گوشۂ صادق

سیدہ شگفتہ

لائبریرین

السلام علیکم

مجھے یہ بات دہراتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ اردو لائبریری کو ایسے نام میسر ہیں جو بے لوث اور بغیر کسی غرض کے لائبریری کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں اور کر رہے ہیں ۔ لائبریری پراجیکٹ میں حالیہ ایک رکن نے شمولیت اختیار کی ہے جن کی خواہش ہے کہ وہ لائبریری میں اپنا نام ظاہر کیے بغیر کام کریں اور انھوں نے اپنی شرکت کا آغاز تاریخ بر والہ سیدان کے صفحات تحریر کرنے سے کیا ہے اور انھوں نے یہ صفحات کمپوز کر کے مجھے بھیجے ہیں ۔ میں یہ صفحات یہاں پر پوسٹ کر رہی ہوں تاہم مذکورہ رکن کی خواہش کو محترم رکھتے ہوئے میں ان کے اصل نام / نک کو ظاہر نہیں کر رہی بلکہ ایک فرضی نام سے پوسٹ کر رہی ہوں ۔ یہ فرضی نام مجھے "صادق " ذہن میں آیا ہے تو یہی منتخب کر لیا ہے ۔ "صادق" نام میں نے اس لیے منتخب کیا ہے کہ یہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا لقب ہے ۔ سو اس تھریڈ میں جو متن میں پوسٹ کرنے لگی ہوں وہ میری محنت نہیں ہے بلکہ دراصل صادق کی محنت ہے ۔ میں صادق کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گی ۔ علاوہ ازیں یہ بھی کہنا ہے کہ اگر آپ خود کچھ دوسرا نام تجویز کرنا چاہیں تو مجھے مطلع کر دیں اور جب بھی چاہیں اپنے اصل نام سے بھی شریک ہو جائیں ۔

لائبریری ٹیم کی جانب سے لائبریری میں خوش آمدید !
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
صفحہ : 199




کالا پانہ


نسب نامے :۔

۱۔ گاما ٹُھلہ

۲۔جانا ٹُھلہ

۳۔نیا گائوں ٹُھلہ




تذکرے:۔


۱۔ سید غلام محمد

۲۔سید حسن علی

۳۔سید محمد حسن

۴۔سید ممتاز حسن نقوی

۵۔ سیدیہ کرم دولت

۶۔سید چراغ علی شاہ

۷۔سید مہدی حسن

۸۔سید احسن شاہ

۹۔سید جمیل حسین نقوی

۱۰۔سید شاہد مہدی نسیم

۱۱۔ سید مقبول حسین نقوی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
صفحہ نمبر ۔219

بروالہ سیدان ، ہریانہ کے انتہائی پسماندہ علاقہ میں واقع تھا۔ اس علاقہ کی پسماندگی کی سب سے بڑی وجہ ذرائع آبپاشی کی عدم موجودگی تھی۔ نہروں اور دریائوں سے آبپاشی کا کوئی ذریعہ سوائے نہر جمن غربی کے موجود نہیں تھا۔ زمین سے پانی بہت گہرائی پر نکلتا تھا اور آب پاشی کے لیے اس کا استعمال ممکن نہیں تھا۔ اور بارشیں بہت کم ہوتی تھیں پانی کی کمی دور ہوجانے کی صورت میں اس علاقہ کی دنوں میں کایا پلٹ سکتی تھی ۔کیونکہ یہاںکی زمین اس قدر جاندار اور زر خیز تھی کہ ضرورت کے وقت ایک آدھ بارش ہوجانے سے ہی فصلیں بھر پور انداز میں اٹھتی تھیں اور لوگوں کے کوٹھلے کٹھلے اناج سے بھر جاتے تھے۔ ایسی کبھی کبھار کی بارشوں کے باعث ہی اس علاقہ میں زندگی کا سلسلہ قائم تھا۔ تقسیم برصغیر کے بعد اس علاقہ کو بھاکڑہ ڈیم کی نہروں سے سیرابی نصیب ہوئی ہے تو اب یہ علاقہ ہندوستان کا خوب سرسبز بہت پیداوار دینے والا اور ترقی یافتہ علاقہ شمار ہوتا ہے۔






صفحہ نمبر۔220

سید غلام محمد

(شجرہ صفحہ201 پر ہے)

سادات بروالہ میں بڑی بلند پایہ ہستیاں گزری ہوں گی۔ وہاں کے آثار، مکانات، حویلیاں ان ہستیوں کا پتہ دیتی تھیں۔ مگر ان کے ابرے میں کچھ بھی معلومات حاصل نہیں ہیں۔ یہہ پہلے شخص ہیں جن کے حالات معلوم ہوئے ہیں۔ یہ سید الٰہی بخش کے چھوٹے صاحبزادتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں صاحب تدبیر اور صاحب اقبال بنایا تھا۔ ان کے دل میں قدرت نے ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کا وہ جوش اور ولولہ رکھ دیا تھا کہ کوئی بڑا کارنامہ کر گزرنے کی آرزو ہر وقت ان سے ایک وسیع میدان عمل کی خواہاں رہتی تھی۔ اسی خطر پسند اور مہم جو طبیعت کے باعث انہوں نے سادات بروالہ کے دستور کے برعکس بروالہ سے نکل کر قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا۔ سادات بروالہ ہمیشہ یہ دستور رہا تھا کہ کیسی بھی صورتِ حال پیش آجائے اور کتنی بھی مجبوری ہوجائے ، کوشش یہ ہوتی تھی کہ حتی الامکان بروالہ کو چھوڑنے سے گریز کیا جائے ۔ یہاں تک کہ کوئی شخص حصول تعلیم یا ملزمت اور تجار ت کے لیے بھی بروالہ سے باہر جانا پسند نہیں کرا تھا۔ قحط جیسی قدرتی آفات نے کبھی انہیں اس دستور کی خلاف ورزی کرنے پر مجبور کردیا ہو تو دوسری بات ہے ۔ ورنہ وہ بھوک، پسماندگی ، جہانت اور واما ندگی کے عذابوں وک بھی سہتے رہے اور بروالہ سے نہیں ہلے۔ شاید یہی رویہ ان کی ترقی کے راستہ میں ہمیشہ رکاوٹ بنارہا ہے ۔ زندگی میں آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کی تڑپ ہی ان کے دل میں کبھی پیدا نہیں ہوئی اور ہمیشہ اپنے حال میں مست اور اپنی حالت پر قانع رہے۔

سید غلام محمد اس ماحول میں ایسی زبردست انفرادیت کے حامل تھے کہ اس زمانہ میں انہوں نے بروالہ سے نکل کر اپنی صلاحیتوں کو آزمانے کی خواہش کی جب کہ ایسا کرنا کافی دشوار کام تھا ۔ لیکن ایسی خواہش کے ساتھ مضبوط ارادہ اور مہم جو طبیعت بھی شامل ہوجائے تو عمل کا میدان کبھی تنگ نہیں رہتا۔وہ زمانہ ملک میں طوائف الملوکی کا دور تھا۔ دہلی کی سلطنت کمزور ہوکر بے اثڑ ہوچکی تھی ۔ جگہ جگہ راجوں اور نوابوں نے خود مختار ریاستیں قائم کرلی تھیں ان ریاستوں کو قائم اور محفوظ رکھنے کے لیے ہر ریاست کو فوج کی ضرور تھی ۔ چنانچہ قسمت آزما لوگوں کے لیے اس زمانہ میں فوج کی ملازمت سب سے بہتر پیشہ تھا۔ ویسے بھی جوانمردی اور جواں ہمتی کی تسکین اسی میدان میں زیادہ بہتر طو رپر ہوتی تھی۔

