جون ایلیا ہار جا اے نگاہِ ناکارہ ::گُم افق میں ہوا وہ طیارہ

یاسر شاہ

محفلین

ہار جا اے نگاہِ ناکارہ
گُم افق میں ہوا وہ طیارہ


آہ وہ محملِ فضا پرواز
چاند کو لے گیا ہے سیارہ


صبح اُس کو وداع کر کے میں
نصف شب تک پھرا ہوں آوارہ


سانس کیا ہیں کہ میرے سینے میں
ہر نفس چل رہا ہے اِک آرا


کچھ کہا بھی جو اُس سے حال تو کب؟
جب تلافی رہی نہ کفارہ


کیا تھا آخر مِرا وہ عشقِ عجیب
عشق کا خوں کہ عشقِ خوں خوارہ


ناز کو جس نے اپنا حق سمجھا
کیا تمھیں یاد ہے وہ بے چارہ


چاند ہے آج کچھ نڈھال نڈھال
کیا بہت تھک گیا ہے ہرکارہ


اِس مسلسل شبِ جُدائی میں
خون تھوکا گیا ہے مہ پارہ


ہو گئی ہے میرے سفر کی سحر
کوچ کا بج رہا ہے نقارہ
 

یاسر شاہ

محفلین
لاجواب!
کلام جون و انتخاب یاسر!
یہ مطلع جون کا اکثر یاد آتا ہے جب ایئر پورٹ پر جہازوں کو اڑان بھرتے دیکھتے ہیں پائلٹ کی مہارت اور مشین کا دبدبہ جانچنے کے لیے۔منظر عجیب پرکیف ہوتا ہے۔کس طرح آنکھوں کے سامنے ایک دیو ہیکل گرجتا چنگھاڑتا جہاز فضا میں چھوٹا ہوتے ہوتے ایک نقطے میں تبدیل ہو کر آنکھ سے اوجھل ہو جاتا ہے ، کہنا پڑتا ہے:
ہار جا اے نگاہِ ناکارہ
گُم افق میں ہوا وہ طیارہ

پھر ایک اور رخ سے دیکھیں تو ہجر بذریعہ ٹرین پر پروین شاکر کا شعربھی کمال ہے:
ریل کی سیٹی میں کیسی ہجر کی تمہید تھی
اس کو رخصت کر کے گھر لوٹے تو اندازہ ہوا

جبکہ جون نے ہجر بذریعہ جہاز پہلی بار غزل کا موضوع بنایا یعنی سب سے ترقی یافتہ اور ماڈرن ذریعہ فراق کا مگر غم _فراق وہی کا وہی،ایک غم و اندوہ کاپہاڑ اور پھر ایک ایسے شخص کے لیے جو اظہار محبت سے اجتناب کرتا ہو یعنی کہ جون ایلیا۔
 

میم الف

محفلین
یہ مطلع جون کا اکثر یاد آتا ہے جب ایئر پورٹ پر جہازوں کو اڑان بھرتے دیکھتے ہیں پائلٹ کی مہارت اور مشین کا دبدبہ جانچنے کے لیے۔منظر عجیب پرکیف ہوتا ہے۔کس طرح آنکھوں کے سامنے ایک دیو ہیکل گرجتا چنگھاڑتا جہاز فضا میں چھوٹا ہوتے ہوتے ایک نقطے میں تبدیل ہو کر آنکھ سے اوجھل ہو جاتا ہے ، کہنا پڑتا ہے:
ہار جا اے نگاہِ ناکارہ
گُم افق میں ہوا وہ طیارہ

پھر ایک اور رخ سے دیکھیں تو ہجر بذریعہ ٹرین پر پروین شاکر کا شعربھی کمال ہے:
ریل کی سیٹی میں کیسی ہجر کی تمہید تھی
اس کو رخصت کر کے گھر لوٹے تو اندازہ ہوا

جبکہ جون نے ہجر بذریعہ جہاز پہلی بار غزل کا موضوع بنایا یعنی سب سے ترقی یافتہ اور ماڈرن ذریعہ فراق کا مگر غم _فراق وہی کا وہی،ایک غم و اندوہ کاپہاڑ اور پھر ایک ایسے شخص کے لیے جو اظہار محبت سے اجتناب کرتا ہو یعنی کہ جون ایلیا۔
بہت بجا فرمایا، یاسر صاحب۔
آپ یونہی تبصرے اور ہمارے قلب و نظر میں کشادگی فرماتے رہیں۔
 

یاسر شاہ

محفلین
یہ مطلع جون کا اکثر یاد آتا ہے جب ایئر پورٹ پر جہازوں کو اڑان بھرتے دیکھتے ہیں پائلٹ کی مہارت اور مشین کا دبدبہ جانچنے کے لیے۔منظر عجیب پرکیف ہوتا ہے۔کس طرح آنکھوں کے سامنے ایک دیو ہیکل گرجتا چنگھاڑتا جہاز فضا میں چھوٹا ہوتے ہوتے ایک نقطے میں تبدیل ہو کر آنکھ سے اوجھل ہو جاتا ہے ، کہنا پڑتا ہے:
ہار جا اے نگاہِ ناکارہ
گُم افق میں ہوا وہ طیارہ
دو برس پہلےایک انگریزی فورم پر نیپو رائمو میں حصّہ لیا تھا -اپریل کے مہینے میں ہر روز ایک نئی نظم لکھنی ہوتی ہے -وہاں اس نکتے کو نظم کی شکل دی تھی -ابھی وہ ٹوٹی پھوٹی انگریزی نظم نہایت برمحل ہے :
PK-743
Night of your flight
was may loneliest night

staring still at your plane
till its gone from my sight

whole the mass turned into a dot
with a sigh ,will miss you a lot
 
محفل فورم صرف مطالعے کے لیے دستیاب ہے۔
Top