ہم آپ کے ہیں کون!

نبیل

تکنیکی معاون
روزنامہ جنگ کے جناب نیر زیدی کی 18 مئی 2005ء کو شائع ہونے والی تحریر:

پاکستانی عوام کو یہ سوال 1960ء کی دھائی میں کرناچاہئے تھا جب روس پر امریکی جاسوس U-2 کو مار گرایا گیا تھا اور پاکستانی عوام کو پتہ چلا تھا کہ یہ پروازیں پشاور میں بڈھ بیر میں امریکی فوجی اڈے سے ہوئی تھیں۔ سوویت یونین کے وزیراعظم خروشیف نے نقشے پر پشاور کے گرد سرخ نشان لگاکر دھمکی دی تھی کہ وہ اس شہر کو نیست و نابود کردیں گے۔ یہاں 11مئی کو امریکیوں کا اپنا غیر مسلح مناسا سیسنا طیارہ چند سیکنڈ کے لئے کانگریس کی عمارت سے 10میل دور آگیا تھا تو ان سورماؤں میں ایسی بھگدڑ مچی کہ جیسے روز محشر ہو۔ نائب صدر اپنی لمبی سیڈان میں فرار ہوگئے۔ سپریم کورٹ کے جج صاحبان زیرزمین پناہ گاہوں میں تھر تھرارہے تھے۔ خاتون اول کو نہ جانے کہاں سے بچایا گیا تھا اور اراکین کانگریس اور اسٹاف سڑکوں پر پریشان حال تھے۔ لیکن جب ایک ایٹمی سپر پاور نے پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دی تو امریکہ نے حکمرانوں سے کہا ہوگا کہ اپنے عوام کی جان خطرے میں ڈالنے کی آپ کو قیمت ادا کردی گئی۔ آپ کے اور اہل خانہ کے لئے امریکہ میں انتظام کردیا جائے گا۔ پاکستانی عوام کو یہ سوال 1965ء میں اس وقت کرنا چاہئے تھا جب خروشیف کے اتحادی بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا اور پاکستان کے لئے امریکی فالتو پرزے بند کردیئے گئے تھے اور امریکی مفادات کے لئے پاکستانیوں کی جان خطرے میں ڈالنے والے فیلڈ مارشل ایوب خان کو ایک ذلت آمیز جنگ بندی قبول کرنا پڑی تھی۔ پھر 1971ء کی جنگ میں سوویت یونین نے بھارت کی بھرپور خصوصی امداد کی اور امریکی، ملک کے دولخت ہونے کو اس لئے حق بجانب قرار دیتے رہے کہ پاکستانی آرمی نے مشرقی پاکستان میں مبینہ طور پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی تھیں۔ صدر ریگن نے 1981ء میں صرف 3/ارب ڈالر کے عوض پورے پاکستان کو جہنم میں ڈالنے کی پیشکش کی۔ اس امداد کا زیادہ تر حصہ 40 لڑاکا طیارے خریدنے میں چلا گیا جن کے آنے کے تین برس بعد ان کے فالتو پرزے بند کردیئے گئے۔ 11ستمبر 2001ء کو امریکہ نے پھر مطالبہ کیا کہ پاکستانی عوام ایک بار پھر اپنے ملک کو خطرے میں ڈالیں۔ 1981ء میں 3/ارب ڈالر کی قوت خرید کیا تھی اور 2005ء میں کیا ہے؟ پورا امدادی پیکیج 2005ء کے مالی سال سے مزید پانچ سال کے لئے ہے لیکن 2001ء سے 2005ء تک صرف افرادی قوت اور زمین کا کرایہ ادا کیا گیا۔ چنانچہ 3/ارب ڈالر کی یہ امداد تقریباً 350 ملین سالانہ ہے لیکن سرکاری ریاضی دان بتائیں گے کہ 600ملین ہے۔ صدر پرویزمشرف نے 11ستمبر کے بعد سے یہ مطالبہ شروع کردیا تھا کہ پاکستان کو F-16 طیارے ملنے چاہئیں۔ 2003ء میں جب کیمپ ڈیوڈ میں صدر مشرف اور صدر بش کی مشترکہ پریس کانفرنس ہوئی تو پاکستان کے قابل اعتماد صحافیوں کو جو سوالات دیئے گئے ان میں یہ سوال بھی تھا کہ F-16 کب ملیں گے اور صدر بش کا نخرہ تھا کہ ”میں نہ مانوں“۔ ہم نے سوچا کہ F-16 ملنا مشکل ہے لیکن ہمیں وہ کچھ نہیں معلوم تھا جو سوال کرنے والوں کو معلوم تھا۔ گزشتہ ماہ بھارت اور پاکستان کے دورے سے واپس آنے کے بعد وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس نے پاکستان کو F-16 فروخت کرنے کا اعلان کیا۔ پاکستانیوں سے جب پوچھا کہ کتنے خریدیں گے تو پتہ چلا کہ ملکی دفاع میں قناعت پسندی کے نئے رجحان کے مطابق صرف 20 طیارے خریدے جائیں گے جن کی قیمت 18 ملین ڈالر فی طیارہ ہوگی یعنی 20طیاروں کا سودا 360 ملین میں ہوگا۔ پاکستانی خوش ہیں کہ امریکہ نے ان کی دوستی کی قدر کرتے ہوئے بالآخر F-16 فروخت کرنے کا فیصلہ کیا اور یہ جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہیں حالانکہ جہاں تک لڑاکا طیاروں کی ٹیکنالوجی کا تعلق ہے F-16 کی ٹیکنالوجی اب فرسودہ ہوچکی ہے اور اسے ریٹائر کیا جارہا ہے۔ یہ طیارہ 1978ء میں امریکی فضائیہ میں متعارف ہوا تھا۔ اب امریکی فضائیہ اور تمام غیر ملکی خریداروں نے مزید F-16 طیارے نہ خریدنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ صدر بش کی رہائشی ریاست میں F-16 بنانے والی فیکٹری نے گزشتہ برس سے ملازمتوں کی کٹوتی شروع کردی تھی۔ وہاں 5800 نوکریاں جنوری 2004ء میں کم کرکے صرف 5000کردی گئی تھیں۔ اگر مزید آرڈر نہ آتے تو فورٹ ورتھ میں یہ فیکٹری 2008ء میں بند ہوجاتی لیکن 2008ء صدارتی انتخاب کا سال ہے۔ صدارتی انتخابی سال میں فیکٹریاں بند نہیں کی جاتیں، ملازمتوں میں کٹوتی نہیں ہوتی۔ لیکن آرڈر کون دے؟ امریکی فضائیہ اب نئی نسل کی ٹیکنالوجی کے طیارے خریدے گی۔ نہتے سویلین عوام پر پرانی ٹیکنالوجی کے طیاروں سے وحشیانہ بمباری سے دنیا میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ وہ اب 35 ملین ڈالر کا ایک نیا طیارہ بنا رہے ہیں جو ناٹو ممالک استعمال کریں گے اس کے علاوہ F-18A جو F-16 سے بہتر ہے وہ خریدا جائے گا۔ اسرائیل کے پاس پہلے 312 ، ترکی کے پاس 240، مصر کے پاس 220 حتیٰ کہ متحدہ عرب امارت کے پاس بھی 80 طیارے موجود ہیں۔ یہ لوگ اپنے پرانے طیارے نکالنے کے چکر میں ہیں۔ غالباً اسی حوالے سے کسی وزیر نے کہا تھا کہ پاکستان کو پرانے طیارے مفت میں مل سکتے ہیں۔ پاکستان 20 طیاروں کا جو آرڈر دے گا اس سے ٹیکساس کی فیکٹری 2009ء تک کھلی رہے گی جبکہ انتخاب نومبر 2008ء میں ہوگا۔ کیا پاکستانیوں کو علم تھا کہ صرف ان کے آرڈر سے یہ فیکٹری 2009ء تک اپنا کام جاری رکھ سکے گی جس سے صدر بش کو فائدہ پہنچے گا؟ کیوں نہ 100 طیارے خریدنے کی کوشش کی جائے اور وہ بھی 18 ملین ڈالرسے کم قیمت پر۔ 20طیاروں سے تو ہم 1984ء کی سطح یعنی 40 طیاروں پر واپس آجائیں گے۔ میں دفاعی سوچ سے ناواقف ہوں شاید نرم سرحدوں کے بعد ہتھیاروں کی ضرورت نہ رہے لیکن پاکستان کو بھارت کے خلاف حقیقی موثر دفاع کی ضرورت ہے۔ میرے خیال میں یہ نئے طیارے ملنے سے پہلے ہی پاکستان پر ایٹمی بلیک مارکیٹ کے حوالے سے پابندیاں لگ جائیں گی۔ 2010ء تک دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی۔ F-16 کی فروخت کے بارے میں ایک بھارت نواز امریکی اسکالر نے کہا تھا کہ ”اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ سوال صرف یہ ہے کہ بھارت ایک روز میں پاکستانی فضائیہ کا صفایا کرتا ہے یا دو روزمیں“۔ تو پاکستانیوں کو یہ سوال کرنا چاہئے کہ کیا یہ طیارے جارج بش کی ریاست میں روزگار برقرار رکھنے کے لئے خریدے جارہے ہیں یا ملک کے فضائی دفاع کو مضبوط کرنے کے لئے ؟ کیا صرف 40 ایف16 طیاروں سے جن میں 20 یقینا 20برس پرانے ہیں ملک کا دفاع مضبوط ہوسکتا ہے؟ لگتا ہے بڈھ بیرسے اڑنے والے U-2 سے لے کر F-16 کی خریداری تک ہر چیز امریکہ کے مفاد میں چلی آ رہی ہے۔ جب ضرورت پڑتی ہے تو پاکستان کو سیٹی بجاکر بلالیتے ہیں جب کام نکل جاتا ہے، دھتکار دیتے ہیں اور اب یہ پوچھنے کا وقت نکل گیا ہے کہ ”ہم آپ کے ہیں کون؟ کیونکہ اس کا جواب بذریعہ واشنگٹن ٹائمز آچکا ہے۔
 

