گنجلک

La Alma

لائبریرین
گنجلک
گرہیں جو کھل بھی جائیں، الجھے رہیں گے دھاگے
کس سمت ہو مسافت
آغاز بھی وہی ہے
انجام بھی وہی ہے
دل بحرِ بے کراں میں
بے انت خواہشوں کے ہیں ان گنت جزیرے
لہروں کی چاندنی کب موجِ فلک پہ اتری!
تسکینِ دلنوازی پھر حرزِ جاں تو ہوگی
اک لطف گر بہم ہے
جو درد ہے میسر
اتنا نہیں ہے کافی
زعمِ نشاطِ غم میں ایسا کہاں ہے ممکن
شیشے سے سنگ ٹوٹیں
پتھر میں عکس چمکیں
ہو جائیں بھی اگر سب پرچھائیاں مجسم
ان کے بھی ہوں گے سائے
تکمیلِ آرزو میں حاصل کی نا تمامی
ہر حال میں رہے گی
 
تکمیلِ آرزو میں حاصل کی نا تمامی
ہر حال میں رہے گی
اس قدر خوب صورت خیالات ایسے حسین پیرائے میں باندھے ہیں۔ مجھے ہمیشہ آپ پر رشک آتا ہے۔ اللہ تعالی آپ کے خیال کی رفعت اور قلم کی طاقت کو تقویت بخشیں۔
مزید برآں آزاد نظم کی صنفِ سخن اکثر اس لحاظ سے مجھے بہت بھاتی ہے کہ اس میں شاعر بہت اونچا اڑ سکتا ہے، ردیف و قافیہ پیر سے نہیں بندھے ہوتے۔ بے حد داد قبول فرمائیے اور لکھتی رہیے کہ ہم سر دھنتے رہیں گے!
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
گرہیں بہت عمدگی سے الجھائی ہیں آپ نے۔ خواہشوں کی بے کراں وسعت، ادھورے پن اور دل کی پیچیدہ گتھیوں کو جس طرح سے بیان کیا ہے وہ انسانی تجربے کی سچی عکاسی ہے۔ ہر گرہ کے کھلنے پر بھی دھاگے کی الجھن باقی رہتی ہے، جیسے ہر آرزو کی تکمیل میں بھی ایک کمی رہ جاتی ہے۔ یہ ادھورا پن، یہ نہ مکمل ہونا ہی دراصل زندگی کا اصل حسن ہے، کیونکہ یہی خلا ہمیں مزید جستجو پر آمادہ کرتا ہےاورنئے سفر کی طرف بلاتا رہتا ہے۔
اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ
 

La Alma

لائبریرین
اس قدر خوب صورت خیالات ایسے حسین پیرائے میں باندھے ہیں۔ مجھے ہمیشہ آپ پر رشک آتا ہے۔ اللہ تعالی آپ کے خیال کی رفعت اور قلم کی طاقت کو تقویت بخشیں۔
مزید برآں آزاد نظم کی صنفِ سخن اکثر اس لحاظ سے مجھے بہت بھاتی ہے کہ اس میں شاعر بہت اونچا اڑ سکتا ہے، ردیف و قافیہ پیر سے نہیں بندھے ہوتے۔ بے حد داد قبول فرمائیے اور لکھتی رہیے کہ ہم سر دھنتے رہیں گے!
آپ میں یہ وصف ہے کہ آپ کسی کی خوبی کو محدب عدسے سے دیکھتی ہیں جس سے وہ مزید نمایاں ہو کر آپ کو دکھائی دیتی ہے۔ لہذٰا میں تو اسے آپکا حسنِ نظر ہی سمجھونگی۔
مجھے ہمیشہ سے ہجوم یا لشکر کی بجائے، فرد کی طاقت پر زیادہ یقین رہا ہے۔ کیونکہ ایک یا چند افراد ہی سارے ہجوم کو متحرک یا مشتعل کرتے ہیں۔ کسی محفل میں ایک شخص کے آتے ہی سب کو سانپ سونگھ جاتا ہے یا ساری محفل کشتِ زعفران بن جاتی ہے۔ صرف ایک دیا سلائی، جلا کر سب کچھ راکھ کر سکتی ہے۔ یا مایوسی کے گھپ اندھیروں میں امید کی کوئی شمع روشن کر سکتی ہے۔ اردو محفل کے آخری ایام میں آپ کی آمد سے، اس بات پر میرا یقین مزید پختہ ہو گیا ہے۔ ❤️
 

