ہماری غیرتوں کا ایک اور جنازہ

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

عافیہ کا کم سن بیٹا بھی ہماری تحویل میں ہے :
دنیا کے منصفو ! سلامتی کے ضامنو، امریکہ کے کاسہ لیسو ، غور کرو۔
8-23-2008_37793_1.gif

Updated at: 1251 PST, Saturday, August 23, 2008


روزنامہ خبريں نے مورخہ اگست 24 کو يہ دعوی کيا تھا کہ ڈاکٹر عافيہ صديقی کی فيملی کو امريکی ڈپٹی اٹارنی جرنل مائيکل جے گارسيا کی جانب سے ايک خط موصول ہوا ہے جس ميں پہلی مرتبہ امريکی حکومت نے يہ "تسليم" کيا ہے ڈاکٹر عافيہ کا بيٹا 2005 سے امريکی تحويل ميں ہے۔

اخبار کی يہ خبر ايک تازہ مثال ہے کہ کيسے ميڈيا کے کچھ عناصر حقائق کو توڑ مروڑ کر کہانی کو ايک خاص انداز سے پيش کرتے ہيں۔

اخبار کا يہ "انکشاف" آپ اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہيں

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=770822&da=y

کچھ اردو فورمز نے بغير تحقيق کے اسی خبر کو بنياد بنا کر اپنے جذبات کا اظہار شروع کر ديا ہے۔

امريکی ڈيپارٹمنٹ آف جسٹس کی جانب سے ڈاکٹر عافيہ کی فيملی کو جو خط بيجھا گيا تھا وہ آپ اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہيں۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=772838&da=y

(اس خط کے جن حصوں کو پوشيدہ رکھا گیا ہے اس کی وجہ ايک امريکی قانون ہے جس کے تحت کسی امريکی شہری کے ذاتی کوائف اس کی مرضی کے بغير کسی پبلک فورم پر شا‏ئع نہيں کيے جا سکتے)

اس خط کے متن کا اخبار کی خبر سے موازنہ کريں تو يہ واضح ہے کہ خط ميں يہ کہا گيا ہے کہ ڈاکٹر عافيہ کا بيٹا اس وقت افغان پوليس کی تحويل ميں ہے اور اسے ڈاکٹر عافيہ کے ساتھ جولائ 17 کو گرفتار کيا گيا تھا۔ خط ميں يہ بھی واضح کيا گيا ہے کہ بچے کے اپنے بيان کے مطابق اس کے والدين 2005 کے زلزلے ميں ہلاک ہو چکے ہيں اور اس نے اپنے ساتھ گرفتار ہونے والی خاتون کا نام صالحہ بتايا تھا۔ ليکن اس کے ابتدائ بيان کے برعکس ڈی –اين – اے ٹيست سے يہ ثابت ہوا کہ وہ ڈاکٹر عافيہ کا بيٹا ہے۔

اس خط کو بنياد بنا کر خبريں اخبار کا دعوی حقائق کی واضح نفی ہے۔

جيسا کہ ميں نے پہلے کہا تھا کہ اس کيس کے حوالے سے سارے حقائق عدالتی کاروائ کے دوران سامنے آئيں گے۔ محض قياس پر مبنی خبروں کو بغير تحقيق کے بنياد بنا کر اپنے جذبات کا اظہار کرنا دانشمندی نہيں ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov
 

خرم

محفلین
دراصل ہم پاکستانی عدالتی انصاف کے زیادہ عادی نہیں ہیں اس لئے متذبذب ہیں۔ آہستہ آہستہ جب معاملات صاف ہوتے جائیں گے تو سب کو اطمینان ہوتا جائے گا۔ عدالت سے جھوٹ بولنے پر تو امریکی صدر بھی نوکری سے ہاتھ دھو سکتا ہے باقی اہلکاروں کی بات ہی کیا۔ خیر نئی چیز ہے، ابھی اعتبار آتے آتے آئے گا۔
 

طالوت

محفلین
امریکہ کا جھوٹے ثبوت گھڑنا کوئی نئی بات ہے ؟ جو ایک ملک عراق کے خلاف جھوٹ گھڑ کر اس کا ستیاناس کر سکتا ہے اس کے لیئے ایک عام عورت کے خلاف بے بنیاد الزامات کے تحت ثبوت بنانا کون سی اچھنبے کی بات ہے ؟ جبکہ "کمانڈو" کا کردار بھی سامنے ہے اور "حکومت " پاکستان چاہے سیاسی ہو یا جرنیلی بھیک منگوں کا ٹولہ ہے۔۔۔
 

