ہم سخن کہتے ہیں شاید حسرتِ اظہار میں

خامشی میں بھی نمایاں ہے جو ہے اظہار میں
کچھ کہیں یا چپ رہیں الجھے ہیں اس گفتار میں

کس قدر لبریزِ الفت ہے ترا کانٹوں کا ہار
لالہ و گل میں اثر وہ کب ہے جو ہے خار میں

بے بسی کے ہاتھ میں ہیں تار ہائے دل پھنسے
اک سکوتِ پوچ بکتے جائے ہیں بیکار میں

جب فشارِ بے کسی راکب ہو بر سیلِ جمود
فرق رہتا ہی کہاں ہے تب در و دیوار میں

دیدۂ یعقوب سے یوسف کے پیراہن کو دیکھ
جنس یہ ارزاں بہت ہے مصر کے بازار میں

کہنے والے کہہ گئے جو لائقِ اظہار تھا
ہم سخن کہتے ہیں شاید حسرتِ اظہار میں

نعمتیں عالم کی لاکھوں جب میسر ہیں ہمیں
گر نہ تم مل پاؤ تب بھی خوش ہیں اس سرکار میں
 
ریحان بھائی، میرے ناچیز رائے میں یہ غزل نظر ثانی کی طالب ہے.
مطلع کے مصرع ثانی میں گفتار مجھے بے محل لگتا ہے کہ اس سے مخمصے کا معنی ادا نہیں ہوتا (جس کا یہاں محل ہے).

شعر نمبر 2 تا 4 نہایت گنجلک اور تشریح طلب لگے. سکوتِ پوچ اور فشارِ بے کسی غیر متاثر کن تراکیب لگیں، جبکہ سیل جمود تو بصد معذرت مہمل سی ترکیب لگتی ہے. بے کسی کے تناؤ یا الجھن کا جمود کے سیلاب پر سوار ہوجانا... جو شعری ماحول آپ ترتیب دینا چاہ رہے ہیں، مجھے وہ بنتا نظر نہیں آیا.

دیدۂ یعقوب سے یوسف کے پیراہن کو دیکھ
جنس یہ ارزاں بہت ہے مصر کے بازار میں
یہ تلمیح مجھے ٹھیک نہیں لگی، مصر کے بازار میں ارزاں جنس تو خود حضرت یوسف علیہ السلام کو کہا جاتا ہے ... ان کے حضرت یعقوب علیہ السلام کو قمیض بھجوانے کا قصہ تو بعد کاہے.

کہنے والے کہہ گئے جو لائقِ اظہار تھا
ہم سخن کہتے ہیں شاید حسرتِ اظہار میں
مصرع کی ابتدا میں ہم سخن کی وجہ سے معنوی تعقید محسوس نہیں ہوتی؟ شعر اچھا ہے اگر دوسرے مصرعے کو تھوڑا بہتر کر لیں.
 
مطلع کے مصرع ثانی میں گفتار مجھے بے محل لگتا ہے کہ اس سے مخمصے کا معنی ادا نہیں ہوتا (جس کا یہاں محل ہے).
مخمصہ ایک خود گفتاری کی کیفیت ہی کو کہتے ہیں. لفظ گفتار یہاں خاموشی اور اظہار سے مناسبت بھی رکھتا ہے.
شعر نمبر 2 تا 4 نہایت گنجلک اور تشریح طلب لگے. سکوتِ پوچ اور فشارِ بے کسی غیر متاثر کن تراکیب لگیں، جبکہ سیل جمود تو بصد معذرت مہمل سی ترکیب لگتی ہے.
آپ ان تراکیب کے oxymoronic nature کی طرف متوجہ نہیں ہوئے.
یہ تلمیح مجھے ٹھیک نہیں لگی، مصر کے بازار میں ارزاں جنس تو خود حضرت یوسف علیہ السلام کو کہا جاتا ہے ... ان کے حضرت یعقوب علیہ السلام کو قمیض بھجوانے کا قصہ تو بعد کاہے.
اگر وہ خود ہی ارزاں ہیں تو قمیص بھی ارزاں ہی ہونی چاہیے. اسے ایک corollary سمجھنا چاہیے.
مصرع کی ابتدا میں ہم سخن کی وجہ سے معنوی تعقید محسوس نہیں ہوتی؟ شعر اچھا ہے اگر دوسرے مصرعے کو تھوڑا بہتر کر لیں.
اس کا ایک متبادل ذہن میں ہے لیکن اس کی بندش سست ہے:
ہم تو کہتے ہیں سخن بس حسرتِ اظہار میں
 
