گیس نہیں تو بائیو گیس ہی سہی

آج سے ٹھیک دو سال پہلے پاکستان میں گیس کے بحران کا نام تک لوگوں کے ذہن وگمان میں نہیں تھا مگر اب گیس کے حوالے سے حالات اس قدر خراب ہو چکے ہیں کہ گیس برائے نام ہی دستیاب ہے۔ صنعتیں،گھریلو صارفین، سی این جی یا پھر بجلی گھر کہیں بھی گیس دستیاب نہیں ہے۔ گیس کی لوڈشیڈنگ کے باعث صنعتیں پاکستان سے بند ہو رہی ہیں۔ صنعتکار پاکستان سے اپنی صنعتیں بنگلہ دیش یا پھر کسی دوسرے ملک منتقل کر رہے ہیں۔ گھریلو صارفین کو گیس صرف اتنی دستیاب ہے کہ چولہ ہلکی آنچ پر جلتا رہے، اس گیس سے نہ تو روٹی بنتی ہے اور نہ سالن۔۔۔ بس دل جلتا ہے اور بل بنتا ہے۔ سی این جی کی صورتحال تو انتہائی خراب ہے گیس سے چلنے والی گاڑیوں کی قطاریں سی این جی اسٹیشنز کے باہر لگی ہی رہتی ہیں۔ اس وقت ملک میں گیس کی پیداوار تین اعشاریہ چھ سے تین اعشاریہ آٹھ بلین کیوبک فٹ یومیہ ہے جبکہ گیس کی اوسطً طلب 6 بلین کیوبک فٹ ہے۔ اس اعتبار سے دو ارب چالیس کروڑکیوبک فٹ گیس کی یومیہ کمی ہے جسے پورا کرنے کے لئے صنعتوں، سی این جی ، اور گھریلو صارفین سمیت تمام عوام کوپریشان کیا جارہا ہے۔ گیس کی حالیہ کمی سے اندازے ہوتا ہے کہ ارب ڈالروں کے پاک ایران گیس پائپ لائن، ترکمانستان گیس پائپ لائن اور ایل این جی کے نئے منصوبوں کی بروقت تکمیل کے باوجود گیس کا بحران ابھی مزید پروان چڑھے گا۔

سی این جی کا حل یا متبادل تو فوری طور پر دستیاب ہونا ناممکن ہے اور اس شعبے کے سبب نہ جانے کب تک عوام کو پریشان ہونا پڑے گا مگر گھریلو صارفین میں گیس کی کمی کو بائیو گیس کے ذریعے پورا کرنا ممکن ہے۔ اس کے علاوہ متعدد صنعتوں کو بھی کوڑے سے چلنے والے بائیو گیس پلانٹس کے ذریعے گیس کی فراہمی کی جا سکتی ہے۔

بائیوگیس سے مراد جانوروں کے فضلے یا پھر کوڑے سے گیس یا توانائی کا حصول ہے۔بائیو گیس پلانٹس کو نہایت کم نرخوں میں باآسانی گھروں میں لگایا جا سکتا ہے۔ بائیو گیس عام گیس کی نسبت سستی ہے جبکہ اس سے جنریٹر چلا کر سستی بجلی بھی پیدا کر نا ممکن ہے۔ بائیو پلانٹ جانوروں کے فضلے سے گیس کی شکل میں ماحول دوست ایندھن ہے اور یہ بہترین نامیاتی کھاد پیدا کرنے کا بھی آسان ذریعہ ہے۔ بائیو گیس جانوروں کے فضلے سے گیس کی عدم تخمیر سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ میتھین کاربن ڈائی آکسائیڈ اور ہائیڈروجن وغیرہ کا مرکب ہے۔ اس کا اہم جزو میتھین گیس ہے۔ یہ گیس بدبودار نہیں ہے اور بغیر دھواں پیدا کیے جلتی ہے۔

ملک میں گیس کے گھریلوں صارفین کی تعدادتقریباً 53 لاکھ سے زائد ہے ۔ ان صارفین میں سے جو لوگ گاﺅں اور دیہات میں رہتے ہیں اور گائیں ، بھینسیں یا پھر بکریاں کے مالک ہیں کو بائیو گیس باآسانی فراہم کی جاسکتی ہے۔ اس طرح گیس کی طلب پر بھی قابو پایا جاسکتا ہے۔ بائیو گیس پلانٹس عموماً کم پیسوں میں مل جاتے ہیں ۔

حکومتی اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں اس وقت تقریباً 60 ملین جا نور پائے جاتے ہیں جسکے گو بر پر لاکھوں بائیو گیس پلانٹ لگا کر تقریباً 70 فی صد گھریلو ایندھن کی ضروریات پو ری کی جا سکتی ہیں۔ پاکستان کو نسل آف رینی ویبل انرجی ٹیکنولوجیزکے ماہرین کے مطابق پانچ مربع میٹر بائیوگیس پلانٹ پر تقریبا 45 اور 50 ہزار روپے کے قریب خرچہ آتا ہے جس میں 17 ہزار روپے سبسڈی ادارہ فراہم کرتا ہے۔ ایک بائیو گیس پلانٹ ہمیں ماہانہ 100 لیٹر مٹی کا تیل یا با الفاظ دیگر 840 کلو گرام لکڑیو ں کی بچت کر تا ہے۔ اوربائیو گیس پلانٹ کی تنصیب پر جو خرچہ ہوتا ہے وہ 6 مہینے بعد سستی گیس کی شکل میں پورا ہو جاتا ہے۔ بائیو گیس سے بجلی اور گیس کے حصول کے لئے پاکستان کونسل فار ری نیو ایبل انرجی ٹیکنولوجی نے متبادل ذرائع توانائی کے فروغ اور بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ کے حل کے لئے ملک بھر میں تقریباً 4 ہزار سے زائد بائیو گیس کے روایتی پلانٹ نصب کیے ہیں جو گھریلو سطح پر گیس کی ضروریات پوری کر رہے ہیں۔

