ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے- مفتی منیب الرحمن

ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے- مفتی منیب الرحمن


16 دسمبر کے سانحۂ پشاور کے تتابُع (Follow Up) میں پارلیمانی جماعتوں کے اتفاقِ رائے سے ''قومی ایکشن پلان‘‘ تشکیل پایا اور اس کے نتیجے میں اکیسویں آئینی ترمیم منظور ہوئی۔ بعدازاں میڈیا کی کمین گاہوں میں ہمارے مہربانوں نے دینی مدارس کو موضوع بحث بنایا۔ ہم تو کہتے ہیں کہ جہاں مسئلہ ہے، ثبوت و شواہد کے ساتھ اس پر ہاتھ ڈالئے، کارروائی کیجئے، لیکن یہ کام دشوار ہے، مگر ''بیکار مباش، کچھ کیا کر‘‘ کے مصداق، جو لوگ آرام سے بیٹھے ہیں، کسی کے لئے بشمولِ ریاست کوئی مسئلہ نہیں پیدا کر رہے، ان کے بازو مروڑنے کی مشق کی جاتی ہے۔
مندرجہ ذیل سطور میں ہم ان کے تحفظات پر گفتگو کریں گے۔ ایک سوال یہ اٹھایا جاتا ہے کہ مدرسے اور مسجدیں مسلک کے نام پر قائم ہیں۔ امریکہ میں بھی عیسائیوں کے سینکڑوں فرقے ہیں اور ہر ایک کی عبادت گاہیں الگ ہیں۔ یہودی اپنے بِیْعَہ اور کَنِیْسَہ (Temple)، مسیحی اپنے صَوْمِعَہ (Church)، مسلمان اپنی مساجد اور دیگر مذاہب کے ماننے والے اپنی عبادت گاہوں میں عبادات کرتے ہیں۔
ترکی میں ریاستی کنٹرول میں مساجد میں فقہِ حنفی کے مطابق عبادات ادا کی جاتی ہیں، مگر فقہِ جعفریہ کے ماننے والوں کی مساجد ریاستی کنٹرول سے آزاد ہیں۔ ہم استنبول کے علاقے زَیْنَبِیَّہ میں اہلِ تشیُّع کے ایک مرکز میں گئے، وہاں اربوں روپے کا پروجیکٹ زیرِ تعمیر تھا، اس میں تعلیمی ادارے، لائبریری، نشرواشاعت حتیٰ کہ پرائیویٹ ٹیلیویژن چینل کا منصوبہ بھی شامل ہے۔ ہم نے اہلِ تشیُّع سے پوچھا کہ عمومی طور پر ملک میں مساجد حکومتی تحویل میں ہیں، آپ کو اتنا بڑا پروجیکٹ پرائیویٹ سیکٹر میں بنانے کی اجازت کیسے ملی، انہوں نے بتایاکہ زَیْنَبِیَّہ کے علاقے میں ہماری تقریباً 22 مساجد پرائیویٹ سیکٹر میں قائم ہیں۔ ہماری حکومت کے ساتھ ایک مفاہمت (Understanding) ہے کہ نہ ہم حکومت کے لئے مسئلہ پیدا کرتے ہیں اور نہ حکومت ہمیں بلاسبب چھیڑتی ہے۔
پس حکمرانی کی حکمت یہ ہونی چاہئے کہ جہاںکوئی مسئلہ ہے، جہاں درد یا ناسور ہے، اِدھر اُدھر ٹامک ٹوئیاں مارنے کی بجائے اگر حکومت میں ہمت ہے تو براہِ راست اس پر ہاتھ ڈالے۔ ہمارے ہاں اصل مسئلے کو جڑ سے اکھیڑنے کی بجائے اَطراف میں چھیڑ چھاڑ کو ترجیح دی جاتی ہے، جس سے اصل ناسور تو اپنی جگہ رہتا ہے؛ البتہ انتشار میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ ہمارے ہاں مذہبی شعبے میں اگر کوئی الجھن ہے، جو ریاست کے لئے مشکلات پیدا کر رہی ہے، تو وہ یہ ہے کہ دلیل و استدلال کی بجائے طاقت کے بَل پر اپنی بات کو منوایا جائے اور اسی سبب سے انتہا پسند مذہبی تنظیمیں وجود میں آئیں، ان کا نیٹ ورک مساجد و مدارس سے الگ ہے، یہ ممکن ہے کہ اُن کے زیرِ اثر مساجد یا مدارس ہوں۔ سچ یہ ہے کہ اس کے عوامل داخلی بھی ہیں اور خارجی بھی، حکومت کو چاہئے کہ ان برادر مسلم ممالک سے براہِ راست بات کرے اور اُن سے مطالبہ کرے کہ ہمارے ملک میں آپ اپنے زیرِ اثر مذہبی گروہ پیدا نہ کریں، یہ ایک جائز سفارتی مطالبہ ہو گا۔