عمدہ! اچھے اشعار ہیں جس قدر کہ سمجھ آئے۔ دو اشعار سر پر سے گزر گئے۔
محترمی ریحان صاحب مجھے بھی اِس غزل کی تفہیم میں بعض جگہ مشکل پیش آئی تو خوب غور کرنے کے بعد جو کچھ سمجھا پیش کررہا ہوں ازراہِ کرم رہنمائی فرمائیے گا:

خامشی میں بھی نمایاں ہے جو ہے اظہار میں
کچھ کہیں یا چپ رہیں الجھے ہیں اس گفتار میں

خاموشی اور سکوت میں بھی دل کی بات نمایاں ہے تو میں اِس الجھن میں ہوں کہ چپ رہوں یا من کی بات کہہ ڈالوں

کس قدر لبریزِ الفت ہے ترا کانٹوں کا ہار
لالہ و گل میں اثر وہ کب ہے جو ہے خار میں

تیری محبت کانٹوں کے ہار سے کم نہیں اور کانٹوں کا یہ ہار مجھے لالہ وگل کے ہاروں سے زیادہ عزیز ہے کہ اِن کی چبھن تیری یاد سے غافل نہیں ہونے دیتی۔

بے بسی کے ہاتھ میں ہیں تار ہائے دل پھنسے
اک سکوتِ پوچ بکتے جائے ہیں بیکار میں

دل قابومیں نہیں رہا ایسے میں خامشی اور سکوت بھی لایعنی باتیں کرتے معلوم ہوتے ہیں ۔

جب فشارِ بے کسی راکب ہو بر سیلِ جمود
فرق رہتا ہی کہاں ہے تب در و دیوار میں

بیقراری اور بیچینی جب سکون وقرار سے بڑھ جائے تو رکاوٹیں رستہ نہیں روک سکتیں

دیدۂ یعقوب سے یوسف کے پیراہن کو دیکھ
جنس یہ ارزاں بہت ہے مصر کے بازار میں

یوسف جو بھائیوں کے ساتھ گھر سے نکلا ہے سیر و سیاحت کو اور دراصل اُسے پہنچنا ہے مصر کے بازار وں میں متاعِ خرید و فروخت بن کر بِکنے کے لیے تو اِسے متاعِ کوچہ و بازار سمجھنے والے یہ جان لیں کہ یوسف کے تو تن کے کپڑے ہی اس کے باپ کی نظر میں زمیں وآسمان سے زیادہ قیمتی تھے ۔

کہنے والے کہہ گئے جو لائقِ اظہار تھا
ہم سخن کہتے ہیں شاید حسرتِ اظہار میں

جو بات کہنے کی تھی وہ تو کہنے والے کہہ چکے ہیں ،ہمارا کلام تو اُن کا سا کلام کہنے کی حسرت کے سوا کچھ نہیں ۔

اب سخن کرتے ہیں ہم اک حسرتِ اظہار میں (ایک تجویز)
یا۔۔۔
اب سخن کرتے ہیں ہم بس حسرتِ اظہار میں

نعمتیں عالم کی لاکھوں جب میسر ہیں ہمیں
گر نہ تم مل پاؤ تب بھی خوش ہیں اس سرکار میں

دنیا کی سبھی نعمتیں ہمیں میسر ہیں۔ تم ہمیں نہ بھی ملے تو بھی کوئی بات نہیں کہ ہمارے پاس اتنی بڑی سرکار (ربِ کائنات )سے مانگنے کو کچھ تو ہوگا۔
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب ، اچھے اشعار ہیں ،ریحان بھائی !
مطلع کے مصرعِ ثانی میں گفتار کا لفظ بے محل لگتا ہے ۔ اس کو دیکھ لیں۔
اس مختصر تبصرے کے لیے معذرت۔ مجھے اس وقت ایک ضروری کام کے لیے جانا ہے ۔ بشرِط فرصت دوبارہ حاضر ہونے کی کوشش کروں گا۔
 
