گوگل نے دنیا کے نقشے سے فلسطین کا وجود ہی مٹا دیا

سید عمران

محفلین
عرب ممالک میں بسنے والے ۸ لاکھ سے زائد یہودیوں کو اسرائیل بنتے ساتھ ہی ملک بدر کر دیا گیا تھا۔ انکا اسرائیل سے کیا لینا دینا تھا؟
مسلمانوں کیساتھ مسئلہ یہ ہے کہ خود بڑے مظلوم بنتے ہیں اور جب کافرین کیساتھ مظالم کرتے ہیں تو انہیں بکلی بھول جاتے ہیں۔
اسرائیل کی تاریخ پڑھیں۔ یہودی وہاں ۱۸۵۰ یعنی خلافت عثمانیہ کے دور سے ہجرت کرکے آبادکاری کر رہے تھے۔ تب آپکی برطانیہ و امریکہ والی ناجائز اولاد کا رول کس نے ادا کیا تھا؟ خلافت عثمانیہ نے؟
پاکستان کا وجود ہندوستان سے نکلا اور پھر اسکا بھی بنگلہ دیش کیساتھ بٹوارہ ہو گیا۔ پھر بھی بضد ہیں کہ سب کچھ ٹھیک ہوا۔
سب خلط ملط کردیا۔ بات کہاں سے کہاں لے گئے!!!
 

سید عمران

محفلین
میں یہودیوں و اسرائیلیوں کا نمائندہ نہیں ہوں۔ البتہ جہاں ایکطرفہ پراپیگنڈہ کیا جائے گا وہاں تصویر کا دوسرا دکھانا ضروری ہے۔
جن فورمز پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پراپیگنڈہ ہورہا ہے ان میں سے کسی پر مسلمانوں کا ساتھ دیا ہے کبھی؟؟؟؟
 

arifkarim

معطل
سب خلط ملط کردیا۔ بات کہاں سے کہاں لے گئے!!!
اگر فلسطینی جنگ کی وجہ سے اسرائیل سے نکل گئے تو عرب ممالک میں بسنے والے یہود کونسا وہاں محفوظ رہے؟ انہیں بھی دیگر ممالک ہجرت کرنا پڑی۔ اس تاریخ سے کیوں چھپتے پھرتے ہیں؟
 

arifkarim

معطل
جن فورمز پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پراپیگنڈہ ہورہا ہے ان میں سے کسی پر مسلمانوں کا ساتھ دیا ہے کبھی؟؟؟؟
میں فلسطینیوں کیساتھ ہوں۔ سنہ ۲۰۰۰ اور ۲۰۰۸ میں اوسلو امن معاہدے کے تحت اسرائیل نے فلسطینیوں کو آزاد ریاست دے دی تھی مگر فلسطینی قیادت نے اسے صاف رد کرتے ہوئے جنگ جاری رکھی جسکا نتیجہ پوری قوم آج تک بھگت رہی ہیں۔ فلسطینی ریاست ان علاقوں میں قائم کرنے کی پیشکش اسرائیل نے کی تھی:
547D434E-D0E0-4753-8028-6B8032E212AC.jpg

E000C70C-47D2-485E-B0A6-BF30660643BB.jpg
 

سید عمران

محفلین
صرف عرب اور فلسطین ہی سے نہیں ، یہودی ایسی بدکردار قوم ہے کہ دنیا بھر سے دھتکاری گئی ہے چاہے روس ہو یا جرمنی۔
ان کے کرتوتوں کی وجہ سے ذلت و رسوائی کی عالمی پھٹکار ان پر مسلط ہے۔
ضربت علیھم الذلۃ و المسکنۃ
 

arifkarim

معطل
یہ کیسا ساتھ ہے؟؟؟ ایک طرف دوستی کا دعویٰ ، ایک طرف مخالفوں کی حمایت؟؟؟
اسرائیل نے جب سنہ ۲۰۰۰ اور پھر ۲۰۰۸ میں دوبارہ قیام امن کی خاطر فلسطینی ریاست بنانے کا فیصلہ کر لیا تھا تو فلسطینی قیادت نے اسے دونوں بار رد کیوں کیا؟ الغرض انہیں امن سے نہیں اسرائیل سے جنگ میں دلچسپی ہے۔ اچھی بات ہے لگے رہیں پھر
 

