ہم دِیوں کو جلا کے چلے جاتے ہیں

نوید ناظم

محفلین
فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ مِرا دل جلا کے چلے جاتے ہیں
آ بھی جائیں تو آ کے چلے جاتے ہیں

اُن کا در ہے جو ہم سے نہیں چھوٹتا
وہ تو دامن چھڑا کے چلے جاتے ہیں

دل چُرائے انھیں اک زمانہ ہوا
اب تو آنکھیں چُرا کے چلے جاتے ہیں

میرے دل کی تو دل میں رہی آج تک
لوگ اپنی سنا کے چلے جاتے ہیں

وہ کہیں دور تحلیل ہو جاتا ہے
ہم بھی پیچھے ہوا کے چلے جاتے ہیں

زندگی ایسی دلہن کی مانند ہے
رنگ جس کی حِنا کے چلے جاتے ہیں

روشنی سے ہمیں کیوں غرض ہو بھلا
ہم دِیوں کو جلا کے چلے جاتے ہیں

بعد میں دل جو کرتا ہے، اُؤئے ہوئے!
وہ تو بس مسکرا کے چلے جاتے ہیں

کیا عجب رند ہیں جب بھی پی لیں ذرا
میکدے کو ہلا کے چلے جاتے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
چلے جاتے ہیں' ردیف ہی 'چلے جات ہیں' تقطیع کی وجہ سے چست نہیں لگتی۔لیکن شاید مجبوری میں اسے قبول کرنے کے سوا چارہ نہیں۔ البتہ ردیف کا 'کے' کم از کم 'کر' کیا جا سکتا ہے۔
اوئے ہوئے والا شعر پڑھ کر تو شاید یہی زبان پر آتا ہے، اگر یہ کوئی معیاری محاورہ ہو! اس مصرع کو بدلو جیسے
بعد میں چاہے دل آہ بھرتا رہے
 

نوید ناظم

محفلین
بہت شکریہ سر۔۔۔
سر ردیف میں اسقاط نے بات بننے نہیں دی، اسے بدلا ہے اب آپ دیکھیے گا، کیا اس سے کچھ فرق پڑتا ہے یا نہیں؟

وہ مِرا دل جلا کر چلے جائیں گے
آ بھی جائیں تو آ کر چلے جائیں گے

اُن کا در ہے جو ہم سے نہیں چھوٹتا
وہ تو دامن چھڑا کر چلے جائیں گے

دل چُرائے انھیں اک زمانہ ہوا
اب تو آنکھیں چُرا کر چلے جائیں گے

روشنی سے ہمیں کیوں غرض ہو بھلا
ہم دِیوں کو جلا کر چلے جائیں گے

بعد میں دل پہ کیا کیا نہ گزرے گی پھر
وہ تو بس مسکرا کر چلے جائیں گے

ساقی! یہ رند بھی کم نہیں ہیں ترے
میکدے کو ہلا کر چلے جائیں گے

کون اپنی سنے گا نوید اب یہاں
لوگ اپنی سنا کر چلے جائیں گے
 

الف عین

لائبریرین
اب مجھے بہتر لگ رہی ہے غزل ۔
مے کدے کو ہلانے والا شعر کچھ جما نہیں۔ اسے نکالنا ہی بہتر ہے۔ باقی تو درست ہی ہے
 
Top