آخری تدوین:
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
شاعری کے پڑھنے والے دو طرح کے لوگ ہیں ۔ ایک وہ جو خود شاعر ہیں اور ایک وہ ہیں جو گھومتے گھامتے اِس کوچے میں آنکلے اور غزل یا نظم پر نظرپڑی تو اُسے شوق سے پڑھنے لگے لیکن جیسے ہی کوئی سخت مقام آیا وہ واپس پلٹ یا آگے نکل گئے ۔ سچی بات یہ ہے کہ اکثریت انہی کی ہے ۔
 

ارشد رشید

محفلین
شاعری کے پڑھنے والے دو طرح کے لوگ ہیں ۔ ایک وہ جو خود شاعر ہیں اور ایک وہ ہیں جو گھومتے گھامتے اِس کوچے میں آنکلے اور غزل یا نظم پر نظرپڑی تو اُسے شوق سے پڑھنے لگے لیکن جیسے ہی کوئی سخت مقام آیا وہ واپس پلٹ یا آگے نکل گئے ۔ سچی بات یہ ہے کہ اکثریت انہی کی ہے ۔
ارے کہاں شکیل صاحب تیسرا اور سب سے اہم گروپ تو آپ بھول گئے - یہ وہ لوگ ہیں جو خود شاعر نہیں ہیں مگر شاعری کا ذوق رکھتے ہیں - اچھے اشعار کے متلاشی رہتے ہیں -
ان میں سے اکثر کو دوسروں کے کلام یاد ہوتے ہیں ایسے لوگ ہر بات پہ ایک شعر سنا سکتے ہیں - سچ پوچھیے تو انہی باذوق لوگوں سے یہ گلستانِ ادب مہک رہا ہے -
یقین جانیئے میرے جاننے والوں میں ایسے بہت لوگ ہیں اچھے کلام کے دیوانے اور داد دینے والے ہیں گو وہ خود سے ایک مصرعہ بھی نہیں موزوں کر سکتے ہیں-
 
مجھے یہ جان کر حیرت بھی ہوئی اور خوشی و مسرت بھی کہ آپ اپنی غزل پوسٹ کرنے کے بعد چھٹی نہیں کرگئے بلکہ برابر اِس کے ضمن میں آنے والے تبصروں اور آراء سے باخبرہیں اور برابر اُن پر اپنا رسپونس بھی دے رہے ہیں ، یہ مستحسن عمل بجائے خود ایک عمدہ اور مکمل شعر بلکہ اعلیٰ درجہ کی شاعری ہے ،واہ!
میں آپ کی غزل کے مطالعے کا ایک اور راؤنڈکرنا چاہوں گا اور اِس راہ میں جو خیالات دامنگیر ہوں گے وہ ساتھ ساتھ پیش کرتا جاؤں گا۔آپ ازراہِ خدا میری کسی بات کا براہرگز نہ مانیے گا،پیشگی شکریہ۔

خامشی میں بھی نمایاں ہے جو ہے اظہار میں
کچھ کہیں یا چپ رہیں الجھے ہیں اس گفتار میں
الجھے ہیں اِس تکرار میں ۔۔۔۔جیسا کہ اب آپ کے ذہن میں آیا ، میں اِس شعر کو اِس متبادل کے ساتھ پڑھ اور سمجھنے کی سعی کررہا ہوں۔۔۔میرا دل کہ رہا ہے پہلے مصرعے میں اِظہار خالی خولی جچ نہیں رہا اِسے ترکیب کی شکل دیدیں تو شاید صورتحال تبدیل ہوجائے کیونکہ ابھی تو شعر پڑھ کر یہ سوال پیدا ہورہا ہے کہ جو بات خامشی سے نمایاں ہے وہ کون سے طریقِ اظہار سے بھی ظاہر ہورہی ہے اور ہوکر اس مخمصے میں ڈال رہی ہے کہ چپ رہا جائے یا اِس طریقِ اظہار کو اینف سمجھ لیا جائے ۔طریقِ اظہار کا میرے نزدیک مطلب یہ کہ کیا کہانی سنائی جارہی ہے ، مدعا بیان کیا جارہا ہے یا درخواست کی جارہی ، تمناکا اظہار ہے یا اور کون سا پیرایۂ بیان ، طرزِ گفتار ،ڈھنگ و اسلوب ہے جس نے مشکل کھڑی کردی ہے کہ یہ کیا جائے یا یہ۔۔۔۔۔۔
جب خامشی سے ایک چیز ظاہر ہورہی ہے تو اُسے آواز اور الفاظ دینے کی کیا ضرورت ہے۔لہٰذا اس صورتحال نے کشمکش پیدا کردی ہے کہ کیا کریں کیا نہ کریں