La Alma

لائبریرین
گرہیں بہت عمدگی سے الجھائی ہیں آپ نے۔ خواہشوں کی بے کراں وسعت، ادھورے پن اور دل کی پیچیدہ گتھیوں کو جس طرح سے بیان کیا ہے وہ انسانی تجربے کی سچی عکاسی ہے۔ ہر گرہ کے کھلنے پر بھی دھاگے کی الجھن باقی رہتی ہے، جیسے ہر آرزو کی تکمیل میں بھی ایک کمی رہ جاتی ہے۔ یہ ادھورا پن، یہ نہ مکمل ہونا ہی دراصل زندگی کا اصل حسن ہے، کیونکہ یہی خلا ہمیں مزید جستجو پر آمادہ کرتا ہےاورنئے سفر کی طرف بلاتا رہتا ہے۔
اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ
زندگی ایک ایسا سوالنامہ ہے جس کا جواب ہمیں آتابھی ہو تو ہم احاطۂ تحریر میں نہیں لا سکتے۔ کبھی کاغذ نہیں ہوتا، کبھی قلم نہیں ہوتا۔ اگر خوش قسمتی سے دونوں میسر ہوں تو اکثر حاشیہ اتنا تنگ ہوتا ہے کہ ہم تمہید سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔ اس لیے یہ گرہیں کبھی کھل نہیں پاتیں بلکہ مزید الجھتی جاتی ہیں۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
واہ واہ بہت اچھی اور رواں نظم ہے۔ ماشاء اللّٰه
ہر طرف خضاب کا ذکر چل رہا تھا اور آپ کی لڑی دیکھی، مجھے لگا آپ گنجے کی لک (قسمت) میں خضاب کا ذکر بھی ختم کرنا چاہتی ہیں 🙂 ۔
 

صریر

محفلین
گنجلک
گرہیں جو کھل بھی جائیں، الجھے رہیں گے دھاگے
کس سمت ہو مسافت
آغاز بھی وہی ہے
انجام بھی وہی ہے
دل بحرِ بے کراں میں
بے انت خواہشوں کے ہیں ان گنت جزیرے
لہروں کی چاندنی کب موجِ فلک پہ اتری!
تسکینِ دلنوازی پھر حرزِ جاں تو ہوگی
اک لطف گر بہم ہے
جو درد ہے میسر
اتنا نہیں ہے کافی
زعمِ نشاطِ غم میں ایسا کہاں ہے ممکن
شیشے سے سنگ ٹوٹیں
پتھر میں عکس چمکیں
ہو جائیں بھی اگر سب پرچھائیاں مجسم
ان کے بھی ہوں گے سائے
تکمیلِ آرزو میں حاصل کی نا تمامی
ہر حال میں رہے گی
بہت خوب!!👍🏻
 

La Alma

لائبریرین
واہ واہ بہت اچھی اور رواں نظم ہے۔ ماشاء اللّٰه
ہر طرف خضاب کا ذکر چل رہا تھا اور آپ کی لڑی دیکھی، مجھے لگا آپ گنجے کی لک (قسمت) میں خضاب کا ذکر بھی ختم کرنا چاہتی ہیں 🙂 ۔
بہت شکریہ!

نان سرگوشی!
اب کیا کریں خضاب کے رنگے کو کالا کالا ہی سوجھتا ہے۔ :)
گنج، لَک(خوش قسمتی) ہی ہے۔ مہنگائی اور مصروفیت کے اس دور میں خضاب ،شیمپو اور کنگھی کا خرچہ بچتا ہے ۔ اور بال سنوارنے میں وقت کا ضیاع بھی نہیں ہوتا۔
خضاب نہ بھی لگائیں تو حجاب، مطلب ٹوپی سے بھی اس برف پوش چوٹی کو ڈھانپا جا سکتا ہے۔
 
ہو جائیں بھی اگر سب پرچھائیاں مجسم
ان کے بھی ہوں گے سائے
تکمیلِ آرزو میں حاصل کی نا تمامی
ہر حال میں رہے گی
بہت ہی خوبصورتی سےزندگی کی حقیقت بیان کی ہے۔
ایک پرچھائیں مجسم ہوگی تو اس جسم کا سایہ پھر ایک پرچھائیں کی صورت میں ظاہر ہوگا۔ یعنی ایک خواہش کی تکمیل کے بعد پھرایک نئی خواہش جنم لے گی کیونکہ تکمیل کے بعد لگے گا کہ کچھ کمی ہے ابھی بھی۔ یہ ناتمامی یا ادھورا پن زندگی میں ہر وقت رہے گا۔
ویسے بھی مسلمان یقین رکھتے ہیں کہ دنیا نامکمل ہے۔ اس میں رہنے والے اس کمی کو ہر وقت محسوس کریں گے۔ اور اس کی تکمیل آخرت میں ہوگی۔وہاں کامیاب لوگ تکمیل کا مزہ چکھیں گے اور پھر انہیں کسی کمی کا احساس نہیں ہوگا۔
آپ سلامت رہیں!
 
محفل فورم صرف مطالعے کے لیے دستیاب ہے۔
Top