گناہوں پر ندامت ہے مگر رغبت نہیں جاتی----برائے اصلاح

الف عین
محمّد خلیل الرحمن
محمّد احسن سمیع راحل
@شاہدشاہنواز
----------
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
-----------
گناہوں پر ندامت ہے مگر رغبت نہیں جاتی
مرے دل سے حسینوں کی کبھی چاہت نہیں جاتی
------------
تجھے اب دیکھنے کو دل ترپتا ہے مرا یا رب
نہیں ہے تاب آنکھوں میں مگر حسرت نہیں جاتی
------------
اندھیرا کر دیا دل میں مرے اپنے گناہوں نے
ہزاروں کوششیں کر لیں مگر ظلمت نہیں جاتی
-------------
کرے کوشش اگر کوئی بدل جاتی ہے عادت بھی
مگر فطرت نہیں بس میں کبھی فطرت نہیں جاتی
--------یا
خدا نے جو بنا دی ہے کبھی فطرت نہیں جاتی
---------------
وہ مومن ہو نہیں سکتا دکھائے دل جو لوگوں کا
کسی انسان کے دل سے کبھی شفقت نہیں جاتی
----------------
لگے جو داغ دامن پر ہمیشہ ساتھ رہتا ہے
ہزاروں نیکیاں کر لو مگر تہمت نہیں جاتی
--------
خدا نے ہی تو ڈالی ہے محبّت صنفِ نازک کی
کسی بھی مرد کے دل سے کبھی عورت نہیں جاتی
---------
یہ کتنا خوبصورت سا جہاں رب نے بنایا ہے
نظارے دیکھ کر اتنے مری حیرت نہیں جاتی
--------------
ہمیشہ دیکھنا ارشد محبّت سے غریبوں کو
جو بیٹھو ساتھ ان کے بھی ، تری عزّت نہیں جاتی
--------------
 
مکرمی جناب ارشدؔ صاحب، آداب!
یادآوری کے لئے ممنون ہوں۔ حسبِ حکم کچھ تاثرات بیان کررہا ہوں، امید ہے آپ زیرِ غور لائیں گے۔
اس سے پہلے ایک مشورہ یہ دینا چاہوں گا کہ کوشش کیا کیجئے کہ غزل کو پانچ سے سات اشعار تک محدود رکھا جائے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک تو آج کل کے قارئین کا مزاج اس سے زیادہ طوالت سے میل نہیں کھاتا، دوسرے یہ کہ تعداد اشعار کی حدبندی کرنے سے آپ حشو و زوائد سے بھی بچ سکیں گے۔
یہ قطعاً ضروری نہیں کہ غزل کی زمین کے حساب سے جو بھی قافیہ ذہن میں آئے، اس پر لازم شعر کہا جائے۔
اس طرح کی قافیہ پیمائی سے بعض اوقات بہت مضحکہ خیز اشعار جنم لیتے ہیں، جن پر ہوئی تنقید شاعر کے لئے اکثر اوقات حوصلہ شکن ہوتی ہے۔

آپ کی اس غزل کو دیکھا جائے تو، بصد معذرت عرض ہے، کہ اگر آپ ذرا سی توجہ اس کو اور دیتے تو شاید اسے اصلاح کی ضرورت ہی نہ رہتی۔ زیادہ تر مصارع کے سقم محض الفاظ کی ترتیب و نشست بدلنے سے ہی دور ہوجاتے ہیں۔
دوسرا کچھ مقامات پر وہی پرانا مسئلہ درپیش ہے کہ فاعل کی موجودگی واضح نہیں۔

گناہوں پر ندامت ہے مگر رغبت نہیں جاتی
مرے دل سے حسینوں کی کبھی چاہت نہیں جاتی
پہلے مصرعے کے الفاظ میں معمولی سا تغیر کرکے دیکھیں۔ دوسرے مصرعے میں کبھی کے بجائے اب بھی، آج بھی وغیرہ کا محل ہے، مزید یہ کہ حسینوں کی محبت لازم تو نہیں کہ ہمیشہ ہی حرام ہو۔ انسان کی شریک حیات بھی تو حسین ہو سکتی ہے :) (ازراہِ تفنن) ۔۔۔ خیر، میں مطلع پر ایک گرہ تجویز کرتا ہوں، آپ بھی ان خطوط پر سوچ کر دیکھیں۔

