ہائے غصے میں اسے کتنا سنا دیتے ہو

زویا شیخ

محفلین
یہ نیا درد جو ہر روز جگا دیتے ہو
اے مرے دوست مجھےکس کی سزا دیتے ہو

یہ مری ذات پہ کیا ظلم کیا کرتے ہو
جب بھی کرتے ہو کوئی وعدہ بھلا دیتے ہو

قتل ہوتا ہی نہیں مجھ سے مری خواہش کا
دل کے ارمان کو تم کیسے سُلا دیتے ہو

عشق کے کھیل میں تم مجھکو ملوث کرکے
جب بھی میں جیتنے لگتی ہوں ہرا دیتے ہو

چہرا پڑھنے کا ہُنر تم کو ہے آیا کیسے؟
حال چہرے سے مرا کیسے بتا دیتے ہو؟

جیب میں تیری بتا مجھکو ہے فوٹو کس کی
جب بھی میں دیکھتی ہوں جھٹ سے چھپا دیتے ہو

نام زویا کوئی لب پہ جو اپنے لے تو
ہائے غصہ میں اسے کتنا سنا دیتے ہو​
 
مدیر کی آخری تدوین:
Top