ہم اپنے طور پہ ہر ایک سے بنا کے چلے

میاں وقاص

محفلین
ہم اپنے طور پہ ہر ایک سے بنا کے چلے
مگر وہ لوگ سبھی سنگ سنگ ہوا کے چلے

عجیب لوگ ہیں، خوابوں میں ان اترے ہیں
کہ درد سوے ہوے پھر مرے جگا کے چلے

تمام بوجھ ابھی جگنوؤں کے سر پر ہے
چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے

مجھے گماں ہے، نہ پچھلی صفوں سے آ جایں
جو ایک بار بہر طور منہ کی کھا کے چلے

ابھی کہاں ہے وہ اک ہولناک سا ماحول
ہم اپنے خون سے مقتل کو یوں سجا کے چلے

اگرچہ غم ہے کہ منزل نہ پا سکے وہ لوگ
مگر یہ جرم ہے جو نقش_پا مٹا کے چلے

رہ_حیات میں ہمت ہی پر یقیں رکھا
ہمارے ساتھ بھلے قافلے دعا کے چلے

جفا کا دشت ہمیں اب پناہ میں لے لے
وفا کے دیس میں اپنا مکان ڈھا کے چلے

کبھی ملے تو مورخ کو یہ بتا دینا
کہ عمر دشت_جنوں میں ہی ہم بتا کے چلے

یہی تو فعل ہمارا فلک کو چبھتا ہے
زمیں پہ جب بھی چلے ہیں، قدم جما کے چلے

عجیب شمع_محفل ہیں ، خود نہیں بیٹھے
ہمیں بٹھا کے چلے، تو کبھی اٹھا کے چلے

کسی کی خیر، نہ اپنا بھلا اگر سوچا
تو اس جہان میں شاہین یوں ہی آ کے چلے
 
Top