ہمارا اخلاقی بحران ۔۔۔ ریحان احمد یوسفی

سین خے

محفلین
ہمارا اخلاقی بحران

ریحان احمد یوسفی

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اخلاقی بگاڑ آج ہماری زندگی کے ہر شعبے میں داخل ہوچکا ہے۔ امانت، دیانت، صدق، عدل ،ایفاے عہد، فرض شناسی اور ان جیسی دیگر اعلیٰ اقدار کمزورپڑتی جارہی ہیں۔کرپشن اور بدعنوانی ناسور کی طرح معاشرے میں پھیلی ہوئی ہے ۔ ظلم و ناانصافی کا دور دورہ ہے۔لوگ قومی درد اور اجتماعی خیر و شر کی فکر سے خالی اوراپنی ذات اور مفادات کے اسیر ہوچکے ہیں۔ یہ اور ان جیسے دیگر منفی رویے ہمارے قومی مزاج میں داخل ہوچکے ہیں۔یہ وہ صورت حال ہے جس پر ہر شخص کف افسوس ملتا ہوا نظر آتا ہے۔

ایسے میں ضروری ہے کہ اس مسئلے کا تفصیلی جائزہ لے کر ان عناصر کی نشان دہی کی جائے جو ہمارے اجتماعی بگاڑ کا سبب بن رہے ہیں۔البتہ ، اس سے قبل یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ دنیوی اعتبار سے اخلاقی اقدار کی قدر وقیمت کوواضح کیاجائے تاکہ یہ اندازہ ہوسکے کہ اگر ہم نے اصلاح کی کوشش نہ کی تو اس کے کتنے سنگین نتائج نکل سکتے ہیں۔

اخلاقی اقدار کی اہمیت

انسان کو اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے، لیکن ہمیں ایک لمحے کے لیے رک کر یہ سوچنا چاہیے کہ انسان کو جانوروں سے ممتاز کرنے والی چیز کیا ہے؟ ہم دیکھتے ہیں کہ جانور صرف اور صرف اپنی جبلت کے تابع ہوتے ہیں۔مثلاً جب کسی جانور کو بھو ک لگتی ہے تو اس کے لیے حلال و حرام اور جائز و ناجائز کا کوئی سوال نہیں پیدا ہوتا۔ اس کے برعکس ایک انسان زندگی کے ہر معاملے میں کچھ مسلمہ اخلاقی حدود کا لحاظ رکھتا ہے۔وہ جب اپنی کسی ضرورت کو پورا کرنا چاہتا ہے تو اس کی اخلاقی حس اسے خبردار کرتی ہے کہ وہ اپنی ضرورت کے لیے کوئی غلط راستہ اختیار نہیں کرسکتا۔ تاہم جب انسان کی اخلاقی حس کمزور ہوجاتی ہے تو وہ صحیح اور غلط کی تمیز کھونے لگتا ہے۔ وہ ایک جانور کی طرح ہر کسی کے کھیت کھلیان میں گھس جاتا ہے۔وہ اپنی ضرورت کے لیے ہر جائز و ناجائز راستہ اختیار کرلیتا ہے۔ ایسا رویہ اختیار کرنے والوں کے سفلی جذبے آہستہ آہستہ ان پر غلبہ پالیتے ہیں۔جس کے بعد انسانوں کے معاشرے میں جنگل کا قانون رائج ہوجاتا ہے اور آخر کار پوری قوم تباہی کا شکار ہوجا تی ہے۔

اس تباہی کی وجہ یہ ہے کہ انسان اصلاً ایک معاشرتی وجود ہے۔معاشرتی زندگی کچھ لو اور کچھ دو کے اصول پر قائم ہوتی ہے۔انسان کا حیوانی وجود دینا نہیں جانتا، صرف لینا جانتا ہے۔چاہے اس کا لینا دوسروں کی موت کی قیمت پر ہو۔ یہ اصلاً انسان کی اخلاقی حس ہے جو حقوق کے ساتھ فرائض سے بھی انسان کو آگاہ کرتی ہے۔ اجتماعی زندگی کا اصل حسن احسان، ایثار اور قربانی سے جنم لیتا ہے۔جب تک اخلاقی حس لوگوں میں باقی رہتی ہے ، اپنے فرائض کو ذمہ داری اور خوش دلی سے ادا کرنے والے اور ایثار و قربانی کرنے والے لوگ اکثریت میں رہتے ہیں۔جب اخلاقی حس مردہ ہونے لگے توایسے معاشرے میں ظلم و فساد عام ہوجاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں پہلے معاشرہ کمزور اور پھر تباہ ہوجاتا ہے۔یہ تباہی کبھی غیر ملکی حملہ آوروں کی مرہون منت ہوتی ہے کبھی باہمی آویزشوں کے نتیجے میں جنم لیتی ہے۔

یہ صرف ہمارا خیال نہیں ، بلکہ قوموں کی تاریخ پر نظر رکھنے والا عظیم مسلمان عالم ابن خلدو ن بھی ہمارے اس نقطۂ نظر کی تصویب کرتا ہے۔وہ اپنی شہرۂ آفاق کتاب ''مقدمہ'' میں بتاتا ہے کہ دنیا میں عروج و ترقی حاصل کرنے والی قوم ہمیشہ اچھے اخلاق کی مالک ہوتی ہے ، جبکہ برے اخلاق کی حامل قوم زوال پزیر ہوجاتی ہے۔

ابن خلدون نے جوبات کہی ہے ، آج کے حقائق بھی اسے بالکل درست ثابت کرتے ہیں۔چنانچہ ہمارا مشاہدہ ہے کہ عصرحاضر میں جو اقوام عروج و ترقی میں سب سے آگے ہیں ، وہ مسلمہ اخلاقی اقدار کی پابندی میں بھی مثالی رویے کا مظاہرہ کرتی ہیں، جبکہ اہل پاکستان جیسی اقوام جو ترقی کی دوڑ میں سب سے پیچھے ہیں ، وہ اخلاقی اقدار کی پابندی کے معاملے میں بھی بدترین انحطاط کا شکار ہیں۔

اخلاقی بگاڑ کے اسباب

ہمارے نزدیک اخلاقی بگاڑ انسان کا معیاری اوراصلی رویہ نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر انسان کو دین فطرت پر پیدا کرتا ہے۔ خیر و شر کا تصور انسانی فطرت میں اس طرح راسخ ہے کہ انسان اگر نارمل حالت میں ہے تو کبھی اس کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔یہ رویہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب انسان کا وجود کچھ بیماریوں کا شکار ہوجائے۔ ذیل میں ہم ایک ایک کرکے ان بیماریوں کا جائزہ لیں گے۔

ا۔ دنیا پرستی

اخلاقی بگاڑ کا سب سے بنیادی سبب دنیا پرستی کی وہ لہر ہے جس میں لوگ وقتی مفاد کے آگے ہر چیز کو ہیچ سمجھتے ہیں۔دنیا جتنی حسین آج ہے اتنی کبھی نہیں تھی۔ خصوصاً جن سہولتوں تک ایک عام آدمی کی پہنچ آج ممکن ہے ، وہ پہلے کبھی ممکن نہ تھی۔تاہم یہ دنیا بلا قیمت دستیاب نہیں۔ اس کے حصول کے لیے مال چاہیے۔چنانچہ مال کمانا اور اس سے دنیا حاصل کرنا اب ہر شخص کا نصب العین بن چکاہے، مگر یہ مال آسانی سے نہیں ملتا ۔ خاص طور پر اس شخص کو جو حلال و حرام، جائز و ناجائز ، عدل و ظلم ا ور خیر و شر کو اپنا مسئلہ بنالیتا ہے۔چنانچہ ایک انسان جس کا سب سے بڑا مسئلہ مال و دنیا بن جائے، اپنے مفادات کی خاطر اخلاقی اقدار سے چشم پوشی شروع کردیتا ہے۔ جب کبھی کوئی اخلاقی قدر حصول زر کے عمل میں رکاوٹ بنتی ہے تو وہ پر کاہ کے برابر بھی اسے اہمیت نہیں دیتا۔ رفتہ رفتہ اس کا اخلاقی وجود کمزور ہوتا چلاجاتاہے اور ایک روزدم گھٹ کر مرجاتا ہے۔