چنانچہ سید غلام محمد بھی بروالہ سے قسمت آزمائی کے لیے نکلے تو پڑوس میں ہی بھاٹیانہ کی ریاست تھی۔ اس کی فوج میں جا ملازم ہوئے۔ کچھ عرصہ وہاں رہے ۔ایک دو جنگوں میں بھی شرکت کی ۔ مگر کسی بات پر ناراض ہوکر ذرا سا آگے کی جانب بڑھے اور ریاست الو ر میں پہنچ کر وہاں کی فوج میں ملازمت اختیار کرلی اب انہیں کچھ تجربہ حاصل ہوچکا تھا۔ لیاقت خدا داد تھی اس لیے جلد ہی انہیں رسالہ میں ایک اہم عہدہ حاصل ہوگیا۔ رفتہ رفتہ راجہ کو ان پر اعتماد ہوتا چلا گیا اور وہ ریاست کی فوج کے اہم عہدے داروں میں شمار ہونے لگے۔ وہ زمانہ اس علاقہ میں اتنی افرا تفری اور لاقانونی کا تھا کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول جاری و ساری تھا۔ جس کا بس چلتا تھا اڑوس پڑوس کے علاقہ پر قبضہ جمالیتا تھا اور جو تھوری سی فوج جمع کرسکتا تھا وہ کسی نہ کسی علاقہ پر قبضہ کرکے اپنی ریاست قائم کرلیتا تھا۔ چنانچہ ہر ریاست کو اپنی حفاظت کے لیے ہمہ وقت کوئی نہ کوئی معرکہ آرائی درپیش رہتی تھی۔ سید غلام محمد نے ایسے معرکوں میں اپنی بہادری اور اہلیت ثابت کرکے راجہ کا پورا اعتماد حاصل کرلیا تھا۔ چنانچہ وہ اس ریاست کی ملازمت میں دس سال سے زائد عرصہ رہے۔ اور خود کو ہمیشہ اس اعتماد کا اہل ثابت کیا۔








صفحہ نمبر ۔221

اتفاقاً ایک ایسی صورت پیش آئی کہ راجہ ایک محاذ پر اپنی ریاست کی حفاظت میں مصروف تھا کہ اچانک دوسری جانب سے ایک اور دشمن نے ریاست پر حملہ کردیا۔ اس نئے دشمن کا مقابلہ کرنے کا کام سید غلام محمد کو سونپا گیا۔ راجہ کے لیے یہ موقع اتنا نازک تھا کہ اس نے سید غلام محمد کو پورے اختیارات دیئے کہ دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے وہ جو اقدامات مناسب خیال کریں اختیار کرسکتے تھے۔ فتح کی صورت میں تمام مال غنیمت کا مالک بھی انہیں بنادیا گیا ۔ وہ اس دفعہ بھی راجہ کے اعتماد پر پورے اترے۔ دشمن کو عبرتناک شکست دی اور بے شمارمل غنیمت حاصل کیا۔ راجہ نے اپنے وعدہ کا پاس کرتے ہوئے تمام مال ان کے سپرد کردیا۔ انہوں نے بہت سا مال و اسباب اپنی فوج میں تقسیم کیا اور اپنا حصہ لے کر راجہ سے رخصت چاہی اور بروالہ واپس آگئے۔ بزرگوں کی زبانی یہ روایت چلی آئی ہے کہ وہ بروالہ سیدان واپس پہنچے تو ان کے اس اس قدر مال و دولت تھی کہ اسے خچروں پر لاد کر لائے تھے۔

بروالہ واپس پہنچ کر اس دولت کو انہوں نے خاندان کی بہتری اور برادری کی بہبود کے کاموں میں صرف کیا اور اپنے بعد آنے والوں کے لیے بھرا پرا خزانہ چھوڑ کر گئے۔ اس زمانہ میں زمین کی ملکیت متعین نہیں تھی۔ جو خاندان کاشت کے وسائل رکھتے تھے اور مایہ ادا کرسکتے تھے ، وہ اس کے مالک ہوتے تھے یا پھر جو شخص جس قدر زمین کا مالیہ ادا کرنے کی ذمہ داری قبول کرلیتا ، اسی قدر زمین کی ملکیت اس کے نام پر ہوجاتی تھی۔ ایسے شخص کو ٹھیکیدار کہا جاتا تھا ۔ بروالہ سیدان اور اس کے نواح میں صرف سید غلام محمد کو ٹھیکدار تسلیم کیا گیا اس کے بعد سید حسن علی کے خاندان کو اس اعزاز سے پکارا جاتا تھا۔ سید غلام محمد نے بروالہ سیدان کی زمین سادات کے دیگر خاندانوں کو حاصل کرنے کا موقع دیا اور اپنے لیے ایک تو تحصیل فتح آباد کے دو گائوں ، اندا چھوٹی اور ڈھاڈ،کی زمینداری حاصل کی۔ ان دیہات کے ساتھ ان کی وابستگی اس زمانہ کی تھی جب وہ قسمت آزمائی کے لیے بروالہ سے نکل کر بھاٹیانہ میں کچھ عرصہ فوجی خدمات انجام دیتے رہے تھے۔ یہ دیہات اس زمانہ میں بھاٹیانہ کا حصہ تھے اور یہاں ان کے دوستوں کا حلقہ بن گیا تھا۔ اب انہوں نے ان دونوں گائوں کی پوری زمین کی ملکیت حاصل کرلی۔ دوسری جگہ دولت پور تھی جہاں انہوں نے زمین کی ملکیت حاصل کی ۔ یہ گائوں بروالہ سے چار کوس کے فاصلہ پر تھا اور اس کی زمین نہر جمن غربی سے سیراب ہونے کے باعث انتہائی قیمتی تھی۔ تمام علاقہ میں پھل صرف اسی زمین میں پیدا ہوتے تھے۔ اسی زمین کی ملکیت نے اس خاندان کو بعد میں بڑا زمیندار، ٹھیکیداراور مالگذار کا درجہ دیا۔ اس گائوں کی آدھی زمینداری ان کے پاس تھی۔ اس کے بعد وہ علاقہ کے سب سے بڑے زمیندار بن گئے تھے۔

بہت بڑے زمیندار بن جانے کے ساتھ ساتھ وہ بڑے صاحب وجاہت، رعب داب والے ، اثر و رسوخ کے مالک، سیر چشم اور بلند حوصلہ شخص تھے۔ اپنے خاندان، برادری اور قصبہ کے ہر شخص کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے تھے۔ وقت پر ہر ایک کے کام آتے تھے اور علاقہ کا ہر آدمی ان پر بھروسہ کرسکتا تھا۔ بروالہ میں ایک روایت بہت مشہور تھی کہ ایک دفعہ قحط پڑا تو لوگوں کے پاس اناج تک باقی نہ رہا۔انہوں نے سید غلام محمد سے استمداد کی ۔ اتفاق سے ان کے پاس غلہ کا ذخیرہ موجود تھا۔ وہ انہوں نے اس وعدہ پر تقسیم کرادیا کہ قحط ختم ہونے پر ہی غلہ واپس کردیا جائے گا ۔مگراگلے سال براشیں ہونے اور قحط ختم ہونے کے باوجود انہوں نے سب کچھ معاف کردیا۔ اس طرح وہ ہر موقعہ پر لوگوں کے کام آیا کرتے تھے۔

