ہمارا موجودہ معاشرہ منٹو کی تحریروں کے آئینے میں ۔۔۔۔۔۔۔ نصیرالدین چشتی

اس سے قبل کہ میں کچھ لکھوں منٹو اور ان کے لکھے افسانوں کا تعارف کروانا بہتر سمجھوں گا ، جسے پڑھتے ہی ہر ذی شعور موجودہ معاشرے کو منٹو کی تحریروں کے آئینے میں بہت واضع طور پر دیکھ پائے گا۔سعادت حسن منٹو نے اپنی 42سال8ماہ اور 9دن کی زندگی میں بے شمار افسانے،خاکے،ڈرامے اور فلمی دنیا کیلئے بہت کچھ لکھا۔انھوں نے اردو ادب کو بہت کچھ دیا۔لیکن منٹو کی یہ بدقسمتی تھی کہ جب انھوں نے اپنا ادبی سفر شروع کیا تو اس وقت ترقی پسندوں کا بھول بالا تھا۔وہ شور شرابے،ہنگامے،پروپگنڈے اور فرسودہ عقائد و تصورات سے کوسوں دور تھے۔اُس دور میں گھن گرج اور چیخ و پکار نے فن کار کے باطن کی کھڑکیاں بند کر دیں تھیں۔منٹو کسی بندھے ٹکے نظریے کے قائل نہ تھے،وہ آزادانہ طور پر اپنے باغیانہ خیالات کو اپنے افسانوں کے ذریعے پیش کر رہے تھے۔اس ضمن میں پروفیسر ابو الکلام قاسمی اپنے مضمون ’’ منٹو کے بعد اردو افسانہ ‘‘ شخصیات اور رحجانات میں فرماتے ہیں:
’’ منٹو کا زمانہ وہی ہے جو ترقی پسند تحریک کے عروج کا زمانہ ہے مگر زندہ رہنے والے فنکار تحریکات کا کبھی شکار نہیں ہوتے۔سو منٹو نہ ترقی پسند رہے اور نہ غیر ترقی پسند ،وہ صرف ایک افسانہ نگار تھے اور صرف ایک افسانہ نگار‘‘
ترقی پسندی کے شور شرابے،نعرہ بازی،ہنگامے،پروپگنڈے اور فرسودہ عقائد و تصورات کا اثر منٹو کے ذہن پر نہیں پڑا۔مارکسیت اُن کے دل و دماغ پر غالب نہ تھی۔اگر منٹو کی پوری زندگی کا احاطہ کیا جائے تو یہ بات صاف طور پر نظر آتی ہے کہ منٹو کے خون میں گرمی تھی،ان کے جسم میں حرارت تھی،وہ انقلاب پرور تھے،وہ ایک باغی تھے،وہ سماج کے باغی تھے،ادب و آرٹ کے باغی تھے ،وہ Doxa یعنی روڑھی کے خلاف تھے،اُن کا مقصد اشرافیہ کا ننگا کرنا تھا۔اُن کے بغاوت کی چنگاری پوری زندگی اُڑتی رہی۔منٹو نے اپنی ننگی آنکھوں سے زندگی کی تلخ ،بے رحم سچائی اور حقیقت کو افسانے کا موضوع بنا کرہمارے سامنے پیش کیا ۔سعادت حسن منٹو فرانسیسی ادیب موپاساں اور اُو ہینری سے متاثر نظر آتے ہیں ۔منٹو کا پہلا افسانہ ’’ تماشہ ‘‘ ہے جو سب سے پہلے امرتسر کے ہفت روزہ ’’خلق‘‘ میں آدم کے فرضی نام سے شائع ہوا۔اس کے بعد یہ افسانہ ’’عالمگیر ‘‘ میں شائع ہوا۔اس افسانے میں 1919ء کے مارشل لاء کو چھ سال کے بعد بچے کی نظر سے دیکھا گیا۔1919ء کا مارشل لاء جلیانوالہ باغ کے خونین منظر اور جنرل ڈائر کے وحشیانہ مظالم کی یادگار ہے۔اس افسانے کا تانا بانا دو کردار کے درمیان بُنا گیا ہے،باپ اور بیٹا۔بچے کا نام خالد ہے ،جس کی عمر محض چھ برس کی ہے۔اس افسانے کو پڑھنے کے بعد پتا چل جاتا ہے کہ خالد کے کردار میں جس بچے کو ہمارے سامنے پیش کیا گیا ہے،وہ منٹو ہیں۔