انسانوں کے اخلاقی وجود کی موت کے بعد زمین فساد سے بھر جاتی ہے۔ رشوت و بدعنوانی کا باعث یہی ہے۔ظلم و ناانصافی اسی کی پیداوار ہے۔ خیانت و بددیانتی یہیں سے پھوٹتی ہے۔ ملاوٹ و جعل سازی اسی طرح جنم لیتی ہے۔جھوٹ اور دروغ گوئی اسی کا نتیجہ ہے۔غرض دنیا پرستی اخلاقی زندگی کی عمارت کے ہر ستون کو دیمک کی طرح کھاجاتی ہے۔خاص طور پر نوجوان جو کسی بھی قوم کی امیدوں کا مرکز ہوتے ہیں اور بلند مقاصد کے لیے قربانی دینے میں سب سے آگے ہوتے ہیں، جب ان کی منزل صرف مادی منفعتوں کا حصول بن جائے تو اس سے بڑا سانحہ کوئی نہیں ہوسکتا۔ بدقسمتی سے ہمارے ساتھ یہ سانحہ بھی ہورہا ہے۔

ہوس زر کس طرح انسانی اخلاقیات کی دشمن ہے ، اس کا اندازہ اس تنقید سے ہوتا ہے جو قرآن نے قریش کی قیادت پرکی ہے۔ملاحظہ ہو:

''لیکن یہ انسان ، اس کا رب جب اسے آزماتا ہے ، اور عزت بخشتا اور نعمتیں عطا کرتاہے تو کہتا ہے کہ میرے رب نے میری شان بڑھائی ہے۔ اور جب اسے آزماتاہے اور اس کی روزی تنگ کردیتا ہے تو کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے ذلیل کرڈالا، ہرگز نہیں،بلکہ(یہ سب تمھیںآزمانے کے لیے ہوتا ہے ، مگر اس آزمایش سے بے پروا اس طرح زندگی بسر کرتے ہوکہ)یتیم کی قدر نہیں کرتے، اور مسکینوں کو کھانا کھلانے کے لیے ایک دوسرے کو نہیں ابھارتے اور وراثت کو سمیٹ سمیٹ کر ہڑپ کر جاتے ہو اور (تمھارا یہ رویہ اس لیے ہے کہ تم ) مال کی محبت میں متوالے ہوئے رہتے ہو۔''(الفجر ۸۹: ۱۵۔۲۰)

دنیا پرستی کے یہی وہ نتائج ہیں جس پر قرآن و حدیث اور انبیا کی تعلیمات میں شدید ترین تنقید کی گئی ہے۔ قرآ ن میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:

''جان رکھو کہ دنیا کی زندگی لہو ولعب، زیب وزینت اور مال و اولاد کے معاملے میں باہمی فخر و مسابقت کی مثال اس بارش کی ہے جس سے ہونے والی فصل کافروں کے دل کوموہ لے، پھر وہ پک جائے اور تم اسے زرد دیکھو، پھر وہ ریزہ ریزہ ہوجائے۔ اور آخرت میں ایک عذاب شدید بھی ہے اور اللہ کی طرف سے مغفرت اور خوش نودی بھی۔ اور دنیا کی زندگی تو بس دھوکے کی ٹٹی ہے۔''(الحدید۵۷: ۲۰)

''لوگوں کی نگاہوں میں مرغوبات دنیا: عورتیں ، بیٹے، سونے چاندی کے ڈھیر، نشان زدہ گھوڑے، چوپائے اور کھیتی کھبادی گئی ہیں۔ یہ دنیوی زندگی کے سرو سامان ہیں اور اللہ کے پاس اچھا ٹھکانا ہے۔ ان سے کہو :کیا میں تمھیں ان سے بہتر چیزوں کا پتا دوں ؟جو لوگ تقویٰ اختیار کریں گے ، ان کے لیے ان کے رب کے پاس باغ ہیں، جن میں نہریں جاری ہوں گی، وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔اور پاکیزہ بیویاں ہوں گی اور اللہ کی خوش نودی ہوگی ا ور اللہ اپنے بندوں کی خبر رکھنے والا ہے۔'' (آل عمران۳:۱۴۔۱۵)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس بات کی بڑی وضاحت فرمائی ہے۔فرمایا کہ ہلاک ہوا درہم اور دینار کا بندہ۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اگر دنیا کی اہمیت مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو وہ کسی کافر کو ایک گھونٹ پانی بھی نہیں دیتا ۔ایک اور روایت میں فرمایا کہ ہر امت کا ایک فتنہ ہوتا ہے اور میری امت کا فتنہ مال ہے۔

حضرت عیسیٰ نے دولت کے فتنے کے متعلق فرمایا :

''اونٹ کا سوئی کے ناکے میں سے نکل جانا اس سے آسان ہے کہ دولت مند خدا کی بادشاہی میں داخل ہو۔'' (متی۱۹: ۲۳)

دنیا کی یہ مذمت اس لیے نہیں ہے کہ مال و دنیا اصلاً کوئی ناپسندیدہ شے ہے۔یہاں مذمت مال اور دنیا کی نہیں ، بلکہ ہوس زراور دنیا پرستی کے اس فتنہ کی ہورہی ہے جس میں مبتلا انسان ہر اخلاقی حد کو پھلانگ جاتا ہے اور یہی چیز قابل مذمت ہے۔

۲۔ منفی سوچ کا فروغ

اخلاقی انحطاط کی دوسری وجہ اس منفی سوچ کا فروغ ہے جو ہمارے ہاں بعض طبقات نے عام کردی ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جن کے نزدیک مقتدر طبقات اور اشرافیہ غیر ملکی ایجنٹ ہیں۔یہی ملک کے تمام مسائل کی جڑ ہیں۔ ہر فتنہ و فساد انھی سے جنم لیتا ہے۔ ان کے خیال میں ان لوگوں سے ملک کو نجات دلادی جائے تو ہمارے سارے مسائل حل ہوجائیں گے۔مسائل کی اس مقامی جڑ کے علاوہ انھیں ملک وملت کے ہر مسئلے کے پیچھے یہود و ہنود اور امریکہ و روس کی سازشیں بھی نظر آتی ہیں۔ ان کے نزدیک ہمارے ساتھ دنیا بھر میں جو کچھ ہورہا ہے ، اس کا واحدسبب یہی ہے کہ یہ ''کفار'' ہمارے دشمن ہیں اور ہمیں ہر میدان میں نیچا دکھانا چاہتے ہیں۔چنانچہ کرنے کا اگر کوئی کام ہے تو یہی ہے کہ ان دشمنوں کو ملیا میٹ کردیا جائے۔

قطع نظر اس کے کہ اشرافیہ، مقتدر طبقات اور بیرونی طاقتیں کیا کررہی ہیں اور ان کے منفی طرز عمل سے نمٹنے کا درست طریقہ کیا ہے، جب یہ روش اختیار کی گئی تو عوام کی تربیت یہ ہوئی کہ ہر خرابی کی جڑ صرف دوسروں میں ہے۔اصلاح کا واحد طریقہ یہ ہے کہ دوسرے ٹھیک ہوجائیں ۔جب ایسا ہوگا توسب ٹھیک ہوجائے گا۔ اس سوچ کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ لوگ اپنی ذمہ داریاں فراموش کرنے لگے۔ ان کی توجہ اپنے دائرے میں عائد شدہ ذمہ داریوں سے زیادہ دوسروں کے اس دائرے پر ہوگئی جس پران کا کچھ اختیار نہیں۔ نتیجۃً لوگوں کے اپنے دائرۂ اختیار میں شر بڑھتا گیا ، مگر اسے روکنے کے بجائے ان کی توجہ صرف دوسروں کی طرف مبذو ل رہی۔

پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایک عام آدمی نہ ملک کے مقتدر طبقات کی اصلاح کرسکتا ہے اور نہ بیرونی طاقتوں کے خلاف لڑکر حالات بدل سکتا ہے۔بے بسی کے اس احساس کے تحت اس کے ذہن میں مایوسی کاپیدا ہونا لازمی تھا۔یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ مایوس آدمی ہمیشہ منفی طرز عمل اختیار کرتا ہے ۔چنانچہ اس مایوسی میں لوگوں نے جب حکمرانوں کو بدعنوانی کا شکار دیکھا تواسے اپنے دائرۂ اختیار میں برائی کرنے کاجواز سمجھ کر خود کو ہر اخلاقی بندھن سے آزاد سمجھنا شروع کر دیا۔

اس طرح کی منفی سوچ کے نتیجے میں بیرونی طاقتوں کی سازشیں ختم ہوئیں نہ اشرافیہ اور مقتدر طبقات کی اصلاح ہوئی۔ صرف یہ ہوا کہ عوام الناس اپنے اوپر عائد اخلاقی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں کوتاہی کرنے لگے۔ دوسروں کا ہر عیب اپنی غلطی کا ایک عذر بنتا چلا گیا۔سسٹم کی وہ خرابی جو پہلے بالادست طبقات تک محدود تھی اب گھر گھر پھیل گئی۔

