محمد وارث

لائبریرین
بھئی وہ منظر بھی بڑا "حسرتناک" ہوتا ہے جب سارا دفتر یا گھر ایک ایک سے زائد گلاب جامن کھا رہا ہوتا ہے اور آپ بغیر چینی کے کڑوی چائے کے گھونٹ بھر رہے ہوتے ہیں اور ایک ایک گھونٹ کے ساتھ نہ جانے کتنے خون کے گھونٹ بھی بھرنے پڑتے ہیں :)

خیر، اگر میری اور میرے جیسوں کو اللہ تعالیٰ نے اندرونی مٹھاس میں خود کفیل کر کے باہر سے مزید سپلائی بند کر دی ہے تو کیا غم کہ اپنے شعراء و اُدَبا اور انکی لطیف باتیں اور شاعری تو ساتھ ہیں جو یقین مانیں کسی بھی گلاب جامن سے زیادہ مزا رکھتی ہیں :)

ہفتۂ شعر و ادب کے ایک اور سلسلے کے ساتھ یہ خاکسار آپ کی خدمت میں حاضر ہے، آپ سے استدعا ہے کہ یہاں کوئی بھی ایسا لطیفہ جسکا کسی حوالے سے شعر و ادب یا فنونِ لطیفہ کے ساتھ تعلق ہو، کوئی لطیف بات یا واقعہ، کوئی طنزیہ و مزاحیہ کلام (ویب کی دنیا میں غیر مطبوعہ ہو تو نورً علیٰ نور)، ادیبوں کے کارٹونز وغیرہ ہمارے ساتھ شیئر کریں، تا کہ یہ "نمک پارے" پڑھ پڑھ کر مجھ جیسوں کا "غمِ شیریں و غمِ شیرینی" کچھ تو کم ہو اور دیگر احباب، کہ اللہ تعالیٰ انکی شیرینی (اور شیریں) سلامت رکھے اپنے اپنے گلاب جامنوں کے لطف کو دوبالا کر سکیں :)
 

محمد وارث

لائبریرین
مولانا حالی نے 1906ء میں ایک 'ال نامہ' لکھ کر اپنے ایک دوست کو بھیجا تھا، وہ لکھ رہا ہوں مشکل فارسی جملوں کا یہ خاکسار اردو ترجمہ بھی لکھ رہا ہے۔

المذہب - اعلانِ جنگ

الدّین - تقلیدِ آباء و اجداد

العلم - قسمے از جہلِ مرکب - جہل مرکب کی ایک قسم

الامتحان - آزمائشِ لیاقتِ ممتحنان - امتحان لینے والوں کی لیاقت کی آزمائش

الیونیورسٹی - کارخانۂ کلرک سازی

الکمیشن - وجہ موجہ برائے فیصلۂ یک طرفہ - یک طرفہ فیصلہ کرنے کا سب سے بہتر طریقہ

الانجمن ہائے اسلامیہ - سبزۂ برشگال - برسات کا سبزہ یعنی فصلی بٹیرے

الرئیس - آنکہ از ریاست بے خبر باشد - وہ جو کہ اپنی ریاست سے بے خبر رہے۔

الامیر - آنکہ تہی دست و قرضدار باشد - وہ جو کہ کنگال اور قرضدار ہو۔

المولوی - آنکہ جمیع مسلماناں را از دائرۂ اسلام خارج می کند - وہ جو کہ تمام مسلمانوں کو دائرۂ اسلام سے خارج کر دے۔

الواعظ - آنکہ در تفریق بین المسلمین خطا نہ کند - وہ کہ جو مسلمانوں کے درمیان نفاق پھیلانے سے نہ چُوکے۔

-------
ماخذ: : "نقوش طنز و مزاح نمبر"، لاہور 1959ء
 

محمد وارث

لائبریرین
ایک مرتبہ مولانا حالی کے پاس مولوی وحید الدین سلیم (لٹریری اسسٹنٹ سر سید احمد خان) بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص آیا اور مولانا حالی سے پوچھنے لگا۔

