گل نوخیز اختر کے طاہر القادری صاحب سے 15 سوال

یوسف-2

محفلین
عجب دلچسپ دور آگیا ہے، پہلے لیڈر عوام کو بیوقوف بناتے تھے، اب عوام لیڈروں کو بیوقوف بناتی ہے۔ہر لیڈر کے جلسے میں میدان لوگوں سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں لیکن ووٹ ڈالتے وقت پتا نہیں عوام کدھر گم ہوجاتی ہے۔23 دسمبر کی شام مینار پاکستان کے سائے تلے لوگوں کا ٹھاٹیں مارتا سمندر دیکھ کر دل خوش ہوگیا،ٹھیک ایک سال بعد ا س میدان کو دوبارہ ایک بہت بڑا جلسہ نصیب ہوگیا، یہ پتا نہیں کہ شرکاء نئے تھے یا پرانے۔تاہم اس جلسے کی خاص بات یہ تھی کہ کسی پارٹی کا پرچم دیکھنے کو نہیں ملا، ہر طرف پاکستان کے پرچم لہرا رہے تھے، غور کرنے کی بات ہے کہ ایسی کون سی پارٹی ہے جس کا جھنڈا قومی پرچم ہے؟؟؟ خیر چھوڑیں، شیخ الاسلام کی تقریر کی طرف آتے ہیں، حسبِ معمول جوش خطابت سے لبریز اور چونکا دینے والے الفاظ نے سننے والوں پر سحر طاری کر دیا، میڈیا کا شکریہ کہ انہوں نے ’’سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘‘ مہم کا ایک ایک لفظ براہ راست دکھایااور سنایا۔قادری صاحب نے حکومت کو 10 جنوری تک کی مہلت دی ہے، پہلے لوگ 21 دسمبر کے خوف سے سہمے ہوئے تھے، اب 10 جنوری تک انتظار کی سولی پر لٹکے رہیں گے ۔سوالات تو بہت سے ہیں لیکن چیدہ چیدہ پندرہ سوالات ذہن میں کھلبلی مچا رہے ہیں، طاہرالقادری صاحب یا ان کے کوئی ترجمان اِن کے جوابات عنایت فرما دیں تو ممنون رہوں گا۔
  1. سوال نمبر1 ۔ آپ نے فرمایا کہ الیکشن اگر 90 دن سے لیٹ بھی ہوجاتے ہیں تو آئین اِس کی اجازت دیتا ہے لہذا بے شک دیر ہوجائے لیکن الیکشن کے لیے بہترین ماحول اور بہترین لوگوں کو آگے لانا چاہیے۔ذرا رہنمائی فرمائیے کہ کیا آئین کی تشریح کا اختیار آپ کا ہے یا آپ سپریم کورٹ کو کچھ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں؟نیز اگر90 کی بجائے 190 دن بعد بھی بہترین ماحول اور بہترین لوگ تلاش نہ کیے جاسکے تو اس صورت میں کیا کرنا چاہیے؟؟؟
  2. سوال نمبر2 ۔آپ نے فرمایا کہ نگران سیٹ اپ کے لیے دو پارٹیوں کا ’’مک مکا‘‘ قبول نہیں لہذا فوج اور عدلیہ کو بھی سٹیک ہولڈرز کے طور پر نگران سیٹ اپ میں شامل کیا جائے۔ ذرا آگاہ کیجئے کہ جس آئین پر عمل کے لیے آپ اتنی تگ و دو کر رہے ہیں، اُسکے کون سے آرٹیکل کے تحت نگران سیٹ اپ میں یہ دونوں ادارے شامل ہوسکتے ہیں؟؟؟
  3. سوال نمبر3 ۔یہ بھی فرمائیے گا کہ آئین کے مطابق اُس شخص کے ساتھ کیا سلوک ہونا چاہیے جو کسی آئین شکن ڈکٹیٹر کے ریفرنڈم میں ’’ہاں‘‘ کر چکا ہو؟؟؟
  4. سوال نمبر4 ۔آپ نے 14جنوری کو اسلام آبادکی طرف مارچ کی دھمکی دی ہے، ذرا فرمائیے گا کہ پانچ سال کے دوران آپ کو اس کا خیال کیوں نہیں آیا، اب جبکہ دو تین ماہ میں حکومت خود ہی جانے والی ہے تواِس لانگ مارچ کا کیا جواز ہے؟
  5. سوال نمبر5 ۔آپ نے اپنے خطاب میں لاپتہ افراد، ایبٹ آباد اٹیک، مہران بیس اٹیک، جی ایچ کیو اٹیک ، کامرہ اٹیک اور اصغر خان کیس کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔۔۔کوئی خاص وجہ؟؟؟
