ہمارا قومی طرز عمل۔ نئی نسل کو کیا پیغام جا رہا ہے؟ ....حرف تمنا …ارشاد احمد حقانی

جیا راؤ

محفلین
یہ سال 1960ء کے لگ بھگ کا واقعہ ہے۔ میرا آبائی شہر قصور ابھی ضلع نہیں بنا تھا اور ضلع لاہور ہی کا حصہ تھا۔ لاہور کے ڈپٹی کمشنر ایک علم دوست اور خود بھی صاحب علم پی سی ایس آفیسر میاں محمد شفیع تھے۔ قصور میں اس وقت ایس ڈی ایم ہوتا تھا۔ یہ عہدہ جناب پرویز احمد بٹ (سی ایس پی، موجودہ ڈی ایم جی) کے پاس تھا۔ اسلامیہ کالج قصور نے ایک مجلس مذاکرہ منعقد کی جس کا عنوان تھا ”پاکستان کی نئی نسل کی ذمہ داریاں اور ہمارے فرائض“۔ اس مجلس میں مجھے بھی خطاب کی دعوت دی گئی تھی۔ میں نے اپنی تقریر میں کہا کہ ہم اپنی نئی نسل سے موجودہ حالات میں زیادہ اچھی توقعات نہیں رکھ سکتے کیونکہ ہم نے بطور قوم ان کے سامنے اعلیٰ کردار کا مظاہرہ نہیں کیا اور انہیں کوئی اچھے رول ماڈل نہیں دیئے۔ یہ میری 40منٹ کی تقریر کا خلاصہ تھا۔ آخر میں صدر جلسہ میاں محمد شفیع نے خطاب کیا۔ انہوں نے میری بعض باتوں سے تو اتفاق کیا لیکن میرے مرکزی استدلال سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ میں نے بھی دنیا دیکھی ہے بہت سے ممالک میں گیا ہوں اور میں اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ ہماری قومی کارکردگی کچھ ایسی بری نہیں رہی اور ہم نئی نسل کو جو پیغام دے رہے ہیں اس سے اچھے نتائج کی توقع کی جا سکتی ہے۔ تقریب ختم ہوئی اور ڈی سی صاحب واپس تشریف لے گئے۔ ایس ڈی ایم پرویز احمد بٹ مجھے اپنے ساتھ اپنے مکان پر لے گئے اور کہا کہ میں آپ سے اس موضوع پر مزید بات کرنا چاہتا ہوں۔ کھانے کی میز پر ہماری گفتگو ہوئی اور میں نے اپنا موٴقف اور زیادہ وضاحت سے پیش کیا۔ پرویز بٹ صاحب ظاہر ہے کہ نوجوان اور لائق افسر تھے اس لئے انہوں نے مجھ سے اچھا خاصا اتفاق کیا اور محفل ختم ہوگئی۔
مجھے یہ واقعہ انگریزی معاصر ”دی نیوز“ میں اگلے روز ایک پاکستانی خاتون وکیل کا مضمون پڑھ کر یاد آیا ہے جو لندن میں مقیم ہیں اور وہیں پریکٹس کرتی ہیں۔ مضمون تو کافی لمبا ہے لیکن میں اس کے دو چھوٹے چھوٹے اقتباس پیش کروں گا۔
When I met Pakistani youth in Britain, students studying at various universities, I was a bit taken aback by the lack of national pride I saw in these youngsters. I saw, instead, a deepseated resignation that corruption is inevitable and standing up for principle worthless. I noticed this sentiment across the board, as common in the five-time namazi as in the student less concerned about religion. It follows from the fact that a lot of what shapes us as human beings is atmospheric. If we live in an environment where wrongs are accepted, rewarded or at least laughed off, then there is no incentive to do right.
اسکا ترجمہ یہ ہے : ”جب میں برطانیہ میں نوجوان پاکستانیوں سے ملی جو برطانیہ کی مختلف یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم تھے تو ان سے گفتگو کر کے مجھے اس بات پر حیرانی ہوئی کہ ان نوجوانوں میں اپنی قوم پر فخر کا احساس بالکل نہیں تھا۔ اس کی بجائے میں نے دیکھا کہ ان کے اندر اس بات پر گہرا یقین پایا جاتا تھا کہ بددیانتی کا راستہ اختیار کرنا ناگزیر ہے اور اصولوں کے لئے کھڑا ہو جانا ایک کار عبث ہے۔ یہ سوچ میں نے وہاں موجود تمام نوجوانوں میں مشترکہ پائی۔ ان میں ایسے بھی تھے جو پانچ وقتہ نمازی تھے اور ایسے طلبہ بھی تھے جو مذہب کو کچھ خاص اہمیت نہیں دیتے تھے۔ اس حقیقت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انسانوں کی حیثیت سے ہم جو تصورات قائم کرتے ہیں وہ ہمارے گرد و پیش کے حالات کا عکس ہوتے ہیں۔ اگر ہم ایک ایسے ماحول میں رہتے ہیں جہاں غلط حرکات کو قبول کیا جاتا ہے، ان پر انعام ملتا ہے یا کم از کم مذاق اڑا کر انہیں نظر انداز کر دیا جاتا ہے تو پھر درست کام کرنے کے لئے کوئی جذبہٴ محرکہ باقی نہیں رہتا“۔
اسی مضمون میں وہ آگے چل کرکہتی ہیں :
Terrorism is certainly a problem for Pakistan but we have to fight it on our own terms. America's recent actions have left us no option but to conclude that it is not interesed in combating terrorism but only in destabilizing Pakistan. That is a risk we cannot afford to take as a nation. We must use our military strength to deflect those murderous drones the next time they head for our territroy.
