ہائیڈ پارک

ساجد

محفلین
موجودہ دور حکومت میں کسی اور قانون پہ عمل ہوا ہو یا نہ لیکن ایک قانون پہ عمل ضرور ہوا۔ جی نہیں وہ "جنگل کا قانون" نہیں ہے بلکہ وہ ایک ایسا قانون ہے جس کی بدولت پاکستان کے جملہ "مابدولتوں" کے ماضی اور حال کا احوال لکھ کر آپ ایس ایم ایس نہیں کر سکتے ورنہ جیل کی سلاخیں آپ کو اپنے "حفظ و امان" میں لے سکتی ہیں۔ اگرچہ کچھ دل جلے اور من چلے اس شغل سے دائیں بائیں دیکھ کر دل کا بوجھ ہلکا کر لیتے ہیں۔ کہہ سکتے ہیں کہ موبائل فون ان کے لئیے ہائیڈ پارک کا درجہ رکھتا ہے۔
اس "ہائیڈ پارک" کے ہاتھوں ہم بھی کبھی بہت پریشان رہا کرتے تھے مگر قانون کے نفاذ کے بعد کچھ افاقہ ہو گیا تھا۔ لیکن یہ "ہائیڈ پارک" کچھ دنوں سے پھر سر گرم ہو رہا ہے اور اس کی وجہ سے میرا سر بھی گرم ہو رہا ہے کیوںکہ مجھے جیل کی سلاخوں کے پیچھے بیٹھ کر پہاڑے یاد کرنے کا ہرگز شوق نہیں۔ لیکن اب کی بار اس ہائیڈ پارک کے "سپیکرز " کی باتوں میں طنز کی جگہ درد ہے ۔ وہ درد کہ جو اپنے گھر کو لٹتے اور جلتے دیکھ کر اس گھر کے باسیوں کو ہوتا ہے۔ یا پھر غصہ ہے جو ابل کر باہر آنا چاہ رہا ہے ۔آج ایسے ہی ایک " سپیکر" سے بالمشافہ ملاقات ہوئی تو اس نے مجھے خوب کھری کھری سنا دیں وجہ یہ تھی کہ میں اس کی جذباتی تقریر سن کر اسے صبر اور تحمل کا بھاشن دے بیٹھا تھا۔ وہ گویا پھٹ پڑا اور مجھ پہ سوال داغ دیا کہ اگر موبائل چھیننے کی کوشش کرنے والے ایک نوجوان کے جرم کی سزا سر عام موت ہے تو ان کی کیا سزا ہونی چاہئیے کہ جو ملک لوٹ کر کھا گئے؟ اور ہماری آنے والی نسلیں بھی ان کی لوٹ کا قرض اتارتے اتارے خود قبر میں اتر جائیں گی۔
میرے پاس اس سوال کا جواب نہ تھا۔ چونکہ آج کل پٹرول نہیں مل رہا اس لئیے میرے پاس بائک بھی نہ تھی کہ اس ندیدے کی حرکت کا غصہ اس پہ دولتی جھاڑ کر (کک مار کر) اتاروں اور فشوں ہو جاؤں۔ دور سے 9 نمبر بس آئی اور میں نے اس "سپیکر" کو لکشمی چوک میں ہی بولتا چھوڑ کر خود بس کے ہینڈل کے ساتھ جھولتے ہوئے اسے خدا حافظ کہہ دیا۔
 

mfdarvesh

محفلین
بہت خوب
بس یہی تو المیہ ہے، کہ قانون غریب کے لیے ہے جو ملک لوٹ کے فرار ہوگیا اس کو کوئی نہیں پوچھتا اور غریب پھول بھی توڑتا ہے تو جرم و سزا کا حقدار
 
Top