  6. سوال نمبر6 ۔آپ نے نیک ، ایماندار، باکرداراور امن پسند لوگوں کے ذریعے انتخابی اصلاحات کی بات کی ہے، کیا ایم کیو ایم اس کے لیے مناسب نہیں رہے گی؟
  7. سوال نمبر7 ۔جب آپ 14 جنوری کو ریاست بچانے کے لیے 4 ملین لوگوں کو لے کر اسلام آباد روانہ ہوں گے تو آپ کا مقصد کیا ہوگا؟؟؟
  8. سوال نمبر8 ۔آپ بار بار آئین کی بات کرتے ہیں،کیا موجودہ حکومت غیر آئینی ہے؟؟؟ کیا نگران سیٹ اپ کے لیے بڑی پارٹیوں کی آپس کی مشاورت خلافِ آئین ہے؟؟؟
  9. سوال نمبر9 ۔جو باتیں آپ نے کی ہیں ، لگ بھگ تمام سیاسی پارٹیوں کا یہی منشور ہے، پھر تضاد کہاں ہے؟عملی طور پر جو پارٹی آپ نے بنائی تھی وہ تو ناکام ہوگئی تھی؟؟؟
  10. سوال نمبر10 ۔جب آپ پارلیمنٹ کا حصہ تھے،کیا اُس وقت الیکشن صاف شفاف ہوئے تھے؟کیااُ س وقت سب ٹھیک تھا؟؟؟
  11. سوال نمبر11 ۔کہا جاتا ہے کہ آپ کے پاس کینیڈا کی نیشنلٹی ہے اور الطاف حسین کے پاس انگلینڈ کی۔آپ کے خیال میں آپ دونوں میں سے کون پاکستان کے حالات ٹھیک کرنے کی زیادہ صلاحیت رکھتا ہے؟
  12. سوال نمبر12 ۔آپ کے جلسے میں ایم کیو ایم کے وفد نے بھی شرکت کی، کیا آپ بھی ایم کیوایم کے کسی جلسے میں شامل ہوں گے؟؟؟
  13. سوال نمبر13 ۔آپ نے بطور خاص دوبڑی پارٹیوں کا ذکر کیا جس سے مراد یقیناًپیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن ہے،حالانکہ ایم کیوایم بذات خود پیپلز پارٹی کی بہت بڑی اتحادی ہے اور نگران سیٹ اپ کے لیے یقیناًاس کا مشورہ بھی شامل حال ہوگا، تو کیا آپ ایم کیو ایم اور اے این پی کو بھی اِس ’’مک مکا‘‘ کا حصہ سمجھتے ہیں؟؟؟
  14. سوال نمبر14 ۔جس تبدیلی کا نعرہ آپ نے لگایا ہے وہی عمران خان کا بھی منشور ہے، تو کیا آپ تحریک انصاف کو سپورٹ نہیں کریں گے؟؟
  15. سوال نمبر15 ۔ نیک نیت ، باکردار ، ایماندار اور محب وطن نگران سیٹ اپ کے لیے اگر آپ سے مشورہ کیا جائے توکیا آپ کوئی سے 10 نام بتانا پسند فرمائیں گے؟؟؟
اِن سوالات کے جوابات مل جائیں تو قادری صاحب کے ایجنڈے کی بہت سی باتیں سمجھ آجائیں گی کیونکہ فی الحال تو انہوں نے ساری باتیں مبہم انداز میں کی ہیں، وہ ریاست تو بچانا چاہتے ہیں لیکن کس انداز سے، یہ سمجھ نہیں آرہا۔اگر وہ ملکی سیاست میں کسی کردار کی تلاش میں ہیں تو یہ کردار سوائے الیکشن کے انہیں کوئی نہیں دلا سکتا تاہم اگر ان کے پاس دوہری شہریت ہے تو وہ الیکشن بھی نہیں لڑ سکتے۔یہ جو اچانک عین الیکشن سے پہلے اُن کے دل میں ریاست کی محبت کا درد اٹھا ہے اس کے عقب میں نہایت خوفناک عزائم جھانکتے دکھائی دے رہے ہیں۔ پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں انہوں نے جو پوجا پاٹ کی تھی وہ ابھی تک لوگوں کے ذہنوں سے محو نہیں ہوئی۔ایک طویل عرصے کے بعد وہ اچانک ہی ’’روحانی طاقتوں‘‘ کی بدولت پُراسرار طریقے سے پاکستان میں ظاہر ہوئے ہیں اورسب کو حیران کر دیا ہے۔ اُن کی تقریر کی ساری باتیں سچی ہیں، جو فرمایا بجا فرمایا، لیکن ایسی سچی باتیں تو روز ہی سننے کو ملتی ہیں، ہر بندہ سچ کا پیامبر بنا ہوا ہے۔ شیرِ خدا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کسی شخص کے بارے میں کیا خوب کہا تھا کہ ’’باتیں تو سچی کر رہا ہے لیکن ہے جھوٹا‘‘(روزنامہ نئی بات 26 دسمبر 2012 ء)
 