"حضرت، میں نے غصہ میں آ کر اپنی بیوی سے کہہ دیا کہ تجھ پر تین طلاق، لیکن بعد میں مجھے اپنے کیے پر افسوس ہوا، بیوی بھی راضی ہے مگر مولوی کہتے ہیں کہ طلاق پڑ گئی، اب صلح کی کوئی شکل نہیں، خدا کے لیے میری مشکل آسان فرمائیں اور کوئی ایسی ترکیب بتائیں کہ میری بیوی گھر میں دوبارہ آباد ہو سکے۔"

ابھی مولانا حالی کوئی جواب نہیں دینے پائے تھے کہ مولوی سلیم اس شخص سے کہنے لگے۔

"بھئی یہ بتاؤ کہ تُو نے طلاق 'ت' سے دی تھی یا 'ط' سے؟"

اس شخص نے کہا۔ "جی میں تو ان پڑھ اور جاہل آدمی ہوں، مجھے کیا پتہ کہ ت سے کیسی طلاق ہوتی ہے اور ط سے کیسی ہوتی ہے۔"

مولوی صاحب نے اس سے کہا کہ "میاں یہ بتاؤ کہ تم نے قرأت کے ساتھ کھینچ کر کہا تھا کہ "تجھ پر تین طلاق" جس میں ط کی آواز پوری نکلتی ہے یا معمولی طریقہ پر کہا تھا جس میں ط کی آواز نہیں نکلتی بلکہ ت کی آواز نکلتی ہے۔"

بیچارے غریب سوال کنندہ نے کہا۔ "جی مولوی صاحب، میں نے معمولی طریقہ پر کہا تھا، قرأت سے کھینچ کر نہیں کہا تھا۔"

یہ سننے کے بعد مولوی سلیم صاحب نے پورے اطمینان کے ساتھ اس سے کہا۔

"ہاں بس معلوم ہو گیا کہ تُو نے ت سے تلاق دی تھی اور ت سے کبھی طلاق پڑ ہی نہیں سکتی، ت سے تلاق کے معنی ہیں 'آ محبت کے ساتھ مل بیٹھ'، تُو بے فکر ہو کر اپنی بیوی کو گھر لے آ، اور اگر کوئی مولوی اعتراض کرے تو صاف کہہ دیجو کہ میں نے تو ت سے تلاق دی تھی ط سے ہر گز نہیں دی۔"

-----
م - "نقوش"
 

محمد وارث

لائبریرین
جوش ملیح آبادی کے صاحبزادے سجّاد کی شادی کی خوشی میں ایک بے تکلف محفل منقعد ہوئی جس میں جوش کے صاحب کے دیگر دوستوں کے ساتھ ساتھ انکے جگری دوست ابن الحسن فکر بھی موجود تھے۔

ایک طوائف نے جب بڑے سُریلے انداز میں جوش صاحب کی ہی ایک غزل گانی شروع کی تو فکر صاحب بولے:

"اب غزل تو یہ گائیں گی، اور جب داد ملے گی تو سلام جوش صاحب کریں گے۔"

------
ماخذ: "اہل قلم کی شوخیاں" مرتبہ عطش درانی، میری لائبریری، لاہور 1986ء ("شوخیاں")
 

محمد وارث

لائبریرین
مولانا عبدالرحمٰن جامی مشہور فارسی شاعر اور صوفی بزرگ تھے اور عوام الناس کے ساتھ ساتھ صوفی منش لوگ بھی انکی خدمت میں حاضری دیا کرتے تھے۔

ایک دفعہ ایک مہمل گو شاعر جس کا حلیہ صوفیوں جیسا تھا، انکی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے سفرِ حجاز کی طویل داستان کے ساتھ ساتھ ان کو اپنے دیوان سے مہمل شعر بھی سنانے لگا، اور پھر بولا۔