arifkarim

معطل
صرف عرب اور فلسطین ہی سے نہیں ، یہودی ایسی بدکردار قوم ہے کہ دنیا بھر سے دھتکاری گئی ہے چاہے روس ہو یا جرمنی۔
ان کے کرتوتوں کی وجہ سے ذلت و رسوائی کی عالمی پھٹکار ان پر مسلط ہے۔
ضربت علیھم الذلۃ و المسکنۃ
دنیا میں اپنی آبادی کے تناسب سے زیادہ نوبل انعام لینے والی قوم یہود ہے۔ دنیا کی معیشت و ٹیکنالوجی میں نت نئی ایجادات کرنے والی قوم یہود ہے۔ طب اور سماجیات میں اعلی مقام حاصل کرنے والی قوم یہود ہے۔ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کمپنیز کو چلانے والی قوم یہود ہے۔ پھٹکار تو مسلمانوں کو پڑی ہوئی ہے لیکن نظر نہیں آرہی۔
 

arifkarim

معطل
کسی مرد مومن سے جواب نہیں بن رہا تو منفی ریٹنگ سے کام چلا رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہم بھی منفی ریٹنگ لیں گے۔
 

فاخر رضا

محفلین
شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کا مظاہرہ ہورہا ہے. سورج کا انکار بے فائدہ ہے. جو باتیں تسلیم شدہ ہیں ان پر آپ ہی تحقیق کریں. کس کے پاس اتنا فضول وقت ہے کہ آپ کے دعووں کا جواب دے. کاش آپ خود اسرائیل کے اعترافات دیکھ لیتے. بہر حال آپس کو داد دینی پڑے گی کہ اس فضول قسم کی بحث پر اتنی محنت کر رہے ہیں
 

ابن عادل

محفلین
کسی مرد مومن سے جواب نہیں بن رہا تو منفی ریٹنگ سے کام چلا رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہم بھی منفی ریٹنگ لیں گے۔

آپ مظلوم کا ساتھ دینے کے عنوان تلے اپنی اس بغض کو عیاں کررہے ہیں جو مسلمانوں سے آپ کو ہے ۔ لوگ مختلف حالات میں محتلف مقامات سے ہجرت کرتے ہیں رہتے ہیں ۔ اور آج بھی پوری دنیا میں ایک بہت بڑی ہجرت جاری ہے ۔ لیکن فلسطین میں ریاستی سرپرستی میں اہل فلسطین کو جس طرح بے دخل کیا گیا ہے وہ تو ایسی کھلی حقیقت ہے جس سے کوئی صاحب شعور انکار نہیں کرسکتا ۔ آپ ہم سے مناظرہ نہ کیجیے ان امریکی و یورپی اقوام سے کیجیے جن کے باعث آج بھی یہ ایشو زندہ ہے ۔ مسلمان تو اپنے قبلۂ ثانی کے سامنے سجدہ ریز ہیں ۔ (یہ ناداں گرگئے سجدے میں جب وقت قیام آیا )کچھ مؤمنین نے یہاں گوگل پر اعتراض کردیا ہے تو ان سے زیادہ اس پر سیخ پا ہوں جو پٹیشن دائر کرکے پوری دنیا کی توجہ یہاں منذول کرانا چاہتا ہے ۔ آپ جس طرح حقوقِ اسرائیل کا عَلم اور دفاعِ اسرائیل کا نعرۂ مستانہ بلند کرکے مردانِ مؤمنین کو مناظرے کے میدانِ کارزار میں دعوت مبازرت دے رہے ہیں ۔ یہ مؤمنین ہی نہیں غیر مؤمنین بلکہ بہت سے اہل کتاب یہودونصاریٰ کے لیے بھی حیرت انگیز ہے ۔
 