یوسف-2

محفلین
1850.gif


مآخذ: روزنامہ جنگ کراچی
 

یوسف-2

محفلین
شیخ الاسلام
تحریر: پروفیسر مظہر، روزنامہ نئی بات​
عالمین کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم جب کہیں جانے کے لیے گھر سے نکلتے توکوئی حفاظتی دستہ ساتھ نہ ہوتاصرف حضرت بلالؓ اپنے ہاتھ میں ایک لمبا ڈنڈا لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے آگے چلتے ۔خُلفائے راشدین نے بھی اسی سُنتِ رسولؐ کی ہمیشہ پیروی کی ۔ اگر حضرت عثمانؓ چاہتے تو اپنے گرد دس حفاظتی حصار قائم کر لیتے اور شر پسند کبھی اُن تک پہنچ نہ پاتے لیکن اُنہوں نے شہادت قبول کر لی لیکن پیروئ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مُنہ نہ موڑا ۔حضرت عمرؓ کی زندگی کا ایک رُخ تو یہ تھا کہ قیصر و کسریٰ کی سلطنتیں اُن کی ہیبت سے لرزہ براندام تھیں۔ اور دوسری طرف بدن پر موٹے کھدر کا کُرتہ ، پھٹا ہوا عمامہ اور پھٹی جوتیاں پہنے کبھی کاندھے پر مشکیزہ اُٹھائے بیوہ کے گھر پانی پہنچاتے نظر آتے اور کبھی آٹے کی بوری ۔تھک جاتے تو مسجد کے کسی کونے میں خاک کے فرش پر سو جاتے ۔ایک بار قیصرِ روم نے ایلچی بھیجا ۔مدینے پہنچ کر اُس نے لوگوں سے پوچھا کہ تمہارا بادشاہ کہاں ہے ؟۔لوگوں نے کہا ہمارا بادشاہ تو کوئی نہیں ایک امیر ہے جو شہر سے کہیں باہر ہے ۔ایلچی ایک صحابیؓ کو ساتھ لے کر تلاش کے لیے نکلا تو دیکھا کہ حضرت عمرؓ ایک درخت کے نیچے سو رہے ہیں ۔ایلچی نے بے ساختہ کہا ’’عمرؓ عدل کرتے ہیں اس لیے بے خوف ہیں ، ہمارا بادشاہ ظلم کرتا ہے اور خوف زدہ رہتا ہے‘‘ ۔
حاکمانِ وقت کا تو ذکرہی کیا کہ تو اقتدار کے نشے نے اُن کی سُدھ بدھ گنوا دی ہے لیکن آج ایک ایسے شخص کو زرق برق لباس اور تیس حفاظتی گاڑیوں کے حصار میں اِس شان سے جلسہ گاہ کی طرف جاتے دیکھا کہ آگے پیچھے ایلیٹ فورس اور درمیان میں تین بُلٹ پروف گاڑیاں جن میں سے کسی ایک میں وہ سوار تھے اور ہمارے تیز ترین الیکٹرانک میڈیا کو بھی نہیں پتہ تھا کہ وہ کس گاڑی میں ہیں ۔یہ تھے ہمارے شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر علامہ طاہر القادری صاحب جو پاکستان میں ’’خلافتِ راشدہ‘‘ لانے کے دعوے دارہیں ۔اُنہوں نے اپنے استقبال کو لازوال بنانے کی خاطر اشتہاری مہم پر لگ بھگ ایک ارب روپیہ صرف کیا اور کروڑوں جلسے پر ۔ جلسہ گاہ پہنچنے کے بعد مولانا بُلٹ پروف کیبن میں بیٹھ گئے اور وہیں بیٹھے بیٹھے اُنہوں نے سوا دو گھنٹے تک خطاب فرمایا ۔خطاب کے دوران اذانِ عصر ہوئی تو شیخ الا سلام نے فرمایا کہ میں نماز پڑھ چُکا اس لیے خطاب جاری رہے گا ۔شاید اُنہیں احساس ہو کہ ’’وقت کم ہے اور مقابلہ سخت‘‘ اور اسی وقت کی تنگی کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے اُنہوں نے دھاڑتے ہوئے حاکمانِ وقت کو اپنا قبلہ درست کرنے کے لیے صرف اٹھارہ دن کی مہلت مرحمت فرمائی ۔ حیرت ہے کہ مولانا صاحب کو یہ ساری خرابیاں نہ تو ’’مشرفی آمریت ‘‘کے دور میں نظرآئیں اور نہ ہی پیپلز پارٹی کے ساڑھے چار سالہ دور میں ۔شاید کینیڈا میں بے پناہ مصروفیات کی بنا پر اُنہیں وقت ہی نہ ملا ہو ۔اُنہوں نے ایک اخبار کو انٹر ویو دیتے ہوئے فرمایا کہ وہ چھ سو صفحات کے فتویٰ کے علاوہ لگ بھگ ایک ہزار کتابیں لکھ چکے ہیں ۔ یورپ اور امریکہ کے مختلف اداروں میں ذمہ داریوں کی طویل فہرست اور لیکچرز اِس کے علاوہ ہیں ۔ شیخ الاسلام لگ بھگ 2900 دن کینیڈا میں مقیم رہے ۔گویا وہ تقریباََ تین دنوں میں ایک ضخیم کتاب لکھ لیا کرتے تھے۔ یہ کارنامہ گینیز بُک آف ورلڈ ریکارڈ میں لکھے جانے کے قابل ہے ۔