1857ء(اٹھارہ سو ستاون عیسوی) کی جنگ آزادی میں سید غلام محمد کا کردار بہت دلیرانہ اور مدبرانہ رہا۔ جنگ آزادی کے آغاز پر انہوں نے اپنی فوجی خدمات کے تجربہ کو بروئے کار لاتے ہوئے علاقہ کے نوجوانوں کو منظم کیا تحصیل کو اپنی تحویل میں لے لیا اور مجاہدین آزادی کی ہر طرح سے مدد کی یہاں تک کہ تمام علاقہ مجاہدین کے قبضہ میں آگیا ۔ لیکن جنگ آزادی کی ناکامی اور ملک پر انگریزوں کے دوبارہ تسلط کی خبر برولہ پہنچی تو سید غلام محمد نے تدبر سے کام لیا اور بروالہ کو اس انتقامی کارروائی سے محفوظ رکھا ۔ جس پر دوسرے مقامات پر عمل کیا گیا۔ انہوں نے تمام قصبہ سے اسلحہ اکٹھا کرکے ایک کنوئیں میں ڈلوادیا۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
صفحہ نمبر۔222


ساتھ ہی وہ اشیاء اور کاغذات بھی اس کنوئیں میں ڈال دیئے جو خانہ تلاشی کے وقت نقصان کا باعث بن سکتے تھے۔ اس کے بعد اس کنوئیں کو کوڑا کرکٹ اور مٹی ڈال کر پاٹ دیا گیا۔ یہ کنواں بعد میں ہمیشہ بند رہا اور صاف نہیں کیا جاسکا۔ البتہ اس کے ساتھ وابستہ روایت تمام علاقہ میں مشہور تھی۔

اس طریقہ نے بروالہ کو اس داروگیر سے تو محفوظ رکھا جو جنگ آزادی کی ناکامی کے باعث تمام ملک پر مسلط ہوگئی تھی۔ مگر انگریز حکومت بروالہ سے خوش کبھی نہیں رہی۔ پہلے تو اس نے بروالہ کا تحصیل کا رجہ کم کرنے کے لیے اس کا رقبہ کم کیا اور اس کے بعد بہت سے دیہات آس پاس کی دوسری تحصیلوں میں شامل کردیئے گئے۔ آخر کار بروالہ کی تحصیل توڑ دی گئی۔یہاں تک کہ اسے سب تحصیل بھی نہیں رہنے دیا گیا۔ مزید یہ کہ اس حکومت کی دستاویزات اور کتابوں میں بروالہ کے متعلق کہیں کلمہ خیر نہیں ملتا۔ جہاں بھی اس اہم تاریخی قصبہ کا ذکر ہوا ہے ، اس کے لیے ذم کا کوئی نہ کوئی پہلو تلاش کرلیا گیا ہے ۔ حصار کے ڈسٹرکٹ گزیٹیئر، امپریل گزیٹیئر آف انڈیا اور اس قسم کی تمام کتابوں میں یہ قدر مشترک ہے کہ بروالہ اور ادات بروالہ کے ساتھ بغض کا کھلم کھلا اظہار کیا گیا ہے ۔

سید غلام محمد اور ان کے بعد ان کے خاندان کے افراد کو سرکار دربار میں اہمیت دینا حکومت کی مجبوری تھی ۔ کیونکہ علاقہ کا سربراہ اور وہ مسلمان خاندا یہی تھا اور اس کے تعاون کے بغیر اس علاقہ میں حکومت کے اقدامات کو موثر نہیں بنایا جاسکا تھا۔ چنانچہ نمبرداری، ذیلداری ، سفید پوشی،اسیسری اور دیگر سرکاری اعزازت اس خاندان کو دیئے گئے اور اس خاندان کو اس علاقہ میں ہمیشہ بہت نمایاں حیثیت حاصل رہی۔

سید غلام محمد کو اللہ تعالیٰ نے دنیوی شان و شوکت، مال و دولت، غلہ اور مویشی، آل اولاد ، غرض ہر نعمت و وجاہت سے سرفراز فرمایا تھا۔ ان کے پانچ صاحبزادے تھے۔ ان پر بھی اللہ تعالیٰ نے مال اور اولاد کی برکت اور ہر طرح دنیوی وجاہت سے نوازش فرمائی۔ ایک وقت ایسا تھا کہ ان صاحبزادگان کی اولاد میں چچا تایا زاد بھائیوں کی تعداد ساٹھ تک پہنچتی تھی اوراس ایک خاندان کی قوت و جمعیت پورے شہر کے برابر تھی۔ اس طرح تمام علاقہ میں اس کا دبدبہ تھا۔ غرض یہ کہ سید غلام محمد بہت صاحب نصیب، صاحب چشم اور صاحب عزم و حوصلہ ہستی تھے۔ انہوں نے زندگی میں اپنا راستہ خود تراشا، اپنے لیے عام روش سے ہٹ کر زندگی کی عمارت تعمیر کی اور یہ عمارت اس قدر پرشکوہ تھی کہ بعد میں اب تک ان کی نسلوں کو سایہ فراہم کررہی ہے۔

٭٭٭





صفہ نمبر ۔223


سید حسن علی

(شجرہ صفحہ 207 پر ہے )


بروالہ سیدان کے سادات میں سے جس ہستی کو عزت و احترام، اثر و رسوخ ، شہرت اور ہر دل عزیزی کے بلند ترین مراتب حاصل ہوئے وہ سید حسن علی کی ذات تھی۔ وہ سید غلام محمد کے سب سے چھوٹے صاحبزادے تھے۔ انتہائی مدبر، دور اندیش اور دانا شخصیت کے مالک تھے۔ ان کے والد نے سادات برولہ کی عزت اور وقار کی حفاظت اور بلندی کی جو بنیاد رکھی، اس کی تکمیل ان کے ہاتھوں ہوئی ۔ نہ صرف اپنے علاقہ میں بلکہ دور دور تک جو عزت و احترام انہیں نصیب ہوا اور سرکار دربار میں جو اثر و رسوخ اور قدر افزائی ان کے حصہ میں آئی وہ اس تمام علاقہ میں کسی کو حاصل نہیں ہوئی۔ اپنے والد کی تمام جائیداد انہیں ملی تھی۔ اس طرح وہ اپنے علاقہ کے اتنے بڑے زمیندار تھے کہ ان کے مقابلہ کا زمیندار اور کوئی نہیں تھا۔ تین گائوں ان کی زمیندار اور مال گذاری میں شامل تھے۔ ان میں سے ہر گائوں میں ان کا ڈیرہ قائم تھاجہاں آنے والوں کی خاطر خدمت ہر وقت ہوتی رہتی تھی۔ ایک وقت ایسا تھا کہ بروالہ میں ان کی حویلی کے ملازمین اور تینوں ڈیروں پر متعین ملازمین کی کل تعداد سو سے زاپد بنتی تھی۔ ان میں سے تین چوتھائی مرد اور باقی عورتیں تھیں۔