ہوں ترے وعدہ نہ کرنے میں بھی راضی کہ کبھی
گوش منت کش گلبانگ تسلی نہ ہوا

کس قدر لبریزِ الفت ہے ترا کانٹوں کا ہار
لالہ و گل میں اثر وہ کب ہے جو ہے خار میں

اول تو کانٹوں کا ہار محبت سے پیش نہیں کیا جاتا اور اگر شاعر نے اِس سے طنز کے لہجے میں کسی اور بات کا کنایہ لیا ہے توتب بھی بات واقعی اور وقوعی محسوس نہیں ہوتی ۔۔۔۔۔۔۔دوسری بات یہ ہے کہ ۔۔۔ ترکیب لبریزِ الفت بھی بے ڈھب سی معلوم ہورہی ہے یا جس طرح استعمال کی جارہی ہے اُس میں کشش مفقود ہے۔


بے بسی کے ہاتھ میں ہیں تار ہائے دل پھنسے
اک سکوتِ پوچ بکتے جائے ہیں بیکار میں

تارہاے دل ، سکوتِ پوچ۔۔۔۔۔۔عجیب سی تراکیب ہیں اور استعمال عجیب تر ہے اور یہ کہ ۔۔۔۔۔۔۔بکتے جائے ہیں کیا وہی اندازِ بیان ہے ، لے ہے ، دے ہے ، کھائے ہے ، جائے ہے یعنی کبھی نیکی بھی اُس کے جی میں گر آجائے ہے مجھ سے ، جفائیں کرکے اپنی یاد شرماجائے ہے مجھ سے ۔۔۔۔۔والا۔

جب فشارِ بے کسی راکب ہو بر سیلِ جمود
فرق رہتا ہی کہاں ہے تب در و دیوار میں

راکب ہو برسیلِ جمود ۔۔۔میرا خیال ہے راکبِ سیلِ جمود مرکب کو زبردستی بیانیہ بنانے کی کوشش ہے ۔
فشارِ بے کسی بھی عجیب ترکیب ہے

دیدۂ یعقوب سے یوسف کے پیراہن کو دیکھ
جنس یہ ارزاں بہت ہے مصر کے بازار میں

یہ شعرقابل فہم اور لائق ِ تعریف ہے ایک خوبصورت تلمیح کے خوبصورت استعمال کی خوبصورت مثال ہے، واہ ! اب یہ نکتہ کہ یوسف کے کرتے کا دیدۂ یعقوب سے چھوانا اور اُن کی بینائی کا لوٹ آنا بعد کا واقعہ ہے تو بے شک یہ دُرست ہے مگر سفر پر روانہ ہوتے وقت بھی تووہی کرتازیبِ تن تھا۔

کہنے والے کہہ گئے جو لائقِ اظہار تھا
ہم سخن کہتے ہیں شاید حسرتِ اظہار میں

یہاں بھی سادہ سی بات کو پیچیدہ بنا کر پیش کرنے کی شکایت ہے اور حالانکہ آپ ایک اعلیٰ درجہ کے شاعر ہیں مگر یہ شعر عجزِ بیانی کا شکار معلوم ہوتا ہے یعنی پہلے مصرعے میں لائقِ اظہار اور دوسرے میں حسرتِ اظہار ۔۔۔۔۔

نعمتیں عالم کی لاکھوں جب میسر ہیں ہمیں
گر نہ تم مل پاؤ تب بھی خوش ہیں اس سرکار میں

یہاں بھی ذہنی آزمائش کی فضائیں ہیں۔ آپ نے شعرکا مفہوم ان فضاؤں کے پار کہیں دھر دیا ہے۔
 