اپنے خطاب کی ابتدا میں اُنہوں نے تین حلف اُٹھائے اور پورے خطاب کے دوران اللہ اور قُرآنِ مجید کی بیس مرتبہ قسمیں اُٹھائیں ۔اس سے پہلے ذوالفقار مرزا صاحب ’’قُرآنی پریس کانفرنس‘‘ اور قائدِ تحریک الطاف حسین ’’قُرآنی خطاب‘‘ فرما چکے ہیں جن کی دیکھا دیکھی ملک ریاض نے بھی قُرآن ہاتھ میں اُٹھا کر پریس کانفرنس کر ڈالی ۔اب یہ ایک سال میں چوتھا موقع ہے جب قوم نے شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر علامہ طاہر القادری صاحب کو بے تحاشا قسمیں اُٹھاتے دیکھا ۔ کہتے ہیں کہ ’’زیادہ قسمیں اُٹھانے والا مسلمہ جھوٹا ہوتا ہے ‘‘ پھر بھی ہمارا حسنِ ظن ہے کہ شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر علامہ طاہر القادری صاحب جیسی برگزیدہ ہستی جھوٹ نہیں بول سکتی ۔سوال مگر یہ ہے کہ اُنہوں نے کہا کیا ؟۔ سوا دو گھنٹے تک ہم ہمہ تن گوش رہے لیکن جب عالمِ محویت سے باہر آئے تو ادراک ہوا کہ اُنہوں نے تو کچھ بھی نہیں کہا اور جو انکشافات وہ فرما رہے تھے اُن سے تو ملک کا بچہ بچہ واقف ہے ۔ لکھاری اس پر ہزاروں کالم لکھ چکے ہیں اور اینکرز سینکڑوں ٹاک شوز کر چکے ۔اب عالمِ مایوسی میں ہماری آتشِ شوق بحرِ منجمد شمالی میں دفن ہو نے کو ہے اورحالت یہ ہے ۔​
نیتِ شوق بھر نہ جائے کہیں
تو بھی دل سے اتر نہ جائے کہیں
جب شیخ الاسلام نے اپنے پیروکاروں کو پچاس لاکھ کے مجمعے کا ٹارگٹ دیا تو میری اہلیہ نے گھبراہٹ کے عالم میں پوچھا کہ اگر واقعی پچاس لاکھ مریدین اکٹھے ہو گئے تو کروڑ سوا کروڑ کی آبادی والے لاہور میں یہ سمائیں گے کہاں؟۔ اور اگر سما گئے تو ’’لاہوریے ‘‘ جائیں گے کہاں ؟۔میرے پاس تو کوئی جواب نہیں تھا لیکن مولانا نے کمال مہربانی فرماتے ہوئے ٹارگٹ پچاس سے پچیس لاکھ کر دیااور اس مجمعے کو پچیس میل تک پھیلا بھی دیا ۔ دراصل اُن کے ایک پیروکار نے اُن کے کان میں کہہ دیا کہ مجمع مرید کے تک پھیلا ہواہے ۔ ظاہر ہے کہ مرید کے کم و بیش مینارِ پاکستان سے پچیس میل دور تو ہے۔ انہوں نے تو ابتدا ء میں داتا دربار تک ہی اکتفا ء کر لیا تھا لیکن مریدین نے اسے مرید کے تک پہنچا دیا ۔پولیس اور خفیہ اداروں کی رپورٹس کے مطابق مجمع ستّر ہزار سے ڈیڑھ لاکھ کے درمیان تھا ۔ بہرحال جتنا بھی تھا انتہائی متاثر کُن تھا اوراگر مریدکے تک تھا تو پھر دو ، چار ملین سے بھی کہیں زیادہ ہو گا۔شاید اسی لیے ایک دفعہ مولانا نے ’’سینکڑوں ملین‘‘ کا مجمع بھی کہا ۔ مولانا کے ہم جیسے پیروکار تو خوش ہیں کہ اب تحریکِ انصاف والے کم از کم یہ تو نہیں کہہ سکیں گے کہ ’’ہم سا ہو تو سامنے آئے‘‘ ۔ویسے یہ عجیب اتفاق ہے کہ تحریکِ انصاف ہو ، تحریکِ استقلال یاعوامی تحریک جلسے سبھی کے بہت کامیاب اور رہنما بھی بہت مقبول لیکن انتخابات میں پتہ نہیں لوگوں کو کیا ہو جاتا ہے کہ انہیں خالی ہاتھ لوٹا دیتے ہیں ۔ماضی میں محترم اصغر خاں کے ہاتھ کچھ آیا نہ محترم عمران خاں اور شیخ الاسلام کے ۔البتہ شیخ الاسلام صاحب کو کینیڈا کی باغ و بہار فضاؤں نے یہ سمجھا دیا کہ پاکستان کی فضول سیاست میں اُن کے ہاتھ کچھ نہیں آنے والا اس لیے بہتر ہے کہ قسمت آزمائی کے لیے کوئی اور روزن تلاش کیا جائے ۔شاید اسی لیے مولانا عین اُس وقت پر پاکستان تشریف لے آئے جب تمام سیاسی جماعتیں انتخابی بخار میں مبتلا ہو چکی ہیں ۔ مولانا صاحب بھی فرماتے ہیں کہ وہ انتخابات کے خلاف نہیں لیکن جتنی کڑی شرائط اُنہوں نے عائد کر دی ہیں اُس کے بعد تو مزید دو تین عشرے انتظار کرنا ہو گا ۔ یہاں مجھے ایک لطیفہ یاد آیا ۔ایک مولانا صاحب اپنے وعظ میں حسبِ عادت مسلمانوں کو ڈرانے کا فریضہ سر انجام دے رہے تھے ۔اچانک ایک دیہاتی اٹھا اور مسجد سے باہر کی طرف چل دیا ۔مولانا نے ڈانٹ کر پوچھا ’’کہاں جا رہے ہو‘‘؟۔دیہاتی نے پلٹ کر جواب دیا ’’آپ کی شرطیں سُن کر مجھے یقین ہو گیا ہے کہ میں خواہ کچھ بھی کر لوں مجھے جنت نہیں ملنے والی اس لیے میں یہاں بیٹھ کر اپنا وقت ضائع کیوں کروں ۔شیخ الاسلام نے بھی جو شرائط عائد کی ہیں اُنہیں سُن کر تو ہمیں بھی یقین ہو چلا ہے کہ کوئی خواہ کچھ بھی کر لیں الیکشن نہیں ہونے والے۔ مولانا صاحب کے شاندار ماضی پر پھر کبھی ۔۔۔ (26 دسمبر 2012)​
 

