گھوڑا اور گدھا

مجھے بہت پہلے سے شک تھا کہ نواز شریف صاحب کو شاید مزاح نگار بننے کا شوق ہے۔ انتہائی مزاحیہ بات بھی اتنی سنجیدگی سے کرتے ہیں جیسے پی ٹی وی کا خبرنامہ۔ ایک دفعہ کہہ رہے تھے کہ مارشل لاء سے پہلے سب مجھ سے کہہ رہے تھے، قدم بڑھاؤ نواز شریف، ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ لیکن جب پیچھے دیکھا تو کوئی بھی نہیں تھا۔ اب یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ پیچھے کب دیکھا؟
ابھی پچھلے دنوں میاں صاحب نے ایک بہت پتے کی بات کی ہے۔ کہ آمریت گدھا ہے اور جمہوریت گھوڑا۔ ہم کئی روز اس بات پر غوروفکر کرتے رہے، کہ یہ بات مزاحیہ ہے کہ سنجیدہ۔ بہت سوچنے کے بعد ہم پر جو انکشافات ہوئے وہ آپ کو بھی بتاتے ہیں۔
آمریت گدھا ہے اور جمہوریت گھوڑا۔ گدھا چارہ کھاتا ہے، گھوڑا چنے، نہیں نہیں۔۔۔۔۔۔۔ مربے کھاتا ہے۔ گدھا ہر وقت مالک کے ڈنڈے کے ڈر سے سیدھا ایک ہی راستے پر چلتا ہے، انکساری، قناعت اور صبر کی تصویر بن کر۔ جبکہ گھوڑا اڑیل ہوتا ہے، نخرے کرتا ہے، کبھی کبھار تانگے میں بیٹھے لوگوں کو سفر کے ساتھ ساتھ سڑک کے کنارے نہر میں ڈبکیاں بھی لگواتا ہے۔ گھوڑے کی طرح گدھے کے لئے کسی شاہی اصطبل کی ضرورت نہیں ہوتی۔ گدھے کی زندگی سادگی سے عبارت ہے۔ اب عوام کس خوشی میں گھوڑے پالیں؟ اور گھوڑے بھی وہ، جو ہر مرتبہ بولی لگنے پر بِک جاتے ہیں۔
اب نواز شریف صاحب کے بیان کی روشنی میں مشہور سیاسی بیان کچھ یوں‌ بنتے ہیں:
بدترین گھوڑا بہترین گدھے سے ہزار درجے اچھا ہے۔
گھوڑا بہترین انتقام ہے۔
گدھے کی بجائے گھوڑے کی حمایت کریں گے۔ ہالبروک
دھرنا دیتے تو گدھے کے آنے کا خطرہ تھا۔ اعتزاز
عدالتوں کے اختیارات محدود کریں گے تو گدھے آتے رہیں گے۔ چیف جسٹس
سیاسی مزاح نگاری میں نواز شریف کو الطاف بھائی سے بیعت کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ ان کے جوہر اچھی طرح کھل کر سامنے آجائیں۔ بھائی نے کئی مرتبہ زبردست ایکٹنگ کرکے پنجاب والوں کو سلطان راہی کی یاد دلائی ہے۔ جاگیرداروں کو اس شان سے للکارا کہ اداکار بھی حیران رہ گئے ہوں گے۔ ویسے بھی ایم کیو ایم پنجاب میں آرہی ہے تو بھائی کو پنجابی سیکھنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ خطاب کے لئے کام آئے، خطاب بھی ایسا جس میں ہر دو تین جملوں کے بعد اوئے جاگیردارا! کا پیوند لگا ہو۔
 

شمشاد

لائبریرین
اور آجکل تو پنجاب کا کچھ زیادہ ہی درد جاگ رہا ہے ایم کیو ایم کو۔ یہاں کے جرائم ان کو کچھ زیادہ ہی نظر آ رہے ہیں۔
 
Top