ان کے اثر و رسوخ کا یہ عالم تھا کہ بروالہ میں اور ان کے زمیندار کے دیہات میں حکومت ان کی منشا کے بغیر کوئی اقدام نہیں کرتی تھی۔ سرکاری عہدے دار اور چھوٹے بڑے تمام افسر اس علاقہ میں آتے تو بروالہ اور دولت پور میں ان کی کوٹھیوں پر ہی ٹھہرتے تھے۔ ایک دفعہ قحط کے زمانہ میں ڈپٹی کمشنر مسٹر ہارڈن نے اپنا کیمپ اس علاقہ میں قائم کیا تو کئی ماہ تک ان کی کوٹھی میں مقیم رہا۔ حکومت کی جانب سے انہیں اجازت تھی کہ اپنے چپراسیوں کو وہ وردی پہنچاسکیں جو حکومت کے اعلیٰ عہدے داروں کے چپراسیوں کو ملتی تھی۔ اس چپراس پر "میر حسن علی مال گذارتحریر ہونا تھا۔سرکاری کاغذات میں انہیں رئیس اعظملکھا جاتا تھا۔ وہ اپنے علاقہ کے نمبردار، ذیلدار ، اسیسر ، سفید پوش اور کرسی نشین جیسے سرکاری اعزازات کے مالک تھے۔ ان کے زمانہ میں دنیوی وجاہت، شان و شوکت ، اثر ورسوخ، دولت و امارت اور ہر قسم کی دنیوی کامیابی کے لحاظ سے سید غلام محمد کے خاندان نے جو عرج حاصل کیا وہ بروالہ سیدان کے سادات میں سے کوئی خاندان کبھی حاصل نہیں کرسکا۔

سید حسن علی کا قددرمیانہ اور رنگ سانولا تھا۔ مگر بہت طاقتور اور تواناانسان تھے۔ انتہائی چست اور مستعد طبیعت کے مالک تھے۔ اس لیے انتھک کام کرتے تھے اور زمیندار کے ہر چھوٹے سے چھوٹے کام کی نگرانی ذاتی طور پر کرتے تھے۔ بہت ماہر شہسوار تھے۔ اچھے گھوڑے رکھنے کا خاص شوق تھا۔ ان کے پاس "چتلینام کی ایک بے مثال گھوڑی تھی۔ یہ ان کی سواری کے لیے مخصوص تھا۔ اس گھوڑی اور اس کے سوار کے بارے میں کئی روایتیں مشہور رہی ہیں۔ ان میں سے بعض اس قدر مُحیر اُلعقُول ہیں کہ یقین کے قابل نہیں۔ مگر ان روایات سے اتنا ضرور پتہ چلتا ہے کہ یہ گھوڑی اور اس کا سوار دونوں ہی غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک تھے۔

سید حسن علی بہت ملنسار، متواضع،رحمدل اور ہمدرد طبیعت کے مالک تھے۔ ضرورت کے وقت پر ہر ایک کے کام آنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔ پورے علاقہ میں مسلمانوں اور غیر مسلموں ، سب سے ان کے روابط تھے اور سب کی خوشی غمی میں شریک ہوتے تھے۔ اپنے حقیقی بھائیوں کے ساتھ زمین جائیداد کے سلسلہ میں ان کے اختلافات مقدمہ بازی تک پہنچے ہوئے تھے ۔ مگر اس کا اثر انہوں نے آپس کے تعلقات پر کبھی نہیں پڑنے دیا۔ ہر موقعہ پر








صفحہ نمبر۔۔224


ہر ایک کے کام آتے تھے اور ہر ایک کا خیال رکھتے تھے۔ خاص طور پر اپنے بھتیجوں میں سے کئی ایک کو تو ہر وقت اپنے پاس رکھتے تھے۔ اس فیاض اور ہمدرد طبیعت کے ساتھ ساتھ پختہ عزم اور بلند حوصلہ کے مالک تھے۔ کسی بات پر ایک دفعہ ڈٹ جاتے تھے تو اپنی جگہ سے کسی صورت ایکانچ نہیں ہٹتے تھے۔ ا س قسم کے ایک دو معاملات پر انہیں چیف کورٹ تک مقدمے لڑنے پڑے تھے، جن میں سے وہ کامیابی کے ساتھ عہدہ برآ ہوئے تھے۔ ایک دفعہ ایک دوست سے دوستی نبھانے کی خاطر ہی دولت پور میں مقابلہ کے زمیندار جاٹوں سے دشمنی مول لے لی تھی۔ جو ان کے بعد ان کی اولاد کو بھی دیر تک بھگتنی پڑی اور جس کے نتیجے میں نوبت قتل و غارت تک پہنچتی رہی۔

وہ کس قدر بیدار مغز اور دانا ہستی تھے۔ اس کا تھوڑا سا اندازہ تدابیر سے کیا جاسکتا ہے جو انہوں نے اپنی اولاد کی تربیت کے لیے اختیار کی ہوں گی کہ تمام بیٹوں کو عادات، اطوار، ذوق ، پسند اور جفاکشی کے لحاظ سے ایک خاص سانچے میں ڈھالنے کی کامیاب کوشش کی ۔ انہیں انازہ تھا کہ بروالہ جیسے پسماندہ اور اجڈ علاقہ میں مقامی ذرائع سے بچوں کی تعلیم و تربیت تسلی بخش طور پر ہونی ممکن نہیں۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے انہوں نے دو اتالیق منگوائے تھے ایک صاحب دہلی سے آئے تھے اور دوسرے پانی پت سے۔ انہیں بالترتیب بڑے مولوی صاحب اور چھوٹے مولوی صاحب کہا جاتا تھا ۔ یہ دونوں کافی عرصہ تک بروالہ میں مقیم رہے اور اپنے فرائض انجام دیتے رہے ۔ دونوں اتالیق بڑے فاضل اور متوازن شخصیت کے مالک تھے۔ دونوں کا انتخاب ظاہر ہے کہ بہت دیکھ بھال کے بعد کیا گیا ہوگا۔ اور جس ہستی کو اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت سے اس قدر دلچسپی تھی کہ اتنی دور سے دو اتالیق بروالہ منگانے کا بندوبست کیا تھا ۔ وہ خود بھی لازماً بچوں پر مسلسل نظر رکھتا ہوگا۔ چنانچہ ان کے بچوں کی ایسی مثالی تربیت ہوئی کہ مدت العمران کی عادات اور معمولات ایک سانچے میں ڈھلے رہے باپ کے سایہ سے جلد محروم ہوجانے کے باعث بڑے گھروں کے بچوں کی کچھ خرابیاں ان میں بھی در آئی تھیں۔ مگر اس کے باوجود سب کے سب سحر خیزی اور صبح کی سیر کے اتنے پابند تھے کہ اس میں کبھی ناغہ نہیں ہوتا تھا۔ تلاوت کی پابندی سب کا معمول تھا۔ نما ز روزہ کے سب انتہائی پابند تھے۔ اس کے علاوہ اوارد و ظائف کے معمولا ت کی بھی پابندی کرتے تھے۔ مطالعہ کے ساتھ سب کو شغف تھا ۔ شہ واری، سخت کوشی اور خود اعتمادی بھی سب کے کردار کے اوصاف خاص تھے۔ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر جتنا وہ دھیان دیتے تھے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دو سب سے چھوٹے دو بچے کی ان کی فات کے وقت بہت کمسن تھے۔ چنانچہ وہ نماز روزہ وغیرہ کی عادت میں اپنے بڑے بھائیوں اور بہن کی طرح پختہ نہیں تھے ۔ وہ تو ان کی عمر نے مہلت نہیں دی ورنہ اکی کوشش یہ تھی کہ ان کے بچے تعلیم کے اعلیٰ مدارج تک پہنچیں اور علم کو ہی اپنی عزت اور وقار کا وسیلہ بنائیں۔اس کے لیے انہوں نے اپنے بیٹے کو لاہور میں اسلامیہ ہائی سکول شیرانوالہ گیٹ میں داخل بھی کرادیا تھا ۔ مگر ان کی اچانک وفات کے بعد ان کا قائم کرد نظام تعلیم و تربیت باقی نہیں رہا۔ اور اس صورت حال نے اس خاندان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔

