ہاتھ کی روانی ٭ خضرؔ تمیمی

یہ ہے آج ہی رات کی داستاں
کہ تھے میہماں میرے اک مہرباں

دکھاؤں میں حضرت کے کھانے کا ڈھنگ
لکھوں ان کے لقمے اڑانے کا رنگ

پلیٹوں میں ہلچل مچاتا ہوا
وه چمچے سے چمچا لڑاتا ہوا

پلاؤ میں سالن ملاتا ہوا
وہ جل تھل کا عالم رچاتا ہوا

وہ بوٹی پہ چڑھ کر لپٹتا ہوا
وہ روٹی سے بڑھ کر چمٹتا ہوا

فقط شوربے سے کھسکتا ہوا
مربّے سے جا کر چپکتا ہوا

گیا دال پر دندناتا ہوا
وہ مرچوں سے دامن بچاتا ہوا

وہ چمچے سے چُلّو بناتا ہوا
وہ آلو کو اُلو بناتا ہوا

سویّوں پہ سو جاں سے مرتا ہوا
ادھر لاڈ لڈو سے کرتا ہوا

پسند اک پسندے کو کرتا ہوا
تو چٹنی پہ چٹخارے کرتا ہوا

سموسے میں خود کو سموتا ہوا
ادھر کھوئے کے ہوش کھوتا ہوا

جلیبی پہ یاں پیچ کھاتا ہوا
کٹورے کہیں کھنکھناتا ہوا

یہ برفی کا دل برف کرتا ہوا
یہ زردے کا منہ زرد کرتا ہوا

پلاؤ پہ پل پل کے آتا ہوا
وہ ’’پھرنی‘‘ پہ پھر پھر کے گاتا ہوا

نوالے سے کشتی بناتا ہوا
اور حلوے کے گولے اڑاتا ہوا

وہ جبڑوں سے بوٹی مسلتا ہوا
اسے بن چبائے نگلتا ہوا

بگڑ کر وہ کف منہ پہ لاتا ہوا
وہ غازی ہے یوں کھانا کھاتا ہوا

غرض اس طرح ہیں مرے مہرباں
بس اب دیکھ لیں شاعرِ نکتہ داں

وہ سودا وہ اکبرؔ کا آبِ لوڈور
یہاں خضرؔ کی بے زبانی کا زور

٭٭٭
خضر تمیمی
_
اکبرؔ کی آبِ لوڈور کی پیروڈی
 
Top