گیس کی قیمت میں14فیصد اضافہ بہت زیادہ نہیں ،خورشید شاہ

الف نظامی

لائبریرین
وفاقی وزیر سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ گیس کی قیمت میں14فی صد اضافہ بہت زیادہ اضافہ نہیں ہے،گیس کی قیمتوں میں 14 فیصد اضافے پر ایم کیو ایم کی جانب سے قومی اسمبلی میں توجہ دلاؤ نوٹس پرقومی اسمبلی میں جواب دیتے ہو ئے خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ پٹرول اور گیس کی قیمتوں میں توازن کیلئے قیمتیں بڑھائی گئیں،انہوں نے اپوزیشن کو دعوت دیتے ہو ئے کہا کہ اپوزیشن حکومت کا تجاویز دے ،حکومت اور اپوزیشن مل کر حل نکالتے ہیں۔ گیس ہم دے سکتے ہیں، گیس کمپنیاں نااہل ہیں، پائپ لائنوں میں گیس موجود ہے ،گیس کمپنیوں کیخلاف کارروائی کرنا ہو گی۔ گیس کی کمی ہر سال ہوتی ہے، یہ کوئی نئی بات نہیں ، منصوبہ بندی سے لوگوں کو سڑکوں پر لایا جا رہا ہے لیکن جیسے بھی حالات ہوں، حکومت نہیں جائیگی۔ ملک میں گیس کی صورت حال اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کیخلاف ایم کیو ایم اور ن لیگ نے قومی اسمبلی سے واک آؤٹ کیا۔واک آؤٹ سے قبل متحدہ کے رکن آصف حسنین نے کہا کہ حکومت نے عوام کی جانب سے عدم توجہ کارویہ اختیارکیاہواہے، حکومت بھی بیوروکریسی کی وکٹ پر کھیل رہی ہے، بیوروکریسی حکومت کو غیر مستحکم کرنے میں مصروف ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
جماعت اسلامی نے مہنگائی ،سی این جی کی بندش اور بجلی، گیس کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف چھ جنوری کو ملک گیر احتجاج کا اعلان کردیا ،جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ پیپلز پارٹی اور اسکے اتحادیوں نے مہنگائی اور بے روزگاری کے ذریعے عوام کو زندہ درگور کردیا ہے،ان کی ناقص پالیسیوں سے لاکھوں محنت کش بیروزگار ہوگئے ہیں، انہوں نے مطالبہ کیا کہ کھاد اسیکنڈل کا سپریم کورٹ خود نوٹس لے اور ذمے داروں کو سزا دے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
پنجاب بھر کے تمام چیمبرز اور تاجر تنظیموں نے گیس بحران کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے کا فیصلہ کیا ہے، احتجاجی مظاہروں، اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کے بعد سول نافرمانی کی تحریک چلائی جائے گی۔ احتجاجی تحریک کا فیصلہ لاہور چیمبرآف کامرس اینڈ انڈسٹری میں پنجاب بھر کے چیمبرز کے صدور اور تاجرتنظیموں کے نمائندہ اجلاس میں کیا گیا، لاہور چیمبر کے صدر عرفان اقبال شیخ کی صدارت میں منعقدہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ گیس بحران کے خلاف احتجاجی تحریک کے پہلے مرحلے میں پنجاب بھر میں احتجاجی مظاہرے کئے جائیں گے، دوسرے مرحلے میں صنعت کار اور تاجر تنظیمیں اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کریں گی۔ اگر گیس بحران پر قابو نہ پایا گیا تو آخری مرحلے میں سول نافرمانی کی تحریک شروع کردی جائے گی۔
 

شمشاد

لائبریرین
کیا ہو گا ان ہڑتالوں سے، کیا اس سے قیمت کم ہو جائے گی، اُلٹا ہڑتال والے دن غریبوں کی دہاڑی ماری جائے گی۔

کوئی ٹھوس قسم کا قدم اٹھانا چاہیے۔

حکومت تو بلا سوچے سمجھے آئے دن مہنگائی میں اضافہ کرتی جا رہی ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
کیا ہو گا ان ہڑتالوں سے، کیا اس سے قیمت کم ہو جائے گی، اُلٹا ہڑتال والے دن غریبوں کی دہاڑی ماری جائے گی۔

کوئی ٹھوس قسم کا قدم اٹھانا چاہیے۔

حکومت تو بلا سوچے سمجھے آئے دن مہنگائی میں اضافہ کرتی جا رہی ہے۔
آپ کوئی ٹھوس قدم تجویز کیجیے۔
 