ان کی دولت و ثروت، شان و شوکت اور فیاضی و دریا دلی کا یہ عالم تھاکہ ان کے بعد مدتوں تک لوگ اس کی کہانیاں بیان کیا کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں اپنے دو بڑے صاحبزادوں کی شادیاں کی تھیں۔ یہ شادیاں ایک ہی وقت میں ہوئی تھیں اور اس قدر دھوم دھام سے کی گئی تھیں کہ پورے علاقہ میں دیر تک ان کا چرچا رہا تھا۔ تمام قصبہ کے علاوہ آس پاس کے دیہات میں بھی "گندوڑاتقسیم کیاگیا تھا یہ ایک قسم کی مٹھائی ہوتی تھی جو خالص گھی ، کھانڈ اور میوہ جات کو ملاکر خوب موٹی روٹی کی شکل میں بنائی جاتی تھی۔ اور ہر گھر میں بلا امتیاز بھیجی جاتی تھی۔ ان شادیوں کا جشن پورے تین ماہ برپا رہا تھا۔ اس جشن میں دو نوبت خانے ، روشن چوکی، نقالوں کی ٹولیاں اور ناچنے گانے والی طوائفوں کی تین پارٹیاں حصہ لیتی رہی تھیں۔ آتش بازی کا اہتمام اس کے










صفحہ نمبر ۔225

علاوہ تھا۔ اس تمام عرصہ میں دعوتوں کا اہتمام برابر ہوتا رہا تھا۔ جن میں مہمانوں کے علاوہ مسافروں اور راہ گیروں کو بھی بلاکر کھانا کھلایا جاتا تھا۔

ان تمام واقعات سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ سید حسن علی نے اپنے خاندانی نظام اور زمینداری کے کاروبار کو اپنے حسن تدبر سے کس قدر مضبوط بنیادوں پر استوار کردیا تھا۔ ان بنیادوں کی مضبوطی ہی کے باعث ان کی اولاد دیر تک اس نظام کا فائدہ اٹھاتی رہی۔ ان کی وفات کے بعد نہ صرف یہ کہ ترقی کا سلسلہ رک گی اتھا بلکہ معاملات کا وہ معیار بھی باقی نہیں رہا تھا ۔ لیکن ان کا کیا ہوا کام اس قدر استوار اور پائدار تھا کہ ان کے خاندان کو دیر تک وہی عزت اور وقار حاصل رہا اور وسائل بھی عرصہ تک کام دیتے رہے ۔ معاشرتی درجہ کا تو یہ عالم تھا کہ ان کے صاحبزادگان کے لیے قصبہ کے بازار میں نکلنا کسر شان خیال کیا جاتا تھا۔ اور وسائل کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس صدی کے چوتھے عشرہ میں ان کے دو صاحبزادگان کے پاس کاریں تھیں۔ جبکہ مولانا وقارانبالوی محروم کے بقول اس وقت پورے متحدہ پنجاب میں صڑف پینتیس کاریں مسلمانوں کی ملکیت تھیں۔ (حوالہ ۔ 1)

مختصر یہ کہ سید حسن علی وہ خوش نصیب ہستی تھے کہ بروالہ سیدان میں انہیں ہر طرح کا دنیوی عروج حاصل ہوا ۔ اور ان کے باعث سادات بروالہ کی عزت و توقیر س حد تک پہنچی کہ اس سے قبل اس کی مثال کسی کو یاد نہیں۔ اور بروالہ میں رہتے ہوئے ان کے بعد بھی یہ صورت دوبارہ نصیب نہیں ہوسکی۔

ان کا انتقال1950ء (انیس سو پانچ عیسوی) میں ہوا اور بروالہ سیدان میں اپنے خاندانی قبرستان میں دفن ہوئے۔ جس کا اب نشان باقی نہیں ہے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
السلام علیکم

بہت شکریہ اعجاز انکل ، آپ کا پیغام اس دھاگے کے ذریعے امید ہے صادق بھائی نے پڑھ لیا ہو گا ۔

 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین

یہ صفحات کمپوز پو چکے تھے تاہم بوجوہ انہیں یہاں دیر سے پوسٹ کرنا ممکن ہو سکا ۔ یہ صفحات عنوان "شریر بیوی" کے متن سے ہیں اور انہیں صادق بھائی نے کمپوز کیا ہے۔



