ہتھ سُٹ

رباب واسطی

محفلین
کسی شہر میں شوکی اور طیفا نامی دو بہت گہرے ہم نوالہ ہم پیالہ دوست (پنجابی میں بولے تو "لنگوٹیئے یار") رہا کرتے تھے۔ دونوں بہت غریب تھے اور محنت مزدوری کرکے گذر بسر کیا کرتے تھے۔ ان میں سے شوکی نامی دوست کا تکیہ کلام تھا "ہتھ سُٹ" (ہاتھ پھینک)۔
ایک روز مزدوری کرکے گھر واپس آرہے تھے کہ انہیں گھر کے قریب موجود کچرے کے ڈھیر پر اک خوبصورت بوتل پڑی دکھائی دی۔ دونوں ایکبارگی بھاگ کر بوتل کی طرف جھپٹے اور دونوں نے ایک ہی ٹائم میں بوتل پکڑ لی۔ اب دونوں کا جھگڑا شروع ہوگیا اور نوبت ہاتھا پائی تک جا پہنچی۔ اسی لڑائی بھڑائی اور کھینچا تانی کے دوران بوتل ٹوٹ گئی اور بوتل میں سے ایک لحیم شحیم جن نکل آیا اور بولا "حکم میرے آقا"۔
جن کو دیکھ کر دونوں گھبرا گئے اور ان کی گھگھی بندھ گئی، ڈر کر بھاگنے لگے تو پیچھے سے جن نے پکڑ لیا اور بولا "ڈرو نہیں میرے آقا، آپ دونوں نے مجھے رہائی دلوائی ہے لہذا اپنی اپنی خواہش بتاوٗ کہ میں آپ کے احسان کا بدلہ چکا سکوں"۔ لیکن دونوں دوست کچھ فرمائش کرنے کے بجائے جن سے معافیاں مانگنے لگے کہ "ہم سے غلطی ہو گئی، بس تم ہمیں معاف کردو"
آخر جن نے کچھ سوچا اور اپنے چوغے کی دونوں جیبوں سے تین تین انڈے نکال کر ان کو دیئے اور بولا "آقا ایک ایک انڈہ توڑتے جانا اور خواہش کرتے جانا، اس طرح تین تین انڈے توڑو گے تو آپ کی تین تین خواہشیں پوری ہوجائیں گی"۔ یہ کہہ جن خوفناک انداز میں ہنستا ہوا غائب ہوگیا۔ جن کے غائب ہوتے ہی دونوں دوستوں کے ہوش ٹھکانے آئے تو پہلے تو دونوں نے لڑائی وہیں سے شروع کی جہاں بوتل ٹوٹی تھی لیکن اچانک ان انڈوں کا خیال آتے ہی طیفا بولا کیوں نہ ہم یہ تین تین انڈے رکھ لیں اور قسمت آزمائی کریں۔ شوکی نے فٹ سے اپنے تین انڈے اٹھائے اور طیفے سے بولا "جاوٗ دفع ہوجاوٗ اور آئندہ زندگی میں مجھے اپنی شکل نہ دکھانا"
الغرض دونوں نے اپنے اپنے حصے کے انڈے لیے اور اک دوسرے کے مخالف رستوں پر چل دیئے۔ طیفے نے گھر جاکر انڈے نکالے اور ایک انڈہ توڑا اور بولا "دولت ہی دولت ہوجائے" اس کے ارد گرد دولت کے انبار لگ گئے۔ دوسرا انڈہ توڑا اور بولا "بڑا سا بنگلہ اور گاڑی"
آناً فاناً اس نے خود کو ایک بڑے بنگلے میں ایک شاندار گاڑی کے پاس کھڑا پایا اور تیسرا انڈہ توڑ کر خوبصورت فرمانبردار بیوی کی خواہش کی اور وہ خواہش بھی پوری ہوگئی۔ یہ سب پاکر طیفا نہال ہوگیا اور ہنسی خوشی زندگی بسر کرنے لگا۔ اپنے دل کی ہر ہر خواہش جو غربت کے زمانے میں صرف خواب تھیں کو پوری کرنے لگا۔ ملک ملک شہر شہر کی سیر و تفریح کی اور زندگی کے تمام مزے لوٹے۔ اسی دوران اک بار وہ اپنے شہر واپس لوٹا اور اک روز اپنی بیوی کو وہ جگہ دکھانے لے گیا جہاں سے اس کی خوش نصیبی کا دور شروع ہوا تھا۔ وہاں کھڑے ہوکر اپنی بیوی کو وہی واقعہ سنا رہا تھا کہ اسے وہاں اک مفلوک الحال شخص دکھائی دیا اور محسوس کیا کہ اسے کہیں دیکھا ہے۔ وہ اس کے قریب پہنچا تو پہچان گیا کہ وہ تو اس کا وہی دوست شوکی تھا جس کے ساتھ وہ مزدوری کیا کرتا تھا لیکن اس کا یہ حال دیکھ پریشان ہوا اور اس سے پوچھا "شوکی تونے اپنا یہ کیا حال بنا رکھا ہے"؟
شوکی اک اجنبی کی زبان سے اپنا نام سن کر حیران ہوا اور پوچھا "بھائی تم کون ہو اور مجھے کیسے جانتے ہو"؟
جواباً طیفے نے اسے اپنا نام بتا کر کہا "یار یاد کرو، تمہیں اور مجھے اسی جگہ پر ایک جن نے تین تین انڈے دیئے تھے"
شوکی یہ سن کر خوش ہوا اور پھر رونے لگا۔ طیفے نے اسے اپنے ساتھ لیا اور گھر لے آیا اور نہانے کو کہا اسے صاف ستھرے نئے کپڑے پہننے کو دیئے، اچھا سا کھانا کھلا کر اس سے پوچھا "یار تمہیں بھی تو جن تین انڈے دیئے تھے ان کا کیا ہوا"؟
پہلے تو شوکی کی آنکھیں بھر آئیں پھر یوں گویا ہوا ::
یار کیا بتاوٗں مجھے میرے تکیہ کلام "ہتھ سُٹ" نے مروا دیا۔ میں گھر کی سیڑھیاں چڑھ رہا کہ کہ ایک انڈہ ہاتھ سے گر کر ٹوٹ گیا اور میرے منہ سے نکلا
ہتھ سُٹ
میرے سارے گھر میں ہاتھ ہاتھ ہی گرنے لگے میں نے فوراً دوسرا انڈہ توڑا اور بولا
سارے ہاتھ لے جاوٗ
وہ سارے ہاتھوں کے ساتھ میرے ہاتھ بھی لے گئے۔ میں نے تیسرا انڈہ پاوٗں کی ٹھوکر سے توڑا اور بولا
یار میرے ہاتھ تو واپس کرجاوٗ
بس قسمت خراب تھی اور میرے حصے کے تین انڈے اس طرح ضائع ہوگئے

ٹمبلر بلاگ از ڈاکٹرنسیم زہرہ
 
آخری تدوین:
Top