عثمان

محفلین
سوال نمبر1 ۔ آپ نے فرمایا کہ الیکشن اگر 90 دن سے لیٹ بھی ہوجاتے ہیں تو آئین اِس کی اجازت دیتا ہے لہذا بے شک دیر ہوجائے لیکن الیکشن کے لیے بہترین ماحول اور بہترین لوگوں کو آگے لانا چاہیے۔ذرا رہنمائی فرمائیے کہ کیا آئین کی تشریح کا اختیار آپ کا ہے یا آپ سپریم کورٹ کو کچھ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں؟نیز اگر90 کی بجائے 190 دن بعد بھی بہترین ماحول اور بہترین لوگ تلاش نہ کیے جاسکے تو اس صورت میں کیا کرنا چاہیے؟؟؟​
وہ محض آئین کے متعلق اپنی رائے دے رہے ہیں۔
بہترین لوگوں کی تلاش مسلسل!

سوال نمبر2 ۔آپ نے فرمایا کہ نگران سیٹ اپ کے لیے دو پارٹیوں کا ’’مک مکا‘‘ قبول نہیں لہذا فوج اور عدلیہ کو بھی سٹیک ہولڈرز کے طور پر نگران سیٹ اپ میں شامل کیا جائے۔ ذرا آگاہ کیجئے کہ جس آئین پر عمل کے لیے آپ اتنی تگ و دو کر رہے ہیں، اُسکے کون سے آرٹیکل کے تحت نگران سیٹ اپ میں یہ دونوں ادارے شامل ہوسکتے ہیں؟؟؟​
آرٹیکل برائے نگران سیٹ اپ

سوال نمبر3 ۔یہ بھی فرمائیے گا کہ آئین کے مطابق اُس شخص کے ساتھ کیا سلوک ہونا چاہیے جو کسی آئین شکن ڈکٹیٹر کے ریفرنڈم میں ’’ہاں‘‘ کر چکا ہو؟؟؟​
آئین عوام کو ووٹنگ میں حصہ لینے اور رائے دینے پر سزاوار نہیں ٹھہراتا۔


سوال نمبر4 ۔آپ نے 14جنوری کو اسلام آبادکی طرف مارچ کی دھمکی دی ہے، ذرا فرمائیے گا کہ پانچ سال کے دوران آپ کو اس کا خیال کیوں نہیں آیا، اب جبکہ دو تین ماہ میں حکومت خود ہی جانے والی ہے تواِس لانگ مارچ کا کیا جواز ہے؟​
نیک خیال جب بھی آئے اچھا ہے۔

سوال نمبر5 ۔آپ نے اپنے خطاب میں لاپتہ افراد، ایبٹ آباد اٹیک، مہران بیس اٹیک، جی ایچ کیو اٹیک ، کامرہ اٹیک اور اصغر خان کیس کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔۔۔ کوئی خاص وجہ؟؟؟​
اگلے خطاب کا انتطار کیجیے۔ سب باتیں ایک ہی خطاب میں نہیں ہوتیں۔

سوال نمبر6 ۔آپ نے نیک ، ایماندار، باکرداراور امن پسند لوگوں کے ذریعے انتخابی اصلاحات کی بات کی ہے، کیا ایم کیو ایم اس کے لیے مناسب نہیں رہے گی؟​
نہیں

سوال نمبر7 ۔جب آپ 14 جنوری کو ریاست بچانے کے لیے 4 ملین لوگوں کو لے کر اسلام آباد روانہ ہوں گے تو آپ کا مقصد کیا ہوگا؟؟؟​
ریاست کو بچانا

سوال نمبر8 ۔آپ بار بار آئین کی بات کرتے ہیں،کیا موجودہ حکومت غیر آئینی ہے؟؟؟ کیا نگران سیٹ اپ کے لیے بڑی پارٹیوں کی آپس کی مشاورت خلافِ آئین ہے؟؟؟​
موجودہ حکومت غیر آئینی نہیں ہے۔ نیز آئینی حکومت کے دور میں آئین کی بات کرنا عین مستحب اور معقول ہے۔
نگران سیٹ ہی کیا، کسی بھی معاملے میں پارٹیوں کی مشاورت غیر آئینی نہیں۔

