ہماری نمازیں بے نتیجہ کیوں ہیں؟

عبدالجبار

محفلین
ہماری نمازیں بے نتیجہ کیوں ہیں؟


نماز اسلام کا بنیادی رکن اور ستون ہے۔ نماز کی بنیاد پر ہی باقی اعمال کی عمارت تعمیر ہوتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کا ارشاد ہے۔


“ نماز مومن اور کافر کے درمیان فرق ہے “​


اِس سے ظاہر ہوا کہ نماز ہی مسلمان کو مومن بناتی ہے اور دوسرں سے امتیازی حیثیت میں لا کھڑا کرتی ہے۔ قرآن میں ارشاد باری تعالی ہے۔


“ نماز بے حیائی اور بُری باتوں سے روکتی ہے۔“​


اس رو سے نماز ایسی دوا ہے جس کے ذریعے ہر معاشرتی بیماری کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ ہر معاشرتی بُرائی بے حیائی ہی سے شروع ہوتی ہے۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ نماز پڑھنے والے معاشرے میں ہی ہر طرح کی برائیاں جنم لے چکی ہیں۔ بے نمازوں کی بات تو چھوڑیں کیا پانچ وقت کے نمازیوں کو بھی نماز بے حیائی اور بُری باتوں سے نہیں روکتی؟؟ آخر کیا وجہ ہے کہ آج کی نئی نسل مغرب کی اندھی تقلید میں اخلاقیات کا جنازہ نکال رہی ہے۔ حد تو یہ ہےکہ پانچ وقت کے نمازی نوجوان بھی آپس کی گفتگو میں اخلاقیات کے پَرخچے اُڑا رہے ہوتے ہیں۔

بقول اقبال:::

بے کاری و عریانی و مے خواری و افلاس
کیا کم ہیں فرنگی مزہبیت کی فتوحات​


نماز کے بے نتیجہ ہونے کے بارے میں ہم اگر جاننا چاہیں تو سورہ الماعون ہمارا مقصد پورا کرتی نظر آتی ہے، اگر ہم سورہ الماعون کے ترجمے کو سامنے رکھیں۔

ترجمہ ::: کیا تم نے ایسے شخص کو دیکھا ہے جو دین کو جھٹلاتا ہے، وہ جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا۔ پس بربادی ہے ایسے نمازیوں کے لئے، جو اپنی نماز سے غافل ہیں، جو ریاکاری کرتے ہیں، اور برتنے کی چیزیں عاریتاً نہیں دیتے۔

یعنی بربادی ہے ایسے نمازیوں کے لئے جو اپنی نماز سے غافل ہیں۔ یہاں پر پس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اِس آیت کا پچھلی آیتوں کے ساتھ تعلق جوڑا گیا ہے۔ پہلی آیات میں دین کو جھٹلانے یتیموں کو دھکے دینے اور مساکین کو کھانا کھلانے کا ذکر ہواہے اور اچانک یہ کہا گیا ہے کہ اسی لئے ان کی نماز ان کے لئے بربادی ہے۔ وہ نماز تو پڑھتے ہیں لیکن نماز کی روح سے غافل ہیں۔ یعنی یہ کہ نماز انہیں جو کرنے کا درس دیتی ہے۔ وہ اس سے غافل ہیں۔

ان آیات سے ظاہر ہوا کہ دین کو جھٹلانا، یتیموں کو دھکے دینا، مسکینوں کو کھانا کھلانا، ریاکاری کرنا، برتنے کی چیزیں نہ دینا، حقوق العباد پر پورا نہ اُترنا دراصل نمازیوں کی نماز ہی کی غفلت سے ہیں۔ یعنی کہ نماز پڑھتے بھی ہیں لیکن اس کی روح سے غافل ہیں۔ آج ہم نماز میں کہتے ہیں کہ

“ ہم کو سیدھے رستے پر چلا “۔ “ ہم کو سیدھے رستے پر چلا “​

اور اپنا راستہ بھی نہیں بدل رہے، طوطوں کی طرح سیدھے رستے کی رَٹ تو لگاتے ہیں لیکن عمل نہیں کرتے، اسی لئے قرآن میں نماز پڑھنے کا نہیں بلکہ نماز قائم کرنے کا ذکر آیا ہے۔

سورہ الماعون کے مطابق نماز عمل کا نام ہے اور مسجد ہی اس عمل کی تربیت گاہ ہے۔ جب ہم مسجد میں نماز پڑھتے ہیں تو سیدھے رستے پر چلنے کی دُعا مانگتے ہیں مگر نماز پورے آداب اور توجہ سے نہیں پڑھتے تو پھر ہم نمازیوں کو قرآن کے مطابق بربادی کیوں نہ ہو؟ کیوں نہ ہماری نمازیں بے نتیجہ ہوں؟؟

جب ہم پورے آدب اور توجہ کے ساتھ یہ سوچ کر نماز پڑھیں گے (یعنی عمل کرنے کی نیت سے) تو ہر بربادی سے بچیں گے، ہماری محفلیں پاک ہوں گی، اور ایک اسلامی معاشرہ تشکیل پائے گا، اور اگر نماز اور طرزِ عمل کو الگ الگ رکھا تو نتیجہ یقیناً بربادی ہو گا اور یہ بربادی قانون مکافات عمل کے مطابق انجام پائے گی جس کے مطابق کوئی ذی روح اپنے اعمال کے نتائج سے نہیں بچ سکتا۔ اور جب اعمال کے نتائج کا خوف دل میں آجائے تو دنیا کی ہر برائی سے بچت ہو جائے گی۔

رمضان المبارک کا آغاز ہو چکا ہے ہمیں چاہیئے کہ اِس مبارک مہینے میں اپنی اصلاح پر زرو دیں، اللہ تعالی ہم سب کو صحیح معنوں میں نماز پڑھنے اور پھر اس کو قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)


میں جو سر بسجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
تِرا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں ؟ ؟​
 
Top