ہمالیہ کی لیلٰی کو ناپیدی کا خطرہ

090917101911_laila_bear226.jpg
’خونخوار کتوں کے حملوں کے نتیجے میں لیلیٰ ہر لڑائی کے اختتام پر لہولہان ہو جاتی تھی جنہیں تربیت ہی اسی بات کی ملی تھی کہ وہ اس کی تھوتھنی پر حملے کریں۔ لیکن اب لیلیٰ محفوظ ہے البتہ اس کے کم از کم ستّر ساتھی پاکستان میں آج بھی زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ انہیں بچانے میں ہماری مدد کریں‘۔
یہ اس اشتہار کا متن ہے جو جانوروں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے عالمی ادارے ڈبلیو ایس پی اے نے حال ہی میں اپنی ویب سائٹ پر شائع کیا ہے۔
لیلیٰ کچھ مہینے پہلے تک ان بدنصیب ریچھوں میں سے تھی جن کے مالک اپنے رزق کی انہیں ان کے فطری دفاع سے محروم کرکے کتوں سے لڑائی میں جھونک دیتے ہیں۔
لیکن اب لیلی کی زندگی بدل گئی ہے۔ وہ صوبہ سرحد کے علاقے کنڈ میں واقع ایک مصنوعی تحفظ گاہ (پارک) میں معذوری کے دن گزار رہی ہے۔ کنڈ بیئر سینکچوری پارک کے نام سے مشہور اس تحفظ گاہ کا انتظام پاکستان میں جنگلی حیات کے بچاؤ کے لیے کام کرنے والا ایک نجی ادارہ بائیو ریسورس ریسرچ سینٹر (بی آر سی) چلاتا ہے۔
بی آر سی کے چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر فخر عباس نے بتایا ہے کہ لیلی کو لگ بھگ آٹھ مہینے پہلے صوبہ پنجاب کے علاقے رحیم یار خان سے ادارے کے رضاکاروں نے تحویل میں لیا تھا اور بدلے میں اس کے مالک کو متبادل روزگار کے طور پر چوڑیوں کی دوکان کھلواکر دی تھی۔
ن کا کہنا ہے کہ ’لیلی کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ یہ تھا کہ وہ نابینا ہوچکی تھی اور دوسری بات یہ کہ اس کی تھوتنی (کتوں کے حملوں سے) پوری طرح پھٹ کر لٹک رہی تھی۔چونکہ یہ پاکستان میں ہمالین بھورے ریچھوں کی ایک انتہائی اہم نسل سے تعلق رکھتی ہے جو کہ پہلے ہی ناپید ہونے کے خطرے سے دوچار ہے تو ہمارے ادارے کے ماہرین کے علاوہ بیرون ملک سے ڈاکٹر جیم سمتھ نے پاکستان آ کر اس کی سرجری کی اور اب یہ صحتیابی کی زندگی گزار رہی ہے‘۔
پاکستان میں خانہ بدوشوں کے کچھ قبائل آج بھی صوبہ پنجاب اور سندھ کے پسماندہ دیہی علاقوں میں ریچھ اور کتوں کی لڑائی کرا کے روزی کماتے ہیں۔ بی آر سی کے مطابق ان ریچھوں کو خانہ بدوش بچپن سے پالتے ہیں اور بڑے ہونے پر اپنے قابو میں رکھنے کے لیے نہ صرف ان کے ناخن کاٹ دیے جاتے ہیں بلکہ ان کی آنکھیں اور دانت بھی نکال دیے جاتے ہیں اور اس طرح انہیں ان کی فطری دفاعی صلاحیت سے محروم کر دیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر فخر عباس کے مطابق ’پاکستان میں اب بھی تقریباً ڈھائی سو کے قریب ایسے ریچھ ہیں جنہیں خانہ بدوش لوگ کتوں سے لڑائیوں کے لیے استعمال کرتے ہیں اور ان میں ہمالیائی بھورے ریچھوں کی تعداد بہت کم ہے۔ کوئی دس پندرہ کے قریب۔ باقی سارے ہمالیائی کالے ریچھوں کی ہے۔ ہمارا کہنا یہ ہے کہ یہ سب کے سب ریچھ بہت بری زندگی گزار رہے ہیں جن میں سے اکثریت گلی محلوں میں ناچنے والوں کی ہے اور کوئی ستّر اسی ریچھوں کا ہم نے پتہ چلایا ہے جو کہ لڑانے کے کام آتے ہیں۔‘
090917101809_bear_dog_fight_226.jpg
کچھ خانہ بدوش قبائل کے لیے ریچھ کتے کی لڑائی روزگار کا ذریعہ ہے​

