آج حضرت نظامیؔ گنجوی کا ایک شعر نظر سے گزرا۔
شنیدستم کہ ہر کوکب جہانیست
جداگانہ زمین و آسمانیست ! ! !​
فرماتے ہیں کہ "میں نے سنا ہے کہ ہر ستارہ گویا خود ایک جہان ہے۔ اور الگ زمین اور الگ آسمان رکھتا ہے!"
واضح ہو کہ نظامیؔ 1209ء میں فوت ہوئے اور ان کا بیشتر کلام بارہویں صدی عیسوی کے نصفِ آخر سے تعلق رکھتا ہے۔ موصوف فارسی شاعری کے ائمہ میں شمار ہوتے ہیں اور رومیؔ جیسے عالی مقام بزرگوں نے انھیں خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔
خدا جانے شاعر کے تخیل کی پرواز سائنس سے نو سو برس آگے ہوتی ہے یا یہ فقط نظامیؔ جیسے عارف باللہ کی تمنا کا دوسرا قدم تھا۔ بہرحال، ستاروں میں جہان دیکھنے والا یہ معجز کلام بزرگ امتِ مرحوم کے ان لوگوں کے لیے سبق رکھتا ہے جنھیں اقبالؔ نے ایک دوسری انتہا پر بیان کیا ہے۔
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شبِ تاریک سحر کر نہ سکا​
 