گناہوں پر گو نادم ہوں، مگر رغبت نہیں جاتی
کسی صورت درِ توبہ تلک ہمت نہیں جاتی

تجھے اب دیکھنے کو دل ترپتا ہے مرا یا رب
نہیں ہے تاب آنکھوں میں مگر حسرت نہیں جاتی
ترے دیدار کو یا رب دلِ مضطر تڑپتا ہے ۔۔۔

اندھیرا کر دیا دل میں مرے اپنے گناہوں نے
ہزاروں کوششیں کر لیں مگر ظلمت نہیں جاتی
اندھیرا ہوگیا اتنا مرے دل میں گناہوں سے
کسی صورت، کسی حیلے سے یہ ظلمت نہیں جاتی

کرے کوشش اگر کوئی بدل جاتی ہے عادت بھی
مگر فطرت نہیں بس میں کبھی فطرت نہیں جاتی
توجہ اور کوشش سے بدل سکتی ہے بس عادت
مگر انساں کی گھٹی سے کبھی فطرت نہیں جاتی

وہ مومن ہو نہیں سکتا دکھائے دل جو لوگوں کا
کسی انسان کے دل سے کبھی شفقت نہیں جاتی
پہلے مصرعے میں مومن کا اختصاص اور دوسرے میں انسان کی تعمیم؟؟ پہلے مصرعے کے الفاظ کی ترتیب بدلنا بھی بہتر ہوگا۔
دکھائے دل جو لوگوں کا وہ مومن ہو نہیں سکتا
دلِ مسلم سے عند الموت بھی شفقت نہیں جاتی

خدا نے ہی تو ڈالی ہے محبّت صنفِ نازک کی
کسی بھی مرد کے دل سے کبھی عورت نہیں جاتی
اس کو نکال دیں تو بہتر ہے۔

یہ کتنا خوبصورت سا جہاں رب نے بنایا ہے
نظارے دیکھ کر اتنے مری حیرت نہیں جاتی
پہلے مصرعے میں ’’سا‘‘ بھرتی ہے۔
یہ رب نے کتنی دلکش، خوشنما دنیا بنائی ہے
نظارے دیکھ کر اس کے مری حیرت نہیں جاتی!

ہمیشہ دیکھنا ارشد محبّت سے غریبوں کو
جو بیٹھو ساتھ ان کے بھی ، تری عزّت نہیں جاتی
پہلے مصرعے کے الفاظ کی ترتیب بدلیں، جبکہ دوسرا مصرعہ بھی نظرثانی کا متقاضی ہے۔ دوسرے مصرعے میں شترگربہ بھی ہے۔ بیٹھو کے ساتھ تری کیسے آسکتا ہے؟
غریبوں کو ہمیشہ دیکھنا ارشدؔ محبت سے
کہ ان کو ساتھ رکھنے سے کبھی عزت نہیں جاتی۔

دعاگو،
راحلؔ
 

نداملک

محفلین
تیرھیویں صدی میں عربی میں لکھی گئی اور نان فکشن ہے، میں نے ایک اقتباس پڑھا تھا چند لائنز کا، کتاب کا نام "مکمل جواب اس شخص کے لیے نے جس نے سوال کیا تھا دو جے لیے" کیا کوئی مدد کر سکتا ہے؟
 

نداملک

محفلین
سلام مجھے تیرھیویں صدی میں عربی میں لکھی گئی ایک ایک کتاب کی تلاش ہے، نان فکشن ہے، میں نے ایک اقتباس پڑھا تھا چند لائنز کا، کتاب کا نام "مکمل جواب اس شخص کے لیے نے جس نے سوال کیا تھا دوا کے لیے" کیا کوئی مدد کر سکتا ہے؟
انگلش میں اگر م جائے تو مہربانی ہوگی
 
سلام مجھے تیرھیویں صدی میں عربی میں لکھی گئی ایک ایک کتاب کی تلاش ہے، نان فکشن ہے، میں نے ایک اقتباس پڑھا تھا چند لائنز کا، کتاب کا نام "مکمل جواب اس شخص کے لیے نے جس نے سوال کیا تھا دوا کے لیے" کیا کوئی مدد کر سکتا ہے؟
انگلش میں اگر م جائے تو مہربانی ہوگی
آپ نے غلط زمرے میں سوال کیا ہے۔ میرے خیال میں اس سوال کے لئے یہ زمرہ مناسب رہے گا۔
مطالعہ کتب
 