دوست

محفلین
سی این جی اسٹیشن بند کیے جائیں۔ یہ حل ہے جی پہلے نمبر پر تو۔ گیس گھروں میں چاہیے پہلے، سی این جی والے جائیں بھاڑ میں۔ آنا جانا کاہے جب سالا پیٹ میں ہی ایک نوالہ بھی نہ جائے۔ ان سالوں کو اپنی پڑی ہوئی ہے۔ جو ماما چاچا ماسی کا مُنڈا، پھوپھڑ تھا، سب کو سفارشی لائسنس ملتے گئے اور انھے واہ اسٹیشن لگتے گئے، اور یہ حال ہے کہ گھر میں آنے والی گیس سے دئیے جتنی روشنی بھی نہیں ہوتی اور اب لوگوں کی کاریں بھرتے جاؤ سی این جی سے۔ اشکے وئی۔ اوپر سے ان کمبخت حکمرانوں کی پلاننگ، سب کو پتا تھا خبروں میں بھی آ رہا تھا کہ اس بار بحران زیادہ شدید ہو گا بلکہ ہر سال زیادہ شدید ہوتا جائے گا، انہوں نے کوئی لائحہ عمل تیار نہیں کیا۔ اب ایک کی بند کرتے ہیں تو دوسرا چیخنے لگ جاتا ہے۔ ترجیح تو متعین کرو بھائی، روٹی یا کار، زرمبادلہ یا وڈے صاحب کی ہونڈا سٹی کی سین این جی۔
 

ساجد

محفلین
آپ کوئی ٹھوس قدم تجویز کیجیے۔
اب سی این جی سٹیشن تو بند ہو ہی جائیں گے کہ اس کے نرخ پٹرول کے نرخوں کے قریب پہنچ رہے ہیں ۔ سی این جی کی وجہ سے انجن کی دیکھ بھال بھی مہنگی پڑتی ہے اس لئیے اب لوگوں کا رجحان پٹرول کی طرف ہو رہا ہے۔ میں نے بھی اپنی گاڑی کے لئیے آج فیول پمپ خریدا ہے اور یہ پمپ جو چند روز قبل تک 1450 روپے کا تھا سی این جی کی قیمتوں میں حالیہ اضافے سے لوگوں کے بدلتے رجحان کی بدولت 1850 روپے تک جا پہنچا ہے۔ اسی سے اندازہ کر لیں کہ پٹرول گاڑیوں کو سی این جی کٹ لگانے اور اب دوبارہ سے پٹرول پر چلانے سے ملکی دولت کا اربوں روپیہ حکومتی ڈنگ ٹپاؤ پالیسیوں کی نظر ہو گیا۔
ایک تجویز یہ ہے کہ اگر حکومت یہ مسئلہ حل کرنا چاہتی ہے تو بجلی کی پیداوار بڑھائے اور اس میں وقت کے ساتھ ساتھ طویل مدتی پروگرام کے تحت اضافہ کیا جاتا رہے اور اس کے نرخ کم از کم 80 فیصد کم کر دئیے جائیں (جو کہ نا ممکن نہیں) تا کہ لوگ گھروں کو گرم رکھنے اور کھانا پکانے کے لئیے اسے استعمال کر سکیں۔ بجلی توانائی کا مصنوعی ذریعہ ہے جس کی پیداوار جتنی چاہیں بڑھا سکتے ہیں لیکن قدرتی گیس ایک قدرتی ذریعہ ہونے کے سبب ایک نہ ایک دن ہماری ضروریات پوری نہ کر سکے گا۔ جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے بجلی اب مہنگے ذرائع کی بجائے انتہائی سستے اور استعمال شدہ مواد سے بھی بنائی جا سکتی ہے۔
ویسے یہ سب پڑھنے کے بعد اگر کوئی یہ لکھ دے کہ میں اندھوں کے شہر میں آئینہ بیچنے چلا آیا ہوں تو مجھے حیرانی نہیں ہو گی۔:chalo:
 

شمشاد

لائبریرین
اور یہ بات facts and figures سے ثابت ہو چکی ہے کہ پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کی بھرپور صلاحیت ہے لیکن عوام کو تنگ رکھنے اور پریشان کرنے کے لیے بجلی پیدا نہیں کی جاتی۔
 

الف نظامی

لائبریرین
اور یہ بات facts and figures سے ثابت ہو چکی ہے کہ پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کی بھرپور صلاحیت ہے لیکن عوام کو تنگ رکھنے اور پریشان کرنے کے لیے بجلی پیدا نہیں کی جاتی۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پانی و بجلی کو بتایا گیا ہے کہ بجلی کے 11 ہزار میگا واٹ کے منصوبوں پر کام جاری ہے جبکہ پچھلے 2 سالوں کے دوران 2 ارب 75 کروڑ ڈالر کی لاگت سے 2530 میگا واٹ بجلی سسٹم میں لائی گئی۔ اسلام آباد میں لشکری رئیسانی کی صدارت میں ہونیوالے اجلاس کو بریفنگ میں پرائیویٹ پاور انفرا سٹرکچر بورڈ کے منیجنگ ڈائریکٹر این اے زبیری نے بتایا کہ پچھلے دو سالوں کے دوران بجلی کے بارہ منصوبے مکمل کئے گئے۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ پی پی آئی بی 1994ء میں ایک نوٹی فکیشن سے بنا اور اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ چیئرمین واپڈا شکیل درانی نے اجلاس کو بتایاکہ کرم تنگی ڈیم کی تعمیر پر 59 ارب روپے لاگت آئے گی اور یہ منصوبہ اگلے سال جولائی میں شروع کیا جائے گا، اس سے 84 میگا واٹ بجلی حاصل کی جائے گی۔
 