خاور بلال

محفلین
دراصل ہم پاکستانی عدالتی انصاف کے زیادہ عادی نہیں ہیں اس لئے متذبذب ہیں۔ آہستہ آہستہ جب معاملات صاف ہوتے جائیں گے تو سب کو اطمینان ہوتا جائے گا۔ عدالت سے جھوٹ بولنے پر تو امریکی صدر بھی نوکری سے ہاتھ دھو سکتا ہے باقی اہلکاروں کی بات ہی کیا۔ خیر نئی چیز ہے، ابھی اعتبار آتے آتے آئے گا۔

پہلے پاکستان سے عافیہ کو خریدا، پھر برسوں اس پر جبر اور وحشت مسلط کرکے اپنی "مردانگی" کا نشانہ بنایا۔ اور اب جب کہ ساری دنیا میں‌عافیہ کی ڈھونڈ مچی اور امریکا پر شک کا اظہار کیا گیا تو اسے عدالت میں پیش کردیا۔ آخر امریکا آسمانی ملک ہے تو اس کی عدالت بھی آسمانی ہی ہوگی۔ تو اس کا مطلب اسے انصاف ضرور ملے گا۔ اس کی عصمت لوٹ آئے گی۔ اس کی روح کے زخم بھر جائیں‌گے۔ اس میں زندگی کی امنگ اور اس کی خوشیاں پانے آرزو پھر سے مچلے گی۔ وہ پھر سے پہلے جیسی عافیہ بن جائے گی۔ آخر امریکی عدالت میں پیش ہوئ ہے کوئ مذاق تو نہیں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
روزنامہ خبريں نے مورخہ اگست 24 کو يہ دعوی کيا تھا کہ ڈاکٹر عافيہ صديقی کی فيملی کو امريکی ڈپٹی اٹارنی جرنل مائيکل جے گارسيا کی جانب سے ايک خط موصول ہوا ہے جس ميں پہلی مرتبہ امريکی حکومت نے يہ "تسليم" کيا ہے ڈاکٹر عافيہ کا بيٹا 2005 سے امريکی تحويل ميں ہے۔

اخبار کی يہ خبر ايک تازہ مثال ہے کہ کيسے ميڈيا کے کچھ عناصر حقائق کو توڑ مروڑ کر کہانی کو ايک خاص انداز سے پيش کرتے ہيں۔

اخبار کا يہ "انکشاف" آپ اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہيں

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=770822&da=y

کچھ اردو فورمز نے بغير تحقيق کے اسی خبر کو بنياد بنا کر اپنے جذبات کا اظہار شروع کر ديا ہے۔

امريکی ڈيپارٹمنٹ آف جسٹس کی جانب سے ڈاکٹر عافيہ کی فيملی کو جو خط بيجھا گيا تھا وہ آپ اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہيں۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=772838&da=y

(اس خط کے جن حصوں کو پوشيدہ رکھا گیا ہے اس کی وجہ ايک امريکی قانون ہے جس کے تحت کسی امريکی شہری کے ذاتی کوائف اس کی مرضی کے بغير کسی پبلک فورم پر شا‏ئع نہيں کيے جا سکتے)

اس خط کے متن کا اخبار کی خبر سے موازنہ کريں تو يہ واضح ہے کہ خط ميں يہ کہا گيا ہے کہ ڈاکٹر عافيہ کا بيٹا اس وقت افغان پوليس کی تحويل ميں ہے اور اسے ڈاکٹر عافيہ کے ساتھ جولائ 17 کو گرفتار کيا گيا تھا۔ خط ميں يہ بھی واضح کيا گيا ہے کہ بچے کے اپنے بيان کے مطابق اس کے والدين 2005 کے زلزلے ميں ہلاک ہو چکے ہيں اور اس نے اپنے ساتھ گرفتار ہونے والی خاتون کا نام صالحہ بتايا تھا۔ ليکن اس کے ابتدائ بيان کے برعکس ڈی –اين – اے ٹيست سے يہ ثابت ہوا کہ وہ ڈاکٹر عافيہ کا بيٹا ہے۔

