گھوٹکی میں ہندو استاد پر توہین رسالت کا الزام، مقدمہ درج، حالات کشیدہ

جاسم محمد

محفلین
گھوٹکی میں ہندو استاد پر توہین رسالت کا الزام، مقدمہ درج، حالات کشیدہ

_108818260_15sept-ghotki-school-ransacked01.jpg

پاکستان کے صوبے سندھ کے ضلع گھوٹکی میں ایک ہندو استاد پر توہینِ رسالت کا الزام عائد کیے جانے اور مشتعل ہجوم کی جانب سے ایک نجی سکول اور اس کے مالک کی رہائش گاہ پر حملے کے بعد حالات کشیدہ ہیں۔

صحافی علی حسن کے مطابق توہینِ رسالت کا یہ مبینہ واقعہ سنیچر کو پیش آیا تھا جب ایک نجی سکول کے نویں جماعت کے طالب علم کی جانب سے نوتن مل نامی ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے استاد پر پیغمبرِ اسلام کی توہین کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔

نویں جماعت کے اس طالبعلم کا دعویٰ تھا کہ نوتن مل کمرۂ جماعت میں سبق پڑھاتے ہوئے مبینہ طور پر توہین رسالت کے مرتکب ہوئے ہیں۔

یہ طالبعلم جس سکول میں زیرِ تعلیم تھا وہ نوتن مل کی ہی ملکیت ہے جو کہ ایک ریٹائرڈ پروفیسر ہیں۔

مذکورہ طالبعلم کے والد نے اس سلسلے میں پولیس سے رابطہ کیا اور پولیس کے مطابق ہندو استاد کو گرفتار کر کے توہینِ رسالت کی دفعہ 295 سی کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔

اس واقعے پر مذہبی جماعتوں نے ضلع بھر میں ہڑتال کی اپیل کی جس پر اتوار کو ضلع گھوٹکی میں کاروبارِ زندگی معطل رہا اور متعدد جلوس بھی نکالے گئے۔

_108818264_15sept-ghotki-school-ransacked02.jpg

ہڑتال کے دوران ہی ایک گروہ نے نوتن مل کے سکول کی عمارت پر حملہ کر دیا اور وہاں توڑ پھوڑ کی۔ اس کے علاوہ ایک اور گروہ نے نوتن مل کی رہائش گاہ پر بھی حملہ کیا۔

مشتعل ہجوم کی جانب سے ایک مندر کو بھی نقصان پہنچائے جانے کے اطلاعات ہیں تاہم ان کی غیرجانبدار یا سرکاری ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی۔

حالات کشیدہ ہونے کے بعد ضلعی انتظامیہ نے رینجرز کو طلب کر لیا ہے جس نے شہر میں گشت شروع کر دیا ہے۔

سندھ پولیس کے ایڈیشنل آئی جی ڈاکٹر جمیل احمد نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ملزم نوتن مل پولیس کی حفاظتی تحویل میں ہیں اور مقدمہ کی شفاف تحقیقات کی جائیں گی۔

Image copyrightTWITTER/@JAHMED95
_108817742_addligjamil.jpg

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور سندھ کے وزیر اطلاعات و محنت سعید غنی نے بھی ایک بیان میں کہا ہے کہ گھوٹکی واقعے کی ایف آئی آر سنیچر کو ہی درج ہو چکی ہے اور اس میں نامزد پروفیسر کو اتوار کو ہی گرفتار کر لیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ واقعے کی مکمل غیر جانبدارانہ تحقیقات کروائی جائیں گی اور اگر الزام ثابت ہوا تو ملزم کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔

انھوں نے علمائے کرام اور عوام سے پرامن رہنے کی اپیل کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ عوامی جذبات کی قدر کرتے ہیں لیکن ایک شخص کی بنیاد پر پوری برادری کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔

مشتعل ہجوم کی کی جانب سے ہندو برادری کی املاک کو نقصان پہنچائے جانے کے بعد مقامی مذہبی رہنماؤں نے عوام سے پرامن رہنے اور ہندو آبادی کا ہر لحاظ سے خیال رکھنے کی اپیل کی ہے۔

واضح رہے کہ گھوٹکی شہر میں ہندو آبادی کا تناسب 30 فیصد ہے جبکہ پورے ضلع میں ہندو آبادی 20 سے 25 فیصد بتائی جاتی ہے۔​
 
Top