بائیوگیس پلانٹ سے پانچ مکعب میٹر گیس حاصل کرنے کےلئے کم از کم پانچ بھینسیں یا دس گائے درکار ہوتے ہیں، بھینس کے ایک کلو گوبر اور ایک کلو پانی، جبکہ گائے کے ایک کلو گوبر کو ڈیڑھ کلو پانی کے ساتھ ملا کر آمیزہ تیار کیا جاتا ہے جس کو تبخیر کےلئے پہلی دفعہ پندرہ سے سترہ دن کےلئے خاص طرز کے تیار کردہ ٹینک میں رکھا جاتا ہے۔ اس کے بعد روزآنہ کی بنیاد پر اس ٹینک میں گوبر ڈالا جاتا ہے جس سے بائیوگیس بنتی رہتی ہے۔ پانچ مکعب میٹر گیس ایک اوسط گھرانے کی روزمرہ کی گیس کی ضروریات کےلئے موزوں ہوتی ہے۔

حال ہی میں صوبہ پنجاب کے شہر جھنگ سے تعلق رکھنے والے شفقت مصطفیٰ جو کہ متبادل ذرائع توانائی سے بجلی بنانے والے ایک پلانٹ میں آپریشن مینیجر ہیں نے گیس و بجلی بحران سے تنگ آکر اپنی مدد آپ کے تحت ایک مِنی بائیو گیس پلانٹ تیار کیا ہے جسے اپنے گھر کی چھت پر با آسانی لگایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے بائیو گیس کے ذریعے ناصرف اپنے گھر کا چولہا جلایا بلکہ اسی بائیوگیس پر گیس سے چلنے والے جنریٹر کے ذریعے بجلی بھی پیدا کی ہے۔

شفقت مصطفیٰ نے اپنا منی بائیوگیس پلانٹ بھارت میں زیرِ استعمال ماڈل پر تیار کیا ہے جس سے شہری علاقوں میں گیس کا متبادل اور مفت حصول ممکن ہو سکتا ہے۔ تین حصوں پر مشتمل یہ پلانٹ پاکستان میں زیرِاستعمال پانی گرم کرنے والے گیزر کی طرح دکھائی دیتا ہے۔ دو تہی ڈرم کے وسطی حصے میں ایک ہی دفعہ تھوڑی سے مقدار میں گوبر ڈال کر بیکٹریا کی نشوونما شروع کر دی جاتی ہے جس کے بعد اس پلانٹ میں گھر کا کچرا اور کسی بھی قسم کا نامیاتی فضلہ ڈالنا پڑتا ہے تاکہ گیس کی ترسیل جاری رہے۔ ڈرم کے بیرونی حصے میں گیس ذخیرہ ہوتی ہے جسے گھر میں گیس کی ترسیل کے عمومی نظام سے جوڑ دیا گیا ہے۔ منی بائیو گیس پلانٹ کا تیسرا حصہ ایک سولر پینل ہے جو شمسی توانائی کے ذریعے پلانٹ کو مطلوبہ درجہ حرارت فراہم کرتا ہے۔ اس پلانٹ کو تیار کرنے میں شفقت مصطفیٰ کے پچیس ہزار روپے خرچ ہوئے ہیں۔ دو کلو گرام کچرے سے دو میٹر کیوبک گیس پیدا ہوتی ہے جس سے پانچ لوگوں کا کھانا با آسانی تیار کیا جا سکتا ہے ، ان کا کہنا ہے کہ جلد ہی اس جدید بائیو منی پلانٹ کو بڑے پلانٹ میں تبدیل کر دیا جائے گا جو ایک بڑے گھر کی گیس ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کافی ہوگا۔ اس طرح کے منی بائیو گیس پلانٹس کو شہروں میں گھروں میں نصب کیا جاسکتا ہے۔ اس منی بائیو پلانٹس کے لیے مویشیوں یا ان کے فضلے کو جمع کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ یہ گندگی یا بدبو پھیلانے کی بجائے ماحول کی پاکیزگی میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے۔

حکومت بھی بائیو گیس کی اہمیت سے واقف ہے اور اس کے فروغ کے لئے حال ہی میں پنجاب کے دیہی علاقوں میںکسانوں کےلئے رعایتی قیمت پر فیملی سائز بائیو گیس پلانٹ لگانے کا دو سالہ منصوبہ شروع کر دیا گیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جدید طرز کے بائیو گیس پلانٹس کی تنصیب کو شہری علاقوں میں بھی فروغ دیا جائے تاکہ گیس کے لاکھوں گھریلو صارفین کی ضروریات اور پریشانیوں کو دور کیا جا سکے۔

تحریر: سید محمد عابد
http://smabid.technologytimes.pk/?p=650

http://www.technologytimes.pk/2012/01/07/گیس-نہیں-تو-بائیو-گیس-ہی-سہی/
 

شمشاد

لائبریرین
بہت شکریہ عابد بھائی یہ شریک محفل کرنے کا۔

سارا مسئلہ نیک نیتی سے کام کرنے کا ہے۔ جس کہ پاکستان میں ہر محکمے میں فقدان ہے۔
 

ساجد

محفلین
"ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی"۔ جھنگ کی مٹی تو حقیقت میں بھی بڑی زرخیز ہے۔
 
Top