اب ہر شخص کا ذہن کچھ اس طرح بن گیا ہے کہ میری خواہش ہے کہ ملک سے رشوت و بدعنوانی ختم ہوجائے۔ تاہم جب تک ایسا نہیں ہوتا میرے لیے رشوت لینا جائز ہے۔ سب لوگوں کو ٹریفک کے قوانین کی پابندی کرنی چاہیے، مگر جب تک ایسانہیں ہوتا مجھے قانون کی خلاف ورزی کا حق ہے۔ تمام شہریوں کو اجتماعی اخلاقیات کی پابندی کرنی چاہیے ، مگر جب تک ایسا نہیں ہوتا تو میں اپنے مفاد کے لیے کوئی بھی حد توڑ سکتا ہوں۔

لوگوں نے دیکھا کہ حکمران اور مقتدر طبقات کرپشن میں لتھڑے ہوئے ہیں تو انھوں نے بھی ، جہاں موقع ملا، بہتی گنگا سے ہاتھ دھونا ، بلکہ غسل کرنا ضروری جانا۔ انھیں کہیں انصاف نہ ملا تو انھوں نے دوسروں پرظلم کرنے کو اپنے لیے جائز قرار دے دیا۔اب یہی سوچ کر ایک کلرک اور کانسٹیبل رشوت لیتا ہے کہ اسے تنخواہ کم مل رہی ہے۔یہی سوچ کر ایک دکان دار ملاوٹ کرتا اور کم تولتا ہے کہ اس کے بغیر گزارا نہیں ہوتا۔ اسی فکر کے پیش نظر ایک غریب دوسرے غریب کا حق اسی طرح مارتا ہے جس طرح کوئی طاقت ور کسی کم زورکے ساتھ معاملہ کرتا ہے۔

لوگوں کا حال یہ ہوگیا ہے کہ امریکہ ، برطانیہ ، اسرائیل اور بھارت کے ظلم کا رونا روتے ہیں اور ساتھ ساتھ اپنے ہم قوم و ہم مذہب لوگوں کے حقوق پامال کرتے جاتے ہیں۔ تیز رفتار گاڑی چلاکر لوگوں کو مار ڈالنے والے ڈرائیور ، کھلے عام رشوت لینے والا ٹریفک کا سپاہی، بدعنوان سرکاری اہلکار، بددیانت تاجر اور ان جیسے دیگر جیتے جاگتے کردار امریکہ و بھارت کے بدترین ناقد بھی ہوتے ہیں۔یہ فوج اور سیاست دانوں کی کرپشن کا گلہ بھی کرتے ہیں، مگر اپنے دائرۂ اختیار میں یہ سب اتنے ہی بڑے ظالم ثابت ہوتے ہیں۔اس ظلم کے خلاف اپنے اندر سے جوآواز اٹھتی ہے ، اسے دبانے کے لیے وہ اسی منفی سوچ کا سہارا لیتے ہیں کہ اس حمام میں جہاں سب ننگے ہوچکے ہیں، ہمارے لیے بھی اخلاقیات کا لباس اتارے بغیر کوئی چارہ نہیں۔

اس رویے کا سب سے برا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ ظلم و بدعنوانی جس کا الزام اشرافیہ اور غیر ملکی طاقتوں پر عائد کیا جارہا تھا، اس میں تو کوئی کمی نہیں آئی ، البتہ ایک عام آدمی کی زندگی اسی جیسے عام آدمی نے جہنم بنادی ہے۔اب تو صورت حال یہ ہوچکی ہے کہ سوسائٹی میں پھیلی بد اخلاقی، ظلم اور بدعنوانی کا شکار ہونے والے اکثر لوگ کسی بڑے آدمی کے نہیں ، بلکہ اپنے ہی جیسے عام آدمیوں کے ستائے ہوئے ہوتے ہیں۔

یہ سب نتیجہ ہے اس سوچ کا جس میں اپنی جواب دہی کے بجائے دوسروں کی جواب دہی یاد رکھی جاتی ہے۔جس میں اپنے دائرے کے بجائے دوسروں کے دائرۂ اختیار پر زور ہوتاہے۔ جس میں اصلاح کا مطلب صرف دوسروں کی اصلاح ہوتا ہے، حالانکہ دین نے ہمیں جو تعلیمات دی ہیں ، وہ بالکل برعکس ہیں۔ حدیث میں بالصراحت حکم دیا گیا ہے کہ جب تمھارے حکمران برے ہوجائیں تواسے تمھاری برائی کا سبب نہیں بننا چاہیے۔ وہ تمھارے حقوق دیں یا نہ دیں تمھیں اپنے فرائض ہر حال میں پورا کرنے ہیں۔ ان کی کمائی کا وبال ان پر پڑے گااور تم اپنے کاموں کے ذمہ دار ہو۔بلا شبہ یہ بات حکمت نبوی کا شاہ کار ہے جس کی خلاف ورزی کے نتائج آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر احادیث میں بھی امرا کے بگاڑ پر صبر اختیار کرنے اور اپنے دائرے میں اصلاح کرنے کا حکم دیا ہے۔

قرآن نے یہ حکیمانہ بات اپنے انتہائی بلیغ اسلوب میں اس طرح فرمائی ہے:

''اے اہل ایمان تم اپنی فکر رکھو۔اگر تم ہدایت پر ہوتو جو گمراہ ہوا ، وہ تمھارا کچھ نہیں بگاڑے گا۔اللہ ہی کی طرف تم سب کا پلٹنا ہے تو وہ تمھیں بتائے گا جو کچھ تم کرتے رہے ہو۔ ''( المائدہ۵: ۱۰۵)

جہاں تک اغیار کی سازشوں کا تعلق ہے تو صحابہ کو اسی طرح کی صورت حال کے پیش آنے پر اللہ تعالیٰ نے جو حکم دیا تھا وہ ہم قارئین کے سامنے رکھنا چاہیں گے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

'' اور اگر تم صبر کروگے اور تقویٰ اختیار کروگے تو ان کی چال تمھیں کوئی نقصان نہ پہنچاسکے گی۔وہ جو کچھ کرتے ہیں ، بے شک اللہ اس کو اپنے گھیرے میں لیے ہوئے ہے۔'' (آل عمران۳: ۱۲۰)

ان احکامات سے ظاہرہے کہ دین کا زور اس پر ہے کہ تمھاری بنیادی ذمہ داری اپنی اصلاح ہے۔دوسروں کا بگاڑ کبھی تمھارے بگاڑ کاجواز نہیں بن سکتا۔ اگر برائی پھیل جائے تب بھی تمھیں صبر سے کام لینا ہوگا۔ دین کے اس حکم کا مقصد یہ ہے کہ جب افراد کی اکثریت اپنی اصلاح پر زور دے گی تو اس کے نتیجے میں کسی اقلیت کا بگاڑ اکثریت کے بگاڑ کا سبب نہیں بنے گا۔سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک عام آدمی جس کی زیادہ تر زندگی اپنے جیسے عام آدمیوں کے درمیان گزرتی ہے، کبھی عام آدمی کے ظلم کا شکار نہیں ہوگا۔ظلم کرنے والے طبقات بہت کم ہوتے ہیں۔ ان کی برائی کا اثر بھی محدود ہوتا ہے، مگر جب بگاڑ عوام الناس میں پھیلتا ہے تو پوری سوسائٹی ظلم وفساد سے بھر جاتی ہے۔ٹھیک یہی کچھ اس وقت ہمارے ساتھ ہورہا ہے۔

۳۔ ظاہر پرستی

ہم ابتدا میں بیان کرچکے ہیں کہ اخلاقی اقدار کا شعور ہر انسان اپنے ساتھ ماں کے پیٹ سے لے کر آتا ہے۔دنیا میں آنے والا ہر انسان ، مدرسۂ فطرت سے ، اخلاقیات کے میدان میں فارغ التحصیل ہوکر آتاہے۔اسی بنیاد پر قیامت کے دن اس کے اعمال کی جانچ ہوگی ۔ تاہم انسان اپنی بعض کمزوریوں کے باعث انحراف کا شکار ہوتے رہے ہیں۔انسانوں میں پیدا ہونے والے اس بگاڑ کو دور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں اپنے انبیا اور رسول دنیا میں بھیجے ہیں جو لوگوں کوواپس فطرت کے راستے کی طرف بلاتے ہیں۔