Otherwise, our youth will not only see us as a corrupt nation but as a nation of lackeys. The saddest thing, therefore, about the current civilian setup is that instead of blostering pride in Pakistan based on taking steps to reassemble a judiciary taken apart by a dictator or protecting the innocent tribals who have been killed only because they happen to be in an ill-fated geographical area, there is a shameless extension of the old dictatorial policies.
اس کا ترجمہ یہ ہے :
”دہشت گردی یقینا پاکستان کے لئے ایک مسئلہ ہے لیکن ہمیں اس کا مقابلہ اپنی شرائط پر کرنا چاہئے۔ امریکہ کے حالیہ اقدامات نے ہمیں یہ نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور کر دیا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خاتمے میں اتنی دلچسپی نہیں رکھتا جتنی وہ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے میں رکھتا ہے۔ یہ ایسی صورت حال ہے جسے برداشت کرنے کے لئے بطور قوم ہمیں ہرگز تیار نہیں ہونا چاہئے۔ ہمیں امریکہ کے ان ہلاکت آفرین بغیر پائلٹ کے طیاروں کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنی فوجی قوت کا استعمال کرنا چاہئے اور آئندہ جب وہ ہمارے علاقے کا رخ کریں تو ہمیں اس طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہئے ورنہ ہمارے نوجوان ہمیں صرف ایک ایسی قوم کے طور پر یاد نہیں کریں گے جو کرپٹ ہے بلکہ گماشتوں کی ایک قوم ہے۔ اس لئے میری رائے میں موجودہ سویلین ڈھانچے کی سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ ہمارے نوجوانوں میں اپنی قومیت پر احساس تفاخر پیدا نہیں کر رہا ۔ یہ تفاخر کا احساس پیدا ہو سکتا ہے جب ہم اس عدلیہ کو نئے سرے سے بحال کریں جسے ایک ڈکٹیٹر نے منتشر کر دیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی ہمیں ان معصوم قبائلیوں کی حفاظت بھی کرنی چاہئے جو صرف اس لئے موت کے منہ میں جا رہے ہیں کہ وہ ایک خاص جغرافیائی علاقے میں مقیم ہیں۔ اس وقت تو ہم بڑی بے شرمی سے پرانی آمرانہ پالیسیوں ہی کی توسیع دیکھ رہے ہیں“۔
آج سے قریباً 50 سال پہلے جب میں نے قصور کالج کے ایک مذاکرے میں اس بات پر افسوس اور دکھ کا اظہار کیا تھا کہ ہم نئی نسل کے سامنے کوئی اچھی مثالیں قائم نہیں کر رہے اور انہیں کوئی اچھے رول ماڈل نہیں دے رہے تو اس وقت مجھے یہ اندازہ نہ تھا کہ آنیوالے سالوں اور عشروں میں بھی ہم اپنی کچھ بھی اصلاح نہ کر پائینگے بلکہ ویسی ہی روش جاری رکھیں گے جیسی اسوقت تک رہی تھی جس پر میں نے تشویش کا اظہار کیا تھا۔
خاتون قانون دان مضمون نگار نے برطانیہ کی یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے پاکستانی طلبہ اور طالبات کے بارے میں جن مشاہدات اور تاثرات کا اظہار کیا ہے ان سے ثابت ہوتا ہے کہ جس قومی روش پر میں نے 50سال پہلے تشویش کا اظہار کیا تھا اور بڑی نسل کو بہتر طرزعمل کا مظاہرہ کرنے کا مشورہ دیا تھا وہ نہ صرف برقرار ہے بلکہ ناپسندیدہ برگ و بار لا رہی ہے۔ 18/ فروری کے انتخابات کے بعد ہماری نومنتخب قومی قیادت کے ایک حصے نے اب تک جس طرزعمل کا مظاہرہ کیا ہے اور اس وقت پنجاب میں جمہوری روایات کو پامال کرنے کی جو شرمناک روش دیکھنے میں آ رہی ہے وہ میری بات کی صداقت کی دلیل ہے۔ کہا جاتا ہے (اور اس بات کی صداقت پر بلا وجہ شک بھی نہیں کیا جانا چاہئے) کہ امریکی دھمکیوں کے جواب میں ہماری فوجی اور سویلین قیادت ایک متفقہ پالیسی رکھتی ہے لیکن کاش یہ بات اور زیادہ اعتماد سے کہنا ممکن ہوتا اور بعض معروضی حقائق اس کی تردید کرتے دکھائی نہ دیتے۔ ان معروضی حقائق کی طرف بہت سے لکھنے والوں نے توجہ مبذول کرائی ہے لیکن ابھی تک یہ ناخوشگوار حقائق پوری طرح تبدیل ہوتے دکھائی نہیں دے رہے اور یہ ایک باعث تشویش امر ہے۔

روزنامہ جنگ
 

arifkarim

معطل
خدا پاکستان کی حفاظت کرے۔
(شہیدِ ملت لیاقت علی خان کے آخری الفاظ)


یہی آخری الفاظ حالیہ معزول صدر پرویز مشرف کے بھی تھے۔ مسئلہ وہی ہے جو 1951 میں تھا! امریکہ دجال کیساتھ ناجائز تعلقات اور انکا ہولناک انجام!
 
Top