arifkarim

معطل
شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کا مظاہرہ ہورہا ہے. سورج کا انکار بے فائدہ ہے. جو باتیں تسلیم شدہ ہیں ان پر آپ ہی تحقیق کریں. کس کے پاس اتنا فضول وقت ہے کہ آپ کے دعووں کا جواب دے. کاش آپ خود اسرائیل کے اعترافات دیکھ لیتے. بہر حال آپس کو داد دینی پڑے گی کہ اس فضول قسم کی بحث پر اتنی محنت کر رہے ہیں
اسرائیل فلسطینی ریاست کو تسلیم نہیں کرتا جب تک فلسطینی قیادت خود اسے تسلیم نہ کرے۔ اسرائیل کی جانب سے فلسطینی ریاست کے قیام کیلئے متعدد بار فیصلہ کیا گیا مگر فلسطینی لیڈرشپ خود ہی اس آفر کو ٹھکراتی رہی ہے۔
اس دوران قبضہ گروپ صہیونیوں نے ان متنازع علاقوں میں مزید عمارات و مکان کھڑے کر دئے جنہیں وہ مستقل میں اسرائیل کے اندر دیکھنا چاہتے ہیں۔ مطلب فلسطینی قیادت اس تنازع کو جتنا لٹکا رہی ہے اسے مستقبل میں اتنا ہی زیادہ نقصان ہو رہا ہے۔
اسرائیل و یہود پر ایکطرفہ تنقید کرنے والے جان بوجھ کر یہ بھول جاتے ہیں اسرائیل سے بار بار جنگیں کرنے والے ہمسایہ عرب ممالک مصر اور اردن ۱۹۷۹ اور ۱۹۹۶ سے حالت امن میں ہیں۔ الغرض اگر فلسطینی اسرائیل سے امن معاہدہ مکمل کر لیں تو انہیں مصر اور اردن کی طرح امن نصیب ہو جائے گا۔ بصورت دیگر جنگ کی صورت میں صرف جنگ ہی ملتی ہے امن نہیں۔
 

arifkarim

معطل
آپ مظلوم کا ساتھ دینے کے عنوان تلے اپنی اس بغض کو عیاں کررہے ہیں جو مسلمانوں سے آپ کو ہے ۔ لوگ مختلف حالات میں محتلف مقامات سے ہجرت کرتے ہیں رہتے ہیں ۔ اور آج بھی پوری دنیا میں ایک بہت بڑی ہجرت جاری ہے ۔ لیکن فلسطین میں ریاستی سرپرستی میں اہل فلسطین کو جس طرح بے دخل کیا گیا ہے وہ تو ایسی کھلی حقیقت ہے جس سے کوئی صاحب شعور انکار نہیں کرسکتا ۔ آپ ہم سے مناظرہ نہ کیجیے ان امریکی و یورپی اقوام سے کیجیے جن کے باعث آج بھی یہ ایشو زندہ ہے ۔ مسلمان تو اپنے قبلۂ ثانی کے سامنے سجدہ ریز ہیں ۔ (یہ ناداں گرگئے سجدے میں جب وقت قیام آیا )کچھ مؤمنین نے یہاں گوگل پر اعتراض کردیا ہے تو ان سے زیادہ اس پر سیخ پا ہوں جو پٹیشن دائر کرکے پوری دنیا کی توجہ یہاں منذول کرانا چاہتا ہے ۔ آپ جس طرح حقوقِ اسرائیل کا عَلم اور دفاعِ اسرائیل کا نعرۂ مستانہ بلند کرکے مردانِ مؤمنین کو مناظرے کے میدانِ کارزار میں دعوت مبازرت دے رہے ہیں ۔ یہ مؤمنین ہی نہیں غیر مؤمنین بلکہ بہت سے اہل کتاب یہودونصاریٰ کے لیے بھی حیرت انگیز ہے ۔
آپ اسرائیل کی تاریخ سے بالکل نابلد ہیں۔ ۱۹۴۷ میں اسرائیل کا کوئی وجود نہیں تھا۔ جب بڑی تعداد میں فلسطینیوں کا انخلاء ہوا وہ خانہ جنگی کی وجہ سے تھا۔ باقی فلسطینی ۱۹۴۸ میں اسرائیل پر ۵ عرب ممالک کے ایک ساتھ حملے کی وجہ سے کوچ کر گئے کہ فتح کی صورت میں واپس آجائیں گے۔ شومئی قسمت یہود عربوں کے قتال سے بچ نکلے اور اسرائیل کی سرحدوں کو محفوظ بنا دیا۔ یوں جو فلسطینی جنگ کے دوران ملک بدر ہوئے تھے بارڈر پر پھنس گئے۔ باقی جو فلسطینی اسرائیلی سرحدوں کے اندر ہی رہے وہ آج بھی اسرائیل کے شہری ہیں جنکا کل آبادی میں تناسب ۲۰ فیصد ہے۔ یہ اسرائیلی عرب کہلاتے ہیں اور انکی اسرائیلی پارلیمان میں اسوقت ۱۳ سے زائد سیٹیں ہیں۔ تمام اسرائیلی حقوق انہیں حاصل ہیں۔
اگر اسرائیل نے ریاستی جبر کا مظاہرہ کرنا ہوتا تو سب سے پہلے اسرائیلی عربوں کو ملک بدر کرتا۔ اسکے باوجود اسرائیلی عربوں کی تعداد معاشرہ میں بڑھ رہی ہے۔
 