؂؂؂؂؂؂؂؂؂؂؂؂؂






سکین متن کا صفحہ 75۔ (کتاب کا صفحہ نمبر۱۴۶)​
گئی اور یہ حرکت اس کو بہت ہی بری معلوم ہوئی۔ مگر اس نے ظاہر نہ ہونے دیا اور شکریہ ادا کرکے کہا آپ تکلیف نہ کریں۔ آکر کو کامل صاحب وہ کر گزرے جس کے لئے وہ آئے تھے ۔ باتوں ہی باتوں میں چاندنی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر بولے ۔ کیا کہوں بغیر آپ کی رفاقت کے میرا جی نہیں لگتا۔ چاندنی نے ہاتھ تو اپنا کھجانے کے بہانے چھڑا لیا اور پھر نہایت ہی سادگی سے کہا ۔ ’’ ملنے جلنے سے مناسب ہو ہی جاتی ہے ۔ مجھ کو خود آپ کے اخلاق حمیدہ بہت پسند ہیں۔‘‘
اتنا کہنا تھا کہ کامل صاحب نے زیادہ صاف ہوکر کہا ۔’’ مجھے آپ سے بہت محبت ہے ۔‘‘
چاندنی چونکہ ان خرافات کی منتظر ہی تھی ۔ لہٰذا اس کو اس پر کچھ تعجب نہ ہوا۔ اس نے نہایت یہ سادہ لوحی سے کہا ۔’’ بہت کم دل ہیں ۔ جن میں یہ جزبات ہوں ۔ واقعی وہ دل ہی کیا جس میں خدا کی محبت نہ ہو، باپ کی محبت نہ ہو یا بہنوں کی محبت نہ ہو یا دوست کی محبت نہ ہو ۔ دراصل محبت و الفت میں حسبِ مراتب سمجھی کا حصہ ہے ۔ ‘‘
کامل میدانِ حماقت میں اس طرح گامزن ہوئے ۔’’ آپ غلطی پر ہیں۔ اس دل میں سوا آپ کی محبت کے اور کسی کی محبت نہیں ۔‘‘
نمعلوم کیا غلط فہمی ہوئی ملازم کی آواز سن کر’’ میں ابھی حاضر ہوئی کہہ کر باہر آئی اور نہایت ہی تضع کے ساتھ گھبرا کر کمرہ میں واپس آئی۔ اور راز کے لہجہ میں کامل سے کہا ۔’’وہ آگئے ۔ جلدی کیجئے، غسل خانہ میں ۔ ‘‘ اس طرح گھبراہٹ اور جلدی
صفحہ 75۔ (صفحہ نمبر۱۴۷)​
کے لہجہ میں اس نے یہ پارٹ کیا کہ جیسے ہی کامل کا ہاتھ پکڑ کر اس نے غسل خانہ کا دروازہ باہر سے بن دکردیا
دراصل دیکھا جائے تو کامل کو چھپنے کی ضرورت ہی نہ تھی ۔ اور نہ ہی ان کا خود کا ارادہ ہوگا۔ مگر چونکہ دل میں چور تھا ۔ لہٰذا اسی بوکھلاہٹ میں بند ہوگئے۔ ہم کمرے میں آئے ۔ موٹر باہر دیکھ ہی چکے تھے ۔ اپنی شریر بیوی کو مسکراتے ہوئے پایا۔ ہم نے کوٹ اتار کر پوچھا کہ ہمارے دوست کہاں ہیں ؟ چاندنی نے مسکراکر کہا ’’ ٹاپے میں ‘‘ اور غسل خانہ کی طرف اشارہ کیا ۔ اور ہمارا ہاتھ پکڑ کر ساتھ لیا ۔ ہم دونوں دبے پاؤں ملنے والے کمرے سے ہوکر غسل خانہ کے پاس پہنچے۔ چاندنی نے آہستہ سے غسل خانہ کے دروازے پر انگلی ماری اور دبی آواز میں کامل کو پکارا۔ انہوں نے جواب دیا تو ان سے کہا کہ ’’ میں نے یہ کہلایا ہے کہ آپ کو والدہ صاحبہ نے شوفر کو موٹرلے کر مجھے لینے بھیجا ہے ۔ مگر موٹر بگڑ جانے کی وجہ سے وہ چلاگیا اور ابھی تک واپس نہیں آیا ہے ؟
کامل نے اس بہانے کو پسند کیا اور پھر ہمارے قبل از وقت چلے آنے کی وجہ دریافت کی ۔ جس کا جواب چاندنی نے یہ دیا کہ ’’ میرے درد سر کی وجہ سے چلے آئے ۔‘‘اس کے بعد انہوں نے کچھ لغویات بکنا شروع کیں تو وہ غسل خانہ میں تکلیف کی معافی مانگنے لگی ۔ جس کا جواب کامل نے دیا کہ ان کو اسی مین عین راحت ہے ۔ ہم دونوں ہنستے ہوئے چلے آئے۔ اب ہم یہ سوچ رہے تھے کہ ان کو بھلا کب تک رکھا جائے گا۔
صفحہ76۔ (صفحہ نمبر۱۴۸)
(۳)​
چاندنی نے بالمتفصیل کامل کی حماقتوں کا تذکرہ کیا۔ تیسرے پہر تک ہم باتیں کیا کئے۔چائے تیار ہوئی تو چاندنی نے ایک چائے کی پیالی کامل صاحب کو غسل خانے میں پہنچائی۔ انہوں نے شکریہ کا جب پل باندھ دیا اور لغویات شروع کیں تو اس نے ایک کاغذ اور پنسل دے کر کہا کہ ’’ اپنے شوفر کو لکھ دیجئے آپ کے دوست کو ہوا خوری کے لئے لے جائے۔ میں نے کہہ دیا ہے کہ میں آج کہیں نہ جاؤں گی ۔‘‘ ظاہر ہے کہ کامل صاحب نے اس کا کیا مطلب لیا ہوگا۔
آدھ گھنٹہ بعد شوفر آگیا اور ہم اور چاندنی کامل کو غسل خانے میں بند چھوڑ کر ان کے موثرپر ہوا کھانے چل دیئے ۔شام کو جب واپس آئے تو سیدھے غسل خانے پر پہنچے۔ کامل کو چاندنی نے متوجہ کرکے کہا۔ معاف کیجئے گا میں آپ کو اس قید خانہ میں چھوڑ کر جانے پر مجبور ہوئی ۔ کیونکہ مجھے مجبوراً جانا پڑا۔‘‘
کامل نے کہا کہ’’ کوئی مضائقہ نہیں ۔ مگر اب میرا جی گھبرا گیا ہے ۔ دوپہر سے بند ہوں ۔ اچھا سچ بتائیے گا کہ آپ کو آج کی ہوا خوری میں زیادہ لطف آیا ۔ یا میرے ساتھ زیادہ لطف آتا ہے ۔‘‘
چاندنی نے از راہِ شرارت مگر ایمانداری سے کہا ۔’’ خدا بہتر جانتا ہے‘‘ اور یہ کہہ کر کہا کہ ’’ میں دروازہ کھولے دیتی ہوں ۔ آپ چپکے سے نکل جائیے گا ۔ آپ کو موٹر اس طرف کھڑا ہوا ہے ۔‘‘
صفحہ76۔ (صفحہ نمبر۱۴۹)​
’’اچھا اچھا ۔ مگر یہ تو بتائیے کہ کیا میں کل دوپہر کو آؤں‘‘ کامل نے پوچھا وہ بولی ’’ کل شام کو تشریف لائیے گا ۔ میں آپ کی بہن سے وعدہ کر چکی ہوں ۔‘‘
ہم نے کمرہ سے دیکھا کہ کامل غسل خانہ سے پھُرتی سے نکلے ۔ ہم کمرہ کمرہ ہوکر پیشتر ہی سے موٹر کے پاس جا کھڑے ہوئے ۔ ہمیں دیکھ کر وہ کچھ جھجک سے گئے ۔ مگر فوراً بولے ۔ ’’واہ تم اِدھر ہو۔ میں تو تم کو اُدھر سے دیکھ کر آرہا ہوں سیدھا ابھی ابھی کلب سے آرہا ہوں ۔‘‘