حضرت نظامی کے بارے میں مزید کچھ بتائیے!
یہ میرے بس کی بات تو نہیں، بھائی۔ مگر چند باتیں جو آپ کے حکم کے بعد معلوم کیں، سامنے رکھتا ہوں۔
نام کے بارے میں اکثر محققین متفق ہیں کہ الیاس تھا۔ پیدائش کی بابت اختلاف ہے مگر یہ طے ہے کہ کم و بیش تمام عمر گنجہ میں گزری جو فی زمانہ آذربائیجان کا دوسرا بڑا شہر ہے اور حکیم نظامیؔ کے وقت میں شاہانِ سلجوقی کی قلمرو میں شامل تھا۔ نواحِ گنجہ میں دو گاؤں قزل ارسلان بادشاہ نے ان کی نذر کیے تھے جن کی زمینداری پر گزر اوقات کرتے رہے۔
مزاجاً فلسفی تھے لہٰذا حکیم کا لقب ان کی نسبت عام ہے۔ مذکورہ بالا شعر سے آپ کو ان کی فکرِ رسا کا حال معلوم ہو گیا ہو گا۔ زہد و ورع بھی طبیعت کا خاصہ تھا جس کی وجہ سے نہایت پاکیزہ زندگی گزاری۔ شعرائے فارس کے عام طریق کے برعکس انھوں نے شراب کا مضمون اپنے اشعار میں بہت کم برتا اور جہاں کہیں ذکر آ بھی گیا تو اس قدر احتیاط واجب رکھی کہ واضح کیا کہ شراب سے مراد شراب نہیں!
نہ پنداری، اے خضرِ فرخندہ پے!
کہ از مے مرا ہست مقصود مے​
یعنی اے مبارک قدموں والے خضرؑ! یہ مت سمجھیے کہ شراب سے میرا مقصود شراب ہے۔
پارسائی میں یہ تشدد اس قدر تھا کہ حیرت ہوتی ہے۔ شاعر کی بجائے وہ قاضی معلوم ہونے لگتے ہیں۔ ایک جگہ فرماتے ہیں:
گر از مے شدم ہرگز آلودہ کام
حلالِ خدا بر نظامیؔ حرام ! ! ! ! !​
اگر میں نے اپنے حلق کو کبھی شراب سے آلودہ کیا ہو تو خدا کی حلال کردہ اشیا بھی نظامیؔ پہ حرام ہو جائیں!
تقویٰ کا ایک اور اظہار اس صورت میں ہوا کہ نظامیؔ کبھی دربارِ شاہی کے سوالی نہیں بنے۔ اپنے اکثر معاصرین، متقدمین اور متاخرین کے برعکس وہ کردار کے اس ہمالہ پہ متمکن نظر آتے ہیں جہاں سے دنیا اور اس کے متعلقات بیضہءِ مور سے بھی حقیر تر معلوم ہوتے ہیں۔ انھوں نے بہت کم سفر کیا۔ کبھی شاعری کو ذریعہءِ معاش نہیں بنایا۔ ان کی زندگی میں تین چار یا شاید زیادہ سلاطین مسندِ اقتدار پہ رہے مگر نظامیؔ اپنی عزلت نشینی میں مست رہے۔ کچھ بادشاہ ان کے مداح بھی تھے جن میں سے ایک نے حمدانیاں نام کا ایک گاؤں ان کے نام لکھا جو اب احمد لو کے نام سے معروف ہے۔ ان کا مقبرہ اسی گاؤں میں ہے۔
تقریباً سو سال پہلے گنجہ کے کچھ سنجیدہ لوگوں نے نظامیؔ کے مقبرے کی حالتِ زار سے متاثر ہو کر ان کے جنازے کو گنجہ شہر کے وسط میں وفن کرنے کی ٹھانی۔ کھدائی پر سفید اور نازک نازک ہڈیاں برآمد ہوئیں۔ شروع میں تو نظامیؔ ہی کی خیال کر کے سنبھال لی گئیں مگر بعد میں معلوم ہوا کسی خاتون کی ہیں۔ مزید کھدائی پر نظامیؔ کا تابوت بھی دریافت ہو گیا۔ ہڈیاں تقریباً سلامت تھیں اور معلوم ہوتا تھا کہ تکفین میں کمال احترام ملحوظِ خاطر رکھا گیا ہو گا کیونکہ کفن کے ساتھ ایک شال بھی لپٹی ہوئی ملی۔ اس کے ٹکڑے بعد ازاں باکو کے شاہی عجائب گھر میں بھجوا دیے گئے۔
پہلے دریافت ہونے والی ہڈیوں کی بابت گمان تھا کہ وہ نظامیؔ کی محبوبہ آفاق کی ہیں۔ نظامیؔ نے مثنوی خسرو شیریں اسی کی یاد میں لکھی تھی۔ دونوں کی ہڈیاں ایک صندوق میں رکھ کر گنجہ کے ایک باغ میں امانتاً رکھ دی گئیں اور نظامیؔ کے نئے مقبرے کی تعمیر کا کام شروع کر دیا گیا۔ حالات نے کچھ ایسا پلٹا کھایا کہ نظامیؔ کا جنازہ بڑی مدت تک وہیں رکھا رہا اور مقبرہ مکمل نہ ہو سکا۔ پھر آذربائیجان کے محکمہ آثارِ قدیمہ نے پھرتی دکھائی اور نسوانی ہڈیوں کو جدا کرنے کی زحمت میں وقت ضائع کیے بغیر تابوت کو دوبارہ پہلی جگہ دفن کر کے ضروری مرمت کروا دی۔
اگر وہ ہڈیاں آفاق ہی کی ہیں تو کہا جا سکتا ہے کہ نظامیؔ اب اپنی محبوبہ کے پہلو میں جا لیٹے ہیں۔
نظامیؔ کا پنج گنج یا خمسہ مشہور ہے۔ اس میں پانچ مثنویاں ہیں:
  1. مخزن الاسرار
  2. خسرو و شیریں
  3. لیلیٰ و مجنوں
  4. ہفت پیکر یا بہرام نامہ
  5. سکندر نامہ
ان کے علاوہ ایک دیوان بھی ہے۔ زبان کی تطہیر کا جو معاملہ داغؔ نے اردو کے ساتھ کیا تھا، کم و بیش ویسا ہی نظامیؔ نے فارسی پر احسان کیا۔ مگر نظامیؔ کا کلام اخلاق کے اعتبار سے بھی نہایت پاکیزہ ہے جس پر روشنی ڈالی جا چکی ہے۔ لیلیٰ مجنوں کا قصہ مثنوی میں پہلی بار نظامیؔ ہی نے نظم کیا۔ بعد میں لائن لگ گئی۔
وکی پیڈیا پر نمونتہً دیے گئے اشعار میں سے ایک ملاحظہ ہو:
بد گہر با کسے وفا نکند---
اصلِ بد در خطا خطا نکند!​
بدفطرت شخص کسی سے وفادار نہیں ہوا کرتا۔ بدی کی جبلت خطا کرنے میں خطا نہیں کرتی (یعنی خطا سے کبھی نہیں چوکتی)۔
 

حسان خان

لائبریرین
بہت خوب راحیل صاحب!
نظامی گنجوی بے شک مثنوی گوئی کے امام ہیں۔ اُن کے بعد آنے والے جن جن فارسی و ترکی گو شعراء نے خمسے یا حکایتی مثنویاں لکھی ہیں، اُن سب نے نظامی کی ستائش میں اشعار کہے ہیں اور انہیں استاد مانا ہے۔ امیر خسرو دہلوی مثنوی گوئی میں خود کو 'شاگردِ نظامی' کہتے ہیں۔
 
آخری تدوین:
Top