نداملک

محفلین
معزرت میجھے تو یہاں ائے دس منٹ بھی نہیں ہوئے ہیں، اسی لیے علم نہیں کہ یہ فورم کیسے ورک کرتا ہے، میں وہاں دیکھ لیتی ہوں۔ شکریہ
 
محمّد احسن سمیع راحل
----------------
بھائی آپ کے کے دو مصرعے بحر میں نہیں تھے اس لئے تھوڑے سے تبدیل کئے ہیں (1) مطلع کا پہلا مصرعہ لفظ گو کی وجہ سے اور دوسرا فطرت والا
------
میں نادم ہوں گناہوں پر ، مگر رغبت نہیں جاتی
کسی صورت درِ توبہ تلک ہمت نہیں جاتی
-----------
ترے دیدار کو یا رب دلِ مضطر تڑپتا ہے
نہیں ہے تاب آنکھوں میں مگر حسرت نہیں جاتی
------------
اندھیرا ہو گیا اتنا مرے دل میں گناہوں سے
کسی صورت، کسی حیلے سے یہ ظلمت نہیں جاتی
------------
توجہ اور کوشش سے بدل سکتی ہے بس عادت
مگر انساں کی جو فطرت ہے وہ فطرت نہیں جاتی
-----------
دکھائے دل جو لوگوں کا وہ مومن ہو نہیں سکتا
دلِ مسلم سے عند الموت بھی شفقت نہیں جاتی
-------------
یہ رب نے کتنی دلکش، خوشنما دنیا بنائی ہے
نظارے دیکھ کر اس کے مری حیرت نہیں جاتی!
-------
غریبوں کو ہمیشہ دیکھنا ارشدؔ محبت سے
کہ ان کو ساتھ رکھنے سے کبھی عزت نہیں جاتی۔
------------
 

الف عین

لائبریرین
توجہ اور کوشش سے بدل سکتی ہے بس عادت
مگر انساں کی جو فطرت ہے وہ فطرت نہیں جاتی
..... فطرت دو بار استعمال کیا کانا اچھا نہیں لگتا، راحل کا مصرعہ بہتر ہے
آپ ٹیگ کرنے میں اصلاح کی کوشش نہ کیا کریں، کسی محمّد کو آپ نے دو بار ٹیگ کر دیا ہے، ورنہ بھائی خلیل کے نام میں محمد بغیر تشدید کے ہے۔ خلیل الرحمن کی م پر کھڑا زبر بھی ہے۔ راحل کے نام میں ضرور محمد پر شد ہے، مگر ان کے نام کا راحل ":" سے گھرا ہوا ہے۔ اس لئے درست ٹیگ نہیں ہوتے
 
الف عین
گناہوں پر گو نادم ہوں مگر رغبت نہیں جاتی
مفاعیلن ------ مفاعیلن مفاعیلن
محترم (گو) چونکہ دو حرفی ہے اس لئے درمیان والا مفاعیلن بنانے میں دقّت تھی ،اس لئے۔اگر میں غلطی پر ہوں تو معذرت۔ ار دوسرے مصرعے لفظ گھٹی کی وجہ سے دقّت تھی۔اگر گو کو نکال دیا جائے (گناہوں پر ہوں نادم میں ،مگر رغبت نہیں جاتی) اس طرح تینوں مفاعیلن مکمّل ہے
 
آخری تدوین:
خلیل بھائی صحیح فرمایا(گناہوں پر ہوں نادم میں ،مگر رغبت نہیں جاتی) لفظ میں لکنا بھول گیا تھا مگر مسئلہ یہ تھا کہراحل بھائی کا جو مصرعہ تھا ( گناہوں پر گو نادم ہوں، مگر رغبت نہیں جاتی) اس میں ۔
(گناہوں پر) مفاعیلن (گونادم ہوں) اس کو مفاعیلن کیسے بنائیں ۔اس سے آگے ( مگر رغبت) مفاعیلن (نہیں جاتی ) مفاعیلن۔ لفظ گو دو حرفی ہے اگر اس کو یک حرفی مان لیا جائے تو پھر ہوں زائد ہے
 

الف عین

لائبریرین
'گو' کی واو کا اسقاط بالکل جائز ہے، اسی جگہ آپ بھی تو تین حرفی 'ہوں' لا رہے ہیں! یہ دوسری بات ہے کہ گو کی و کا اسقاط روانی کو متاثر کرتا ہے
 
