گوگل کے کوانٹم کمپیوٹر نے 10 ہزار سال کا حساب صرف تین منٹ میں لگا لیا!

جاسم محمد

محفلین
گوگل کے کوانٹم کمپیوٹر نے 10 ہزار سال کا حساب صرف تین منٹ میں لگا لیا!
ویب ڈیسک جمع۔ء 25 اکتوبر 2019
1854571-googlesycamorex-1571924246-406-640x480.jpg

سپر کنڈکٹنگ سائیکامور کوانٹم چپ 53 کیو بٹس کے ذریعے کام کرتی ہے جو آپس میں مربوط ہیں۔ (تصویر: نیچر/ گوگل)


سلیکان ویلی: عالمی شہرت یافتہ تحقیقی جریدے ’’نیچر‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع شدہ ایک ریسرچ پیپر میں گوگل سے وابستہ ماہرین کی ٹیم نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے اپنا ’’سائیکامور‘‘ کوانٹم کمپیوٹر استعمال کرتے ہوئے، صرف 200 سیکنڈ میں وہ حساب لگایا ہے جسے مکمل کرنے میں موجودہ طاقتور ترین سپر کمپیوٹر کو بھی 10 ہزار سال لگ جائیں گے۔

وضاحت کی جائے تو معلوم ہوگا کہ گوگل کا یہ کوانٹم کمپیوٹر، آج کے روایتی سپر کمپیوٹروں کے مقابلے میں تقریباً 1,576,800,000 گنا (ایک ارب 57 کروڑ اور 68 لاکھ گنا) زیادہ حسابی طاقت کا حامل ہے۔

یہ دعویٰ اتنا غیرمعمولی ہے کہ اس پر دنیا بھر میں کوانٹم کمپیوٹر پر کام کرنے والے اداروں میں کھلبلی مچ گئی ہے کیونکہ اب تک تیار کیا جانے والا کوئی بھی کوانٹم کمپیوٹر، اپنی کارکردگی اور رفتار میں عام روایتی کمپیوٹروں کے برابر بھی نہیں پہنچ پائے تھے۔

نیچر کو تحقیقی جرائد کی دنیا میں بلند ترین مقام حاصل ہے لیکن اگر آنے والے دنوں میں یہ دعویٰ غلط ثابت ہوگیا تو یقیناً اس سے ’’نیچر‘‘ کی ساکھ کو بدترین نقصان بھی پہنچ سکتا ہے۔

امریکی جریدے فائنانشل ٹائمز نے ایسے ہی ایک مقالے کی نشاندہی گزشتہ ماہ ناسا کے ٹیکنیکل رپورٹس سرور پر بھی کی تھی جس میں گوگل کے ماہرین نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے کوانٹم کمپیوٹر نے روایتی سپر کمپیوٹروں کو ’’ایک بڑے مارجن‘‘ سے شکست دے دی ہے۔

البتہ، وہ مقالہ جلد ہی ہٹا دیا گیا اور اس کے بارے میں صرف چہ مگوئیاں رہ گئیں۔ تاہم، نیچر میں اشاعت کے بعد اب یہ دعویٰ اپنی تمام تر جزئیات سمیت سب کے سامنے آگیا ہے۔

تفصیلات سے پتا چلتا ہے کہ سائیکامور کوانٹم کمپیوٹر کی اصل طاقت ’’سائیکامور چپ‘‘ ہے جو 53 سپرکنڈکٹنگ کوانٹم بِٹس (کیو بٹس) کے ذریعے کام کرتی ہے، جو آپس میں مربوط ہیں۔

جریدے ’’ٹیکنالوجی ریویو‘‘ کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں گوگل کے سی ای او سندر پچائی نے فخریہ انداز میں کہا کہ یہ کوانٹم کمپیوٹر اسی طرح ہے جیسے رائٹ برادران کا ایجاد کیا ہوا سب سے پہلا ہوائی جہاز کہ جو صرف چند سیکنڈ تک فضا میں رہا اور چند فٹ کی بلندی تک ہی پہنچ پایا۔ مطلب یہ کہ کوانٹم کمپیوٹرز پر کام تو صحیح معنوں میں اب شروع ہوا ہے۔

البتہ، کوانٹم کمپیوٹرز کے میدان میں گوگل کے سب سے بڑے حریف ’’آئی بی ایم‘‘ نے اپنے آفیشل بلاگ میں ردِعمل دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اس ریسرچ پیپر میں ڈسک اسٹوریج کی مد میں استعمال کی گئی وہ بے تحاشا جگہ اور آپٹیمائزیشن (کارکردگی بہتر بنانے کے) دوسرے طریقوں کا کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا۔

اس لیے ’’گوگل کا یہ تجربہ سپر کنڈکٹر پر مبنی کوانٹم کمپیوٹنگ کے میدان میں پیش رفت کا ایک زبردست مظاہرہ ضرور ہے لیکن اسے اس بات کا ثبوت ہر گز نہیں سمجھنا چاہیے کہ کوانٹم کمپیوٹروں کو کلاسیکی/ روایتی کمپیوٹروں پر ’بالادستی‘ حاصل ہوگئی ہے۔‘‘
 

