ہمیشہ حُسن والے ٹکڑے ٹکڑے دل کے کرتے ہیں غزل نمبر 97 شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین
الف عین ظہیراحمدظہیر یاسر شاہ محمّد احسن سمیع :راحل:

ہمیشہ حُسن والے ٹکڑے ٹکڑے دل کے کرتے ہیں
مگر شکوے سدا یہ عشقِ لاحاصل کے کرتے ہیں

خزانوں سے ابھی انجان وہ نادان ہیں ملاح
سمندر چھوڑ کر جو تذکرے ساحل کے کرتے ہیں

سنو یہ خود کشی تو اک گناہ ہے اور حماقت ہے
اگر عاقل ہیں تو کیوں کام وہ جاہل کے کرتے ہیں

تھکن سے چُور ہیں لیکن مسلسل شوق بڑھتا ہے
بیاں وہ شان سارے قافلے منزل کے کرتے ہیں

نہیں بچ پائیں گے مظلوم کی وہ بد دعاؤں سے
جو رشوت لے کر حق میں فیصلے قاتل کے کرتے ہیں

کبھی صحرا میں جلتے ہیں کبھی کانٹوں پہ چلتے ہیں
یہ عاشق لوگ اکثر فیصلے مشکل کے کرتے ہیں

مجھے تنہائی کی عادت ہے تنہا مجھ کو رہنے دو
مجھے مایوس بے حد قہقہے محفل کے کرتے ہیں

بنائے انجمن شارؔق کوئی محبوب پانے کی
چلو فرہاد و قیس کوششیں ہم مل کے کرتے ہیں
 
ہمیشہ حُسن والے ٹکڑے ٹکڑے دل کے کرتے ہیں
مگر شکوے سدا یہ عشقِ لاحاصل کے کرتے ہیں
پہلے مصرعے میں غالباً آپ کے مافی الضمیر یہ مفہوم ہے کہ حسن والے ہمیشہ ہی دل کے ٹکڑے ٹکڑے کردیتے ہیں ۔۔۔ تاہم الفاظ کی ترتیب و نشست سے جو سامنے کا مفہوم بنتا ہے وہ یہ بنتا ہے کہ ٰٰ’’ہمیشہ حسن والے ہی دل کےٹکڑے ٹکڑے کرتے ہیں‘‘ ۔۔۔ دونوں باتوں میں باریک مگر اہم فرق ہے :)
اسی لیے کہتا ہوں کہ الفاظ کی ترتیب پر دھیان دیا کیجیے کہ کہیںَ وزن میں فٹ کرنے کے چکر میں مفہوم تو نہیں بگڑ رہا ۔۔۔ باقی بر آئندہ
 
Top