زبیر مرزا
محفلین
گم گشتہ محبّت کے خوابوں کی طرح ہے
وہ روح کے صحرا میں سرابوں کی طرح ہے
وہ زیست کے مکتب میں نصابوں کی طرح ہے
پڑھتا ہوں اسے روز کتابوں کی طرح ہے
اب اس سے خیالوں میں ہی ہو جاتی ہیں باتیں
گو بیچ ميں پردہ سا ہے حجابوں کی طرح ہے
اس شخص کے لہجے میں شیشے کی کھنک ہے
رگ رگ میں اترتا ہے شرابوں کی طرح ہے
اس شخص کے پیکر میں ہے شاخوں کی لچک سی
اس شخص کا چہرہ بھی گلابوں کی طرح ہے
(شاعرنامعلوم)
وہ روح کے صحرا میں سرابوں کی طرح ہے
وہ زیست کے مکتب میں نصابوں کی طرح ہے
پڑھتا ہوں اسے روز کتابوں کی طرح ہے
اب اس سے خیالوں میں ہی ہو جاتی ہیں باتیں
گو بیچ ميں پردہ سا ہے حجابوں کی طرح ہے
اس شخص کے لہجے میں شیشے کی کھنک ہے
رگ رگ میں اترتا ہے شرابوں کی طرح ہے
اس شخص کے پیکر میں ہے شاخوں کی لچک سی
اس شخص کا چہرہ بھی گلابوں کی طرح ہے
(شاعرنامعلوم)