انبیا کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف لوگوں کی بد اعمالیوں پر انھیں تنبیہ کرتے اور صحیح راستے کی طرف ان کی رہنمائی کرتے ہیں ، بلکہ جولوگ ان کی بات مان لیتے ہیں ، ان کو راہ راست پر رکھنے کے لیے کچھ اعمال مقرر کرتے ہیں۔یہ اعمال دین کا ظاہری ڈھانچا تشکیل دیتے ہیں۔یہ ظاہری ڈھانچا اپنی جگہ عین مطلوب ہوتا ہے ، مگر جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا ، اس کا اصل مقصد لوگوں کو شاہ راہ فطرت پر قائم رکھنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دین کے ہر ظاہری حکم کا کوئی نہ کوئی نتیجہ اخلاق اور فطرت کی دنیا میں نکلتا ہے۔مثلاً خدا کو تنہا معبود اور سب سے بڑا ماننے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ تمام انسان برابر ہیں اور سوائے اچھے عمل کے کسی کو کسی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں۔ نماز ایک طرف خدا کی یاد ذہن انسانی میں زندہ رکھتی ہے تو دوسری طرف فواحش و منکرات سے روکنا بھی اس کی خاصیت ہے۔ روزہ اگر خد اکی نعمتوں کی قدر و قیمت کا احساس دلاتا ہے تو ساتھ ساتھ خدا کے حدود کی پابندی کی تربیت اور غربا و مساکین کے حالات کی طرف بھی انسان کی توجہ دلاتا ہے۔ زکوٰۃ خدا سے محبت کے ساتھ مال ودنیا سے بے رغبتی اور ضعفا کی مدد کا بھی ذریعہ ہے۔حج وعمرہ خدا کے شوق کو بھڑکا تا ہے تو ساتھ ساتھ اس اجتماعی زندگی کی تربیت بھی کرتا ہے جس میں لوگ تکلیف دہ حالات کے باوجود اپنے اوپر قابو رکھتے اورایک دوسرے کا خیال کرتے ہیں۔

انبیا کی یہ تعلیمات اپنے مقاصد کے حصول کے لیے بے حد موثر ہیں، مگر امتوں پر جب زوال کا دور آتا ہے تو ان کی تمام تر توجہ دین کے ظاہری ڈھانچے کی طرف ہوجاتی ہے۔ خدا پرستی اور اتباع شریعت کا معیار کچھ ظاہری اعمال بن جاتے ہیں۔ علامتی چیزوں کو حق و باطل کا معیار قرار دے دیاجاتا ہے۔ دین کا ظاہری ڈھانچا جو اصلاً دین داری کا نقطۂ آغاز ہوتا ہے ، دین کا آخری مطلوب قرار دے دیا جاتا ہے۔

اس کا ایک نتیجہ تو یہ نکلتا ہے کہ دین کے اس سادہ ظاہری ڈھانچے میں لوگ اپنی طرف سے طرح طرح کے اضافے کرنا شروع کردیتے ہیں۔ان کی ساری تگ و دو اور دلچسپی کا مرکز اگر کوئی چیز رہ جاتی ہے تو یہی فروعی اور اضافی چیزیں ہیں جن کی کوئی نظری یا عملی اہمیت نہیں ہوتی۔اس صورت حال کا ایک زیادہ برا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لوگ دین کے ظاہری ڈھانچے سے حاصل ہونے والے اخلاقی نتائج کو یک سر فراموش کردیتے ہیں۔ شریعت کے احکامات سے وابستہ مقاصد جن کا ظہور اخلاقی سطح پر مطلوب ہے ، وہ معاشرے کا موضوع ہی نہیں رہتے اور نہ کسی کو ان کے پیدا کرنے کی فکر ہوتی ہے۔نتیجۃً لوگوں کی اخلاقی حس مردہ ہونے لگتی ہے۔لوگ دین کے تمام ظاہری اعمال کی پابندی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ، مگر عین اس کے ساتھ اخلاقی سطح پر وہ بدترین انسان ثابت ہوتے ہیں۔

اس کا سبب یہ ہے کہ دین کا ظاہری ڈھانچا مشکل سہی ، مگر ایک دفعہ اسے اختیار کرنے کے بعد یہ انسان کی عادت میں شامل ہوجاتا ہے۔جس کے بعد اس پر جمے رہنے میں کوئی مشکل نہیں ہوتی۔دوسری طرف بعض لوگ اس طرح کے ظاہری اعمال پر نجات کا فتویٰ دے دیتے ہیں۔چنانچہ کوئی بھی شخص اخلاق کی بلند و مشکل گھاٹی کو عبور کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتا۔اور کرے بھی توکیوں کرے؟ جب جنت بغیر کسی مشکل کے آسانی سے مل رہی ہے تواخلاقیات کی اس کانٹوں بھری راہ گزر پر کون قدم رکھے جس میں قدم قدم پر اپنے اندر اور باہر لڑنا پڑتا ہے۔ چنانچہ لوگ ڈاڑھی ٹوپی، نمازروزے اور حج و عمرے کو محض رسوم کے طور پر اختیار کرتے اور اس کے بعد اپنی دانست میں اخلاقی دنیا کی ہر پستی میں اترنے کا جواز قائم کر لیتے ہیں ۔ اسی صورت حال کا نتیجہ ہے کہ معاشرے میں ایک نیک مسلمان کی حیثیت سے معروف شخص بھی آج اسی اخلاقی پستی کا شکار ہے جس کا گلہ ایک دنیا دار شخص سے کیا جاسکتا ہے۔یہاں خیال رہے کہ ہماری تنقید دینی عبادات پر نہیں ، بلکہ ان میں غیر ضروری اضافے اور ان کے مقاصد سے بے پروائی اختیار کرنے پر ہے۔ عبادات کا یہ ظاہری ڈھانچا تو خود اللہ اور اس کے رسولوں نے مقرر کیا ہے اور بلاشبہ کسی معجزے سے کم نہیں۔

نزول قرآن کے وقت اہل کتاب نے قبلہ کی جو بحث اٹھائی تھی ، اس پر انھیں تنبیہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا کہ نیکی مشرق و مغرب کی طرف سمت کرنے کا نام نہیں ، بلکہ ایمان و اخلاق کے تقاضے پورے کرنے کا نام ہے ۔ ظاہر پرستی پر زیادہ تفصیلی تنقید ہمیں انجیل میں ملتی ہے ۔ کیونکہ بنی اسرائیل اپنے دور زوال میں بری طرح اس مرض میں گرفتار تھے۔وہ معمولی ظاہری اعمال پر تو خوب زور دیتے تھے ، مگر بڑے بڑے اخلاقی احکام کے معاملے میں ان پر غفلت طاری تھی۔

ایسے میں ان کی طرف سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی بعثت ہوئی۔آپ نے جس شدت سے بنی اسرائیل کی ظاہر پرستی اور اخلاقی دیوالیے پن پر تنقید کی ہے ، اسے انجیل میں جگہ جگہ دیکھا جاسکتا ہے۔ ہم سیدنا عیسیٰ کی ایک تقریر کا اقتباس پیش کرکے اس بحث کو ختم کرتے ہیں، جس سے اس مرض کی انتہا اور اس کے بدترین اخلاقی نتائج کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ساتھ ہی خط کشیدہ الفاظ میں ہم نے اس مسئلے کا وہ حل بھی واضح کردیا ہے جو سیدنا مسیح نے بیان فرمایا ہے:

''اے ریاکار فقیہو اور فریسیو تم پر افسوس! کہ تم بیواؤں کے گھروں کو دبا بیٹھتے ہواور دکھاوے کے لیے نمازوں کو طول دیتے ہو، تمھیں زیادہ سزا ہوگی ... اے ریاکار فقیہو اور فریسیو تم پر افسوس! کہ پودینہ اور سونف اور زیرہ پرتو دہ یکی (یعنی عشر) دیتے ہوپر تم نے شریعت کی زیادہ بھاری باتوں یعنی انصاف اور رحم اور ایمان کو چھوڑ دیا ہے۔ لازم تھا کہ یہ بھی کرتے وہ بھی نہ چھوڑتے۔ اے اندھے راہ بتانے والو ، جو مچھر کو توچھانتے ہوا ور اونٹ کو نگل جاتے ہو۔ اے ریاکار فقیہو اور فریسیو تم پر افسوس! کہ پیالے اور رکابی کو اوپر سے صاف کرتے ہو، مگر وہ اندر لوٹ اور ناپرہیزگاری سے بھرے ہیں۔اے اندھے فریسی پہلے پیالی اور رکابی کو اندر سے صاف کر تاکہ اوپر سے بھی صاف ہوجائیں۔اے ریاکار فقیہو اور فریسیو تم پر افسوس! کہ تم سفیدی پھری ہوئی قبروں کی مانند ہوجو اوپر سے تو خوب صورت دکھائی دیتی ہیں ، مگر اندر مردوں کی ہڈیوں اور ہر طرح کی نجاست سے بھری ہیں۔اسی طرح تم بھی ظاہر میں تو لوگوں کو راست باز دکھائی دیتے ہو، مگر باطن میں بے دینی اور ریا کاری سے بھرے ہو۔' '( متی ۲۳: ۱۴۔ ۲۸ )