اس خط کو بنياد بنا کر خبريں اخبار کا دعوی حقائق کی واضح نفی ہے۔

جيسا کہ ميں نے پہلے کہا تھا کہ اس کيس کے حوالے سے سارے حقائق عدالتی کاروائ کے دوران سامنے آئيں گے۔ محض قياس پر مبنی خبروں کو بغير تحقيق کے بنياد بنا کر اپنے جذبات کا اظہار کرنا دانشمندی نہيں ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov

شکريہ فواد صاحب
آپکا يہ مراسلہ مسئلے پر اس زاويے سے روشني ڈال رہا ہے کہ اردو اخبارات کا معيار کيا ہے اور ان پر کس حد تک اعتبار کيا جا سکتا ہے

/////////////////////

از خاور:
پہلے پاکستان سے عافیہ کو خریدا، پھر برسوں اس پر جبر اور وحشت مسلط کرکے اپنی "مردانگی" کا نشانہ بنایا۔ اور اب جب کہ ساری دنیا میں‌عافیہ کی ڈھونڈ مچی اور امریکا پر شک کا اظہار کیا گیا تو اسے عدالت میں پیش کردیا۔ آخر امریکا آسمانی ملک ہے تو اس کی عدالت بھی آسمانی ہی ہوگی۔
بھائي جي، ميں امريکي سي آئي اے کي کوئي فين نہيں ہوں، مگر امريکي عوام کي کچھ خصوصيات ہيں جن کي ميں معترف ہوں
اور امريکي عدالت آسماني عدالت تو نہيں، مگر اسکا اعتبار ہر صورت ميں پاکستاني اخبارات کي جھوٹي خبروں اور منافقانہ کردار سے زيادہ ہے
اب آپ چاہے اسے آسماني کہہ کر اسکے خلاف بولتے رہيں مگر آپ اپنے اردو اخبار کے منافقانہ رويے کا دفاع نہيں کر سکتے اور نہ ہي ان لوگوں کا دفاع کر سکتے ہيں جو امريکہ دشمني ميں اتنے آگے ہيں کہ اس جھوٹے اخبار کي جھوٹي خبر پڑھ کر اُسے چوم کر آگے امريکہ کے خلاف پروپيگنڈہ ميں مصروف ہو گئے
اگر امريکي فوجيوں نے ڈاکٹر عافيہ سے زيادتي کي ہے تو انسانيت کے نام پر متعلقہ لوگوں کو سزا ضرور ملني چاہيے، مگر انصاف پھر بھي شرط ہے اور کسي کے بھي خلاف جھوٹي باتيں کرنے والوں کے غلط رويوں پر تنقيد کرنا بہت ضروري ہے
 

طالوت

محفلین
شکريہ فواد صاحب
آپکا يہ مراسلہ مسئلے پر اس زاويے سے روشني ڈال رہا ہے کہ اردو اخبارات کا معيار کيا ہے اور ان پر کس حد تک اعتبار کيا جا سکتا ہے۔۔
صرف اردو ہی نہیں پاکستان کے سبھی اخبارات کا یہی حال ہے چاہے انگریزی ہو اردو یا کوئی مقامی زبان
کسی نہ کسی کی طرف داری ، سیاسی وابستگی ، پسند ناپسند ، لیکن یہی کچھ بین الااقوامی اخبارات کے ساتھ بھی اس لیے کسی بات کو جاننے کے لیئے دو چار اخبار کگھالنے پڑتے ہیں ۔۔۔۔
وسلام
 

طالوت

محفلین
لیجیئے بالاآخر ایک کام تو بخیریت انجام کو پہنچا کہ محترمہ کا بیٹا ان کے خاندان کو بخیریت واپس مل گیا ۔۔۔ انشاءاللہ محترمہ بھی اچھے انجام سے دوچار ہوں گی ، کہ شاید "کمانڈو" کے ساتھ ہمیں بھی تھوڑی عقل آئے گی ، لیکن شاید ہماری یادداشت بہت کمزور ہے
وسلام
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