"میں نے خانہ کعبۂ پہنچ کر برکت کے خیال سے اپنے دیوان کو حجرِ اسود پر ملا تھا۔"

یہ سن کر مولانا جامی مسکرائے اور فرمایا۔

"حالانکہ ہونا یہ چاہیئے تھا کہ تم اپنے دیوان کو آبِ زم زم میں دھوتے۔"

------
ماخذ: "علمی و ادبی لطیفے" مرتبہ قمر تسکین
 

محمد وارث

لائبریرین
کوئی دلِ بیمار کو ڈانٹے کہ ٹھہَر بھی
او تھالی کے بینگن تو اِدھر بھی ہے اُدھر بھی

گہہ رُخ پہ نقاب اس کے ہے گہہ ہاتھ میں تلوار
معشوق وہ معشوق جو مادہ بھی ہو، نر بھی

تحریر کا عنواں نئی تہذیب نے بدلا
معشوق کے القاب میں ہے مائی ڈیر بھی

کہتی ہے سدا صاحبِ مقدور کی اولاد
ترکہ ملے ہم کو، ارے جلدی کہیں مر بھی

بلبل کہو تم شوق سے ایسے شعراء کو
اک چونچ بھی جس کی ہو، ظریف، اور ہوں پر بھی

(ظریف لکھنوی)

-----
م - "نقوش"
 

نایاب

لائبریرین
کوئی دلِ بیمار کو ڈانٹے کہ ٹھہَر بھی
او تھالی کے بینگن تو اِدھر بھی ہے اُدھر بھی

گہہ رُخ پہ نقاب اس کے ہے گہہ ہاتھ میں تلوار
معشوق وہ معشوق جو مادہ بھی ہو، نر بھی

تحریر کا عنواں نئی تہذیب نے بدلا
معشوق کے القاب میں ہے مائی ڈیر بھی

کہتی ہے سدا صاحبِ مقدور کی اولاد
ترکہ ملے ہم کو، ارے جلدی کہیں مر بھی


بلبل کہو تم شوق سے ایسے شعراء کو
اک چونچ بھی جس کی ہو، ظریف، اور ہوں پر بھی

(ظریف لکھنوی)

-----
م - "نقوش"

السلام علیکم
واہ
زبردست
محترم ظریف لکھنوی نے مزاح میں کیا رنگ باندھا ہے حقیقت کا ۔
بہت شکریہ وارث بھائی
نایاب
 

محمد وارث

لائبریرین
میں پڑوسی ہوں بڑے دیں دار کا
کیا بگڑتا ہے مگر مے خوار کا؟

ہم وطن کے ہیں، وطن سرکار کا
حکم چلتا ہے مگر زردار کا

خشک لب کھیتوں کو پانی چاہیے
"کیا کریں گے ابرِ گوہر بار کا"

یہ "چھچھورا شخص" پہچانے اسے؟
خون ہے اس میں کسی سرکار کا

پھر رہا ہے ناک کٹوائے ہوئے
ہائے رتبہ شاعرِ دربار کا

سو گئی ہو جیسے گھوڑے بیچ کر
ہے وہ عالم قسمتِ بیدار کا

واں کسی انصاف کی امّید کیا
ہو بڑا ٹکڑا جہاں سرکار کا

بعض احمق تک رہے ہیں آج بھی
آسرا گرتی ہوئی دیوار کا

جب سے پی ہے، پی رہا ہے آج تک
شیخ بھی ہے آدمی کردار کا

مجھ سے بہتر ہیں مرے اشعار شاد
باڑھ کاٹے، نام ہو تلوار کا

(شاد عارفی)
 

محمد وارث

لائبریرین
بمبئی (ممبئی) میں جوش صاحب (جوش ملیح آبادی) ایک ایسے مکان میں ٹھہرے جس میں اوپر کی منزل پر ایک اداکارہ رہتی تھی، لیکن مکان کی ساخت کچھ ایسی تھی کہ انہیں دیدار نہ ہو سکتا تھا، لہذا انہوں نے یہ رباعی لکھی:

میرے کمرے کی چھت پہ اُس بُت کا مکان
جلوے کا نہیں ہے پھر بھی کوئی امکان
گویا اے جوش میں ہوں ایسا مزدور
جو بھوک میں ہو سر پہ اُٹھائے ہوئے خوان

-----
م - "شوخیاں"
 

شاہ حسین

محفلین
پن کھلا ، ٹائی کھُلی ، بکلس کھُلے ، کالر کھُلا
کھُلتے کھُلتے ڈیڑھ گھنٹے میں کہیں افسر کھُلا
آٹھ دس کی آنکھ پھوٹی آٹھ دس کا سر کھُلا
نو خطیب شہر کی تقریر کا جوہر کھُلا
سچ ہے مغرب اور مشرق ایک ہو سکتے نہیں
اس طرف بیوی کھُلی ہے اس طرف شوہر کھُلا
تیرگی قسمت میں آتی ہے تو جاتی ہی نہیں
میرے گھر کے بالمقابل کوئیلہ سنٹر کھُلا
کوئی ٹوکے روکے اُن کو یہ بھلا کس کی مجال
مولوی گل شیر ہے قصبے میں شیر نر کھُلا
اُن کا دروازہ تھا مُجھ سے بھی سوا مشتاق دید
میں نے باہر کھولنا چاہا تو وہ اندر کھُلا
آدمی احساس منصب کے مطابق قید ہے
دیکھ لو ڈپٹی کمشنر بند ہے ریڈر کھُلا

سیّد ضمیر جعفری
 

شاہ حسین

محفلین
''کیسا غنڈا تھا ! ''

اس خبر پر تو نہیں مجھ کو تعجب اے فگار
ایک غنڈہ حلقہ بجنور میں پکڑا گیا
ہاں اگر تھوڑی سی حیرت ہے تو صرف اس بات پر
کیسا غنڈہ تھا کہ وہ اس دور میں پکڑا گیا