1919ء میں منٹو تقریباََ چھ برس کے تھے۔سعادت حسن منٹو کے ابتدائی افسانوں سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ منٹو کتنے
بڑے باغی اور انقلابی تھے،ان کے سینے میں برطانوی سامراج کے خلاف کیسا لاوا اُبل رہا تھا۔سرمایہ دارانہ نظام اور طبقاتی استحصال سے ان کو شدید نفرت تھی ۔غربت اور افلاس کے خاتمے کے خلاف اُن کے دلِ و دماغ میں کس کس طرح کے منصبوبے تھے،وہ انسانیت کے بہت بڑے دوست تھے ۔اگر یہ کہا جائے تو شاید غلط نہ ہو گا کہ منٹو کے اندر ایک ایسا انسان چھپا ہوا تھا جو انقلاب اور بغاوت کے جرم میں پوری
2
زندگی سولی پر لٹکا رہا۔سعادت حسن منٹو کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’آتش پارے‘‘ ہے۔اس افسانوی مجموعہ کو 1936ء میں اردو بک اسٹال بیرون لوہاری دروازہ لاہور نے مجتبائی پرینٹگ پریس سے چھپوا کر شائع کیا ۔ ’’آتش پارے ‘‘ میں کل آٹھ افسانے ہیں جو حسب ذیل ہیں:
(۱) خونی تھوک (۲) انقلاب پسند (۳) جی آیا صاحب (۴) ماہی گیر (۵) تماشا (۶)طاقت کا امتحان (۷) دیوانہ شاعر (۸) چور
’’ آتش پارے ‘‘ کا دیباچہ سعادت حسن منٹو نے 5جنوری1936ء کو لکھا جس میں منٹو نے اپنے افسانوں کے متعلق اپنے خیالات و تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’یہ افسانے دبی ہوئی چنگاریاں ہیں ان کو شعلوں میں تبدیل کرنا پڑھنے والوں کا کام ہے‘‘ اسطرح کے خیالات و تاثرات کا اظہار انھوں نے ’’ نیا قانون‘‘ اور ’’شرابی‘‘ وغیرہ افسانے میں کیا ہے۔یہ تمام افسانے موجودہ دور کے سیاسی اور سماجی حالات اور ان کے حالات کے پیدا کیئے ہوئے احساسات کی تصویر کرتے ہیں۔جس میں ہمیں ہندوستانیوں کے جنگ آزادی کا جذبہ ،آزادی کے حصول کیلئے سیاسی تحریکوں کا زورو شور،لوگوں کی تقریریں ،اُن تقریروں کے بدلے جیل ،مارشل لاء اور سینوں کو چھیدنے والی گولیاں،سیاسی جلسے اور ان جلسوں پر گولیوں کی بوچھار اور خونی مناظر کی جھلک صاف نظر آتی ہے۔’’نیا قانون‘‘ سعادت حسن منٹو کا پہلاشاہکار افسانہ ہے جس کا مرکزی کردار استاد منگو ہے،جس کے اردگرد کہانی گھومتی ہے۔منٹو کے دل و دماغ میں انگریزوں کے ظلم و ستم سے نفرت کی جو آگ بھڑک رہی تھی اُس کو انھوں نے استاد منگو کے کردار میں مجسم کر دیا۔
’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘،’’پُھندے‘‘، ’’سڑک کے کنارے‘‘اور ’’بانچھ‘‘ وغیرہ منٹو کے کامیاب ترین افسانے ہیں۔جس میں منٹو کا شعور اُبھر کر ہمارے سامنے آتا ہے۔’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ افسانے میں ہندوستان بٹوارے کا المیہ پیش کیا گیا جو سیاسی اور سماجی حالات کا آئینہ دار ہے۔جس کا اثر بھولے بھالے انسانوں کے ساتھ ساتھ پاگلوں کی زندگی پر بھی شدید طور پر پڑا۔وہ پاگل ہندوستان اور پاکستان کے پاگل خانوں میں بند تھے اُن کا تبادلہ کرنے کا خیال دونوں ملکوں میں پیدا ہوا۔جب پاگلوں کے درمیان یہ خبر آگ کی طرح پہنچی تو ان کے اوپر اس کا شدید طور پر اثر ہوا۔