ہم نے بھی چاندنی کو آواز دے کر بلایا کہ’’ دیکھو کامل تمہاری مزاج پُرسی کرتے ہیں ۔ ‘‘نئے سرے سے چاندنی سے ان سے سلام علیک ہوئی اور مزاج پرسی کی گئی ۔ بمشکل ہم نے ہنسی ضبط کی۔ ہم غسل خانہ میں ہاتھ دھونے کے بہانہ سے گئے اور چائے کی پیالی کمرہ میں لائے اور چاندنی کو دکھا کر کہا ۔ آکر یہ پیالی وہاںکیونکر پہنچی۔ اس کا جواب اس نے یہ دیا کہ یہ پیالی تو وہاں کئی روز سے رکھی ہوئی ہے اور گواہی میں کامل صاحب کو بھی پیش کردیا کہ یہ تو روزانہ آتے ہیں اور دیکھتے ہی ہوں گے ۔ ان حضرت نے فوراً جھوٹی شہادت دی۔ ہم نے تازہ چائے کی پتیوں کا چور ااور دس بیس بوندیں چائے کی دونوں کو دکھا کر کہا۔’’ خوب چوروں کے گواہ گرہ کٹ۔یہ تو آج کی معلوم ہوتی ہے ۔ کامل کچھ سٹ پٹاسے گئے ۔ اور ہم نے دیکھا کہ اُن کا چہرہ فق سا ہوگیا۔
چاندنی نے قصہ یوں ختم کیا کہ آپ کو کیا۔ جس کا جی چاہے غسل خانہ میں پئے ۔ جس کا جی چاہے میز پر پئے۔
صفحہ77۔ (صفحہ نمبر۱۵۰)​
تھوڑی دیر بعد کامل چلے گئے۔ مگر اس چائے کی پیالی کے اختتام سے جتنا اطمینان انہیں ہوا ۔ دیکھنے کے قابل تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرے روز ہم شام کو کلب سے آئے اور کپڑے وغیرہ اتار کر چاندنی کا انتظار کرنے لگے جو کامل کی بہن سے ملنے گئی تھی۔ ہم نے اس کو بہت کچھمنع کیا تھا کہ اب تو اس طرح نہ جا۔ مگر وہ کہتی تھی کہ اب تم رہنے دو۔
اتنے میں موٹر کی آواز آئی۔ جو کمرے کے سامنے آکر رُکی ۔ م نے دیکھا کہ بجائے انتظار کرکے ہم یا کامل موٹر کی کھڑی کھولیں۔ چاندنی فوراً کھڑکی کھول کر تیزی سے خود ہی اتر پڑی ۔ کامل نے موٹر کا انجن چلتا رکھا تھا۔ انہوں نے اس کو موڑا اور ہمیں زور سے پکار کر گڈ نائٹ کہا اور موٹر یہ جاوہ جا ۔
چاندنی کمرہ میں آئی اور ہم پوچھنے ہی کو تھے کہ کوئی نئی بات تو نہیں ہوئی کہ اس کا چہرہ غصہ سے لال دیکھا۔ آنکھوں میں آنسو تھے۔ہم سمجھ گئے اور ہم نے غور سے چہرہ کو دیکھ کر ایک زور کا قہقہ لگایا اور پھر کہا کہ اچھا ہوا تیر ی شرارتوں کی یہی سزا ہے ۔ یہ کہہ کر ہم نے چھیڑنے کے لئے کندھا ہلاکر پوچھا ۔ ’’کہو دوست پھر جاؤ گے ؟ ۔‘‘
’’مان جاؤ ۔‘‘ یہ کہہ کر چاندنی نے ہمارا ہاتھ جھٹک دیا ’’ہمیں بڑا غصہ آرہا ہے ۔‘‘
ہم نے پھر ہنس کر کہا ’’ہم نہ کہتے تھے کہ شرارتیں چھوڑ دو ۔‘‘ یہ کہہ کر
صفحہ77۔ (صفحہ نمبر۱۵۱)​
پھر کندھا ہلاکر کہا ۔’’ کچھ تو بتاؤ دوست آکر کیا ہو ا؟‘‘
دانت پیس کر اور مٹھی بھینچ کر اس نے جل کر کہا ۔’’ جب تک میں اس کمینہ سے بدلہ نہ لے لوں گی مجھے چین نہ پڑے گا ۔ میں ہر گز اس سے ملنانہ چھوڑ دوں گی ۔‘‘
ہم نے پھر کہا ۔ ’’ بتاؤ دوست کیسی گذری ؟۔‘‘
’’مان جاؤ‘‘ اس نے تنگ کر کہا ۔’’ ہم نہیں بتاتے‘‘
’’اچھا ہم کسی سے نہ کہیں گے ۔ تم ہمارے کان میں چپکے سے کہہ دو۔‘‘
یہ کہہ کر ہم نے اپنا کان اس کے منہ کے قریب کردیا۔ چاندنی کا غصہ رفو چکر ہوگیااور اسے ہنسی آگئی ۔ مگر اس نے کہا’’ ہم نہیں بتاتے ۔ جب ہم اپنے دشمن سے بدلہ لے لیں گے ۔ تب بتائیں گے ۔‘‘
’’تمہیں بتانا پڑے گا۔ یہ کہہ کر ہم نے بھیت کھینچا اور گھیسٹا ۔ مگر وہ یہی کہتی رہی کہ ہم نہیں بتاتے۔‘‘
ہم نے کہاکہ ’’ دوست تم بتاؤ یا نہ بتاؤ ۔ ہم تو جان ہی گئے ۔ ‘‘
(۴)​
بہتر ہوتا اب بھی ہم معاملات کو یہیں روک دیتے ۔ مگر بیوی کی محبت سے ہم مجبور تھے۔ وہ یہی کہتی رہی کہ ’’ تم دیکھا میں کیسا بدلہ لیتی ہوں ۔‘‘
دوسرے روز کامل نہیں آئے۔ تیسرے روز جو آئے تو ہم بھی کلب نہ گئے ۔ اور موٹر کی سیر کی ۔ اب کچھ ایسا اتفاق ہوتا کہ جب بھی شام کو کامل آتے تو کسی نہ کسی وجہ سے چاندنی کا اور ان کا موٹر میں ساتھ نہ ہوتا۔ کوئی نہ کوئی
صفحہ78۔ (صفحہ نمبر۱۵۲)​
وجہ ضرور ہوجاتی ۔ ہم سے بالکل بد ستور سابق مل جل رہے تھے۔
چاندنی خاموش تھی اور ان سے کسی قسم کی شرارت نہ کرتی تھی۔ مگر وہ منتظر تھی کہ اب کامل صاحب کچھ پھر شرارت کریں تو بدلہ لوں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حالانکہ کامل کو اب چاندنی کے ساتھ تنہائی کا بالکل موقعہ نہ ملتا تھا مگر انہوں نے اتنا کہنے کا موقعہ آسانی سے نکال لیا کہ کیا میں کل دوپہر کو آؤں ؟ چاندنی نے کچھ نہ کیا۔ انہوں نے پھر گھبرائے ہوئے لہجہ میں کہا اور جب اس نے پھر جواب نہ دیا تو پھر کہا ۔ مجبور ہوکر چاندنی نے کہا کہ موٹر پر نہ آئیے گا ۔ خوش ہوکر انہوں نے کہا کہ میں ایک بجے آؤں گا ۔ یہ باتیں کرکے وہ فوراً ہی چلے گئے گو کہ ہم نے ان کا روکا ۔ مگر وہ نہ مانے ۔
ہم سے چاندنی نے کہا کہ تم کچہری سے کل ڈیڑھ بجے ضرور گھر پہنچ جانا ۔ ہم نے کہا کہ ’’ ہم تیری حماقتوں میں کہاں تک شرکت کریں ۔ تو ان کو غسل خانہ میں بند کرے گی اور ہم کو خواہ مخواہ اس قسم کی باتوں سے دلچسپی نہیں ۔ ‘‘ مگر ہم کو مجبور ہوکر پختہ وعدہ کرنا پڑا ۔