سوال نمبر9 ۔جو باتیں آپ نے کی ہیں ، لگ بھگ تمام سیاسی پارٹیوں کا یہی منشور ہے، پھر تضاد کہاں ہے؟عملی طور پر جو پارٹی آپ نے بنائی تھی وہ تو ناکام ہوگئی تھی؟؟؟​
"ناکامی کامیابی کی سیڑھی ہے۔ "
تضاد پارٹیوں کے منشور میں ہے۔

سوال نمبر10 ۔جب آپ پارلیمنٹ کا حصہ تھے،کیا اُس وقت الیکشن صاف شفاف ہوئے تھے؟کیااُ س وقت سب ٹھیک تھا؟؟؟​
نہیں

سوال نمبر11 ۔کہا جاتا ہے کہ آپ کے پاس کینیڈا کی نیشنلٹی ہے اور الطاف حسین کے پاس انگلینڈ کی۔آپ کے خیال میں آپ دونوں میں سے کون پاکستان کے حالات ٹھیک کرنے کی زیادہ صلاحیت رکھتا ہے؟​
کینیڈا کی نیشنیلٹی والا

سوال نمبر12 ۔آپ کے جلسے میں ایم کیو ایم کے وفد نے بھی شرکت کی، کیا آپ بھی ایم کیوایم کے کسی جلسے میں شامل ہوں گے؟؟؟​
جلسہ ہوگا، مدعو کریں گے تو دیکھیں گے۔

سوال نمبر13 ۔آپ نے بطور خاص دوبڑی پارٹیوں کا ذکر کیا جس سے مراد یقیناًپیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن ہے،حالانکہ ایم کیوایم بذات خود پیپلز پارٹی کی بہت بڑی اتحادی ہے اور نگران سیٹ اپ کے لیے یقیناًاس کا مشورہ بھی شامل حال ہوگا، تو کیا آپ ایم کیو ایم اور اے این پی کو بھی اِس ’’مک مکا‘‘ کا حصہ سمجھتے ہیں؟؟؟​
مک مکا دو بڑی پارٹیوں کے مابین ہے۔

سوال نمبر14 ۔جس تبدیلی کا نعرہ آپ نے لگایا ہے وہی عمران خان کا بھی منشور ہے، تو کیا آپ تحریک انصاف کو سپورٹ نہیں کریں گے؟؟​
نہیں
وہ شائد طاہر القادری کو سپورٹ کریں گے۔

سوال نمبر15 ۔ نیک نیت ، باکردار ، ایماندار اور محب وطن نگران سیٹ اپ کے لیے اگر آپ سے مشورہ کیا جائے توکیا آپ کوئی سے 10 نام بتانا پسند فرمائیں گے؟؟؟​
10 کیوں ؟
 