۴۔اجتماعی نصب العین کی غیر موجودگی

اخلاقی انحطاط کا چوتھا سبب قومی زندگی میں کسی اجتماعی نصب العین کی عدم موجودگی ہے۔اخلاقی زندگی اصلاً قربانی کی زندگی ہے۔ انسان عام حالات میں خود پرستانہ اور ذاتی مفادات پر مبنی زندگی گزارتے ہیں۔ ایسا کرنا ان کے لیے ضروری ہے ، کیونکہ اس کے بغیر وہ اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتے، مگر جب سامنے کوئی بلند تر مقصد ہوتوانسان دوسروں کی خاطر دکھ جھیلتا اور ایثار کرتا ہے۔ اس کی سب سے نمایاں مثال ایک خاندان اور بچوں کے لیے ماں اور باپ کی قربانیاں ہیں۔یہ دونوں اگر اپنے بہت سے حقوق سے دست بردار ہوکر اپنا مال ، وقت اور محبت بچوں کو نہ دیں اور ان کے لیے مشکلات کا سامنا نہ کریں تو کبھی کوئی خاندان وجود میں نہیں آسکتا۔

ٹھیک یہی معاملہ ایک معاشرے کا ہوتا ہے۔ایک مضبوط قوم اور مستحکم معاشرہ اس وقت وجود میں آتا ہے جب افراد کسی خارجی دباؤ کے بغیر خود اپنے اوپر کچھ پابندیاں عائد کرلیں۔خاندان کے معاملے میں تو یہ چیز اس لیے باآسانی حاصل ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی جبلت میں اولاد کی بے پناہ محبت ڈال رکھی ہے ، مگر قوم کے معاملے میں لوگ ایسا صرف اس وقت کرتے ہیں جب ان کے سامنے اپنی ذات سے بلند ترکوئی اجتماعی مقصد اور نصب العین ہوتا ہے۔

ہمارے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ انفرادی اور اجتماعی سطح پر کوئی ایسا مقصد ہمارے سامنے نہیں۔دوسری اقوام اس مسئلہ کو قوم پرستی اور حب الوطنی کے جذبے سے حل کرتی ہیں۔ان کی زبان ایک ہوتی ہے، ان کی تاریخ ایک ہوتی ہے،ان کی تہذیب و ثقافت ایک ہوتی ہے، ان کی نسل ایک ہوتی ہے، ان کا جغرافیہ ایک ہوتا ہے ۔ یک جہتی کی اتنی بنیادوں کے بعد ان میں اپنی ایک انفرادی قومی شناخت کا بھرپور احساس پیدا ہوتا ہے۔وہ اس کی بقا، تحفظ اور فروغ کے لیے ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔قوم میں اجتماعی اخلاقیات کی وہ روح پیدا ہوتی ہے جس میں ہر شخص خوش دلی سے اپنے اوپر عائد ذمہ داریوں کو بلااکراہ و جبر پورا کرتا اور اجتماعی مفاد کی خاطر انفرادی مفادکو پیچھے ڈال دیتا ہے۔

جہاں یہ بنیادیں کمزور ہوں ، وہاں ان کے دانش ور ان میں اجتماعیت کا وہ احساس پیدا کرتے ہیں جس کے نتیجے میں ان کے مفادات ایک ہوجاتے ہیں۔ان کے لیڈر سوسائٹی کے ہر طبقہ کے مفادات کو یکساں اہمیت دیتے اور ان کے حقوق و فرائض کے تعین میں کسی ناانصافی اورظلم سے کام نہیں لیتے ۔ جس کے بعد تھوڑا وقت گزرتا ہے اور قوم پرستی کا احساس افراد قوم کے رگ و پے میں سرایت کرجاتا ہے۔افراد قوم اپنی انفرادی شناخت بھلاکر خود کو اجتماعیت میں ضم کردیتے ہیں۔ اس عمل سے نکلنے والا نتیجہ ہم اوپر بیان کرچکے ہیں۔

دوسری طرف ہماری صورت حال یہ ہے دور جدید میں اجتماعیت کی وہ بنیادیں جن پر قوم کی بنا رکھی جاتی ہے ، ہم ان سے محروم ہیں یا ان کوپامال کرکے ہم نے اپنے لیے وطن حاصل کیا ہے۔آزادی کے وقت ہماری زبان ، نسل، تاریخ ، تہذیب و ثقافت اور جغرافیہ ،کچھ بھی ایک نہیں تھا۔ایسے میں لازمی تھا اور ہے کہ ہم اپنے قومی وجود کی تعمیر کے لیے کم ا ز کم ایک اجتماعی بنیاد تلاش کرتے ۔جو خوش قسمتی سے اسلام کی صور ت میں ہمیں پہلے ہی سے حاصل تھی۔

ایسے میں ضروری تھا کہ نعروں کے بجائے تعلیم کے ذریعے سے اسلامی تصورات کو ذہنوں میں راسخ کیا جاتا اور اقتدار اور حکومت کے بجائے معاشرے میں اسلام کے فروغ کو ہدف بنایا جاتا ۔ بالخصوص معاشرے کے وہ فعال طبقات جو اصلاً معاشرہ کی سمت اور رفتار کو کنٹرول کرتے ہیں ان کے سامنے اسلام اور شریعت اسلامی کا درست چہرہ سامنے لایا جاتااور ان کے ذہنوں کو اس کی علمی برتری سے مرعوب کیا جاتا۔ بدقسمتی سے ایسانہ ہوسکا اور آج تک ایسا نہیں ہورہا۔اس کے بجائے فرد اور حکومت کی سطح پر چند نمایشی اقدامات اور ظاہری تبدیلی کومطلوب قرار دے دیا گیا۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج اسلام ہماری زندگیوں میں کوئی فعال کردار ادا نہیں کرتا اور اس کی بنیاد پر ایک اجتماعیت کے فروغ کے امکانات دن بدن مدھم پڑتے چلے جارہے ہیں۔مذہب کاکوئی استعمال اب بچا ہے تو ظاہر پرستی کی اس شکل میں جس پر ہم پیچھے روشنی ڈال چکے ہیں۔

ہمارے جیسی ایک تاریخی قوم جو مختلف گروہوں کے اشتراک سے وجود میں آئی ہے اور جو فطری قومی بنیادوں سے محروم ہونے کے ساتھ ساتھ معاشی اور معاشرتی اعتبار سے بھی ایک زبردست تقسیم کا شکار ہے، اس کی بقا کے لیے ضروری تھا کہ اس کے مختلف گروہوں اور طبقات کے حقوق و فرائض کا تعین عدل وانصاف کے ساتھ کیا جاتا۔ پھر وقتاً فوقتاً ان پر نظر ثانی کا سلسلہ جاری رہتا ، مگر ہم اس میدان میں بھی مکمل طور پر ناکام رہے۔ جس کا ایک نتیجہ ہم نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی صورت میں بھگت لیا۔ ہم نے اپنی روش نہ بدلی تو نجانے مزید کیا کیا سامنے آئے گا۔

اس صورت حال کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم ابھی تک اپنی قومی بنیادوں ہی کو متعین نہیں کرسکے۔ کبھی سارے جہاں کا درد ہمارے دل میں سماجاتا ہے اور کبھی سب سے پہلے ہمیں اپنی جان کی پڑ جاتی ہے۔ہم خود کو دائرۂ اسلام کا مکیں بتاتے ہیں ، مگر عملاً ہمارا ہر دائرہ صوبائی سرحدوں اور لسانی حدبندیوں تک محدود ہے۔ہمیں اپنے مسلمان ہونے پر اصرار ہے ، مگر اس کے ساتھ اپنی فرقہ دارانہ شناخت پر بھی ہمیں فخر ہے۔ہمار اقومی کلچر کیا ہے،ہمیں نہیں معلوم۔ ہماراثقافتی چہرہ کیا ہے، ہم نہیں جانتے۔ من حیث القوم ہماری کوئی منز ل نہیں۔فی الوقت ہماری اجتماعیت مغربی، ہندوستانی اور زوال یافتہ مسلم تہذیب اور مقامی ثقافت کاایک ایسا ملغوبہ ہے جس کی کوئی متعین شکل پچاس سال میں سامنے نہیں آسکی۔ان سب باتوں کا نتیجہ یہ ہے کہ آزادی کے نصف صدی بعد بھی ہمارا کوئی متفقہ قومی شعور اور کلچر وجود پزیرنہیں ہوسکا۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ فرد کس قوم کے لیے انفرادی مفاد کی قربانی دے۔یہ بات اس لیے بھی بڑی اہم ہے کہ معاشرہ صرف قانون کے سہارے نہیں چلایا جاسکتا۔ قانون تو چند مجرمانہ ذہنیت کے لوگوں کو قابومیں رکھنے کے لیے ہوتا ہے ، جبکہ عام لوگ اجتماعی مفاد کی خاطر ایک روایت کے طور پر قانون و اقدار کی پابندی کرتے ہیں ، مگرہمارے ہاں کسی برتر اجتماعی نصب العین کے نہ ہونے کی بنا پر لوگ اپنی ذات اور مفاد سے آگے دیکھنے کے لیے تیار نہیں۔ لہٰذا ہمارا ہرگھر، ہرسڑک ،ہر دفتراور ہر فیکٹری اجتماعی اخلاقیات کے اصولوں کی بھر پور خلاف ورزی کا نمونہ بن چکی ہے۔

