کلیم عاجز ہم بیٹھے ہیں اب. ۔۔۔

ہم بیٹھے ہیں اب درد کی روداد سنانے
محفل سے ہٹاؤ گل و بلبل کے فسانے

سمٹی ہوئی رگ رگ سے چلی دھار لہو کی
جب اشک سے خالی ہوئے آنکھوں کے خزانے

کیا جانے دعاؤں میں اثر ہے کہ نہیں
کچھ ہم نے بھی تیروں کے لگائے ہیں نشانے

اظہار تمنا پہ وہ کچھ بولے تھے لیکن
سننے نہ دیا دل کے دھڑکنے کی صدا نے

افسردہ نگاہوں میں چمکتے ہوئے آنسو
خاموش محبت کے ہیں خاموش فسانے

کلیم عاجز
 
Top