دوسرے روز ہم کچہری ذرا پہلے چلے گئے ۔ اب چاندنی کی کارستانی سنئے۔ہمارے چلے جانے کے بعد نہ معلوم کہاں سے اس نے ایک زبردست گدھا منگایا۔اس کے کان میں کیل سے سوراخ کیا گیا۔ اور اس میں ایک لمبا سا تار باندھ کر گدھے کو غسل خانہ میں لے جاکر اس طرح کھڑا کیا کہ وہ چوکی اور دیوار کے بیچ میں پھنس گیا۔ اس طرح کھڑا کرکے غسل خانہ کی موری میں سے اس تار کو نکالا
صفحہ78۔ (صفحہ نمبر۱۵۳)​
جو گدھے کے کان میں بندھا تھا اور تار کے سرے کو ایک کیل گاڑ کر اس سے مضبوط باندھ دیا ۔ کہ اگر گدھا ذرا بھی جنبش کرے تو اس کو سخت تکلیف ہو۔
کامل حسبِ وعدہ ہمارے مکان پر ایک بجے پہنچے۔وہ پیدل تھے اور بجائے صدر دروازے سے آنے کے بنگلہ کی احاطہ والی کچی دیوار پھاند کر اس طرح آئے کہ ملازم وغیرہ کو ئی ان کو آتا ہوا نہ دیکھ سکے ۔ وہ سیدھے ملنے والے کمرے میں گھس گئے۔ انہوں نے کمرہ خالی پایا اور وہ بیٹھ گئے۔
کسی نے سچ کہا ہے کہ نیند نہ آئے تو ریشم کے گدوں پر اور آئے تو پھانسی کے تختہ پر ۔ بعض اوقات ایسی بے موقعہ نیند آتی ہے کہ تعجب ہوتا ہے یہی حال چاندنی کا ہوا ۔ اس کا معلوم تھا کہ کامل آتے ہوں گے اور ان کے انتظار میں اپنی کارستانی کے سوچ میں وہ اندر والے سونے کے کمرہ کے قریب والے صوفہ پر تکیہ لگا کر لیٹ گئی۔ لیٹے لیٹے اس کو نیند آگئی اور وہ سو گئی۔
یکا یک اس کی کچھ آہٹ سے جو آنکھ کھلی تو اپنے منہ کے قریب کامل کا منہ پایا ۔ وہ اس پر جھکے ہوئے تھے بے اختیار ی کے عالم میں اس کے منہ سے ایک چیخ نکل گئی اور وہ تڑپ کر اٹھی۔ کامل کچھ گھبرا گئے ۔ اپنے کو بڑی مشکل سے سنبھالتے ہوئے چاندنی سے کہا ’’ چلئے ملنے والے کمرہ میں چلئے۔ میں ابھی آتی ہوں ۔
‘‘مگر سنیئے تو ‘‘ یہ کہہ کر کامل چاندنی کی طرف بڑھے ۔
چاندنی نے بڑی پامردی اور ہمت سے کام لیا ۔ وہ اس قدر گھبرا گئی
صفحہ79۔ (صفحہ نمبر۱۵۴)​
تھی کہ یہ سب شرارتیں بھول گئی اور اس کے ہاتھ پیر پھول گئے تھے۔ تنہا کمرہ میں جہاں کوئی گھر کا ملازم تک بھی داخل نہ ہوتا ہو وہ ایک آوارہ اور بد چلن شخص کے ساتھ تھی ۔ جس کو اس نے اپنی شرارت کا خود شکار بنانے کے لئے آنے کی اجازت دی تھی۔ اس نے کہا کہ ’’ میں منہ دھو کر ابھی حاضر ہوئی ‘‘
یہ کہہ کر وہ تیزی سے پردہ اٹھا کر نکل گئی۔ اس کا کلیجہ دھک دھک ہو رہا تھا۔ کامل رک گئے اور اس کے پیچھے نہ آئے ۔ چاندنی نے منہ دھویا ۔ وہ تولیہ سے منہ پونچھ رہی تھی ۔ مگر اس کے تن بدن میں رعشہ موجود تھا اور اب تک دل قابو میں نہ آیا تھا اور وہ بے حد پریشان تھی ۔ اس نے ایک گلاس سرد پانی پیا ۔ جس سے اس کا دل تھما۔ دل میں وہ اپنی کمزوری پر ہنسی اور اس نے کہا کہ وہ مردود میرا کیا کرسکتا ہے ۔ وہ اب بالکل ٹھیک تھی اور بغیر کسی ڈر یا پریشانی کے ملنے والے کمرے میں پہنچی۔ اس نے کمرہ کے چاروں طرف دیکھا اور سب دروازے بجائے کھولے ہونے کے بند پائے ۔ کیونکہ کامل نے سب دروازے مضبوط بند کردیئے تھے یہ دیکھ کر اس کی ہمت اور جرات پھر رخصت ہوتی معلوم ہوئی ۔ نہ معلوم وہ کیوں اس قدر گھبرا رہی تھی اس نے گھڑی کی طرف دیکھا تو ڈیڑھ بجنے میں آٹھ منٹ تھے۔ اس کو کامل کے ساتھ اب اس کمرہ میں ڈر لگ رہا تھا ۔ وہ کچھ ٹھٹکی کہ کامل نے مسکرا کر کہا۔
’’آئیے‘‘ یہ لفط اس وقت اس کے کانوں میں ہتھوڑے کی چوٹ بن کر لگا ۔ جس کی دھمک اس کے دل تک پہنچی اور معاً اس نے کمزوری محسوس کی مگر اس نے اپنے دل کو پھر مضبوط کیا اور ایک کرسی گھسیٹ کر علیحدہ بیٹھ گئی ۔ کامل
صفحہ79۔ (صفحہ نمبر۱۵۵)​
نے خاموشی کو توڑا اور باتیں کرتے کرتے وہ آہستہ آہستہ اور رفتہ رفتہ اس کی کرسی کی طرف بڑھنے لگے۔
اس وقت چاندنی کی عجیب حالت تھی اس جانور کی مانند تھی جو شیر کو دیکھ کر بے بس ہوجاتا ہے کہ قوت رفتار کھو بیٹھتا ہے اور دیکھتا ہے کہ شیر آرہا ہے مگر جنبش نہیں کرسکتا ۔ وہ خاموش تھی اور اس سے کوئی جواب ہی نہ بن پڑتا تھا ۔ دل بری طرح دھڑک رہا تھا۔ اور ہونٹ بالکل خشک تھے جب کامل بالکل ہی قریب آگئے تو نہ معلوم کس کوشش سے اس نے کہا ۔
’’پانی عنایت کیجئے گا‘‘ اور صراحی کی طرف ہاتھ اٹھا دیا ۔ کامل نے پانی دیا پانی پی کر کامل کو گلاس واپس دیا ۔ کامل نے دیکھا کہ چاندنی کے ہاتھ میں رعشہ ہے ۔ جس کے انہوں نے شاید غلط معنی لئے اور گلاس کو میز پر رکھ کر کرسی کے سامنے آکھڑے ہوئے ۔ چاندنی بت کی طرح خاموش تھی ۔ اور انہوں نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ چاندنی کی جو حالت ہوگی اس کا اندازہ لگانا آسان نہیں ۔ ہاتھ برف کی طرح سرد تھے۔ کامل نے اور جرات کی اور وہ کرسی کے سامنے گھٹنوںکے بل اس طرح کھڑے ہوگئے کہ اٹھنے کا راستہ رک گیا اس نے ارادہ کیا کہ چیخ کر بھاگ جاؤں ۔ مگر وہاں سب قوتِ گفتار یا رفتار کہاں۔کامل کی رفتار افعال اس قدر آہستہ تھی کہ کوئی بات یکا یک پیش ہی نہ آرہی تھی ۔ جو بجلی کی طرح گر کر اس جمود کو توڑتی اور طبیعت کی رفتار کو ہیجان میں لاکر قوت پیدا کرتی جو قریب قریب مفقود ہوچکی تھی۔ ایسے موقع پر اگر کسی چیز کے گرنے کا دھماکہ بھی ہوتا ہے تو طبیعت کو جنبش ہوجاتی ہے اور انسان
 
Top