مسئلہ کا حل کیا ہے؟

یہ وہ بنیادی اسباب ہیں جو ہمارے اخلاقی انحطاط کے پیچھے کارفرما ہیں۔جب تک ہم ان وجوہات کو دور نہیں کریں گے، اس وقت تک اخلاقی انحطاط کا یہ کینسر ہمیں اندر ہی اندر کھاتا رہے گا اور ایک روز ہمیں کسی بڑی تباہی سے دوچار کردے گا۔

ہمارے نزدیک اس مسئلے کے حل کے دو پہلو ہیں۔ایک فکری اور دوسرا عملی۔ انسان کے متعلق یہ بات بالکل واضح ہے کہ وہ حیوانات سے بلند ترایک مخلوق ہے۔ اس برتری کا باعث قلب ونظر کی وہ صلاحیتیں ہیں جو حیوانی جبلتوں کے ساتھ اسے عطا کی گئی ہیں۔انسان سے صادر ہونے والے تمام اعمال ، خواہ وہ جبلی تقاضوں سے متعلق ہوں، قلب و ذہن کی بارگاہ سے اجازت طلب کرکے ہی دنیا میں ظہور پزیر ہوتے ہیں۔اس لیے بگاڑ جب بھی آتا ہے ، وہ اولاً فکری طور پر آتا ہے اور پھر عملی دنیا میں اس کا ظہور ہوتا ہے۔ جیسا کہ ہم نے مذکورہ بالا تجزیے میں دیکھاکہ اخلاقی بگاڑ کے چاروں اسباب فکر ی سطح پر غلط نقطۂ نظر کے فروغ اور درست نظریہ کی عدم موجودگی سے پیدا ہوئے ہیں۔

چنانچہ اصلاح کی راہ پر پہلا قدم یہ ہے کہ ایک فکری اساس متعین کی جائے جو مذکورہ بالااسباب کوجڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ اس کے ساتھ عام لوگوں کے لیے اس عملی لائحۂ عمل کی نشان دہی بھی ضروری ہے جسے اختیار کرکے وہ اس صورت حال کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔ اس لیے کہ یہ اخلاقی بگاڑ عوام الناس تک سرایت کرگیا ہے اور جب تک وہ عملاً اصلاح احوال کے لیے پوری قوت سے کوشش نہیں کریں گے کسی اور کے اصلاحی اقدامات کے نتیجے میں صورت حال میں بہتری کی کوئی امید نہیں کی جاسکتی۔

اصلاح کی فکری اساس

جہاں تک درست فکری اساس کا سوال ہے توہمارے نزدیک یہ اس مقصد کا صحیح شعور ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو پیدا کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ اس دنیا میں مسلمانوں کو اس لیے پیدا نہیں کرتے کہ اسے کچھ نہ کچھ لوگوں کی تو بہرحال ضرورت ہے جو اس کی جنت کو ویران ہونے سے بچاسکیں۔ وہ کردار و اخلاق کا بدترین نمونہ دنیا کے سامنے پیش کریں اور اللہ تعالیٰ اس کے باوجود انھیں فردوس کے باغوں میں آباد کر دیں۔ امت مسلمہ سے جو چیز اصلاً مطلوب ہے ، وہ دنیا کے سامنے ایک خدا پرستانہ معاشر ے کا جیتا جاگتااور چلتا پھر تا نمونہ پیش کرناہے۔ مسلمانوں کا یہ معاشرہ توحید سے وفاداری اور شریعت کی پاس داری کے اصول پر قائم ہوتا ہے۔یہی وہ فکری اساس ہے جس کا صحیح ادراک پید اہونے کے بعد مذکورہ بالا چاروں منفی اسباب ختم ہوجاتے ہیں۔

توحید پرست فرد دنیا پرست نہیں ہوسکتا۔اس کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد اپنے رب کو راضی کرنا اور جنت کی اس ابدی بادشاہی کا حصول ہوتا ہے جس میں داخلے کی شرط یہی ہے کہ فرد اپنے وجود کو اخلاق و کردار کی ہر گندگی سے پاک کرکے اپنے رب کے حضور پیش ہو۔اس کے بعد یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی خدا پرست اپنے آپ کو دنیا کی عارضی نعمتوں کی خاطر ان اخلاقی برائیوں سے آلودہ کرے جو اسے ابدی جنت سے دور کردیں گی۔

آخرت کی کامیابی کا یہ نصب العین انسان کی نفسیات پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتا ہے۔انسان اپنے اندر ہمیشہ کی زندگی اور ابدی بادشاہی کی جو طلب پاتا ہے ، جنت اور اس کی نعمتیں آخری درجے میں اسی تصور کا جواب ہیں ۔ جنت کاحسن و جمال، اس کی رعنائی و دل کشی ، سکون و راحت ، سرور ولذت ، توقیروعزت ،وسعت ورحمت ، عطا ونعمت ، خوشی و مسرت ، آسانی و فراغت ، دوام وابدیت اور بخشش وعافیت کے تصور ات جب قلب انسانی میں راسخ ہوجاتے ہیں تو اس کے لیے وہ اخلاقی زندگی گزارنا بے حد آسان ہوجاتا ہے جو سرتاسر قربانی سے عبارت ہے۔ بالکل اس طالب علم کی طرح کہ کامیابی کی امید جس کے لیے امتحان کی ہر شدت کو آسان اور تیاری کے ہر مرحلے کو سہل بنادیتی ہے۔

ایسا انسان آخرت کی اس کامیابی کے لیے شریعت پر اس کی صحیح روح کے ساتھ عمل کرتا ہے ۔شریعت کا صحیح علم اسے ظاہر پرستی سے بچاتا اور دین کی ترجیحات سے آگاہ کرتا ہے۔سچی شریعت بتاتی ہے کہ اعمال میں اصل اہمیت تعداد سے زیادہ اخلاص کی ہے۔ جزئیات سے زیادہ اصول کی ہے۔شریعت کا ہر عمل اوردین کا ہر حکم اخلاقی دنیا میں اپنا ایک نتیجہ چاہتا ہے۔ جو اگر نہ نکلے تو پھر خدا کی بارگاہ میں اس کی قبولیت مشکوک ہے۔ دین وشریعت ایک بندۂ مومن کو قدم قدم پر بتاتے ہیں کہ بندوں کے حقوق مار کر رب کو راضی نہیں کیا جاسکتا۔

پھر جن لوگوں کی زندگی کا مقصد توحید اور اس کا فروغ ہو ، وہ دوسروں کی ''سازشوں'' کے پرچار کے بجائے ان تک حق پہنچانے میں دلچسپی لیتے ہیں۔وہ دوسروں کے فرائض انھیں یاد دلانے کے بجائے اپنی ذمہ داریاں یاد رکھتے ہیں۔وہ ان سے دنیوی امور پر جھگڑے کھڑے کرنے کے بجائے ان کی آخرت کے لیے فکر مند رہتے ہیں۔وہ نفر ت کے بجائے خیرخواہی اور ذمہ داری کے اس احساس میں جیتے ہیں جو انبیا کا خاصا ہے۔وہ لوگوں کی زیادتیاں سہہ کر انھیں اپنا بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

سب سے بڑھ کر توحید کی شکل میں قوم کو وہ اجتماعی نصب العین حاصل ہوجاتا ہے جس کے فروغ کا ارفع مقصد قوم کو ایک لڑی میں پرودیتا ہے۔ہم جیسے بے مقصد و بے منزل گروہ کی ایک قوم بننے کی واحد امید اگر کوئی ہے تو یہی ہے کہ ہم توحید کے فروغ کو اپنامشن بنالیں۔توحید و شریعت سے سچی وابستگی نہ صرف ہمارے اخلاقی مسائل کا حل ہے ، بلکہ بے راہ روی اور دنیاپرستی پر مبنی مغربی تہذیب کو دنیا میں جو فروغ حاصل ہورہا ہے ، اس کے بعد ہم پر لازم ہے کہ ہم توحید اور آخرت کا مشن لے کر میدان عمل میں اتر آئیں۔ اس کو اپنے شعور میں آخری حد تک پختہ کریں اور دنیا پرستی کے مقابلے میں ڈٹ جائیں۔

بے خبر تو جوہر آئینۂ ایام ہے
تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے

اگر ہم نے ایسا نہ کیا توبلاشبہ ہم بارگاہ احدیت کے مجرم قرار پائیں گے۔

اصلاح کا عملی طریقہ

ہم نے پیچھے جو کچھ بیان کیا اس کے حصول کا عملی ضابطہ بھی دین نے خود ہی بیان کیا ہے۔اصلاح معاشرہ کے اس ضابطے کے تین بنیادی عناصر ہیں۔ ریاست، علما اور فرد۔ہم اس تحریر میں صرف فرد سے متعلق دیے گئے طریقۂ کار پر گفتگو کریں گے ، کیونکہ وہی ہمارا مخاطب ہے۔ نیز اس دور میں اصلاح معاشرہ سے متعلق فرد کی ذمہ داریوں کے بارے میں افراط و تفریط کا رویہ عام ہوگیا ہے۔ جس کے نتیجے میں عام لوگوں پر ان کی استعداد سے زیادہ بوجھ ڈالاجاتا ہے اور پھر بھی مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہوتے ۔ اس لیے فرد کو اس کی ذمہ داریوں کے سلسلے میں باشعور بنانا ضروری کام ہے۔

ایک عام فرد سے ، عام حالات میں جو دینی مطالبات لازماً مطلوب ہیں ، وہ قرآن کریم کی سورۂ عصر میں اس طرح بیان کیے گئے ہیں:

''زمانہ گواہی دیتا ہے کہ یہ انسان خسارے میں پڑ کر رہیں گے۔ہاں، مگر وہ نہیں جو ایمان لائے، اور انھوں نے نیک عمل کیے، اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور حق پر ثابت قدمی کی نصیحت کی''۔ ( ۱۰۳: ۱۔۳)

قرآن کریم کی یہ سورت واضح طور پر یہ بتاتی ہے مذکورہ بالا اعمال خسارے سے بچنے کا یقینی ذریعہ ہیں۔ بلاشبہ یہ خسارہ آخرت کا ہے ، مگر ایک مسلمان گروہ کے لیے یہ اعمال دنیا میں بھی نجات کے ضامن ہیں۔اس مضمون میں ایمان اور عمل صالح ہمارا موضوع نہیں ۔ البتہ تواصو بالحق و تواصو بالصبر (یعنی ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور حق پر ثابت قدمی کی تلقین کرنا) کے حکم پر ہم تفصیل سے گفتگو کرنا چاہیں گے۔

تواصو بالحق اور تواصو بالصبر کی اہمیت

اس حکم کی اہمیت کو جاننے کے لیے اس بات کو سمجھناضروری ہے کہ معاشرے میں برائیاں اس وقت پھیلتی ہیں جب لوگ اپنے اردگرد کے ماحول سے بے پروا ہوکر زندگی گزارنا شروع کردیتے ہیں۔ انسان اپنی زندگی تنہا کسی کھوہ ، جنگل یا غار میں نہیں گزارتا ، بلکہ لوگوں کے درمیان ایک خاندان کی صورت میں رہتا بستا ہے۔وہ جب کسی برائی کا ارتکاب کرتا ہے تو ایسا نہیں ہوتا کہ اس کے دوست، احباب، اہل خانہ اور متعلقین اس بات سے بے خبر رہ جائیں۔ ایسے میں اس شخص کے قریبی حلقے کے لوگ اگر اس برائی کے ارتکاب پر اسے فوراً ٹوک دیں تو اس کے رجوع کرنے اور لوٹنے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں، لیکن ا س کے برخلاف اگر یہ لوگ اس کی بدعملی کو معمولی بات سمجھ کر نظر انداز کردیں یا اس کے شریک کار اور اس کی حوصلہ افزائی کرنے والے بن جائیں تو ایسا شخص اطمینان کے ساتھ بدترین جرائم کا ارتکاب کرتا چلا جائے گا اور اسے احساس تک بھی نہ ہوگا۔

ہمارے معاشرے میں جب ایک شخص رشوت لیتا ہے تو اکثر و بیش تر اس کے گھر والے اس بات سے آگاہ ہوتے ہیں۔ وہ اگر حرام کے اس پیسے کو قبول کرنے سے انکار کردیں ، اسے سمجھائیں کہ یہ پیسہ نہیں ، جہنم کے انگارے اور سانپ اور بچھو ہیں تو کسی بھی رشوت خور کے لیے اس پیسے کو گھر لے جانا بہت مشکل ہوگا۔اس کے برخلاف جب گھر والے اپنے مفادات کی خاطر اس گناہ پر آنکھیں بند کرلیتے ہیں تو معاشرے پر ایک ظالم اور بد عنوان شخص مستقل طور پر مسلط ہوجاتا ہے۔ پھراس کے ساتھی اہلکار اور ماتحت اسے روکنے کے بجائے اسے رشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں تو یہیں سے اس اخلاقی بگاڑ کا پوراسلسلہ شروع ہوتا ہے جس کی بہت کچھ تفصیل ہم اوپر بیان کرچکے ہیں۔

اس پس منظر میں آپ ''تواصو بالحق و تواصو بالصبر'' کے اس حکم کی اہمیت کو سمجھیں جس کے تحت ایک شخص جب دوسروں کو حق سے دور دیکھتا ہے تو اسے اختیار کرنے کی دعوت دیتا ہے اور جب کوئی فرد کسی بنا پر حق کوچھوڑنے لگتا ہے تو وہ اسے اس حق پر ڈٹے رہنے کی تلقین کرتا ہے۔اس حکم کا لازمی نتیجہ ہے کہ زندگی میں پہلی دفعہ رشوت لینے والے کے دوست، احباب اور متعلقین میں سے کوئی نہ کوئی اسے ٹوک دے گا۔ کسی قریبی آدمی کا برائی پراس طرح ٹوکنا کوئی معمولی بات نہیں ۔ہر شخص اپنے قریبی لوگوں میں،جن میں وہ زندگی گزارتا ہے، صاحب عزت و شرف بن کر رہنا چاہتا ہے۔ان کی نصیحت اور فہمایش سے اس کی ہمت ٹوٹ جائے گی ۔ برائی کی طرف اٹھنے والے اس کے قدم کمزور پڑ جائیں گے۔کچھ نہ بھی ہو تو کم از کم برائی اس کی نظر میں برائی کے طور پر زندہ رہے گی ۔ یہی احساس ایک دن اسے توبہ پر آمادہ کردے گا۔

تواصو بالحق و تواصو بالصبر ایک لازمی حکم

''تواصو بالحق و تواصو بالصبر '' کے حکم کے متعلق یہ بات جان لینی چاہیے کہ دین کا یہ حکم ایک مسلمان کی لازمی ذمہ داریوں میں سے ہے جو ایمان و عمل صالح کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ قرآن میں بیان ہوئی ہے۔قرآن و حدیث میں جگہ جگہ اس ذمہ داری کی طرف لوگوں کی توجہ دلائی گئی ہے۔اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حکم کی تشریح کرتے ہوئے ایک دوسری تعبیربھی اختیار کی ہے جسے ہم عام طور پر امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے نام سے جانتے ہیں۔ قرآن کہتاہے کہ ایک دوسرے کو نیکی کی نصیحت کرنا اور برائی سے روکنا ہرصاحب ایمان مرد و عورت کا لازمی وصف ہے۔سورۂ توبہ میں اس بات کو یوں بیان کیا گیا ہے:

''اور مومن مرد اور مومن عورتیں، یہ ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔باہم دگربھلائی کی نصیحت کرتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں۔''( ۹: ۷۱)

تواصو بالحق و تواصو بالصبر:چند اہم نکات

دین کے اس بنیادی حکم پر عمل کرتے ہوئے چند باتیں واضح رہنی چاہییں۔پہلی یہ کہ نماز روزے کی طرح اس حکم کے کوئی مخصوص اوقات متعین نہیں ، بلکہ ایک مسلمان کو اس فریضے کی ادائیگی کے لیے ہمیشہ ذہناً تیار رہنا چاہیے۔جب کبھی حق سے کوئی انحراف اس کے سامنے آئے تو ضروری ہے کہ وہ کسی مفادیا اندیشہ کی پرواکیے بغیر اپنی ذمہ داری پوری کرے۔

دوسری بات یہ ہے کہ یہ عمل دو طرفہ ہوتاہے۔یعنی ایک وقت میں اگر ایک آدمی دوسر ے کو کسی حق کی تلقین و نصیحت کررہا ہے تو کسی اور وقت میں دوسراپہلے کی توجہ اس کی کسی کوتاہی کی طرف دلا سکتا ہے۔آج ایک شخص کی کسی برائی کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے تو کل یہی شخص دوسرے کو اس کی غلطی پر نصیحت کرے گا۔اس طرح مسلم معاشرہ کا ہر شخص دین و اخلاق پر عمل کرنے والا بھی بن جاتا ہے اور اس کی رکھوالی کرنے والا بھی۔ہم بتاچکے ہیں کہ کسی معاشرے میں برائی کو پھیلنے سے روکنے کا اس سے زیادہ موثر ذریعہ کوئی نہیں ہوسکتا۔