محمد سعد

محفلین
آئی بی ایم والے کہتے ہیں کہ
We argue that an ideal simulation of the same task can be performed on a classical system in 2.5 days and with far greater fidelity.
لنک زیک دے چکے۔ آئی بی ایم ریسرچ بلاگ والا۔
 

جاسم محمد

محفلین
آئی بی ایم والے کہتے ہیں کہ
We argue that an ideal simulation of the same task can be performed on a classical system in 2.5 days and with far greater fidelity.
لنک زیک دے چکے۔ آئی بی ایم ریسرچ بلاگ والا۔
گوگل جیسی ذمہ دار کمپنی سے ایسے بلند و بانگ دعووں کی توقع نہیں تھی۔ اگر بعد میں گوگل کی ریسرچ غلط ثابت ہو گئی تو کمپنی کی ساخت کو دھچکا پہنچے گا۔
 

محمد سعد

محفلین
دوسری جانب پھر یہ بھی ہے کہ اس چھوٹے سے کوانٹم سسٹم اور آئی بی ایم کے سپرکمپیوٹرز کے سکیل میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
جیسا کہ سکاٹ آرنسن کہتے ہیں (لنک):

OK, so let’s carefully spell out what the IBM paper says. They argue that, by commandeering the full attention of Summit at Oak Ridge National Lab, the most powerful supercomputer that currently exists on Earth—one that fills the area of two basketball courts, and that (crucially) has 250 petabytes of hard disk space—one could just barely store the entire quantum state vector of Google’s 53-qubit Sycamore chip in hard disk. And once one had done that, one could simulate the chip in ~2.5 days, more-or-less just by updating the entire state vector by brute force, rather than the 10,000 years that Google had estimated on the basis of my and Lijie Chen’s “Schrödinger-Feynman algorithm” (which can get by with less memory).
...
Anyway, you might notice that three minutes versus 2.5 days is still a quantum speedup by a factor of 1200. But even more relevant, I think, is to compare the number of “elementary operations.” Let’s generously count a FLOP (floating-point operation) as the equivalent of a quantum gate. Then by my estimate, we’re comparing ~5×109 quantum gates against ~2×1020 FLOPs—a quantum speedup by a factor of ~40 billion.
...
For me, though, the broader point is that neither party here—certainly not IBM—denies that the top-supercomputers-on-the-planet-level difficulty of classically simulating Google’s 53-qubit programmable chip really is coming from the exponential character of the quantum states in that chip, and nothing else.
---​

پیمانے کا اندازہ کچھ ان الفاظ میں بتاتے ہیں۔

In the present case, while increasing the circuit depth won’t evade IBM’s “store everything to hard disk” strategy, increasing the number of qubits will. If Google, or someone else, upgraded from 53 to 55 qubits, that would apparently already be enough to exceed Summit’s 250-petabyte storage capacity. At 60 qubits, you’d need 33 Summits. At 70 qubits, enough Summits to fill a city … you get the idea.​

پورا مضمون پڑھنے لائق ہے۔
Shtetl-Optimized » Blog Archive » Quantum supremacy: the gloves are off

آخر میں ایک بار پھر یاد دلاتا چلوں۔ یہ رینڈم سامپل لینے کے متعلق ایک مخصوص ایپلکیشن ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ کوانٹم کمپیوٹر ہر طرح کے حسابات لگانے لگ گیا ہے۔ وہ سٹیج آہستہ آہستہ آئے گی۔ لیکن بہرحال، یہ اس سلسلے میں ایک اہم قدم ضرور ہے۔
 

محمد سعد

محفلین
اس حوالے سے جان پریسکل (John Preskill) کا مضمون بھی لازمی پڑھیے گا۔
John Preskill Explains ‘Quantum Supremacy’ | Quanta Magazine
اس سے ایک اقتباس:

The catch, as the Google team acknowledges, is that the problem their machine solved with astounding speed was carefully chosen just for the purpose of demonstrating the quantum computer’s superiority. It is not otherwise a problem of much practical interest. In brief, the quantum computer executed a randomly chosen sequence of instructions, and then all the qubits were measured to produce an output bit string. This quantum computation has very little structure, which makes it harder for the classical computer to keep up, but also means that the answer is not very informative.

However, the demonstration is still significant. By checking that the output of their quantum computer agrees with the output of a classical supercomputer (in cases where it doesn’t take thousands of years), the team has verified that they understand their device and that it performs as it should. Now that we know the hardware is working, we can begin the search for more useful applications.​
 

محمد سعد

محفلین
گوگل جیسی ذمہ دار کمپنی سے ایسے بلند و بانگ دعووں کی توقع نہیں تھی۔ اگر بعد میں گوگل کی ریسرچ غلط ثابت ہو گئی تو کمپنی کی ساخت کو دھچکا پہنچے گا۔
ریسرچ غلط تو نہیں لیکن جو دعویٰ اس کے ساتھ جوڑا گیا ہے (quantum supremacy)، وہ کچھ زیادہ ہی ہو گیا ہے۔
جو اقتباسات پیش کیے ہیں، ان سے یہ واضح ہو جائے گا کہ یہ تحقیق بہرحال اہم ہے۔ البتہ اسے وہ tipping point نہیں کہہ سکتے کہ جس سے آگے کوانٹم کمپیوٹرز، کلاسیکل کمپیوٹرز کو پیچھے چھوڑ گئے۔ اس کے لیے ابھی بہت کام باقی ہے۔
 
Top