ہماری معاشرتی ، سیاسی منافقت حامد میر کے قلم سے

آپ بھی آئین کو نہیں مانتے ؟...قلم کمان ۔۔۔۔۔حامد میر
ان کی گفتگو دھیمے لہجے میں شکوے شکائتوں سے شروع ہوئی۔پھر آہستہ آہستہ اس گفتگو میں احتجاج کا رنگ شامل ہونے لگا اور ان کے الفاظ مجھے تکلیف پہنچانے لگے۔ میرے چہرے پر تکلیف کے آثار دیکھ کر انہوں نے کہا کہ آج آپ صبر کریں کیونکہ آپ تو روز بولتے ہو، کالم بھی لکھتے ہو، یونیورسٹیوں اور کالجوں میں جاکر لیکچر بھی جھاڑتے ہو آج آپ میری باتیں غور سے سنیں۔ میں نے ایک صبرآمیز مسکراہٹ چہرے پر سجائی اور خاموشی سے انکی باتیں سننے لگا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ غربت،مہنگائی، بیروزگاری یا دہشت گردی نہیں بلکہ منافقت ہے جب تک منافقت ختم نہیں ہو گی کوئی مسئلہ حل نہ ہو گا ۔ کہنے لگے پاکستانی طالبان آئین کو نہیں مانتے لیکن وہ اپنی آئین دشمنی چھپاتے تو نہیں ۔ آپ بھی آئین کو نہیں مانتے لیکن آپ بتاتے نہیں۔ آپ اوپر اوپر سے آئین کی بالادستی کے دعوے کرتے ہیں، آئین کے تحت حلف بھی اٹھاتے ہیں لیکن اندر سے آپ اس کا احترام کرتے ہیں نہ اس آئین پر عملدرآمد کرتے ہیں آپ اس آئین کے زیادہ بڑے دشمن ہیں۔ اب مجھ سے نہ رہا گیا اور میں نے منمناتے ہوئے کہا کہ میں تو آئین کو مانتا ہوں بلکہ آئین توڑنے والوں کے خلاف ہمیشہ جدوجہدکرتا رہا ہوں۔
انہوں نے میری وضاحت کو بڑی شان بے نیازی سے نظرانداز کیا اور کہا کہ آپ آئین کو ماننے والے ہوتے تو پاکستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ کب کا حل ہو چکا ہوتا اور اعلیٰ عدالتوں کے احکامات کو تماشا نہ بنایا گیا ہوتا۔ یہ سن کر میں نے ذرا بلند آواز میں کہا کہ ساری دنیا جانتی ہے میں کئی سال سے لاپتہ افراد کو عدالتوں میں لانے کیلئے صرف بول نہیں رہا بلکہ لکھ بھی رہا ہوں۔میری بات سن کر انہوں نے قہقہہ لگایا اور کہا کہ آپ کے بولنے اور لکھنے سے کیا ہوا مسئلہ حل ہونے کی بجائے مزید الجھ رہا ہے آئین کے تحفظ کا حلف اٹھانے والوں نے لاپتہ افراد کو عدالتوں میں لانے کی بجائے خفیہ اداروں کو مزید اختیارات دینے کا فیصلہ کیا ہے اور قانون بھی بنا دیا ہے اور آئین سے متصادم یہ قانون جلد ہی آپکی پارلیمینٹ منظور بھی کر لے گی۔ ماما قدیر بلوچ اور آمنہ مسعود جنجوعہ کو انصاف نہیں ملے گا کیونکہ آپ لوگ آئین کو نہیں مانتے۔مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ میں ان کا مخاطب ضرور ہوں لیکن شائد ان کا ہدف صرف میری ذات نہیں ہے ۔میں ان کو کئی سال کے بعد ملا تھا۔ میری ان کے ساتھ آخری ملاقات چند سال پہلے جی ایچ کیو میں یوم شہداء کی تقریب میں ہوئی تھی تاہم ایک لمبی اور تفصیلی گفتگو اس سے پہلے جنوبی وزیرستان میں ہو چکی تھی ۔ فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد وہ ایک کتاب لکھ رہے ہیں ۔ پچھلے دنوں میرے کالم میں برطانوی صحافی کیری شوفیلڈ کی پاکستان آرمی کے متعلق کتاب کا ذکر آیا تو میرے اس مہربان نے فون پر رابطہ کرکے کہا کہ اس فرنگی عورت نے جنوبی وزیرستان میں فوجی آپریشنوں کے متعلق کئی غلط باتیں لکھی ہیں اور جنرل پرویز مشرف کے غلط فیصلوں کا ذکر کرنے کی بجائے کور ہیڈ کوارٹر پشاور اور ایس ایس جی کے درمیان اختلافات کی کہانی بیان کی ہے جو غلط ہے ۔ افسوس کہ مشرف نے اپنی اس فرنگی دوست کو خوش کرنے کیلئے فوج کے وسائل مہیا کئے اور اس عورت نے فوج کے خلاف کتاب لکھ ڈالی لیکن میری کتاب اس فرنگی عورت کے دعوئوں کو غلط ثابت کر دیگی۔ اپنی کتاب میں وہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ماضی میں قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کیوں ناکام ہوئے۔ اپنی تحقیق کیلئے وہ کچھ کتابیں ڈھونڈ رہے تھے اور انہی کتابوں کیلئے مجھ سے رابطہ کیا۔ اتفاق سے دو کتابیں میرے پاس موجود تھیں اور وہ یہ کتابیں لینے میرے پاس تشریف لائے تھے ۔ میں نے غلطی سے یہ پوچھ لیا کہ شمالی وزیرستان میں ایک اور آپریشن کی تیاریاں ہیں کیا یہ آپریشن کامیاب ہو جائے گا؟ انہوں نے جواب میں کہا کہ اگر تمام سیاسی جماعتیں متحد ہو جائیں اور تمام ادارے اتفاق رائے سے آپریشن شروع کریں تو صرف دو ہفتے میں شمالی وزیرستان عسکریت پسندوں سے صاف ہو جائے گا لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ آپ منافقت بند کریں اور شمالی وزیرستان میں کسی مسلح گروپ کو اچھا نہ سمجھیں کیونکہ کسی بھی مسلح گروپ یا لشکر یا پرائیویٹ آرمی کو اچھا سمجھنا آئین کی دفعہ 256کیخلاف ہے ۔
میں نے پوچھا کہ شمالی وزیرستان میں حقانی گروپ یا حافظ گل بہادر کا گروپ پاکستان کے خلاف نہیں لڑ رہے تو پھر ہم ان کے خلاف کیوں لڑیں؟ میرے مہربان نے انتہائی جارحانہ انداز میں کہا کہ حقانی گروپ نے جو کچھ کرنا ہے افغانستان جاکر کرے ہماری سرزمین کو استعمال نہ کرے اور حافظ گل بہادر کے گروپ کو اچھے طالبان سمجھ کر نظرانداز کرنا آئین کی خلاف ورزی ہے ۔ میرے پاس ایک ریڈی میڈ جواب تیار تھا ۔ میں نے کہا کہ شمالی وزیرستان میں پاکستان کے آئین کا اطلاق نہیں ہوتا ۔یہ سن کر مہربان نے تڑپ کر جواب دیا کہ اگر قبائلی علاقوں میں آ پکا آئین نہیں چلتا تو پھر قبائلی علاقوں میں بیٹھے طالبان کی طرف سے آئین کے خلاف بیان پر آپ لوگ اتنا شور کیوں مچاتے ہو؟ شمالی وزیرستان سے منتخب رکن قومی اسمبلی کو آپ نے آئین سازی کے عمل میں ووٹ ڈالنے کا حق دے رکھا ہے لیکن آپ کا یہ آئین شمالی وزیرستان میں لاگو نہیں ہوتا یہی تو دوعملی ہے اور یہی تو منافقت ہے ۔ آپ نے اپنے آئین کو خود مذاق بنا رکھا ہے ۔ اگر آپ آئین کو ماننے والے ہوتے تو پرویز مشرف آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں چھ ہفتے سے نہ بیٹھا ہوتا۔ کیا یہ ہسپتال بھی شمالی وزیرستان میں ہے ؟ یہاں آپ کا آئین کیوں نہیں چلتا؟
میں نے تلملا کر کہا کہ اس بحث میں مشرف صاحب کہاں سے ٹپک پڑے۔ کہنے لگے کہ آپ آئین سے انکار کرنے والے طالبان کے خلاف ضرور آپریشن کریں، میں بھی بطور رضاکار اس آپریشن میں حصہ لینے کیلئے تیار ہوں لیکن آئین کے ساتھ سنگین غداری کرنے والے شخص کو جن لوگوں نے غیر قانونی اور غیر آئینی پناہ دے رکھی ہے ان کے خلاف آپریشن کون کرے گا ؟ کیا اسی مشرف نے عبداللہ محسود کیخلاف بیت اللہ محسود کو کھڑا نہیں کیا تھا، کیا بیت اللہ محسود کے ساتھ پہلا امن معاہدہ اسی مشرف نے نہیں کیا تھا ؟ اور پھر اسی مشرف نے 2007ء میں بھی بیت اللہ محسود کے ساتھ ایک خفیہ ڈیل کی اور اڈیالہ جیل سے 25خطرناک قیدی رہا کر دیئے ۔ مشرف طالبان کے ساتھ امن معاہدے کرے تو ٹھیک ہے نواز شریف طالبان کے ساتھ مذاکرات کی بات کرے تو مشرف کے پرانے اتحادیوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھتا ہے اور مشرف کو عدالت میں پیشی سے روکنے کیلئے اسلام آباد کے راستوں پر بم رکھ دیئے جاتے ہیں۔ آپ میں اور طالبان میں کیا فرق ہے ؟ آپ دونوں ہی آئین کو نہیں مانتے۔ مجھ سے نہ رہا گیا۔ میں نے پوچھا کہ یہ آپ کون ؟وہ مسکرائے اور کہا کہ آپ دراصل ایک مائنڈ سیٹ ہیں۔ یہ مائنڈ سیٹ صرف ایک ادارے تک محدود نہیں رہا پورے معاشرے میں پھیل چکا ہے۔ یہ مائنڈ سیٹ میڈیا میں بھی موجود ہے جو طالبان کے خلاف آپریشن کی حمایت تو کرتا ہے لیکن آئین سے غداری کے ملزم کو بچانے کیلئے کہتا ہے کہ مشرف کے ٹرائل سے فوج ناراض ہے ۔ میڈیا زیادتی کر رہا ہے۔ فوجی جوانوں اور افسران کی اکثریت کو مشرف سے کوئی دلچسپی نہیں خدارا اپنی منافقت کی بندوقیں فوج کے کندھوں پر رکھ کر نہ چلائو۔
 
Top