گلے لگ کر مرے وہ جانے ہنستا تھا کہ روتا تھا۔۔جناب اعجاز عبید صاحب

سیما علی

لائبریرین
گلے لگ کر مرے وہ جانے ہنستا تھا کہ روتا تھا
نہ کھل کر دھوپ پھیلی تھی نہ بادل کھل کے برسا تھا

کبھی دل بھی نہیں اک زخم آنکھوں کی جگہ آنسو
کبھی میں بھی نہ تھا بس ڈائری میں شعر لکھا تھا

وہ ہر پل ساتھ ہے میرے کہاں تک اس کو میں دیکھوں
گئے وہ دن کہ اس کے نام پر بھی دل دھڑکتا تھا

یہاں ہر کشتیٔ جاں پر کئی مانجھی مقرر تھے
ادھر سازش تھی پانی کی ادھر قضیہ ہوا کا تھا

چھپا کر لے گیا اپنے دکھوں کو ساری دنیا سے
لگا تھا یوں تو ہم تم سا وہ جادوگر بلا کا تھا
استادِ محترم
 
آخری تدوین:
جی نہیں، یہاں ہنستا اور روتا دونوں میں الف پوری ادا ہو رہی ہے،
مفاعیلن ... ن ہس تا تا
مفاعیلن .... ک رو تا تا

۲۔ توالی الاصوات​

توالی پے بہ پے آنے کو کہتے ہیں۔ توالی الاصوات یعنی آوازوں کا متواتر آنا۔ تنافر کی اس قسم میں متحرک حروف کی یکساں آوازیں یکے بعد دیگرے اس طرح وارد ہوتی ہیں کہ کھٹکا سا پیدا ہو جاتا ہے۔

چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
کا کاروبار = ک کا توالی
 

سید عاطف علی

لائبریرین

۲۔ توالی الاصوات​

توالی پے بہ پے آنے کو کہتے ہیں۔ توالی الاصوات یعنی آوازوں کا متواتر آنا۔ تنافر کی اس قسم میں متحرک حروف کی یکساں آوازیں یکے بعد دیگرے اس طرح وارد ہوتی ہیں کہ کھٹکا سا پیدا ہو جاتا ہے۔


کا کاروبار = ک کا توالی
اس مصرع میں بحر کے مطابق پہلے ؔکا ٰؔ میں الف کی آواز کو ساقط کیا گیا ہے ۔۔۔گلشن ککا روبار چلے۔ اس لیے یہاں تنافر محسوس ہورہا ہے ۔
جب کہ اوپر والی غزل کے مذکورہ حصے میں ایسی کوئی بات نہیں اور اس لیے یہاں تنافر بھی نہیں ہے۔
 

۲۔ توالی الاصوات​

توالی پے بہ پے آنے کو کہتے ہیں۔ توالی الاصوات یعنی آوازوں کا متواتر آنا۔ تنافر کی اس قسم میں متحرک حروف کی یکساں آوازیں یکے بعد دیگرے اس طرح وارد ہوتی ہیں کہ کھٹکا سا پیدا ہو جاتا ہے۔


کا کاروبار = ک کا توالی
خورشید بھائی، اگر آپ پہلے ہی sure تھے تو سوال کرنے کے بجائے تبصرہ کر دیتے :)
 
اس مصرع میں بحر کے مطابق پہلے ؔکا ٰؔ میں الف کی آواز کو ساقط کیا گیا ہے ۔۔۔گلشن ککا روبار چلے۔ اس لیے یہاں تنافر محسوس ہورہا ہے ۔
جب کہ اوپر والی غزل کے مذکورہ حصے میں ایسی کوئی بات نہیں اور اس لیے یہاں تنافر بھی نہیں ہے۔

توالی الاصوات اور اتصال بعدِ سکوت کا فرق یہ ہے کہ اتصال بعد سکوت صرف حرف کی ان دو مثالوں کے درمیان واقع ہوتا ہے جن میں سے پہلی ساکن اور دوسری متحرک ہو۔ توالی الاصوات میں حرف کی تکرار متحرک حالت میں ہوتی ہے اور دو سے زیادہ بار ہو سکتی ہے۔

اردو.com/8474/بلاغت/عروض
 
خورشید بھائی، اگر آپ پہلے ہی sure تھے تو سوال کرنے کے بجائے تبصرہ کر دیتے :)
محترم سر
ایک مبتدی ایسے یقین سے کیسے تبصرہ کرسکتا ہے اور وہ بھی ایک استادالاساتذہ کے کلام پر- یہ بحث تو آپ جیسے لوگوں سے سیکھنے کے لیے ہے-
باقی کلام میں تنافر کا ہونا تو جیسے اوپر دیا ہوا ہے فیض صاحب اور اسی طرح علامہ اقبال صاحب جیسے شاعروں کے کلام میں بھی ملتا ہے-
 