یوسف-2

محفلین
گفتار کا غازی --- تحریرطارق محمود چوہدری
کبھی ارض وطن پر اجنبی سرزمین سے آئے حکمران اترا کرتے تھے۔ 1993ء میں غلام اسحاق خان اور نوازشریف کے درمیان محاذ آرائی ہوئی۔ لڑتے لڑتے ایک کی چونچ اور ایک کی دم گم ہوگئی۔ آخرکار فوج نے بیچ بچاؤ کرا کے الیکشن کا فیصلہ کرا دیا۔ انتخابات کے انعقاد کیلئے غیرجانبدار شخصیت کی ضرورت پڑی تو سنگاپور میں مقیم امریکی شہری معین قریشی پر نگاہ انتخاب جا ٹھہری۔ معین قریشی کو پاکستان آمد کے بعد پاکستان کا شناختی کارڈ جاری کیا گیا۔ گزرے 20 سالوں میں ہماری جمہوریت اتنی مضبوط ہو گئی ہے کہ اب حکمران ہی نہیں، اپوزیشن لیڈر بھی دساور سے منگوائے جا رہے ہیں۔ گزرے اتوار کو مینار پاکستان کے سائے میں ایک غیر ملکی شہری جو کینیڈا کے برف زاروں کا باشندہ ہے، ریاست بچانے اترا ہے۔ میرے اور آپ کے اس غیر ملکی نجات دہندہ کی پکار پر لبیک کہنے والا اس کا سب سے بڑا سپورٹر بھی ایک دوسرا غیر ملکی ہے۔ اللہ! اس ریاست اور اس کی سیاست دونوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ شیخ الاسلام حضرت علامہ طاہر القادری کا اقتدار کے سومنات پر یہ مسلسل چوتھا حملہ ہے۔ چار حملوں میں تو فتح نصیب نہیں ہوئی، نہ ہی شہادت کے رتبہ جلیلہ پر فائز ہو سکے البتہ نہایت مہارت سے جان بچا کر نکل گئے اور غازی ٹھہرے۔ غازی ضرور لیکن صرف گفتار کے۔ غازی گفتار شیخ الاسلام حضرت علامہ طاہر القادری نے مینار پاکستان کے سائے تلے دور تک پھیلے سبزہ زار میں اپنے لاکھوں مریدین کے سامنے تین حلف اٹھائے۔ ماضی کے صرف علامہ اور آج کے شیخ الاسلام کی ساری زندگی حلف اٹھانے، توڑنے اور پھر حلف اٹھانے سے عبارت ہے۔ حلف اور ان کی ذات بابرکات سے وابستہ متبرک معجزات، تجلیات اور الہامی خوشخبریاں قبلہ گرامی قدر کے ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ ان معجزات، تجلیات اور الہامی واقعات کا ذکر ہر گز نہیں کروں گا کیونکہ اس سے ان کے بھولے بھالے، سادہ لوح جاں نثاروں اور مریدین کی دل آزاری ہوگی۔ ویسے بھی میں ایسے بے سروپا معجزات کا تذکرہ بھی شرک اور بدعت سمجھتا ہوں۔ بات ہو رہی تھی شیخ الاسلام کی جانب سے اٹھائے گئے حلف کی۔ حلف کا ذکر آگے بڑھانے کی کوشش کرتا ہوں تو میرا قلم رک جاتا ہے۔ قلم کے راستے میں ’’شیخ الاسلام‘‘ ایسا پرشکوہ خطاب آ کھڑا ہوتا ہے۔ یہ لقب یا ٹائیٹل حضرت گرامی قدر کو کب ملا۔ تاریخ اس پر خاموش اور راوی مہر بہ لب، آخر کسی نے تو ان کو یہ لقب دیا ہوگا۔ سیاست میں آنے سے پہلے شیخ الاسلام نے اپنے جاں نثاروں کے ایک اجتماع میں حلف اٹھایا۔ یہ حلف تین نکتوں پر مشتمل تھا۔ (۱) کبھی سیاست میں حصہ نہیں لوں گا۔ (۲) کبھی الیکشن نہیں لڑوں گا۔ (۳) پیری مریدی کبھی نہیں کروں گا، لیکن جس طرح وعدے، حدیث نہیں ہوتے، اسی طرح حلف بھی تو صرف توڑنے کیلئے ہوتے ہیں۔ 25 مئی 1989ء کو سابق علامہ طاہر القادری نے یہ حلف توڑ دیا۔ موچی دروازے میں ایک شاندار جلسہ کیا اور خارزار سیاست میں دیوانہ وار اتر گئے۔ 1990ء کا الیکشن لڑا۔ الیکشن کمیشن کا عملہ ووٹ گننے بیٹھا، ابھی سلگائی ہوئی سگریٹ فلٹر تک نہیں پہنچی تھی کہ ووٹ بھی ختم ہو گئے اور گنتی بھی تمام ہوئی۔ پتہ چلا کہ علامہ (سابق) صاحب ہواؤں میں تیر اندازی کر رہے تھے۔ سیاست سے توبہ کی، اعلان کیا کہ سرسید احمد خان نے ایک علی گڑھ بنایا تھا۔ میں سو علی گڑھ بناؤں گا۔ ایک نئی توبہ، ایک نئے حلف کے ساتھ پورے ملک میں سکولوں، ڈسپنسریوں کا جال بچھانے میں جت گئے۔ یہ وہ واحد قلعہ ہے جو شیخ الاسلام کی معجز ہستی اور قائدانہ صلاحیتوں نے فتح کیا۔
قلم کی روانی میں کھو کر یہ بتانا بھول گیا کہ 1990ء کا انتخاب گرامی قدر، جن کی پیدائش اور نام نامی بھی بقول ان کے آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت کا نتیجہ ہے، نے ایک بشارت کے سہارے لڑنے کی کوشش کی۔ چندہ اور عطیہ دینے والے مریدین باصفا کو بتایا کہ کامیابی کی دعا کیلئے مدینہ اور مکہ جاتا ہوں۔ واپسی پر بشارت دی کہ سرور کونین ﷺ نے الیکشن لڑنے اور اس میں کامیابی کی نوید دیدی ہے۔ احتیاطاً یہ بھی بتا دیا کہ واپسی کے راستے میں بغداد شریف سے غوث الاعظم کی جانب سے توثیقی سرٹیفیکیٹ بھی حاصل کر لیا ہے۔ اب تو فتح یقینی تھی، لیکن جتنے ووٹ ملے وہ الیکشن کمیشن کی کتابوں میں محض ڈیڑھ سطر میں درج ہیں۔