محترم "شُتر گربہ " کا کیا مطلب ہے ؟ کیا یہ شے دیگر شعرا کے ہاں بھی کبھی در آتی ہے،اگر ایک آدھ مثال سے سمجھائیں تو نوازش ہوگی۔
شُتْرْ فارسی میں اونٹ کو کہتے ہیں، اور گربہ بلی کو۔
گویا یہ اونٹ اور بلی کے ایک ساتھ آنے کو کہتے ہیں، وہ اونٹ کی گردن میں بلی والا محاورہ تو سنا ہوگا۔ یہ اصطلاح غالباً اسی محاورے سے مشتق ہے۔
’’شتر گربہ‘‘ شاعری کے بڑے عیوب میں سے ایک ہے۔
اصطلاحاً شترگربہ اس صورتحال کو کہتے ہیں جب غزل کے کسی ایک شعر میں یا نظم میں تخاطب کے لئے تُو، تم، آپ کے صیغوں کا اجماع ہورہا ہو۔
یعنی اگر شعر میں ایک جگہ تُو کہہ کر تخاطب کیا گیا ہے تو دوسرے مقام پر تم اور آپ کہہ کر خطاب نہیں کیا جاسکتا۔
ارشدؔ بھائی کے شعر کی مثال سے سمجھیں

ہمیشہ دیکھنا ارشد محبّت سے غریبوں کو
جو بیٹھو ساتھ ان کے بھی ، تری عزّت نہیں جاتی
یہاں دوسرے مصرعے میں پہلے ’’بیٹھو‘‘ کہا گیا ہے، جو ’’تم‘‘ کا صیغہ ہے ۔۔۔ اور جزِ ثانی میں ’’تری‘‘ کہہ کر خطاب کیا جا رہا ہے، جو ’’تُو‘‘ کا صیغہ ہے۔
ان دنوں کو ایک مصرعے، یا ایک شعر ۔۔۔ یا ایک نظم میں جمع کرنا جائز نہیں۔

ڈھونڈنے سے دیگر شعراء کے یہاں شاید اس کی مثالیں مل جائیں گی، بہرحال یہ ایک بڑا عیب ہے جس سے بچنا ضروری ہے۔

دعاگو،
راحلؔ
 
شُتْرْ فارسی میں اونٹ کو کہتے ہیں، اور گربہ بلی کو۔
گویا یہ اونٹ اور بلی کے ایک ساتھ آنے کو کہتے ہیں، وہ اونٹ کی گردن میں بلی والا محاورہ تو سنا ہوگا۔ یہ اصطلاح غالباً اسی محاورے سے مشتق ہے۔
’’شتر گربہ‘‘ شاعری کے بڑے عیوب میں سے ایک ہے۔
اصطلاحاً شترگربہ اس صورتحال کو کہتے ہیں جب غزل کے کسی ایک شعر میں یا نظم میں تخاطب کے لئے تُو، تم، آپ کے صیغوں کا اجماع ہورہا ہو۔
یعنی اگر شعر میں ایک جگہ تُو کہہ کر تخاطب کیا گیا ہے تو دوسرے مقام پر تم اور آپ کہہ کر خطاب نہیں کیا جاسکتا۔
ارشدؔ بھائی کے شعر کی مثال سے سمجھیں


یہاں دوسرے مصرعے میں پہلے ’’بیٹھو‘‘ کہا گیا ہے، جو ’’تم‘‘ کا صیغہ ہے ۔۔۔ اور جزِ ثانی میں ’’تری‘‘ کہہ کر خطاب کیا جا رہا ہے، جو ’’تُو‘‘ کا صیغہ ہے۔
ان دنوں کو ایک مصرعے، یا ایک شعر ۔۔۔ یا ایک نظم میں جمع کرنا جائز نہیں۔

ڈھونڈنے سے دیگر شعراء کے یہاں شاید اس کی مثالیں مل جائیں گی، بہرحال یہ ایک بڑا عیب ہے جس سے بچنا ضروری ہے۔

دعاگو،
راحلؔ
بہت بہت شکریہ ۔میں بھی اپنی کاوشوں میں اِس شُتر گربگی سے بچنے کی کوشش کروں گا۔راحل صاحب ان شاء اللہ آپ سے ملاقات رہیگی۔۔والسلام علیکم
 
آخری تدوین:
Top