آخری تدوین:
تبصرے کا شکریہ شکیل احمد خان23 صاحب.
اول تو کانٹوں کا ہار محبت سے پیش نہیں کیا جاتا اور اگر شاعر نے اِس سے طنز کے لہجے میں کسی اور بات کا کنایہ لیا ہے توتب بھی بات واقعی اور وقوعی محسوس نہیں ہوتی ۔۔۔۔۔۔۔دوسری بات یہ ہے کہ ۔۔۔ ترکیب لبریزِ الفت بھی بے ڈھب سی معلوم ہورہی ہے یا جس طرح استعمال کی جارہی ہے اُس میں کشش مفقود ہے۔
میں ذاتی طور پر شاعری میں حقیقت پسندی کا قائل نہیں ہوں. فن اپنی تمام تر خصوصیات کے ساتھ بھی کبھی حقیقت کے دقائق کو کما حقہ ادا نہیں کر سکتا. یہ شعر کچھ کمزور ہے مگر غزل مکمل کرنے کے لیے ایسے اشعار ناگزیر ہیں.

جب فشارِ بے کسی راکب ہو بر سیلِ جمود
فرق رہتا ہی کہاں ہے تب در و دیوار میں

راکب ہو برسیلِ جمود ۔۔۔میرا خیال ہے راکبِ سیلِ جمود مرکب کو زبردستی بیانیہ بنانے کی کوشش ہے ۔
اس شعر کی لفاظی عام فہم نہیں ہے لیکن مضمون تو سادہ ہے. جب بے بسی کا فشار جمود کے سیلاب پر سوار ہو تو دیوار بھی در ہو جاتی ہے یا پھر در بھی دیوار. اس میں خاص بات یہی ہے کہ stagnation کی حالت کو بیان کرنے کے لیے سیلاب کی علامت استعمال کیا گیا ہے جو کہ اس کیفیت کے بالکل برعکس ہے.
بے بسی کے ہاتھ میں ہیں تار ہائے دل پھنسے
اک سکوتِ پوچ بکتے جائے ہیں بیکار میں

تارہاے دل ، سکوتِ پوچ۔۔۔۔۔۔عجیب سی تراکیب ہیں اور استعمال عجیب تر ہے
عجیب ہونا بذاتِ خود تو عیب نہیں.
پہلے مصرعے میں لائقِ اظہار اور دوسرے میں حسرتِ اظہار ۔۔۔۔۔
مجھے ذاتی طور پر اظہار کی تکرار بھلی معلوم ہو رہی ہے. الفاظ تبدیل کرنا کوئی مسئلہ نہیں ہے اگر زیادہ تر احباب کی یہی رائے ہو تو تبدیل کر دوں گا اسے.
 
تبصرے کا شکریہ @شکیل احمد خان23 صاحب.
قابلِ صداحترام ، میرے عزیز ، میرے بہت پیارے بھائی محمد ریحان قریشی صاحب !
کیا میں اور کیا میرا تبصرہ مگر آپ نے اِسے گوارہ فرمایا اِس کے لیے میں آپ کا شکرگزار ہوں۔میں نے آپ کے دئیے ہوئے لنک پر آپ کی شاعری کا مطالعہ کیا ۔ایک سے بڑھ کر ایک غزلیں وہاں پاکر دل باغ باغ ہوگیا ۔اللہ کرے لوح و قلم آپ کے رشحاتِ فکر سے ہمیشہ ہمیشہ جگمگاتے رہیں اور اِن کی روشنی سے ادب کے طلباء کو تعمیر و ترقی کے راستے سجھائی دیتے رہیں،آمین ثم آمین۔
 
چند متبادل جو ذہن میں آتے ہیں:
بے بسی کے ہاتھ میں ہیں تار ہائے دل پھنسے
اک سکوتِ پوچ بکتے جائے ہیں بیکار میں
تار ہائے دل ہیں پیچاں بے بسی کے تار میں
اک سکوتِ پوچ بکتے جائے ہیں بیکار میں
جب فشارِ بے کسی راکب ہو بر سیلِ جمود
فرق رہتا ہی کہاں ہے تب در و دیوار میں
سیلِ لاچاری امڈ آئے جب آب و تاب سے
فرق رہتا ہی کہاں ہے تب در و دیوار میں
کہنے والے کہہ گئے جو لائقِ اظہار تھا
ہم سخن کہتے ہیں شاید حسرتِ اظہار میں
کہنے والے کہہ گئے جو لائقِ گفتار تھا
ہم تو کہتے ہیں سخن بس حسرتِ اظہار میں
 
Top