تیسری بات یہ ہے کہ یہ کام اصلاً اپنے ماحول اور حلقے میں کرنے کا ہے۔یعنی اس کام میں انسان کا دائرۂ عمل وہ ہے جہاں وہ خود بنفس نفیس موجود ہوتا ہے۔یعنی اس کا گھر، دفتر، دوست، محلہ وغیرہ۔اس میں کوئی خیر نہیں کہ ایک انسان دنیا بھر میں تو نیکی کو عام کررہا ہو ، مگر اس کا اپنا قریبی حلقہ اس کے فیض سے محروم رہ جائے ۔

چوتھی بات یہ ہے کہ اس حلقے میں بھی جو جتنا قریب ہوگا ، اسی قدر یہ ذمہ داری زیادہ ہوگی۔یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ انسان سے سب سے قریب اس کے گھر والے ہوتے ہیں جن میں اس کے وقت کا بیش تر حصہ بسر ہوتا ہے۔چنانچہ اپنے گھر والوں کی اصلاح و ہدایت کے لیے انسان کو سب سے زیادہ حساس ہونا چاہیے۔

پانچویں بات یہ ہے کہ جس قریبی حلقے اور ماحول کو انسان کا دائرۂ عمل قرار دیا گیا ہے ، وہیں اس کا ایک دائرۂ اختیار بھی ہوتا ہے۔ مثلاً شوہر کے لیے بیوی اورماں باپ کے لیے اولاد وغیرہ۔چنانچہ اس دائرے کے بارے میں ہدایت دی گئی ہے کہ یہاں انسان اپنا اختیار استعمال کرکے ہر منکر کو روکنے کی کوشش کرے۔ یہ بات ایک حدیث میں اس طرح بیان ہوئی ہے:

''حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے جو شخص (اپنے دائرۂ اختیار میں) کوئی منکر دیکھے اس کو ہاتھ سے روک دے۔ اگر اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو زبان سے روکے۔ اگر اس کی طاقت بھی نہ رکھتا ہو تو دل سے براجانے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔'' (مسلم)

اس حدیث میں طاقت رکھنے کے الفاظ اپنے اختیار کو نافذ کرنے کے حوصلہ وہمت کو بیان کررہے ہیں۔ اس سے یہ مراد قطعاً نہیں کہ اپنے دائرۂ اختیار سے باہر انسان کو طاقت استعمال کرنی چاہیے اور ایسا نہ کرے تو یہ اس کے ضعف ایمان کی نشانی قرار پائے ۔ مثلاً ایک باپ کے لیے بیٹی اس کے اس دائرۂ اختیار میں ہے۔چنانچہ اس کے کسی غلط عمل کو دیکھ کر باپ کو اسے روکنا چاہیے۔ مثلاً اگر وہ گھر سے باہر جسم کشا لباس پہن کر نکلتی ہے تو بیٹی کو روکنا اس کی ذمہ داری ہے ۔ حدیث کا یہ حکم اس باپ سے متعلق ہے۔ اگر وہ اپنی بیٹی کونہیں روکتا تو اپنے ضعف ایمان کا ثبوت دیتا ہے۔اس حکم کا کوئی تعلق اس بات سے نہیں کہ ایک عام آدمی کسی راہ چلتی خاتون کو ، جس نے چادر نہ اوڑھ رکھی ہو زبردستی چادر اوڑھانے کی کوشش کرے۔ اتنی طاقت نہیں تو اسے برا بھلا کہے اوراتنی طاقت بھی نہیں تو اسے دل سے برا سمجھے اور اس حالت میں وہ کم زور ترین ایمان کا حامل ہوگا۔ اس منطق کا دین سے کوئی تعلق نہیں۔

چھٹی بات یہ ہے کہ قرآن میں بیان کردہ معروف و منکر کے الفاظ سے مراد عقل و فطرت اور دین و شریعت کے مسلمات ہیں۔ مثلاً امانت و دیانت مسلمہ اخلاقی اقدار ہیں۔ جھوٹ ایک ثابت شدہ برائی ہے۔ زنامذہب ومعاشرے کی نگاہ میں یکساں طور پر جرم ہے۔اسی طرح عبادات میں نمازمسلمہ طور پر شریعت کا حکم ہے، لیکن وہ معاملات جن پر علمی طور پر ایک سے زیادہ آرا پائی جاتی ہیں، اس دائرے میں نہیں آتے ۔لہٰذا ایسے کسی معاملے میں کوئی شخص ایک نقطۂ نظر کا حامل ہونے کے باوجود اپنے حلقۂ اختیار میں اسے منوانے کا مکلف نہیں۔مثلاً عصر کی نماز کے وقت کے بارے میں امت میں ایک سے زیادہ آرا پائی جاتی ہیں۔چنانچہ نماز کا حکم تو زیردستوں کو دینا چاہیے ، مگر وقت کے سلسلے میں کسی جبر سے احتراز کرنا چاہیے ، کیونکہ یہ کوئی دینی مسلمہ نہیں۔

ساتویں اور آخری بات یہ ہے کہ ایمان اور عمل صالح کے برخلاف جو انسان کا ذاتی فعل ہے، حق کی نصیحت اور اس پر صبر کی تاکید کا عمل چونکہ دوسروں سے متعلق ہے ، اس لیے اس میں حکمت کا خیال رکھنا از حد ضروری ہے۔اس حکمت میں مخاطب کی ذہنی استعداداور اس کی نفسیات وغیرہ کا لحاظ رکھنا بہت اہم ہے۔اسی طرح اپنی حد کو پہچاننا اور اسی تک محدود رہنا بھی ضروری ہے۔مخاطب کے لیے دل میں محبت وخیر خواہی کا جذبہ اور گفتگو میں نرمی اور حکمت کا ہونا بھی ضروری ہے۔ ان چیزوں کو نظر انداز کرکے جب یہ کام کیا جائے گا تو ہمیشہ الٹے نتائج پیدا کرے گا اور لوگوں کے دل میں دین کی بے وقعتی اور معاشرے میں فساد پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔

آخری بات

اس تحریر کے آخر میں ہم قارئین کی توجہ اسی چیز کی طرف مبذول کرانا چاہیں گے جہاں سے بات کا آغاز ہوا تھا۔یعنی ہم لوگ کثرت سے اپنے معاشرے کے اخلاقی بگاڑ پر گفتگو کرتے ہیں اور اپنی فکر مندی کا اظہار کرتے ہیں ، مگر یہ گفتگو کرتے ہوئے ہم اکثر یہ فراموش کردیتے ہیں کہ ہم بھی اس قوم اور معاشرے کے افراد ہیں۔ یہ صورت حال اگر پیدا ہورہی ہے تو ہم اس پر صرف اظہار افسوس کرکے اپنی جان نہیں چھڑا سکتے۔یہ ہماری، مذہبی، قومی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ ہم آگے بڑھیں اور کم از کم اپنے دائرے میں غلط رویوں کے خلاف ایک جدو جہد شروع کردیں۔ اس سلسلے میں جو ہماری ذمہ داری تھی ، وہ ہم نے حتی الامکان پوری کرنے کی کوشش کی ہے۔ صورت حال کا ایک مکمل تجزیہ کرکے ہم نے یہ بتادیا ہے کہ مرض کیا ہے، اسباب کیا ہیں اور علاج کیا ہے۔اب اپنے طرز عمل کا فیصلہ آپ کو کرنا ہے۔

جو لوگ اپنی قوم کے حالات سے پہلو تہی کرکے اپنی ذات میں مگن ہوجاتے ہیں اور صرف زبانی تبصروں پر گزارا کرلیتے ہیں، تاریخ بتاتی ہے کہ وہ خسارے میں پڑ کررہتے ہیں۔ آج ہم یقیناًاس خسارے کا شکار ہیں۔اس افسوس ناک صورت حال کا مشاہدہ خاندان کے ادارے سے لے کر قومی اداروں تک ، ہر جگہ کیا جاسکتا ہے۔بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اخلاقی معیارات کی پابندی کرنے والے لوگ اب استثنائی حیثیت رکھتے ہیں۔ان حالات میں ہم پرفرض کے درجہ میں یہ چیز لازم ہوچکی ہے کہ ہم اس صورت حال کو بدلنے کے لیے جدوجہد شروع کریں۔ اس معاملے میں اپنے لوگوں کی تربیت کریں۔ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو یقیناًہمیں بدترین تباہی کا سامنا کرنا ہوگا۔

____________
 
Top