دلاور فگار
 

شاہ حسین

محفلین
شاعر اعظم

کل اک ادیب و شاعر و ناقد ملے ہمیں
کہنے لگے کہ آؤ ذرا بحث ہی کریں
کرنے لگے یہ بحث کہ اب ہند و پاک میں
وہ کون ہے کہ شاعر اعظم جسے کہیں
میں نے کہا جگر تو کہا ڈیڈ ہو چکے
میں نے کہا جوش کہا قدر کھو چکے
میں نے کہا فراق کی عظمت پہ تبصرہ
بولے فراق "شاعر اعظم ارا درا"
میں نے کہا ندیم ۔۔تو بولے جرنلسٹ
میں نے کہا رئیس۔۔تو بولے سٹائرسٹ
میں نے کہا حضرتِ ماہر بھی خوب ہیں
کہنے لگے کہ ان کے یہاں بھی عیوب ہیں
میں نے کہا کچھ اور ، تو بولے کہ چپ رہو
میں چپ رہا تو کہنے لگے اور کچھ کہو
میں نے کہا کہ " ساحر و مجروح و جاں نثار
بولے کہ " شاعروں میں نہ کیجئے انہیں شمار"
میں نے کہا کلام روش لا جواب ہے "
کہنے لگے کہ ان کا ترنم خراب ہے
میں نے کہا ترنم نور پسند ہے
کہنے لگے کہ ان کا وطن دیوبند ہے
میں نے کہا ان کی غزل صاف و پاک ہے
بولے کہ ان کی شکل بڑی خوفناک ہے
(۱)مولانا نور صابری
میں نے کہا یہ جو ہیں محشر عنایتی؟
کہنے لگے کہ رنگ ہے ان کا روایتی
میں نے کہا قمر کا تغزل ہے دلنشیں
کہنے لگے کہ ان میں تو کچھ جان ہی نہیں
میں نے کہا نیاز تو بولے کہ عیب ہیں
میں نے کہا سرور تو بولے کہ نکتہ چیں
میں نے کہا ظریف تو بولے کہ گندگی
میں نے کہا سلام تو بولے کہ بندگی
میں نے کہا فراز تو بولے کہ زیر و بم
میں نے کہا عدم تو کہا وہ بھی کالعدم
میں نے کہا خمار کہا فن میں کچے ہیں
میں نے کہا شاد تو بولے کہ بچے ہیں
میں نے کہا طنز نگاروں میں دیکھئے
بولے کہ سیکڑوں میں ہزاروں میں دیکھئے
میں نے کہا شاعر اعظم ہیں جعفری
کہنے لگے کہ آپ کی ہے ان سے دوستی
میں نے کہا یہ جو ہیں محشر عنایتی
کہنے لگے کہ آپ ہیں ان کے حمایتی
میں نے کہا ضمیر کے ہیومر میں فکر ہے
بولے یہ کس کا نام لیا کس کا ذکر ہے
میں نے کہا یہ جو دلاور فگار ہیں
بولے کہ وہ تو صرف ظرافت نگار ہیں
میں نے کہا مزاح میں اک بات بھی تو ہے
بولے کہ اس کے ساتھ خرافات بھی تو ہے
میں نے کہا تو شاعر اعظم کوئی نہیں
کہنے لگے یہ بھی کوئی لازمی نہیں
میں نے کہا تو کس کو میں شاعر بڑا کہوں
کہنے لگے کہ میں بھی اسی کشمکش میں ہوں
بایان کار ختم ہوا جب یہ تبصرہ
میں نے کہا حضور تو بولے کہ شکریہ


دلاور فگار
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ایک مرتبہ مولانا حالی سہارن پور تشریف لے گئے اور وہاں ایک معزز رئیس کے پاس ٹھہرے جو بڑے زمیندار بھی تھے۔ گرمی کے دن تھے اور مولانا کمرے میں بیٹھے تھے۔ اسی وقت اتفاق سے ایک کسان آ گیا۔ رئیس صاحب نے اس سے کہا کہ " یہ بزرگ جو آرام کر رہے ہیں ان کو پنکھا جھل۔" وہ بے چارہ پنکھا جھلنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے چپکے سے رئیس صاحب سے پوچھا کہ " یہ بزرگ جو پلنگ پر سو رہے ہیں کون ہیں؟ میں نے ان کو پہلی مرتبہ یہاں دیکھا ہے۔" رئیس نے جواب دیا۔ " کم بخت! تُو ان بزرگ کو نہیں جانتا حالانکہ سارے ہندوستان میں ان کا شہرہ ہو رہا ہے۔ یہ مولوی حالی ہیں۔" اس پر غریب کسان نے بڑے تعجب سے کہا۔ "جی کبھی ہالی بھی مولوی ہوئے ہیں۔" (وہ کسان حالی کو ہالی سمجھا جس کے معنی ہل چلانے والے کے ہیں)
مولانا لیٹے ہوئے تھے، سو نہیں رہے تھے۔ کسان کا یہ فقرہ سُن کر پھڑک اُٹھے۔ فوراً اُٹھ کر بیٹھ گئے اور رئیس صاحب سے فرمانے لگے۔ "حضرت! اس تخلص کی داد آج ملی ہے۔"

شیخ محمد اسماعیل پانی پتی
(اردو کا بہترین مزاحیہ ادب۔ منو بھائی)
 

محمد وارث

لائبریرین
نقوش ادبی معرکے نمبر 1981ء

نقوش ادبی معرکے نمبر 1981ء سے پاکستان کے مشہور کارٹونسٹ جاوید اقبال کے کچھ دلچسپ کارٹونز۔
C_8.jpg
 
Top