ایران میں آج بھی قُم کا حوضۂ علمیہ ریاست کے کنٹرول میں نہیں ہے اور آزاد ماحول میں کام کر رہا ہے، زاہدان میں ایک بہت بڑا حنفی مدرسہ قائم ہے، جس کا نظریاتی تعلق پاکستان کے دیوبندی مسلک کے مدارس کے ساتھ قائم ہے، انقلاب کے باوجود ایران کی مذہبی انقلابی حکومت نے اس سیٹ اَپ کو نہیں چھیڑا۔ عراق میں بحیثیتِ مجموعی مساجد ریاست کے کنٹرول میں ہیں، لیکن نجفِ اشرف کے فقہِ جعفریہ کے مراکز آزاد ماحول میں کام کر رہے ہیں۔ ہمارے ہاں لوگ بعض مسلم ممالک کی مثالیں دیتے ہیں، جہاں سمندر کی بالائی سطح پر مسلکی امتیازات اور اِرتعاش نظر نہیں آتا، اس کی وجہ یہ ہے کہ ریاست نے ایک مسلک اختیار کر رکھا ہے اور نہ صرف یہ کہ اسی کو کام کرنے کی آزادی ہے بلکہ ان کے بجٹ کا ایک حصہ بیرونی دنیا میں اپنے مسلکی نظریات کے حاملین کی سرپرستی پر خرچ ہو رہا ہے۔ لیکن پاکستان میں مذہب ریاستی کنٹرول میں نہیں اور ریاست کے لئے اسے چھیڑنا بھی آسان نہیں ہے۔ حکمت کا تقاضا ہے کہ ایک قابلِ قبول حکمتِ عملی وضع کی جائے کہ مساجد و مدارس اپنے اپنے مسلک کے مطابق اپنے اپنے دائرے میں کام کریں، مگر ریاست و حکومت کے لئے اور بحیثیتِ مجموعی معاشرے کے لئے مسائل پیدا نہ کریں۔
ایک تبصرہ یہ بھی سننے میں آیا کہ مذہب کے نام پر ایک معیشت وجود میں آچکی ہے، گویا اب یہ مفادات کے تحفظ کا مسئلہ ہے۔ ریاست کے متوازی تو ہمارے ہاں کئی معیشتیں کام کر رہی ہیں۔ بہت سے ماہرینِ معیشت کا دعویٰ ہے کہ ریاستی معیشت کے حُجم کے کم و بیش برابر ایک متوازی معیشت کام کر رہی ہے۔ یہ معیشت ہمارے قومی اقتصادی اشاریوں اور اعدادوشمار کا حصہ نہیں ہے۔ معترضین کو ہماری معیشت کے ایسے غیر سرکاری شعبے کیوں نظر نہیں آتے جہاں کالے دھن کی ریل پیل ہے اور وہ اپنے وسائل اور بے پناہ اثرو رسوخ کے ذریعے سیاست اور حکمرانی سمیت قومی زندگی کے اہم شعبوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری اور طرح طرح کے مافیا اس سے الگ ہیں۔ اس مادر پدر آزاد اور ریاستی کنٹرول سے ماورا معیشت کے ٹائیکون ہماری سیاست کے کھیل میں براہِ راست حصہ لیتے ہیں اور سیاست پر سرمایہ کاری بھی کرتے ہیں۔ آزاد الیکٹرانک میڈیا کی صورت میں اکیسویں صدی میں ایک نیا شعبہ وجود میں آیا ہے، جہاں پیسے کی ریل پیل کی داستانیں ناقابلِ یقین و بیان ہیں۔
