ہمارے عہد کا "حق" !!

حیدرآبادی

محفلین
جدیدیت سے پہلے کی زبان میں بات کی جائے تو بات یوں بنتی ہے کہ جدیدیت سے پہلے معاشروں کا انحصار نعروں پر نہیں تھا: زندگی کے حقائق کو قبول کرلینے پر تھاِ ؛ خواہ وہ حقائق کڑوے ہوں یا میٹھے۔
اب کڑوی حقیقت لوگوں کو پسند نہیں آتی، ہاں اسے نعروں کی شیرینی میں لپیٹ کر چاندی رنگ لفظوں کی طشتریوں میں سجا کے پیش کیا جائے تو سب کو قبول ہے۔

کوئی پوچھے حقوق کیا ہوتے ہیں؟ آزادیاں کیا ہیں؟

تو ایک خبر یاد آئی۔ ابھی چند دن پہلے آئی تھی۔ ہندستان کی شمالی ریاست یعنی اتر پردیش میں ایک بڑا مردم خیز شہر اور اجناس اور تلہن کی سب سے بڑی منڈی ہے، مظفر نگر۔یہ ضلع کا صدر مقام بھی ہے۔
اس ضلع میں ایک قصبہ ہے پور قاضی۔ اس قصبہ کی خاصی بڑی آبادی مسلمان ہے۔ اس مسلمان آبادی کی نوجوان لڑکیوں نے، متذکرہ خبر کے مطابق، مطالبہ کیا تھا کہ ان کا حق نہ مارا جائے اور ان کی آزادی پر ڈاکہ نہ ڈالا جائے۔

ہوا یہ تھا کہ قصبہ کی بگڑتی ہوئی اخلاقی صورت حال سے پریشان ہو کر مقامی میونسپل کونسل نے قانون بنایا کہ کمسن لڑکوں اور لڑکیوں کو نہ تو جینز پہننی چاہئیں اور نہ ہی انہیں سیل فون رکھنے کی اجازت دی جائے۔ میونسپل کونسل میں ہندو اکثریت ہے۔ اس فیصلہ کے خلاف، اخباری اطلاعات کے مطابق ،مسلمان لڑکیوں کو سخت اعتراض تھا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ جینز پہننا اور سیل فون رکھنا ان کا حق تھا اور ان پر پابندی ان کی آزادیوں پر حملہ تھی۔

آج کل اسی قسم کی باتوں کو آزادی اور حق قرار دیا جاتا ہے۔
اس عہد میں حق صرف وہ ہوتا جس کا تعلق خود ہماری اپنی ذات اور اپنے ذاتی مفادات سے ہو۔
باقی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماں باپ کا ہم پر کوئی حق نہیں ہوتا،
اولاد کا ہم پر کوئی حق نہیں ہوتا،
معاشرہ کا ہم پر کوئی حق نہیں ہوتا،
اساتذہ کا ہم پر کوئی حق نہیں ہوتا،
مدرسوں اور کتابوں کا ہم پر کوئی حق نہیں ہوتا،
پڑوسی کا ہم پر کوئی حق نہیں ہوتا،
سڑکوں اور گزرگاہوں کا ہم پر کوئی حق نہیں ہوتا،
دن اور رات کا ہم پر کوئی حق نہیں ہوتا،
درختوں اور سبزہ زاروں اور باغوں کا ہم پر کوئی حق نہیں ہوتا،
مریضوں اور مرجانے والوں کا ہم پر کوئی حق نہیں ہوتا،
تہذیب کا ہم پر کوئی حق نہیں ہوتا،
مسجد کا ہم پر کوئی حق نہیں ہوتا،
خود ہمارے اپنے گھر کا ہم پر کوئی حق نہیں ہوتا،
اللہ کے تمام بندوں کا ہم پر کوئی حق نہیں ہوتا،
اور اللہ کا ہم پر کوئی حق نہیں ہوتا !!

یہ سارے حقوق جدیدیت کی صر صر سے پہلے ہوا کرتے تھے، مگر ان کو بھی جدیدیت سے پہلے کی حیرت انگیز طور پر گرم پچھوا نے خاصا مرجھا دیا تھا۔ تو اصلاً یہ حقوق پچھوا چلنے سے پہلے کے زمانہ کی یادگار ہیں۔

جدیدیت سے بہت، بہت پہلے کی بات ہے، جب دنیا نے عہد وسطیٰ سے آگے بڑھ کر عہد جدید میں ایک لفظ اقرا کہہ کر پہلا قدم رکھا تھا توا نسان کو تاریخ میں پہلی بار اللہ کے حقوق اور بندوں کے حقوق اور د ینی فرائض و واجبات کا عرفان دیا گیا تھا۔ جنہیں یہ عرفان دیا گیا تھا کام تو ان کا ہے کہ وہ دیکھیں کہ اب ان کو اپنا سبق کتنا یاد ہے۔کیا پتہ اس بار امتحان کا آغاز پور قاضی سے ہوجائے !

(بشکریہ : طارق غازی)
 
Top