فخر عباس نے بتایا کہ لڑائی کے دوران ریچھ کو باندھ دیا جاتا ہے اور اس کے بعد اس پر دو وحشی کتے چھوڑ دیے جاتے ہیں جو اپنے نوکیلے دانتوں سے اس کے منہ پر حملے کرتے ہیں۔ یہ لڑائی تین منٹ تک جاری رہتی ہے جس کے دوران اپنے دفاعی اعضاء سے محروم ہونے کی وجہ سے ریچھ زخمی ہوتا رہتا ہے۔ لڑائی کے بعد اسے چند منٹ آرام کے لیے دیے جاتے ہیں اور پھر دو تازہ دم کتے دوبارہ اس پر چھوڑ دیے جاتے ہیں جبکہ لڑائی کے بعد ریچھ کو طبی امداد بھی نہیں دی جاتی۔
انہوں نے بتایا کہ لڑائی میں استعمال ہونے والے ریچھوں کو بچانے اور انہیں قدرتی ماحول فراہم کرنے کی غرض سے ان کا ادارہ ایک منصوبے پر پچھلے چودہ سالوں سے کام کررہا ہے جس میں انہیں حکومت کی بھی مدد حاصل ہے۔
’ہمارے جنوبی پنجاب اور وسطی سندھ کے دیہی علاقوں میں اکثر زمیندار حضرات اس لڑائی سے شوق رکھتے ہیں جن کا سیاسی اثرورسوخ بھی ہوتا ہے اور پھر علاقے میں بھی ان کی طاقت اتنی زیادہ ہے کہ ان لڑائیوں کو روکنا بہت مشکل تھا لیکن مسلسل کوششوں کے نتیجے میں اب صورتحال یہ ہے کہ سال 2000ء میں ریچھ اور کتوں کی لڑائی کے آٹھ سو واقعات رپورٹ ہوئے تھے جو اب کم ہوکر سالانہ تیس اور پینتیس پر آگئے ہیں اور یہ سب حکومت کے تعاون سے ممکن ہوا۔‘
فخر عباس کا کہنا تھا کہ ان کے ادارے نے گزشتہ سالوں کے دوران لڑائی میں استعمال ہونے والے پینتیس ریچھوں کو بچایا اور انہیں قدرتی ماحول فراہم کرنے کے لئے کنڈ میں ایک پارک تعمیر کیا لیکن وہاں مزید ریچھوں کو رکھنے کی گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے ایک اور تحفظ گاہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں لیکن ان کے بقول وسائل محدود ہونے کی وجہ سے انہیں مشکلات کا سامنا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ریچھوں کو خونی لڑائیوں سے بچانے کے لیے انہوں نے ان کے خانہ بدوش مالکوں کے لیے متبادل روزگار کا پروگرام بھی شروع کر رکھا ہے جس کے تحت وہ ان کے مالکوں کو نقد رقوم دینے کے بجائے چھوٹا موٹا کاروبار کھلوا کر دیتے ہیں اور انہیں اپنی روزگار کے طریقے کو تبدیل کرنے پر قائل کرتے ہیں۔
بی آر سی کو ان منصوبوں پر ہونے والے اخراجات کے لیے جانوروں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والا عالمی ادارہ ڈبلیو ایس پی اے فنڈز فراہم کرتا ہے جبکہ جنگلی حیات اور ماحولیات کے لیے قائم سرکاری اداروں سے انہیں افرادی تعاون حاصل ہوتا ہے۔
ریچھ اور کتوں کی لڑائی کی روک تھام میں ایک اور بڑی رکاوٹ کا ذکر کرتے فخر عباس نے بتایا کہ پاکستان میں اس سلسلے میں کوئی واضح قانون موجود نہیں اور جو جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے جو چند ایک قوانین ہیں ان میں زیادہ سے زیادہ سزا معمولی جرمانے سے زیادہ نہیں۔ ’ہم نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن بھی داخل کی تھی جس میں ہم نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ وہ ایسے ریچھوں کے بارے میں قانون کی تشریح کرے کہ انہیں کس قانون کے تحت گلیوں اور سڑکوں پر پھرایا جاتا ہے لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ بند ہوگئی۔ اب ہم انتظار کررہے ہیں کہ اس کا متبادل حل نکل آئے ورنہ وہ پٹیشن ہمیں کسی اور عدالت میں لے جانا ہوگی۔‘
ربط
http://www.bbc.co.uk/urdu/science/2009/09/090917_bear_extinction_zs.shtml
 
Top