آخری تدوین:

arifkarim

معطل
بہر حال آپس کو داد دینی پڑے گی کہ اس فضول قسم کی بحث پر اتنی محنت کر رہے ہیں
اسرائیلی سائیڈ کا مطمع نظر سمجھے بغیر اسے فضول بحث کہنے کا مطلب ہی یہی ہے کہ آپکے پاس فلسطینیوں کے دفاع میں کہنے کو کچھ بھی نہیں۔ صرف اسرائیل و یہود مخالف پروپیگیشن کا شوق ہے۔
 

ماہی احمد

لائبریرین
اسرائیل فلسطینی ریاست کو تسلیم نہیں کرتا جب تک فلسطینی قیادت خود اسے تسلیم نہ کرے۔ اسرائیل کی جانب سے فلسطینی ریاست کے قیام کیلئے متعدد بار فیصلہ کیا گیا مگر فلسطینی لیڈرشپ خود ہی اس آفر کو ٹھکراتی رہی ہے۔
میرا بس ایک ہی سوال ہے... کیا ہر بار جو آفر کی گئی وہ بنا شرائط کے تھی؟ یعنی یوں کہ "یہ لو ہم نے جنگ چھوڑ دی، جیو جیسے پہلے جیتے تھے" یہ سوال ہے!.... کیونکہ common sense تو یہی کہتی ہے کہ اگر ایک شخص کے سامنے اس کے ننھے ننھے بچے ذبح کیے جا رہے ہوں اور تب بھی وہ ان شرائط کو نہ مان رہا ہو تو اندر کھاتے کچھ نہ کچھ تو گڑ بڑ ہو گی ہی....
 

ابن عادل

محفلین
آپ اسرائیل کی تاریخ سے بالکل نابلد ہیں۔ ۱۹۴۷ میں اسرائیل کا کوئی وجود نہیں تھا۔ جب بڑی تعداد میں فلسطینیوں کا انخلاء ہوا وہ خانہ جنگی کی وجہ سے تھا۔ باقی فلسطینی ۱۹۴۸ میں اسرائیل پر ۵ عرب ممالک کے ایک ساتھ حملے کی وجہ سے کوچ کر گئے کہ فتح کی صورت میں واپس آجائیں گے۔ شومئی قسمت یہود عربوں کے قتال سے بچ نکلے اور اسرائیل کی سرحدوں کو محفوظ بنا دیا۔ یوں جو فلسطینی جنگ کے دوران ملک بدر ہوئے تھے بارڈر پر پھنس گئے۔ باقی جو فلسطینی اسرائیلی سرحدوں کے اندر ہی رہے وہ آج بھی اسرائیل کے شہری ہیں جنکا کل آبادی میں تناسب ۲۰ فیصد ہے۔ یہ اسرائیلی عرب کہلاتے ہیں اور انکی اسرائیلی پارلیمان میں اسوقت ۱۳ سے زائد سیٹیں ہیں۔ تمام اسرائیلی حقوق انہیں حاصل ہیں۔
اگر اسرائیل نے ریاستی جبر کا مظاہرہ کرنا ہوتا تو سب سے پہلے اسرائیلی عربوں کو ملک بدر کرتا۔ اسکے باوجود اسرائیلی عربوں کی تعداد معاشرہ میں بڑھ رہی ہے۔

