"ہمیں تم سے محبت ہے"

ابن رضا

لائبریرین
ایک تازہ نظم احباب کی بصارتوں کی نذر

چلو ہم بات کرتے ہیں
کہ شاید بات بن جائے
سُنا ہے بات کرنے سے ہی اکثر بات بنتی ہے
چلو ساحل پہ چلتے ہیں
وہاں کی نرم گیلی ریت پرکچھ خواب بُنتے ہیں
چلو ساحل کی جانب رقص کرتی جھوم کر بڑھتی ہوئی موجوں
کے نظّارے سے لُطف اندوز ہوتے ہیں
چلو سورج کی زردی کو سمندر کے چمکتے صاف پانی میں
اتر کر رنگ بھرتا دیکھ کر محظوظ ہوتے ہیں
چلو پانی میں پتھر پھینک کر لہروں
کو محور سے نکل کر دور تک اِک دائرے میں پھیلتا دیکھیں
چلو اس دلنشیں منظر کو ہم اِک نظم میں تصویر کرتے ہیں
چلو اس خوبصورت نظم کو اب خوبصورت سا کوئی عنوان دیتے ہیں
"ہمیں تم سے محبت ہے"
فقط یہ بات کہنی تھی
جو آخر ہم نے کہہ ڈالی
"ہمیں تم سے محبت ہے"
 
آخری تدوین:
ابھی ابھی کمپیوٹر پر دیکھی۔ یہ تو خوبصورت سرو کے درخت جیسی نظم ہے۔ :)

9623153-01_zpsryciwnov.jpeg
 

ابن رضا

لائبریرین
کسی خوبصورت پرسکون ساحل کے کنارے چلتی نظم.
بہت خوبصورت ابنِ رضا بھائی.
محبت کے لیے شکریہ، شاد و آباد رہیں۔
ابھی ابھی کمپیوٹر پر دیکھی۔ یہ تو خوبصورت سرو کے درخت جیسی نظم ہے۔ :)

9623153-01_zpsryciwnov.jpeg
اجی یہ تو غیر ارادی بن گیا۔۔۔۔ چلیں اچھا ہی ہے سرو کی ساحل پر اٹکلیلیاں :p
 
ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺗﻮ ﯾﻮﮞ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﺏ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ
ﻣﮩﺘﺎﺏ ﻧﮧ ﺳﻮﺭﺝ، ﻧﮧ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﺍ ﻧﮧ ﺳﻮﯾﺮﺍ

ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﯾﭽﻮﮞ ﭘﮧ ﮐﺴﯽ ﺣﺴﻦ ﮐﯽ ﭼﻠﻤﻦ
ﺍﻭﺭ ﺩﻝ ﮐﯽ ﭘﻨﺎﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﺩﺭﺩ ﮐﺎ ﮈﯾﺮﺍ

ﻣﻤﮑﻦ ﮨﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻭﮨﻢ ﺗﮭﺎ، ﻣﻤﮑﻦ ﮨﮯ ﺳﻨﺎ ﮨﻮ
ﮔﻠﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﭼﺎﭖ ﮐﺎ ﺍﮎ ﺁﺧﺮﯼ ﭘﮭﯿﺮﺍ

ﺷﺎﺧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺧﯿﺎﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﮔﮭﻨﮯ ﭘﯿﮍ ﮐﯽ ﺷﺎﯾﺪ
ﺍﺏ ﺁ ﮐﮯ ﮐﺮﮮ ﮔﺎ ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﻮﺍﺏ ﺑﺴﯿﺮﺍ

فیض احمد فیض
 

ابن رضا

لائبریرین
Top