ایک معیشت مغرب نواز NGOs کی ہے، جو 9/11 کے بعد خود رُو جھاڑیوں کی طرح اُگ آئیں اور کیری لوگر بل میں اُن کا مُعتَدبہ حصہ رکھا گیا، گزشتہ ڈیڑھ عشرے سے اسلام آباد کے فائیو اسٹارز، فور اسٹارز اور تھری اسٹارز ہوٹلوں کی رونقیں انہی کے دم سے قائم ہیں، ان کے ذمے پاکستانیوں کو لبرل اور ماڈریٹ بنانے کا فریضہ ہے۔ یہ غیبی برکات کہاں سے آئیں اور کہاں صرف ہوئیں، یہ ریاست کے کنٹرول سے باہر ہیں۔ کرپشن کی معیشت کا ذکر تو زبانِ زدِ عام ہے۔
اس میں مدارس و مساجد ہی واحد شعبہ ہے، جہاں لوگ رضاکارانہ طور پر اپنے واجب اور نفلی صدقات و عطیات دیتے اور اللہ تعالیٰ سے اجر کی امید رکھتے ہیں۔ اس شعبے میں نہ کوئی دھونس ہے، نہ دھمکی ہے، نہ جبروجور ہے، نہ ہی منصب و عہدے کا ناروا استعمال ہے، بس حسنِ ظن اور باہمی اعتماد کا ایک رشتہ ہے، جس پر یہ ساری عمارت استوار ہے۔ ایک دانشور نے ٹیلیویژن پر کہا کہ دینی مدارس و مساجد کے مشاہرے کم ہیں، یہ درست ہے اور انہیں ریاست کی طرف سے مقررہ کم از کم معیار کے مطابق تو ہونا چاہئے، لیکن یہ وسائل کا مسئلہ بھی ہے؛ تاہم انتظامیہ کو بے حس نہیں ہونا چاہئے۔ لیکن بعض پرائیویٹ اسکولوں کے مشاہرے تو مساجد اور دینی مدارس کے مقابلے میں بھی ہوشربا حد تک کم ہیں؛ تاہم کسی ایک کی غلطی یا غیر منصفانہ رویہ دوسرے کے لئے جواز نہیں بننا چاہئے۔ اسی طرح مدارس کو بھی اصلاح کے لئے ہمیشہ آمادہ رہنا چاہئے۔
ایک اعتراض یہ بھی آیا کہ مدارس کا نصاب فقہی اساس پر قائم ہے اور قرآن و سنت کی حیثیت ذیلی یا ثانوی رہ جاتی ہے۔ یہ بات کسی حد تک درست ہے، جب تک ہم اپنے خطے میں بند تھے، تو زمینی حقیقت اور تقاضے یہی تھے۔ اب دنیا سمٹ چکی ہے، اَسفار اور انفارمیشن کے ذرائع ناقابلِ یقین حد تک ترقی کر رہے ہیں، تو ہمیں بھی اپنی اساس پر قائم رہتے ہوئے اپنی سوچ میں کھلا پن پیدا کرنا ہوگا۔ میں تو اپنے اساتذہ سے کہتا ہوں کہ آپ قرآن و سنت کی فہم کے لئے صرف و نحو، لغت، ادب، معانی و بلاغت اور دیگر معاون علوم پڑھاتے ہیں، ان کو شروع ہی سے قرآن پر منطبق کریں اور طلبا و طالبات کو صیغوں (Tenses) کی تفہیم کے لئے بھی قرآن سے جوڑیں۔ یہ ہمارے بہت سے احباب کے علم میں نہیں ہے کہ اب ترجمۂ قرآن ہمارے ابتدائی نصاب کا حصہ ہے اور اسی طرح حدیث کی کتابیں ابتدائی درجات میں بھی شامل ہیں؛ تاہم قرآن و حدیث کو پوری گہرائی اور گیرائی کے ساتھ تفصیلاً پڑھانا اس دور کی ضرورت ہے، اس سے خود فکر میں وسعت پیدا ہوگی۔