1997ء میں علی گڑھ بساتے بساتے ایک مرتبہ پھر حلف کو ایسے توڑا جیسے کمسن اور ضدی محبوب، عاشق نامدار کے دل کو توڑتا ہے۔ نوازشریف دو تہائی مینڈیٹ کے ایسے ہوائی گھوڑے پر سوار تھے جس کے پر شاید کسی پانی ملی گوند سے چپکائے گئے تھے۔ نوازشریف کے ساتھ پرانی خار بھی تھی۔ حلف تو آنجناب پہلے ہی توڑ چکے تھے لہٰذا پاکستان عوامی اتحاد کے نام پر الائنس کی تشکیل کا بیڑھ اٹھا لیا۔ پہلا اجلاس راولپنڈی کی سیاست کے ایک منفرد کردار کبیر واسطی کے گھر ہوا۔ نوابزادہ نصراللہ خان، حامد ناصر چٹھہ سمیت سب اس اتحاد میں شامل ہوئے۔ پیپلزپارٹی بھی اس اتحاد میں شامل ہوئی تھی، لیکن پہلے اتحاد کی سربراہی کا احوال سن لیں۔ علامہ طاہر القادری نے میٹنگ شروع ہوتے ہی مطالبہ کیا کہ سب سے پہلے اتحاد کی قیادت کا فیصلہ کر لیا جائے۔ اسی سانس میں اس اتحاد کی سربراہی کیلئے اپنی ذات بابرکات کی دستیابی بھی ظاہر کر دی۔ محترمہ بینظیر بھٹو بھی بلا کی زیرک تھیں۔ ان کا مقصد تو نوازشریف پر دباؤ ڈال کر سیف الرحمن کے احتسابی حملوں کا توڑ کرنا تھا۔ سو انہوں نے فوراً حامی بھر لی۔ شیخ الاسلام کرسی صدارت پر براجمان ہو گئے۔ محترمہ بینظیر بھٹو سامنے کی قطار میں جا بیٹھیں۔ علامہ (سابق) صاحب نے یقین دہانی کرائی کہ اتحاد کے اخراجات وہ خود اٹھائیں گے۔ فوراً کیمرہ مینوں کو بلایا گیا اور بصد اہتمام تصویر بنائی گئی، فوٹو گرافروں کو ہدایت کی گئی تصویر ایسے اینگل سے بنائی جائے کہ وہ کرسی صدارت پر اور محترمہ بینظیر بھٹو و دیگر قائدین سامنے بیٹھے نمایاں نظر آئیں۔ مشاق فوٹو گرافروں کو ایسا انوکھا اور اچھوتا زاویہ تلاش کرنے میں خاصی دقت ہوئی۔ زاویہ کی تلاش میں میٹنگ تاخیر سے شروع ہوئی۔ اتحاد کا سربراہ بنتے ہی مزا کرکرا ہو گیا کہ سدا کے شرارتی پیر فضل حق نے ’’رولا‘‘ ڈال دیا کہ سربراہی ہر تین ماہ بعد تبدیل ہوگی۔ بہرحال ابتدائی تین ماہ علامہ صاحب نے سربراہی کو خوب انجوائے کیا۔ البتہ ہر جلسہ میں پاکستان عوامی تحریک کے جھنڈا برداروں کی سٹیج کے سامنے قبضہ کی کوشش سے باقی جماعتوں کے کارکنوں کے ساتھ سرپھٹول ضرور ہوتی تھی۔ شیخ الاسلام اس اتحاد سے جلد ہی بیزار ہو گئے کہ وہ اپنے سامنے کسی اور کا چراغ جلتا دیکھنے کے عادی نہیں تھے۔ وہ کسی اور کی تصویر، کسی اور کا پرچم کیوں برداشت کرتے۔ اتوار کا جلسہ، اس لحاظ سے مثالی تھا کہ اس میں صرف علامہ صاحب کی تصویریں اور پرچم تھے۔ اپنے کارکن تھے، اپنی کوریج، شیخ الاسلام کو ایسے ہی جلسے پسند ہیں جن میں مثالی نظم و ضبط ہو۔ ویسے بھی اتوار کا جلسہ اس لحاظ سے تاریخی تھا کہ اس میں مینار پاکستان کے ارد گرد بیت الخلاء کے ٹھیکیداروں تک کو نقد ادائیگی کر دی گئی تھی۔ گرامی قدر کی ذات سے وابستہ ایک اور واقعہ سن لیں تو آگے بڑھتے ہیں۔ چھ دہائیوں سے صحافت کے تلاطم خیز پانیوں کے شناور سید سعود ساحر کو ایک دفعہ علامہ طاہر القادری نے سو روپے کا ایک نوٹ دیا اور کہا کہ میں جس چیز کو چھو لوں وہ کروڑوں کی ہو جاتی ہے۔ میرا یہ دستخط شدہ نوٹ میرا کوئی مرید تم سے لاکھوں میں خرید لے گا۔ سید سعود ساحر ایک عرصہ یہ نوٹ لے کر تشہیر کرتے پھرے، لیکن کوئی مرید نہ ملا۔ شاہ جی کہتے ہیں کہ آخرکار یہ نوٹ کسی جیب تراش نے اچک لیا۔ مجھے لگتا ہے شاہ صاحب کی یادداشت ساتھ نہیں دے رہی۔ انہوں نے ضرور سو روپے کے عوض گولڈلیف کی تین بڑی ڈبیاں اکٹھی لے لی ہوں گی۔ (جاری ہے)
 

سعود الحسن

محفلین
میں تو صورتحال کا مزا لے رہاہوں ، بلکہ میں ہی کیا اس ملک کی اکثر عوام ، پریشان صرف وہ ہیں جو باری کی آس لگا کر بیٹھے تھے۔ تسلی رکھیں جی ابھی نہ صحیح کبھی تو باری آہی جائے گی۔

پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
 

arifkarim

معطل
جب بھی اس ملک میں عوامی سطح پر کوئی تبدیلی آنے لگتی ہے، یکدم اسلامی قوتوں میں سے کوئی اٹھ کر ان عوامی قوتوں میں انتشار پیدا کر دیتا ہے۔ جیسا کہ اسبار تحریک انصاف باقی پرانی پارٹیوں کے مقابلہ میں کھڑی نظر آرہی تھی تو یہ علامہ صاحب درمیان میں ٹپک پڑے ہیں!
 
Top