مورخہ 30 اکتوبر کو جيو ٹی وی کے پروگرام کيپيٹل ٹاک ميں برطانوی صحافی ايوان رڈلی کے ڈاکٹر عافيہ صديقی کے ضمن ميں دی جانے والی تازہ معلومات اس بات کا ثبوت ہے کہ کسی بھی ايشو کے بارے ميں حتمی رائے قائم کرنے سے پہلے يہ ضروری ہے کہ عمومی تاثر اور مخصوص سوچ اور سياسی ايجنڈے سے ہٹ کر حقائق کی تحقيق کرنی چاہيے۔

http://www.friendskorner.com/forum/f137/capital-talk-30th-october-2008-a-76508/

ڈاکٹر عافيہ صديقی کيس کے سلسلے ميں مختلف اردو فورمز،ميڈيا ٹاک شوز اور اخباری کالمز میں جن شديد جذبات کا اظہار کيا جاتا رہا ہے اس کی بنياد يہ مفروضہ اور يقين تھا کہ ڈاکٹر عافيہ صديقی ہی قيدی نمبر 650 ہيں اور وہ سال 2003 سے افغانستان کے بگرام ائربيس ميں امريکی مظالم کا شکار ہیں۔ اب يہی برطانوی صحافی ايوان ريڈلی جنھوں نے اس ميڈيا مہم کا آغاز کيا تھا يہ تسليم کر چکی ہيں کہ ڈاکٹر عافيہ صديقی قيدی نمبر 650 نہيں تھيں۔ يہاں يہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ انھوں نے اپنے ابتدائ کلمات ميں خود يہ کہا ہے کہ ان کے بيان کو بنياد بنا کر ميڈيا نے ازخود يہ نتيجہ اخذ کيا تھا کہ وہ قيدی نمبر 650 ہو سکتی ہيں۔ دوسرے لفظوں ميں اس بات کا کوئ ثبوت يا دستاویزی شہادت موجود نہيں تھی جس کی بنياد پر يہ دعوی کيا جا سکتا کہ ڈاکٹر عافيہ صديقی بگرام ائربيس ميں قيد تھيں ليکن اس کے باوجود کچھ لوگوں نے ڈاکٹر عافيہ صديقی کی تصوير کے اوپر قيدی نمبر 650 کا ليبل لگا کر کتابيں اور طويل جذباتی نظميں تک لکھ ڈاليں۔ يہ بات تسليم کرنے کے باوجود کہ ڈاکٹر عافيہ صديقی قيدی نمبر 650 نہيں تھيں، پروگرام کے شرکا نے بغير ثبوت کے مزيد بے بنياد الزامات کی ايک لسٹ پيش کر دی۔

اس کيس کے حوالے سے ميرا شروع سے يہ موقف رہا ہے کہ محض ميڈيا پر بغير ثبوت اور شہادتوں کے زير بحث افواہوں اور قياس آرائيوں کی بنياد پر رائے زنی دانشمندی نہيں ہے۔ اس واقعے کے ميڈيا پر آنے کے بعد ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم نے متعلقہ حکام سے براہراست رابطہ کر کے يہ تصديق کی تھی کہ نہ تو ڈاکٹر عافيہ صديقی قيدی نمبر 650 تھيں اور نہ ہی وہ سال 2003 سے امريکی حراست ميں تھيں۔

اسی فورم پر ميں نے 13 اگست کو اپنی پوسٹ ميں لکھا تھا کہ

"ہماری مصدقہ اطلاعات کے مطابق پاکستانی ميڈیا پر مختلف رپورٹوں کے برعکس ڈاکٹر عافيہ صديقی قيدی نمبر 650 نہيں تھيں۔ سال 2003 ميں ايک خاتون اينمی کمبيٹنٹ قيدی نمبر 650 کو بگرام ميں قيد رکھا گيا تھا ليکن ان کا نام اور حليہ ڈاکٹر عافيہ صديقی سے قطعی مختلف ہے۔ اس خاتون کو جنوری 2005 ميں رہا کر ديا گيا تھا۔ ڈاکٹر عافيہ جولائ 2008 سے پہلے امريکی تحويل ميں نہيں تھيں"۔

ڈاکٹر عافيہ صديقی کا کيس اس وقت امريکی عدالت ميں زير سماعت ہے اور انھيں اپنی کہانی سنانے کا پورا موقع ملے گا۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

http://usinfo.state.gov
 

طالوت

محفلین
صحافی ریڈلی اس کی وضاحت کر چکی ہیں ۔۔۔۔۔۔
اب 650 نبر کون ہے ذرا پتا کر کے تو بتائیں ۔۔۔۔۔
تاہم ڈاکٹر عافیہ کے معاملے میں بالکل خاموشی ہے ۔۔۔
حافظہ کمزور ہے کافی ہمارا
وسلام
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