باہمی اعتماد کے ساتھ مدارس کا مسئلہ حل کرنے کے لئے سیاسی عزم (Political Will) کی ضرورت ہے۔ ہمارا تقریباً دو عشروں پر محیط مذاکرات کا تجربہ یہ ہے کہ ہماری سیاسی قیادت میں اس کا فقدان ہے، جب بھی ہمارے مسائل کسی حتمی حل کے قریب پہنچے تو بیوروکریسی نے اسے سبوتاژ کردیا اور سیاسی حکمران لاتعلق سے ہوکر رہ گئے۔ہماری بیوروکریسی کی ذہنی ساخت ہمیشہ یہ رہی کہ جس ادارے میں بیوروکریٹک کنٹرول نہ ہو، اسے قانونی حیثیت نہیں دی جاسکتی ۔سابق سیکریٹری مذہبی امورجناب وکیل احمد خان کے ہمراہ ''اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان‘‘ کے قائدین نے حکومتِ برطانیہ کی دعوت پر ایک مطالعاتی دورہ کیا ، وہاں ہمیں بتایا گیا کہ حکومت کا کام ریگولیٹر کا ہے ، مقررہ معیارات کے مطابق پرائیویٹ سیکٹر میں بھی تعلیمی بورڈ قائم ہوسکتا ہے۔
 
ہماری بیوروکریسی کا ایک سنگین مسئلہ یہ ہے کہ بیوروکریٹ حضرات دینی سمجھ بوجھ سے عاری ہیں اور علمائے دین کو جاہل سمجھتے ہیں۔ ان بے چاروں کو اس بات کا دراک نہیں کہ علماء معاشرے میں بہتری کے لئے کتنا اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
 
دینی مدارس ۔ اصل مسئلہ اور حل... جرگہ…سلیم صافی
headlinebullet.gif

shim.gif

dot.jpg

shim.gif

270627_s.jpg

SMS: #SSA (space) message & send to 8001
saleem.safi@janggroup.com.pk
(گزشتہ سے پیوستہ)
موجودہ حکومت اگر مدارس کے نظام میں واقعی بہتری لانا چاہتی ہے تو اس کا پہلا قدم یہ ہونا چاہئے کہ وہ تمام مدارس کے نصاب میں بنیادی تبدیلی لاکر اس میں قرآن کو وہ اہمیت دلا دے جو دین میں اسے حاصل ہے ۔ اگر ایسا کیا گیا تو دینی مدارس سے انتہاپسندوں اور فرقہ پرستوں کے بجائے دین کے عالم پیدا ہوں گے لیکن جب تک ایسا نہیں کیا جاتا تب تک خواہ دینی مدارس کے ہر طالبعلم کو انگریزی اور سائنسی علوم، تمام کے تمام ازبر بھی کئے جائیں توبھی یہاں سے نکل کر وہ اپنے آپ کو مسلمان کی بجائے بریلوی ، دیوبندی،اوراہل حدیث کہلوانا پسند کریں گے ۔
بعض اہل مدرسہ کا کردار اس غلط رائے‘ کہ مدارس سے دہشت گرد برآمد ہوتے ہیں، کے لئے جوازضرور فراہم کرتا ہے لیکن حقیقت میں یہ رائے بہت بڑے مغالطے پر مبنی ہے جس کے لئے کوئی ٹھوس بنیاد موجود نہیں ۔اہل مغرب اور ان کے دبائو کی وجہ سے ہمارے حکمران جن لوگوں کو دہشت گرد قرار دے رہے ہیں ، ان میں القاعدہ تنظیم سرفہرست ہے ۔ اس تنظیم کی قیادت اسامہ بن لادن کے پاس ہے ۔ اس تنظیم کے دیگر اہم ترین افراد میں ایمن الظواہری اور محمد عاطف جیسے لوگ شامل ہیں ۔ ان سب میں سے کوئی بھی دینی مدرسے سے فارغ التحصیل نہیں ۔ امریکی ایف بی آئی نے جن دس مطلوب افراد کی فہرست جاری کی ہے ان میں سے ایک بھی کبھی کسی پاکستانی مدرسے سے وابستہ نہیں رہا ۔ دوسری طرف ان میں سے بیشتر انجینئر ، ڈاکٹر اور دیگر شعبہ ہائے حیات سے وابستہ اور جدید تعلیم یافتہ ہیں ۔ پاکستان کے اندر فرقہ وارانہ دہشت گردی اور انتہاپسندی کے حوالے سے مشہور ترین افراد کا جائزہ لیا جائے تو ان میں بھی بہت کم مدارس سے وابستہ نکل آتے ہیں ۔ ریاض بسرا کی اٹھان کسی دینی مدرسے سے نہیں ہوئی تھی بلکہ وہ پیشے کے اعتبار سے دکاندار تھا۔ اسی طرح شیخ عمر جسے ڈینیل پرل کی ہلاکت کے سلسلے میں حراست میں لیا گیا ہے بھی کسی دینی مدرسے کا فارغ التحصیل نہیں بلکہ وہ برطانیہ میں پڑھنے والا جدید تعلیم یافتہ ہے ۔ حال ہی میں کراچی پولیس نے اکرم لاہوری کو حراست میں لے لیا ہے جنہوں نے پریس کے سامنے وزیرداخلہ کے بھائی سمیت سینکڑوں افراد کے قتل میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ اکرم لاہوری کسی مدرسے کا فارغ التحصیل تو کیا ہوتا اس کے چہرے پہ داڑھی تک نہیں ۔ ان حقائق کی روشنی میں دینی مدارس کو ہی دہشت گردی کے اڈے قرار دینا ہر گز قرین انصاف نہیں ۔ خود جنرل مشرف صاحب کے بقول دینی مدارس بہت بڑی خدمت انجام دے رہے ہیں ۔ اس لئے حکومت جو بھی قدم اٹھائے اس میں مخاصمت اور دشمنی کی بجائے ہمدردی ، خیرخواہی اور اصلاح کا جذبہ کارفرما ہونا چاہئے ۔ دینی مدارس کے اندر جو خامیاں ہیں ، ان کی وجہ سے ان سے انتہاپسند نہیں بلکہ بسا اوقات فرقہ پرست پیدا ہوتے ہیں ۔ یہ فرقہ پرست مغرب اور امریکہ کے لئے نہیں بلکہ خود اسلام اور پاکستان کے لئے مسئلہ بنتے ہیں ۔ اس لئے مدارس کے بارے میں کوئی بھی قدم اٹھاتے وقت بین الاقوامی دہشت گردی کے بجائے ان داخلی نقصانات کو ملحوظ رکھنا چاہئے اور ظاہری بات ہے ان نقصانات پر قابو صرف اس صورت میں پایا جاسکتا ہے جب فقہ اور مسلک کی بجائے قرآن کی تعلیم کو دینی مدارس کے اندر بنیادی اہمیت دلوادی جائے ۔ فقہ کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے لیکن اسے قرآن کا تابع ہونا چاہئے ۔ اسے قرآن کے آئینہ میں دیکھنا چاہئے ، نہ کہ قرآن کو اس کے آئینے میں دیکھا جائے اور بدقسمتی سے اب تک بیشتر مدارس میں غیرشعوری طور پر یہی کچھ ہورہا ہے ۔ اگر نصاب یہی رہے ۔ فقہ اور مسلکی تعلیمات کواسی طرح بنیادی اہمیت حاصل رہے تو پھر خواہ ہر مدرسے میں ہزاروں کمپیوٹر رکھ دیئے جائیں ، خواہ غیرملکی امداد کا مکمل خاتمہ کرلیا جائے اور خواہ دینی مدرسے کے ہر طالبعلم کو انگریزی اور سائنسی علوم کا ماہر بنالیا جائے ، تب بھی یہاں سے علماء کی بجائے فرقہ پرست برآمد ہوتے رہیں گے ۔
اس بحث کا یہ مطلب ہر گز نہیں لیا جانا چاہئے کہ حکومت مدارس کے حوالے سے جو اقدامات کررہی ہے ، وہ نہیں ہونے چاہئیں ۔ بلاشبہ مدارس کے نظام کی ایک خامی یہ بھی ہے کہ یہاں پڑھنے والے طالبعلم عصری علوم سے بالکل بے بہرہ ہوتے ہیں اور نتیجتاً یہاں سے فراغت کے بعد وہ مسجد کی امامت کے سوا کوئی اور کام نہیں کرسکتے ۔ یوں وہ پورے معاشرے میں اجنبی بن جاتے ہیں ۔ حکومت مدارس کے لئے جو نصاب تجویز کررہی ہے ، اس سے کم ازکم اس خامی کو دور کرنے میں مدد ملے گی ۔ اسی طرح رجسٹریشن اور غیرملکی امداد کی بندش جیسے اقدامات کے بھی بہتر نتائج برآمد ہوں گے تاہم جب تک مذکورہ بنیادی قدم(قرآن کو بنیاد بنانا) نہیں اٹھایاجاتا تب تک مکمل اصلاح کا خواب ، خواب ہی رہے گا۔
