی زمیں تھی تہ و بالا
لکھا ہے کہ جب مر گیا وہ گیسوؤں والا
تقدیر نے اک بی بی کو خیمے سے نکالا
تھا نور سے چہرے کے گماں بنتِ نبی کا
رفتار میں انداز تھا رفتارِ علی کا
تھے بال تو بکھرے ہوئے اور جسم میں رعشا
اشک آنکھوں میں اور صدموں سے فق چاند سا چہرہ
چلاتی تھی پکڑے ہوئے ہاتھوں سے کلیجا
مارا گیا اٹھارہ برس کا مرا بیٹا
شادی بھی ہوئی تھی نہ مرے ماہ لقا کی
میں لٹ گئی اس بن میں دہائی ہے خدا کی
ہے ہے مرے پیارے مرے جانی علی اکبر
ہے ہے مرے نانا کی نشانی علی اکبر
ہے ہے نہ میسر ہوا پانی علی اکبر
برباد ہوئی تیری جوانی علی اکبر
بن بیاہے تم اس دارِ فنا سے گئے واری
پانی نہ ملا خلق سے پیاسے گئے واری
زینب کی صدا سن کے اٹھے سیدِ ابرار
خیمے میں اسے لے گئے با دیدۂ خونبار
یہ جائے خموشی ہے انیسِ جگر افگار
حق سے یہ دعا مانگ کہ اے ایزدِ غفار
بر لا مری امید کو سرور کا تصدق
اکبر کا تصدق، علی اصغر کا تصدق
(میر انیس)
 
واہ سبحان اللہ !
مرثیہ درد کی باتوں سے نہ خالی ہووے۔
ببر انیس نے مرثیہ نگاری توکی لیکن انہوں نے اپنی روح میں اس کرب و اضطراب کومحسوس بھی کیا۔
جسکا اظہار انکے مراثی پڑھ کر ہوتا ہے۔
جیتے رہیئے حسان میاں !
 
Top