ہزاروں غلطیاں ایسی کہ ہر غلطی پہ!,,,,,نیر زید ی واشنگٹن

عراق کی جنگ کو ہینڈل کرنے میں بش انتظامیہ نے غالباً ہزاروں "TACTICAL MISTAKES" کی ہیں۔ ایک دو نہیں بلکہ ہزاروں؟ جمعہ 31/مارچ کو رات میں نیٹ پر امریکی وزیر خارجہ کونڈولیزارائس کا دورہ برطانیہ کا یہ بیان پڑھ کر میں چونکا۔ انسانوں کی اس دنیا میں جنگ سب سے بے رحمانہ اجتماعی فعل ہے۔ ابھی اس جنگ کو تین برس اور چند روز ہوئے ہیں یعنی تقریباً گیارہ سو دن۔ گویا روزانہ غلطیاں ہو رہی ہیں اور ان غلطیوں کا خمیازہ عراقی عوام بھگت رہے ہیں؟ امریکیوں کا تو صرف پیسہ خرچ ہو رہا ہے اور خرچ بھی کیا یہ پیسہ ٹیکس دہندگان کے خزانے سے مٹھی بھر کاروباری اداروں کی جیب میں جا رہا ہے ہاں تقریباً ڈھائی ہزار امریکی بھی مرے ہیں لیکن وہ تنخواہ دار تھے اور ان کے ورثا کو امریکی حکومت کچھ نہ کچھ معاوضہ دے رہی ہے۔ہم اب انگریزی الفاظ کے اتنے عادی ہو گئے ہیں کہ اگر ترجمے میں صحیح لفظ تلاش بھی کر لیا جائے تو شاید کوئی سمجھے بھی نہیں۔ لفظ STRATEGIC کا مطلب ہوتا ہے طویل المعیاد، دوررس یا فعل کا اصل مقصد آپ کی بالآخر منزل اور TACTICAL وہ افعال یا اقدامات ہوتے ہیں جو اس منزل تک پہنچنے کیلئے کئے جاتے ہیں۔ بیٹے نے باپ کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ باپ کی دولت اسے میراث میں مل جائے۔ یہ فیصلہ STRATEGIC کہلائے گا۔ اب باپ کو قتل کرنے کیلئے بیٹا زہر دیتا ہے، کنوئیں میں دھکا دیتا ہے،کرائے کا قاتل لاتا ہے اور وہ قاتل خنجر استعمال کرتا ہے یا پستول یہ تمام تفصیلات TACTICAL کہلاتی ہیں۔ زیادہ تر قارئین ان اصلاحات سے واقف ہیں لیکن میری کوشش ہوتی ہے کہ اگر نوجوان افراد پڑھ رہے ہوں تو بنیادی تصور ان کے ذہن میں بیٹھ جائے جو عرصے تک کام آتا ہے۔انگلینڈ میں BLACKBURN کے مقام پر تقریر کے دوران امریکی وزیر خارجہ سے پوچھا گیا کہ کیا بش انتظامیہ نے اپنی گزشتہ تین برس کی غلطیوں سے کوئی سبق سیکھا ہے۔ مس RICE نے کہا کہ انتظامیہ کے افسران کو اگر یہ احساس نہیں ہوا ہے کہ انہوں نے کہاں غلطی کی ہے تو وہ "BRAIN DEAD" ہوں گے یعنی ان کا دماغ مردہ ہو گا۔ مندرجہ ذیل ان کے جواب کا لفظی ترجمہ ہے۔ ”مجھے معلوم ہے کہ ہم نے TACTICAL غلطیاں کی ہیں، غالباً ہزاروں غلطیاں، مجھے یقین ہے لیکن جب ہم مڑ کر تاریخ پر نظر ڈالیں گے تو جس چیز کو پرکھا جائے گا وہ یہ ہو گی کہ کیا ہم نے صحیح STRATEGIC فیصلہ کیا تھا۔“ وہائٹ ہاؤس کے ترجمان نے بعد میں کہا کہ وزیر خارجہ نے ”ہزاروں“ کا لفظ محاورتاً استعمال کیا تھا۔ وہ پولیٹیکل سائنس میں ڈاکٹریٹ کی سند رکھتی ہیں اور وزیر خارجہ ہیں۔ ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ محاورتاً بھی صحیح الفاظ کا انتخاب کریں گی۔ ایسی صورت میں کہا جانا چاہئے تھا کہ ”بے شمار“ نہ کہ ہزاروں کیونکہ ہزاروں ایک FIGURE ہے GURATIVE FI نہیں، یہ سیکڑوں سے زیادہ اور لاکھوں سے کم ہے۔ ہم ان کا یہ دعویٰ بھی مان لیتے ہیں کہ جب ہم تاریخ کی بڑی تبدیلیوں سے گزر رہے ہوتے ہیں تو ہم یہ طے نہیں کر سکتے کہ فیصلے صحیح تھے یا غلط۔ ویتنام کی جنگ اب تاریخ ہے اور ہم اس کی طرف مڑ کر دیکھ سکتے ہیں۔ وہاں تقریباً 10 برس میں 58000 امریکی فوجی ہلاک ہوئے۔ صدر لنڈن جانسن نے کانگریس سے 1965ء میں اعلان جنگ کی اجازت حاصل کرنے کیلئے دعویٰ کیا تھا، خلیج ٹونکن میں شمالی ویتنام کی ایک گن بوٹ نے امریکی جنگی جہاز پر حملہ کیا تھا۔ اس اطلاع کی حمایت میں امریکی فوجی کمانڈروں اور خفیہ اداروں کے حکام نے کانگریس کے سامنے حلفیہ بیانات دیئے۔ 30 برس کے بعد جب خفیہ دستاویزات سامنے آئیں تو پتہ چلا کہ یہ حملہ نہیں ہوا تھا اور حملے کا دعویٰ غلط تھا۔ویتنام میں امریکہ اشتراکیت کو روکنے اور جمہوریت کو قائم کرنے کیلئے گیا تھا۔ عراق میں وہ صدام حسین کے پاس مبینہ ایٹمی اور کیمیاوی ہتھیاروں کو تباہ کرنے اور جمہوریت قائم کرنے گیا تھا۔ اس جنگ میں 30 برس انتظار کی ضرورت نہیں ہے یہاں تین برس سے بھی کم عرصے میں ثابت ہو گیا ہے کہ صدام حسین کے پاس ایسے کوئی ہتھیار نہیں تھے اور انتظامیہ کو بھی علم تھا کہ یہ ہتھیار نہیں ہیں اور نہ ہی صدام حسین کے القاعدہ سے روابط تھے۔ویتنام کا بھی دعویٰ تھا کہ لڑائی تو سرحد پار سے آنے والی امداد سے ہو رہی ہے ورنہ مقامی عوام تو مغربی جمہوریت چاہتے ہیں، عراق میں بھی یہی دعوے ہیں۔ ویتنام میں کیا ہوا؟ چین جسے سب سے بڑا دشمن قرار دیا گیا تھا آج امریکہ کا سب سے بڑا بزنس پارٹنر ہے۔ شمالی اور جنوبی ویتنام متحد ہو کر ایک ملک ہو گئے ہیں۔ واشنگٹن میں ان کا سفارت خانہ ہے اور عالمی بینک ان کو ترقیاتی قرضے دے رہا ہے، یہی سب 1965ء میں بھی ہو سکتا تھا۔ امریکہ نے عراق پر حملے سے پہلے جرائم کی بین الا قوامی عدالت سے اپنے فوجیوں کو جنگی جرائم سے بری الذمہ قرار دینے کا تحفظ حاصل کر لیا تھا اب وہ چاہے ہزاروں غلطیاں کریں یا لاکھوں ان پر جنگی جرائم کا مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا۔ میری رائے میں جو تحفظ دیا گیا تھا اس کی درخواست کی بنیاد ہی غلط ثابت ہو گئی ہے۔ امریکی انتظامیہ کا موقف تھا کہ ان کے پاس ٹھوس ثبوت ہیں کہ صدام حسین نے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار بنا لئے ہیں انہیں فوری طور پر اقتدار سے نہ ہٹایا گیا تو وہ کسی وقت بھی یہ ہتھیار استعمال کرنے والے ہیں۔ اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ کولن پاول نے سیکورٹی کونسل میں یہی دعویٰ کیا تھا اور اب انہوں نے اپنی غلطی کی معافی مانگ لی ہے اور کہا ہے کہ انہیں حقائق کے بارے میں تاریکی میں رکھا گیا تھا۔ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں ٹیکٹیکل اقدامات کا ذکر نہیں تھا بلکہ اسٹرٹیجک فیصلے کا جواز پیش کیا گیا تھا۔ اگر اس وقت کے وزیر خارجہ نے اعتراف کر لیا ہے کہ جواز کا وجود نہیں تھا تو پھر فیصلہ کس طرح درست ہو سکتا ہے؟ اور اب کے وزیر خارجہ کا اعتراف ہے کہ ہزاروں یا بے شمار غلطیاں عملدرآمد کے دوران ہوئی ہیں۔ لبنان میں ایک امریکی ہلاک ہوا، اس کے خاندان نے امریکی عدالت میں دعویٰ کیا کہ اسے مبینہ طور پر حزب اللہ تحریک کے کسی ممبر نے ہلاک کیا تھا۔ اب حزب اللہ کے کوئی اثاثے امریکہ میں نہیں ہیں چنانچہ عدالت نے کہا کہ کیونکہ حزب اللہ کو ایران مبینہ مالی امداد دیتا ہے لہٰذا ایران کی بھی ذمہ داری ہے۔ ایران کے خلاف اس ایک امریکی ہلاکت پر 242 ملین ڈالر کے تاوان کا فیصلہ دیا گیا۔ اس سلسلے میں نہ حزب اللہ نے اقرار جرم کیا نہ ایران نے۔ لیکن یہاں تو کولن پاول کہہ چکے ہیں کہ حملے کا جواز بھی دھوکہ تھا اور موجودہ وزیر خارجہ کہہ رہی ہیں کہ اس بے جواز حملے کے دوران ہزاروں غلطیاں ہوئی ہیں۔ صدام کے زمانے میں بجلی، پانی راشن تھا، جمہوریت نہیں تھی۔ اب نہ جمہوریت ہے اور نہ راشن، بجلی، پانی۔ تیسری دنیا کے وکلاء کو جرائم کی بین الا قوامی عدالت میں یہ درخواست دینی چاہئے کہ کیونکہ عراق پر حملے کا دیا گیا جواز اب غلط ثابت ہو گیا ہے لہٰذا جنگی جرائم سے جو تحفظ دیا گیا تھا وہ واپس لے لیا جائے۔ کامیابی کا امکان نہیں ہے لیکن یہ ایک اصولی پٹیشن ہو گی۔ اگر یہ نہیں ہو سکتا تو کم از کم امریکہ سمیت پوری دنیا کی انسانی ہمدردی کی تنظیمیں یہ مہم چلائیں کہ عراق میں ہلاک ہونے والے عراقی شہریوں کے ورثا خاص طور پر ان کے بچوں کیلئے ایک بین الا قوامی ٹرسٹ قائم کیا جائے تاکہ یہ بچے بڑے ہو کر یا اسی عمر میں دہشت گرد تنظیموں میں نہ شامل ہو جائیں۔ ان کی تعلیم اور روزگار کا انتظام ہو۔ غلطیاں تو مان لی گئیں اب معاوضے اور تاوان کا فیصلہ ہونا چاہئے۔
 
Top