جیسا کہ میں عرض کر چکا ، مدارس کے حوالے سے حکومتی اصلاحات سطحی اور ناکافی ضرور ہیں ، لیکن ان کا کوئی غلط پہلو بھی سامنے نہیں آتا ۔ یہی وجہ ہے جب میں مذہبی جماعتوں کو ان کے خلاف احتجاج میں مصروف پاتا ہوں تو حیرت ہونے لگتی ہے ۔ جس بنیادی خامی (یعنی قرآن کو وہ اہمیت نہ دینا جو اس کا حق ہے) کی نشاندہی میں کررہا ہوں ، مذہبی جماعتوں کے قائدین اور اہل مدرسہ اس خامی کی موجودگی کو تسلیم نہیں کرتے ۔ وہ مدارس کے نقادوں کے اعتراض کو بے جا قرار دے کر اپنی تاویلات کا سہارا لیتے ہیں لیکن حکومت وقت جن خامیوں کے پیچھے پڑی ہوئی ہے ، یہ وہ خامیاں ہیں جن کا اعتراف خود مذہبی جماعتیں بھی کررہی ہیں ۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا سمیع الحق صاحب نے اپنے جامعہ حقانیہ کی زمین پر حقانیہ ماڈل اسکول کے نام سے جدید تعلیم کا ایک ادارہ بھی قائم کیا ہے ۔ اسی طرح جماعت اسلامی کے سابق صوبائی امیر مولانا گوہر رحمٰن صاحب نے بھی اپنے مدرسہ تفہیم القرآن مردان کے احاطے میں اسلامیہ ماڈل اسکول کے نام سے ایک پبلک اسکول کی بنیاد رکھ دی ہے ۔ جماعت اسلامی کے صوبائی ہیڈکوارٹر المرکزالاسلامی سے متصل دارلعلوم حدیقہ العلوم کے احاطے میں بھی تعمیر سیرت پبلک اسکول کے نام سے ایک اسکول چلایا جارہا ہے ۔ جہاں تک جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ کا تعلق ہے تو وہاں پہ قائم مدرسے میں جو نصاب رائج ہے وہ دینی اور عصری علوم کا مجموعہ ہے اور یہی وہ نصاب ہے جسے جماعت اسلامی کی مرکزی شوریٰ کی ایک کمیٹی نے کئی سالہ غوروخوض کے بعد تیار کیاتھا لیکن شومئی قسمت کہ اسے جماعت اسلامی سے وابستہ علماء اپنے مدارس میں رائج کرنے پر آمادہ نہیں ۔ اس بحث سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ خود اہل مدرسہ بھی اپنے مدارس کے نظام میں عصری علوم کے فقدان کی خامی کو محسوس کرتے ہیں اور تبھی تو وہ اپنے زیرنگرانی مدارس کی زمینوں پر پبلک اسکول قائم کررہے ہیں ۔سوال یہ ہے کہ اگر مدارس کا نظام بیک وقت دینی اور عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہے ،جیسا کہ حکومتی اصلاحات کے خلاف احتجاج کرنے والے قائدین دعویٰ کررہے ہیں ،تو پھر ان پبلک اسکولوں کو قائم کرنے کا کیا جواز ہے؟ یہ تو اس معاملے کا عملی پہلو ہے ۔ علمی حوالے سے دیکھا جائے تو بھی مذہبی قیادت مدارس کے نظام میں موجود اس خامی سے انکاری نہیں۔ جماعت اسلامی کے ترجمان ’’ماہنامہ ترجمان القرآن‘‘ کے ماہ مئی کا شمارہ میرے سامنے ہے ۔ واقفان حال جانتے ہیں کہ اس رسالے میں جماعت کے فکر سے متصادم کوئی چیز شائع نہیں ہوسکتی۔
 
Top