گھوڑے کا دکھڑا

فرحت کیانی

لائبریرین
گھوڑے کا دکھڑا
احمد حاطب صدیقی

تانگے کا ایک گھوڑا
لنگڑا تھا تھوڑا تھوڑا
پوچھا جو میں نے اس سے
کیا پاؤں میں ہے پھوڑا؟
بولا، یہ ظلم مجھ پر
اک آدمی نے توڑا۔
پہلے تو اس نے مجھ کو
تانگے میں لا کے جوڑا۔
پھر اس کو خوب بھر کر
بولا کہ چل منوڑا۔
جب میں کھسک نہ پایا
لہرایا اس نے کوڑا۔
مارا مجھے تڑا تڑ
پھر دم کو بھی مروڑا۔
میں ہنہنا کر بھاگا
بس بن گیا بھگوڑا۔
یہ داستاں سنا کر
بولا وہ ہنہنا کر۔
ہم لوگ ہنستے گاتے
ہر بوجھ ہیں اٹھاتے۔
ہیں جانور ہمیشہ
انساں کے کام آتے۔
دل کش پرند پیارے
شاخوں پہ چہچہاتے۔
سارے نمازیوں کو
ہرصبح ہیں جگاتے۔
سو سو طرح تمھارا
ہم دل ہیں لبھاتے۔
کچھ ایسے ہیں کہ جن سے
تم ہو دوا بناتے۔
کچھ اُون تم کو دے کر
سردی سے ہیں بچاتے۔
کچھ دودھ تم کو دیتے
کچھ گوشت ہیں کھلاتے۔
گر جانور نہ ہوتے
تم گھی کدھر سے لاتے؟
مکھن، پنیر، انڈے
آخرکہاں سے کھاتے؟
بس کیا کہوں کہ کیا کیا
ہیں فائدے اٹھاتے۔
پھر بھی ہیں لوگ ہم کو
ہر طرح سے ستاتے۔
یہ بات کہتے کہتے
دکھڑا یہ سب سناتے
ایسا وہ ہنہنایا
میں کچھ بھی کہہ نہ پایا۔



 
Top