شمشاد

لائبریرین
ان بیانات میں 50 فیصد سے زیادہ جھوٹ ہے۔ جبکہ حسب حال کے ایک پروگرام میں جنید سلیم نے اعداد و شمار کے حوالے سے بتایا تھا کہ ہم موجودہ ضرورت سے زیادہ بجلی پیدا کر سکتے ہیں۔

حکومتی اعداد و شمار یقین کریں 50 فیصد سے زیادہ جھوٹ پر مبنی ہوتے ہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
ان بیانات میں 50 فیصد سے زیادہ جھوٹ ہے۔ جبکہ حسب حال کے ایک پروگرام میں جنید سلیم نے اعداد و شمار کے حوالے سے بتایا تھا کہ ہم موجودہ ضرورت سے زیادہ بجلی پیدا کر سکتے ہیں۔

حکومتی اعداد و شمار یقین کریں 50 فیصد سے زیادہ جھوٹ پر مبنی ہوتے ہیں۔
یہ بیان سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پانی و بجلی میں دیا گیا ہے اور اگر یہ جھوٹ ہے تو اپوزیشن کو ضرور اس جھوٹ سے فائدہ اٹھانا چاہیے ۔ لیکن میرا خیال ہے کہ یہ اعداد و شمار صحیح ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
اپوزیشن والے کون سے دودھ کے دھلے ہیں، وہ بھی تو سودے بازی کر کے وزارتوں پر بیٹھے ہیں۔
 

محمدصابر

محفلین
سی این جی اسٹیشن بند کیے جائیں۔ یہ حل ہے جی پہلے نمبر پر تو۔ گیس گھروں میں چاہیے پہلے، سی این جی والے جائیں بھاڑ میں۔ آنا جانا کاہے جب سالا پیٹ میں ہی ایک نوالہ بھی نہ جائے۔ ان سالوں کو اپنی پڑی ہوئی ہے۔ جو ماما چاچا ماسی کا مُنڈا، پھوپھڑ تھا، سب کو سفارشی لائسنس ملتے گئے اور انھے واہ اسٹیشن لگتے گئے، اور یہ حال ہے کہ گھر میں آنے والی گیس سے دئیے جتنی روشنی بھی نہیں ہوتی اور اب لوگوں کی کاریں بھرتے جاؤ سی این جی سے۔ اشکے وئی۔ اوپر سے ان کمبخت حکمرانوں کی پلاننگ، سب کو پتا تھا خبروں میں بھی آ رہا تھا کہ اس بار بحران زیادہ شدید ہو گا بلکہ ہر سال زیادہ شدید ہوتا جائے گا، انہوں نے کوئی لائحہ عمل تیار نہیں کیا۔ اب ایک کی بند کرتے ہیں تو دوسرا چیخنے لگ جاتا ہے۔ ترجیح تو متعین کرو بھائی، روٹی یا کار، زرمبادلہ یا وڈے صاحب کی ہونڈا سٹی کی سین این جی۔
ایک بات تو آپ بھول ہی گئے کہ ایک گاڑی گوجرانوالہ سے لاہور جاتے ہوئے جتنی گیس کھا جاتا ہے وہ کسی عام آدمی کے ایک ماہ کے گیس کے استعمال سے زیادہ ہے
 

فخرنوید

محفلین
ایم بی بی ایس ڈاکٹر عاصم حسین وزیر پٹرولیم کے گیس کے حوالے سے اعداد و شمار دیکھیں اور اس کا جھوٹ پکڑ نا کوئی مشکل کام نہیں
اس ویڈیو میں 23:23 منٹ پر اعداد و شمار دئیے گئے ہیں گیس کی پیداوار کے اگر اس پر غور کریں تو آپ کو معلوم ہو گا گیس تو پوری ہے۔ لوڈ شیڈنگ بس ڈارمے بازی ہے۔
 

فخرنوید

محفلین
صوبہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پروڈکشن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کنزمپشن
بلوچستان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔17 فی صد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔7 فی صد
سندھ-------------69 فی صد ------------41 فی صد
خیبر پختونخواہ---------10 فی صد------------ 7 فی صد
پنجاب ------------5 فی صد---------------45 فی صد


ٹوٹل پروڈکشن : 101 فی صد
ٹوٹل کنزمپشن: 100 فی صد


1 فی صد پھر بھی بچ رہی ہے۔
 

دوست

محفلین
پاء جی اس کی باتوں پر نہ جائیں۔ بات یہ ہے کہ اگر اگلے چار سالوں میں ایران کی گیس بھی آپ کے پاس آ جائے تو بھی یہ بحران ختم نہیں ہو گا۔ اور ہر سال یہ بحران بڑھتا جائے گا۔ یہ لکھ لیں۔ یہ میں نہیں اعدادوشمار بتا رہے ہیں۔ ہمارے پاس گیس کی کمی ہے۔ ابھی تو اس سے بڑے پِٹ سیاپے پڑنے ہیں اگلے سال۔ سی این جی اسٹیشنوں نے گیس کی قلت کے عمل میں تیزی پیدا کی ہے۔
 
Top