ہر طرف کچھ آئینے بکھرے ہوئے۔اسلم کولسری

ہر طرف کچھ آئینے بکھرے ہوئے
یاد آئے مرحلے بیتے ہوئے
سامنے دریا، مگر سوکھا ہوا
سر پہ ہیں بادل، مگر برسے ہوئے
ہیں وہی گلیاں، میری دل کی رگیں
جن سے مدت، ہو گئی، گزرے ہوئے
وقت کے ہاتھوں میں جتنے زخم ہیں
اپنی آنکھوں میں وہی سپنے ہوئے
ہم نے اپنے کاغذی گل دان میں
چار انگارے تو ہیں رکھے ہوئے
واقعہ یہ ہے کہ شاخوں پر یہاں
کھِل رہے ہیں پھول مرجھائے ہوئے
دیکھ کر دھرتی کی روشن کاریاں
چاند تارے ہیں بہت سہمے ہوئے
شاعری کا خون ہوتا ہے تو ہو
ہم نے اسلمؔ شعر تو کہنے ہوئے

اسلم کولسری
 
Top