خورشید بھائی، اگر آپ پہلے ہی sure تھے تو سوال کرنے کے بجائے تبصرہ کر دیتے :)
سر اگر طالب علم سوال نہیں کرے گا تو سیکھے گا کیسے اس لیے آپ سے گذارش ہے کہ سوال کو سوال سمجھیں تنقید نہیں
تنافر کے بارے میں آپ لوگوں کے جواب سے جو مجھے سمجھ آئی ہے وہ یہ ہے کہ
دو حروفِ صحیح جو ہم آواز ہوں اگر اکٹھے آجائیں اور وزن کے لحاظ سے ان کی ترتیب 1 اور2 ہویا1 اور 1 ہو تو تنافر واقع ہوتا ہے جبکہ 2 اور 2 میں نہیں ہوتا
کیا میں صحیح سمجھا ہوں

سید عاطف علی
 
سر اگر طالب علم سوال نہیں کرے گا تو سیکھے گا کیسے اس لیے آپ سے گذارش ہے کہ سوال کو سوال سمجھیں تنقید نہیں
تنافر کے بارے میں آپ لوگوں کے جواب سے جو مجھے سمجھ آئی ہے وہ یہ ہے کہ
دو حروفِ صحیح جو ہم آواز ہوں اگر اکٹھے آجائیں اور وزن کے لحاظ سے ان کی ترتیب 1 اور2 ہویا1 اور 1 ہو تو تنافر واقع ہوتا ہے جبکہ 2 اور 2 میں نہیں ہوتا
کیا میں صحیح سمجھا ہوں

سید عاطف علی
جناب یہ 2-1 کی گردان کے چکر میں تو میں نہیں پڑتا... البتہ تنافر کی سادہ سی تعریف یہ ہے کہ ایک ہی آواز متواتر آجائے ... یہ تواتر ملفوظی ہی ہوتا ہے، یعنی ایسا ممکن ہے کہ بظاہر مکتوبا تواتر نہ ہو، لیکن ملفوظا ہو، جیسا کہ فیض کے مصرعے کی مثال آپ نے دی.
لیکن بہرحال یہ ریاضی کا کوئی فارمولا نہیں ... اصل اعتبار قرات میں روانی کا ہے جو بڑی حد تک الفاظ کی ترتیب و نشست پر منحصر ہوتی ہے. اوپر دیا گیا فیض کامصرع ہی دیکھ لیں، باوجود اس ظاہری تنافر کے، مصرع کی روانی میں کوئی خاص خرابی محسوس نہیں ہوتی ... غالبا اسی لیے فیض نے بھی اس کو یونہی رہنے دیا.
 
جناب یہ 2-1 کی گردان کے چکر میں تو میں نہیں پڑتا... البتہ تنافر کی سادہ سی تعریف یہ ہے کہ ایک ہی آواز متواتر آجائے ... یہ تواتر ملفوظی ہی ہوتا ہے، یعنی ایسا ممکن ہے کہ بظاہر مکتوبا تواتر نہ ہو، لیکن ملفوظا ہو، جیسا کہ فیض کے مصرعے کی مثال آپ نے دی.
لیکن بہرحال یہ ریاضی کا کوئی فارمولا نہیں ... اصل اعتبار قرات میں روانی کا ہے جو بڑی حد تک الفاظ کی ترتیب و نشست پر منحصر ہوتی ہے. اوپر دیا گیا فیض کامصرع ہی دیکھ لیں، باوجود اس ظاہری تنافر کے، مصرع کی روانی میں کوئی خاص خرابی محسوس نہیں ہوتی ... غالبا اسی لیے فیض نے بھی اس کو یونہی رہنے دیا.
جی نہیں، یہاں ہنستا اور روتا دونوں میں الف پوری ادا ہو رہی ہے،
مفاعیلن ... ن ہس تا تا
مفاعیلن .... ک رو تا تا
جواب دینے کا بہت شکریہ سر
لیکن اگر 1 اور 2 کی گردان کے چکر میں نہ پڑیں تو پھر اوپر جو تاتا کا ملفوظی تواتر ہے اس سے تنافر کیوں وا قع نہیں ہوتا
پلیز آپ یہ نہ سمجھیں کہ میں بار بار ایک ہی بات دہرا رہا ہوں- مجھے چونکہ کلیر نہیں ہو رہا اس لیے آپ کو تکلیف دے رہا ہوں
 
جواب دینے کا بہت شکریہ سر
لیکن اگر 1 اور 2 کی گردان کے چکر میں نہ پڑیں تو پھر اوپر جو تاتا کا ملفوظی تواتر ہے اس سے تنافر کیوں وا قع نہیں ہوتا
پلیز آپ یہ نہ سمجھیں کہ میں بار بار ایک ہی بات دہرا رہا ہوں- مجھے چونکہ کلیر نہیں ہو رہا اس لیے آپ کو تکلیف دے رہا ہوں
تنافر دو صورتوں میں واقع ہوتا ہے:

