گُل، ہوئے جاتے تھے کیا کیا ، چمنِ سُرخ میں گم ۔ صابر ظفر

فرخ منظور

لائبریرین
( غزل)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔2020۔10۔18
گُل، ہوئے جاتے تھے کیا کیا ، چمنِ سُرخ میں گم
مَیں بھی خلوت میں ہُوا پِیرہَنِ سُرخ میں گم

سرخ یاقوت ہو جیسے کسی یاقوت کے پاس
اک تن ِ سرخ تھا اک اور تن ِ سُرخ میں گم

رنگ جمتا ہی نہ تھا اور کسی حیلے سے
خون تھوکا تو غزل تھی سخنِ سُرخ میں گم

دور جاتا ہوا، زنجیر زنی کرتا ہوا
ہو گیا کوئی کسی انجمن ِسُرخ میں گم

جتنے عشّاق شہیدوں کے ابھی زندہ ہیں
ہونا چاہیں سبھی دار و رسنِ سُرخ میں گم

دل کسی اور طرف جانے کو تیّار نہ تھا
ہو گیا وہ بھی خطوط ِ بدن ِ سُرخ میں گم

سلوٹیں اور بھی تھیں، اور کشِش رکھتی تھیں
بدلی کروٹ تو ہوا میں، شکنِ سُرخ میں گم

نکلو گے تیرہ شبی سے تو مجھے پاؤ گے
آفتابِ ازَلی کے وط۔ن ِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِ سُرخ میں گم

کیا مَحبّت تھی عیاں بھی تھی نہاں بھی تھی ظفرؔ !
کیا زباں تھی کہ ہوئی اُس دہنِ سُرخ میں گم
( ص۔اب۔ر ؔ ظف۔۔ر )
 
Top