اب 650 نبر کون ہے ذرا پتا کر کے تو بتائیں ۔۔۔۔۔

برطانوی صحافی ايوان ريڈلی نے اپنے انٹرويو ميں يہ واضح طور پر کہا تھا کہ انکے "خيال" کے مطابق ڈاکٹر عافيہ صديقی قيدی نمبر 650 ہو سکتی ہيں اور اس کے بعد انھوں نے ميڈيا کے سامنے اس بات کو اسی طرح بيان کيا جس کو بنياد بنا کر ميڈيا کے کچھ حلقوں نے اس بات کو ايک تصديق شدہ حقيقت بنا کر پيش کيا۔

جب يہ خبر پہلی مرتبہ ميڈيا پر رپورٹ کی گئ تھی تو بہت سے امريکی حکومتی عہديداروں نے اس بات کی تحقيق کی تھی اور افغانستان ميں متعلقہ حکام سے براہراست رابطہ کيا تھا۔ مشہور پاکستانی صحافی نصرت جاويد نے بھی اپنے پروگرام "بولتا پاکستان" مين اس بات کی تصديق کی تھی کہ انھيں پاکستان ميں امريکی سفير اين پيٹرسن نے يہی بتايا تھا کہ انھوں نے اپنی تحقيق سے اس بات کی تصديق کی ہے کہ ڈاکٹر عافيہ صديقی قيدی نمبر 650 نہيں تھيں۔

اس کے علاوہ اين پيٹرسن نے پاکستان ميں ہيومن رائٹس کميشن کے صدر کو تين مرتبہ فون کر کے ان خبروں کی ترديد کی۔ اس بات کی تصديق بھی نصرت جاويد نے اپنے پروگرام ميں کی۔

اس کے بعد اين پيٹرسن نے پاکستان کے تمام اخبارات اور ميڈيا کے اہم اداروں کو ايک خط بھی لکھا جس ميں انھوں نے ڈاکٹر عافيہ صديقی اور قيدی نمبر 650 کے حوالوں سے ميڈيا پر افواہوں کی تردید کی۔

رچرڈ باؤچر کی جانب سے وائس آف امريکہ کو ايک انٹرويو بھی ديا گيا جو بعد ميں جيو ٹی وی پر بھی نشر ہوا جس ميں انھوں نے واضح الفاظ ميں يہ بات کہی تھی کہ ڈاکٹر عافيہ صديقی کبھی بھی قيدی نمبر 650 نہيں تھيں۔

آپ اسی فورم پر ڈاکٹر عافيہ صديقی کيس کے حوالے سے ميری پوسٹس بھی پڑھ سکتے ہيں جس ميں يو – ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کے ترجمان کی حيثيت سے ميں نے کئ ہفتے پہلے يہی بات کہی تھی کہ ہماری تحقيق کے مطابق ڈاکٹر عافيہ صديقی قيدی نمبر 650 نہيں تھيں۔ جب اس کيس کے بارے ميں مجھ سے مختلف فورمز پر سوالات کيے گئے تھے تو تمام تر تنقید کے باوجود ميں نے شروع ميں اپنی رائے کا اظہار نہيں کيا تھا کيونکہ ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم اس معاملے ميں تحقيق کر رہی تھی اور کوئ بھی رائے دينے سے پہلے ميرے ليے يہ ضروری تھا کہ ميں اصل حقائق کی تصديق کروں۔ ظاہر ہے کہ انٹرنيٹ پر کچھ دوستوں کے ليے رائے قائم کرنے سے پہلے تحقيق کی ضرورت نہیں ہوتی۔

ميں آپ کی توجہ اس بات کی طرف بھی کروانا چاہتا ہوں کہ برطانوی صحافی نے اپنے انٹرويو میں يہ بات بھی کہی کہ برطانوی حکومت نے جو معلومات لارڈ نذير احمد کو دی ہيں ان کے مطابق بھی ڈاکٹر عافيہ صديقی قيدی نمبر 650 نہيں تھيں۔

اب تک اس کيس کے حوالے سے امريکی سفارت کاروں، اہم افسران اور حکومتی اداروں نے جو بيان ديے ہیں ان سب ميں تسلسل اور يکسانيت ہے ليکن ميڈيا پر جو کچھ رپورٹ کيا جا رہا ہے اس ميں ہر روز ايک نئ "حقيقت" بيان کی جا رہی ہے۔ برطانوی صحافی کا انٹرويو اس کی تازہ مثال ہے۔ آپ اسی فورم پر ميرے ريمارکس پڑھ سکتے ہيں جن ميں اخباری خبروں کے درميان پائے جانے والے تضادات کا ذکر کيا گيا ہے۔