منٹو کے بغاوت کے عناصر جنس نگاری اور عریاں نگاری سے کہیں آگے ہیں۔منٹو کی یہ بغاوت کس قدر بنیادی تھی۔اس کا اندازہ اس بات
سے ہوتا ہے کہ وہ اردو کے سب سے بڑے معتوب ادیب بن گئے۔سعادت حسن منٹو پر ہماری سیاسی،سماجی اور تہذیبی ادارہ بندی جس
انداز سے ٹوٹ پڑی۔اُس کی نظیر کہیں اور نظر نہیں آتی ہے۔منٹو پر بار بار مقدمے چلائے گئے،اُنھیں عدالت،سیشن کورٹ اور ہائی کورٹ تک میں گھسیٹا گیا۔اُن پر جرمانے ہوئے،تلاشیاں ہوئیں،طلبیاں ہوئیں اور سزائیں ہوئیں۔چاہے وہ ہندوستان میں رہے ہوں اور چاہے پاکستان میں رہے ہوں ۔اس کی شدت کچھ اسطرح اذیت ناک صورتحال اختیار کر گئی کہ خود سعادت حسن منٹو کے اعصاب جواب دے گئے اور انھیں دو مرتبہ ذہنی توزن سے محروم ہونا پڑا۔اُنھوں نے اپنے مضمون ’’کسوٹی‘‘ میں فکر انگیز خیالات و تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے۔
’’ ادب سونا نہیں جو اس کے کھٹتے بڑھٹے دام بتائے جائیں،ادب زیور ہے اور جس طرح خوبصورت زیور خالص سونا نہیں ہوتا اسی طرح
3
خوبصورت ادب پارئے بھی خالص حقیقت نہیں ہوتے ،ادب یا تو ادب ہے ورنہ ایک بہت بڑی بے ادبی ہے ،ادب اور غیر ادب میں کوئی درمیانی علاقہ نہیں بالکل جس طرح انسان یا تو انسان ہے یا پھر گدھا‘‘
منٹو کا تخلیقی تصور اپنے عہد کے ادیبوں سے مختلف تھا۔منٹو حقیقت نگاری کے خالص تصور کو رد کرتے تھے،اُن کا ماننا ہے کہ زبان یا فن آلائش سے بنتا ہے ۔نیز ادب کی ادبیت اپنی الگ نوعیت رکھتی ہے۔منٹو نے ادب میں ایسے بے لاگ تخلیقی تصور کو اردو افسانے میں رائج کیا جو اس سے پہلے اردو افسانے کی تاریخ میں دور دور تک نظر نہیں آتا ہے۔منٹو کے افسانے اس دور کے سیاسی اور سماجی حالات کی پیداوار ہے۔اُنھوں نے طوائفوں کی اصل زندگی کی مظلوم تصور اور مرد عورت کے جنسی تعالقات کو بھی اپنے افسانوں کا موضوع بنایا۔ ہتک،ٹھنڈا گوشت،بُو،کالی شلوار،پانچ دن،دھواں،بلاؤز،خوشیا،کبوتر اور کبوتری اور وہ لڑکی وغیرہ افسانے میں منٹو نے جنس نگاری کو بہت ہی فکری لطافت اور فنی بصیرت کے ساتھ پیش کیا۔ان افسانوں کو اگر اردو فکشن کا شاہکار کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔’’ کھول دو ‘‘ منٹو کا ایک شاہکار افسانہ ہے ۔ایک باپ اپنی بیٹی کو زندہ دیکھ کر حقیقی مسرت محسوس کرتا ہے۔سکینہ ایک ایسی مظلوم لڑکی جو مسلم رضاکاروں کے ہاتھوں اپنے لاشعور کی حد تک اس قدر سہم گئی ہے کہ ’’ کھول دو ‘‘ کے الفاظ پر وہ صرف ایک ہی ردعمل کا غیر شعوری طور پر اظہار کرتی ہے اور ’’ کھڑکی کھول دو ‘‘ کے جوالفاظ کمرئے میں تازہ ہوا داخل کرنے کیلئے کہے گئے تھے نیم مردہ حالت میں پڑی سکینہ پر اس کا اثر یوں ہوتا ہے:
’’ ڈاکٹر نے اسڑیچر پر پڑی ہوئی لاش کی طرف دیکھا ،اس کی نبض ٹٹولی اور سراج الدین سے کہا ’’ کھڑکی کھول دو‘‘۔سکینہ کے مردہ جسم میں جنبش ہوئی ۔بوڑھا سراج الدین خوشی سے چلایا زندہ ہے میری بیٹی زندہ ہے،ڈاکٹر سر سے پاؤں تک پسینے میں غرق ہو گیا‘‘
جس ہیت ناک تصویر کو منٹو نے اپنے افسانے ’’ کھول دو ‘‘ میں پیش کیا ہے ۔وہ تصویر جنبش نشاط کی نہیں ہے بلکہ یہ روح کے شدید المیے کا اظہار ہے،یہ تصویر جنبش زدگی یا محاشی کا اشتہار نہیں ہے،دراصل یہ انسان کی اصلیت اور اس کے مظلوم فطرت کی آئینہ دار ہے۔’’ بابو گوپی ناتھ ‘‘ منٹو کا ایک لازوال افسانہ ہے۔بابو گوپی ناتھ کا کردار یوں تو متضاد باتوں کا مجموعہ ہے،لیکن یہ منٹو کا فنی کمال اور نفسیاتی بصیرت ہے کہ
اس میں حد درجہ انسانی معنونیت پیدا ہو گئی ہے۔بابو گوپی ناتھ ایک نو عمر طوائف زینت سے بے لوث محبت کرتے ہیں۔اور وہ زینت کے
آرام و آسائش کا ہر طرح سے خیال رکھتے ہیں۔بابو گوپی ناتھ طوائفوں کی نفسیات سے بخوبی واقف ہیں۔بابو گوپی ناتھ کی طوائف نوازی
اورزینت کی سادہ لوحی اس افسانے کی جان ہے۔حالات کی ستم ظریفی کی وجہ سے ہمارئے موجودہ معاشرے میں جو گھناؤنا کھیل کھیلا جاتا ہے،اس کی تصوریر سعادت حسن منٹو نے اپنے اس افسانے کے ذریعے اُجاگر کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔جہاں دھوکہ دہی اور گندگی کے اس ماحول میں خلوص و محبت اور ایثار کا جذبہ بھی پایا جاتا ہے۔اس بے رحم حقیقت سے واقف بابو گوپی ناتھ زینت کی معصومیت کو شدت سے محسوس کرتے ہیں اور وہ سوچتے ہیں کہ وہ بوڑھے ہو گئے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ کوئی ایسا نوجوان مل جائے جس سے وہ زینت کی شادی کردیں،اور وہ ساری عمر کیلئے سائبان بن جائے اور وہ زندگی کی بے رحمیوں سے محفوظ رہے۔جب وہ زینت کی شادی کرا دیتے ہیں تو وہ شدت سے محسوس کرتے ہیں کہ وہ زینت کو بہت چاہتے ہیں،لیکن وہ صبر کا دامن نہیں چھوڑتے،زینت بھی اُن کی محبت اور قربانی کو محسوس
4
کرتے ہوئے نہایت احسان بھری شکر گزار آنکھوں سے اُن کو دیکھتی ہے جس سے افسانے میں جذباتی طہارت کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور افسانہ فنی بلندیوں کی معراج پر پہنچ جاتا ہے۔آج اکیسویں صدی میں اُن کے بے مثال افسانے ’’ ٹھنڈا گوشت ‘‘ ، ’’کالی شلوار ‘‘، ’’ دھواں ‘‘ ، ’’پھایا‘‘ ، ’’جانکی شانتی ‘‘ اور ’’ بُو ‘‘ زندہ ہیں اور ہمیشہ زندہ رہیں گے۔منٹو ایک تاریخ ساز افسانہ نگار تھے،وہ اپنی قدر و قیمت کے عارف تھے،اُن کو اپنے افسانوں میں بسی ہوئی صداقتوں کی معنونیت اور ابدیت کا حقیقی احساس و عرفان تھا۔وہ اپنی بابت بہت پہلے پیش گوئی کر گئے تھے کہ
’’ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سعادت حسن مر جائے اور منٹو کبھی نہ مرے‘‘
ربط
http://pakmedia.pk/?p=21319
 
Top