یہ عجیب و غریب تاریخ ہے ۔ فلسطین میں خانہ جنگی کے باعث وہاں کے باشندوں کا انخلاء ۔۔ کس کی خانہ جنگی ؟(وہی جو آج کل شام میں جاری ہے ۔!)باقی فلسطینی کوچ کرگئے ۔ جوبچے وہ اسرائیلی سرحدوں کے اندر تھے جو آج کل اس کی پارلیمنٹ کے ممبر بن کر پروانہ آزادی لیے گھوم رہے ہیں ۔ پھر یہ لاکھوں فلسطینی کہاں سے ٹپک پڑے ۔ یہ یاسر عرفات ، الفتح ، تحریک انتقاضہ ، بڑا عجیب و غریب و حیرت انگیز ۔۔۔
یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
 

arifkarim

معطل
میرا بس ایک ہی سوال ہے... کیا ہر بار جو آفر کی گئی وہ بنا شرائط کے تھی؟ یعنی یوں کہ "یہ لو ہم نے جنگ چھوڑ دی، جیو جیسے پہلے جیتے تھے" یہ سوال ہے!.... کیونکہ common sense تو یہی کہتی ہے کہ اگر ایک شخص کے سامنے اس کے ننھے ننھے بچے ذبح کیے جا رہے ہوں اور تب بھی وہ ان شرائط کو نہ مان رہا ہو تو اندر کھاتے کچھ نہ کچھ تو گڑ بڑ ہو گی ہی....
کیمپ ڈیوڈ اکارڈز جس میں فلسطینی لیڈر یاسر عرفات، اسرائیلی وزیر اعظم ایہود باراک اور امریکی صدر بل کلنٹن شامل تھے آخری امن معاہدے کے بہت قریب پہنچ گئے تھے۔ ۹۹ فیصد مغربی کنارہ اور ۱۰۰ فیصد سے زائد غزہ کی پٹی فلسطینی ریاست کے قیام کیلئے طے ہو گئی تھا۔ غزہ میں فلسطینی اپنے ہوائی اڈے، شپنگ پورٹس اور دیگر سول امور سنبھال رہے تھے۔ مشرقی یوروشلم مکمل فلسطینیوں کے کنٹرول میں دیا جا رہا تھا، صرف یہودی مذہبی مقامات اسرائیلی منسٹری کے پاس تھے۔
اس تاریخی موڑ پر جب پوری صدی کا تنازع امن میں بدلنے جا رہا تھا تو اسرائیلی لیڈر نے آئندہ دونوں اقوام و ممالک کے مابین اچھے تعلقات کی بنیاد رکھتے ہوئے اعلان کر دیا کہ فلسطین اسرائیل کیخلاف مزید کوئی دعوے نہیں کریگا۔ عرفات جسکی ساری زندگی اسرائیل کیخلاف جہاد کرتے گزری تھی کیلئے یہ اعلان قابل قبول نہیں تھا۔ مطلب اسے تنازع کا مستقبل حل نہیں اسرائیل سے مسلسل پنگا درکار تھا۔ یوں مذاکرات اپنے منطقی انجام پر پہنچنے سے پہلے ہی انتفادہ میں بدل گئے اور جو ناروے، امریکہ اور دیگر ممالک کی انتھک کوشش سے حالات امن کی طرف راغب ہوئے تھے وہ یوٹرن لیکر پہلے سے بھی زیادہ بگڑ گئے۔
انتفادہ کے بعد اسرائیل نے فلسطینی خودمختاری ختم کردی، عرفات کو نظر بند کر دیا اور جب تک انتفادہ ختم نہیں ہوا تب تک فلسطینی علاقوں پر مارشل لا جاری رکھا۔ مگر پھر ۲۰۰۵ میں غزہ کی پٹی خود ہی مکمل خالی کر دی جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ بجائے فلسطینی اسکا سر مقدم کرتے الٹا دہشت گرد حماس کو اپنے سروں پر سوار کر لیا۔ تب سے اسرائیل اور حماس مسلسل حالت جنگ میں ہیں۔
 
Top