سیما علی

لائبریرین
"نہاری کیا تھی، بارہ مسالے کی چاٹ ہوتی تھی۔ امیر سے امیر اور غریب سے غریب اس کا عاشق تھا۔ نہاری اب بھی ہوتی ہے اور آج بھی دلّی کے سوا نہ کہیں اس کا رواج ہے نہ اس کی تیاری کا کسی کو سلیقہ۔ دلّی کا ہر بھٹیارا نہاری پکانے لگا، ہر نانبائی نہاری والا بن بیٹھا مگر نہ وہ ترکیب یاد ہے نہ وہ ہاتھ میں لذت۔ کھانے والے نہ رہیں تو پکانے والے کہاں سے آئیں۔۔۔۔۔

نہاری کا نام سن کر باہر والے لوٹ جاتے ہیں۔ ملنے والوں سے نہاری کی فرمائش ہوتی ہے۔ اب اگر میزبان سلیقے مند ہے تو خیر ورنہ کھانے والوں کو منہ پیٹنا پڑتا ہے۔ چار آنے کی نہاری میں آٹھ آنے کا گھی کون ڈالے۔ پھر آج کل والے یہ بھی نہیں جانتے کہ نہاری کے بعد ترتراتے حلوے یا گاجر کی تری سے مسالوں کی گرمی کو مارا جاتا ہے۔ اس لیے نہاری بدنام ہوگئی ہے۔ اس کے سوا نہاری بیچنے والوں کو بھی تمیز نہیں رہی۔ ایرے غیرے نتھو خیرے نہاری کی دکان لیے بیٹھے ہیں۔"

اقتباس از "گنجے نہاری والے"
'دلّی کی چند عجیب ہستیاں' : اشرف صبوحی دہلوی، 1943ء
 

سین خے

محفلین
سیما سس آپ اقتباسات "آپ کی تحریریں" میں پوسٹ کر رہی ہیں۔ آپ کی تحریروں میں ممبرز اپنی لکھی ہوئی تحریریں پوسٹ کرتے ہیں۔

محمد خلیل الرحمٰن سر آپ ان ساری پوسٹس کو متعلقہ زمروں میں منتقل کر دیں۔
 

سیما علی

لائبریرین

سیما علی

لائبریرین
Top