جیسبادی

محفلین
اس میں امریکہ کو قصوروار ٹھیرانا غلط ہے۔ بات یہ ہے کہ ملک کے حکمران غلام ذہنیت کے مالک ہیں۔ ٹکے دو ٹکے یا گرین کارڈ کے بدلے بکنے کو تیار رہتے ہیں۔ امریکہ ان حکمرانوں کو چھوٹا موٹا ذاتی فائدہ دے دیتا ہے، ملک کے لیے جب انہوں نے کچھ مانگا ہی نہ ہو، تو کوئی کیا دے گا۔
ایف ۱۶ کی کمیشن حکمرانوں کو پہنچتی ہے، قوم سود در سود قرضہ اتارتی رہے گی۔ ہتھیار کے طور پر تو ایف۔۱۶ بیکار ہی ہے۔
 
حیقیقت ہے کہ ان باتیں کرنے والوں اور بھاگ کے امریکہ اور یورپ کے دورے کرنے والوں کو احساس نہیں ہے کہ ملک کے اندر کتنی بدامنی اورافلاس ہے، کہتے ہیں کہ ملک ترقی کر رہا ہے، بعئی کیسے معلوم ہوا ہے جی میں نے ٹائیم میگزین میں پڑھا ہے۔ اچھا ملک کے کسی فرد سے کیوں نہیں پوچھا بھی امریکہ نے جو کہہ دیا ہے کافی ہے
 

الف نظامی

لائبریرین
جیسبادی نے کہا:
اس میں امریکہ کو قصوروار ٹھیرانا غلط ہے۔ بات یہ ہے کہ ملک کے حکمران غلام ذہنیت کے مالک ہیں۔ ٹکے دو ٹکے یا گرین کارڈ کے بدلے بکنے کو تیار رہتے ہیں۔ امریکہ ان حکمرانوں کو چھوٹا موٹا ذاتی فائدہ دے دیتا ہے، ملک کے لیے جب انہوں نے کچھ مانگا ہی نہ ہو، تو کوئی کیا دے گا۔
ایف ۱۶ کی کمیشن حکمرانوں کو پہنچتی ہے، قوم سود در سود قرضہ اتارتی رہے گی۔ ہتھیار کے طور پر تو ایف۔۱۶ بیکار ہی ہے۔
بمباری امریکہ نے کی ہے اور امریکہ ہی قصور وار ہے آپ امریکہ سے زیادہ الفت کا اظہار کیوں کر رہے ہیں۔ امریکہ نے بمباری کی ہے اور وہاں کوئی انتہا پسند نہیں تھا معصوم عوام کو مارا گیا ہے۔ امریکہ کو پاکستان سے معافی مانگنی چاہیے۔
 
Top