آپ نے اصل قيدی نمبر 650 کے بارے میں جس دستاویزی ثبوت کے بارے ميں سوال کيا ہے اسے کچھ سيکورٹی پروٹوکول اور قانونی ضابطوں کی وجہ سے اس وقت پبلک فورمز پر پيش نہيں کيا جا سکتا۔

اس بارے ميں يہ بات بھی ياد رہے کہ يہ کيس اس وقت زير سماعت ہے اور اس کيس کے بہت سے پہلو ايسے ہیں جو اس کيس کے فيصلے کے وقت سب کے سامنے آئيں گے۔ ڈاکٹر عافيہ صديقی کی بہن نے بھی اپنے ايک حاليہ انٹرويو ميں يہی بات کہی تھی کہ اس کيس کے زير سماعت ہونے کی وجہ سے وہ کچھ معاملات پر اس وقت بات نہيں کر سکتيں۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

http://usinfo.state.gov
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

اس کيس کے حوالے سے ميں ابوغريب ميں ہونے والے واقعے کا حوالہ دينا چاہتا ہوں جہاں پر غير انسانی سلوک کی رپورٹ ميڈيا کی وجہ سے نہيں بلکہ خود امريکی فوجيوں کی رپورٹنگ کی وجہ سے دنيا کے سامنے آئ تھی۔ جب حکام کو اس واقعے کی اطلاع ملی تو اس بات کو چھپانے کی کوشش نہيں کی گئ بلکہ اس کی باقاعدہ تحقيقات کروائ گئ اور قصوروار کو ان کے کيے کی قانون کے مطابق سزا دی گئ۔ اس واقعے کے منظر عام پر آنے کے بعد صدر بش سميت امريکی حکومت کے ہر عہديدار نے اس کی بھر پور مذمت کی۔

اگر ابو غريب ميں پيش آنے والے واقعات پر پردہ ڈالنے کی کوشش نہيں کی گئ تو يہ کيسے ممکن ہے کہ امريکی حکومت کے اہم عہديدار، سفارت کار اور اہم حکومتی تنظيميں ڈاکٹر عافيہ صدیقی کے خلاف سازش کے ليے متفق ہو جائيں؟

اس کے علاوہ کسی بھی سازش کو کامياب بنانے کے ليے حقائق کو پوشيدہ رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے ليکن اس کے برعکس ڈاکٹر عافيہ صدیقی کا کيس تو اس وقت ايک عوامی عدالت ميں زير سماعت ہے جس ميں انھيں اپنے دفاع کے تمام مواقع میسر ہيں اور اس ضمن میں انھيں اپنے وکيلوں کی حمايت اور قانونی مدد بھی حاصل ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

http://usinfo.state.gov
 

طالوت

محفلین
امریکیوں کو بطور قوم میں پسند کرتا ہوں ۔۔۔ اور امید رکھتا ہوں کہ باراک اوباما کی جیت کے بعد حالات بہتر ہونگے ۔۔
تاہم امریکی مخالفت کی سب سے بڑی وجہ مسلم ممالک میں بے جا مداخلت ہے ۔۔ اور یہودیوں کی سرپرستی ہے ۔۔ بلکہ اکثریت یہ رائے رکھتی ہے کہ امریکی پالیسیوں میں یہودیوں کا بہت زیادہ عمل دخل ہوتا ہے ۔۔۔ جبکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امریکہ کے اپنے پڑوسی ممالک سے بھی تعلقات نہایت کشیدہ ہیں ۔۔ امریکہ کو اپنے عقب کو محٍفوظ کرنے پر توجہ دینا چاہیئے نہ کہ سات سمندر پار جمہوریت نافذ کرتا پھرے ۔۔۔
یہ ایک عام پاکستانی کے احساسات ہیں جنھیں امریکی حکام کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔۔۔
وسلام
 

راشد احمد

محفلین
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟

بارک اوباما جس نے اسلام کو چھوڑ دیا وہ مسلمانوں کو کیسے چھوڑے گا۔ اس مسلم نما عیسائی سے ایسی امید نہ رکھئے
 

طالوت

محفلین
باراک اپنی قوم کے لیے ہی بھلائی سوچ لے تو ہماری بھلائی خودبخود ہو جائے گی ۔۔ ورنہ بش جونیر کی نفرتیں کیا کچھ جلائیں گی مستقبل میں کافی خوفناک ہو گا۔۔
وسلام
 
Top