1) پہلے لفظ کے اختتامی حرفِ صحیح سے قبل اگر حرفِ علت (ا، و، ی) واقع ہو اور اگلے لفظ کی ابتدا اسی حرفِ صحیح سے ہو مثلاً شعور را، فریب باز، خاک کا وغیرہ۔ حروفِ علت طویل مصوتوں (vowels) کو ظاہر کرتے ہیں انھیں عددی تقطیع میں ۲ لکھا جاتا ہے۔
۲) ایک ہی حرفِ صحیح اگر یکے بعد دیگرے واقع ہو اور ان کے درمیان کوتاہ مصوتے واقع ہوں۔ کوتاہ مصوتوں کو عددی تقطیع میں ۱ سے ظاہر کیا جاتا ہے۔ کوتاہ مصوتے عام طور پر اعراب کے ذریعے ظاہر کیے جاتے ہیں۔ ا، ی اور و کا اسقاط دراصل طویل مصوتوں کو کوتاہ کر دینے کے مترادف ہے۔

تا تھا کے ت اول تو مختلف ہیں پہلا غیر اسپری (unaspirated) ت ہے اور دوسرا اسپری (aspirated) تھ اور ان دونوں کے درمیان کا مصوتہ طویل ہے اس لیے تنافر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

مزید یہ بھی کہنا ضروری ہے کہ تنافر کوئی بہت بڑا عیب نہیں ہے۔
 
آخری تدوین:
تو پھر اوپر جو تاتا کا ملفوظی تواتر ہے اس سے تنافر کیوں وا قع نہیں ہوتا
تا کوئی مستقل حرف تو نہیں ہے.... تنافر تب ہوتا جب ت اور ت ملفوظا متصل ہوتے ... یہاں دنوں کے درمیان چونکہ الف مکمل ادا ہو رہا ہے اس لیے وہ دونوں کے درمیان فصل کر رہا ہے.
فیض والی مثال میں دو ک ملفوظا متصل آ گئے کیونکہ کا کی الف تقطیع میں ساقط ہے.
 
تنافر دو صورتوں میں واقع ہوتا ہے:

1) پہلے لفظ کے اختتامی حرفِ صحیح سے قبل اگر حرفِ علت (ا، و، ی) واقع ہو اور اگلے لفظ کی ابتدا اسی حرفِ صحیح سے ہو مثلاً شعور را، فریب باز، خاک کا وغیرہ۔ حروفِ علت طویل مصوتوں (vowels) کو ظاہر کرتے ہیں انھیں عددی تقطیع میں ۲ لکھا جاتا ہے۔
۲) ایک ہی حرفِ صحیح اگر یکے بعد دیگرے واقع ہو اور ان کے درمیان کوتاہ مصوتے واقع ہوں۔ کوتاہ مصوتوں کو عددی تقطیع میں ۱ سے ظاہر کیا جاتا ہے۔ کوتاہ مصوتے عام طور پر اعراب کے ذریعے ظاہر کیے جاتے ہیں۔ ا، ی اور و کا اسقاط دراصل طویل مصوتوں کو کوتاہ کر دینے کے مترادف ہے۔

تا تھا کے ت اول تو مختلف ہیں پہلا غیر اسپری (unaspirated) ت ہے اور دوسرا اسپری (aspirated) تھ اور ان دونوں کے درمیان کا مصوتہ طویل ہے اس لیے تنافر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

مزید یہ بھی کہنا ضروری ہے کہ تنافر کوئی بہت بڑا عیب نہیں ہے۔
ریحان قْریشی صاحب شکریہ
عشق کی میں تنافر ہے
یہ آپ کی بیان کی ہوئی کون سی قسم سے تنافر ہوگا
اور اصلاح کرتے ہوئے اساتذہ چونکہ اس کی نشاندہی کرتے ہیں اس لیے اس پر بحث کرکے سمجھنے کی کوشش کررہا ہوں ورنہ تو میں نے اوپر بھی لکھا ہے کہ یہ اگر بہت بڑا عیب ہوتا تو بڑے شاعروں کے کلام میں نہ ملتا-
 
عشق کی میں تنافر ہے
یہ آپ کی بیان کی ہوئی کون سی قسم سے تنافر ہوگا
دوسری قسم کیونکہ یہاں ق ساکن بھی ق متحرک کے برابر ہے۔ بہت سے لوگ ق کو ک ہی پڑھتے ہیں اور اگر ق برقرار بھی رکھا جائے تب بھی ک کے مخرج کے قریب ہے۔ یہاں اگر بجائے ق گ بھی ہوتا تب بھی ہلکا تنافر موجود ہوتا کیونکہ ک اور گ ہم مخرج ہیں۔
 
آخری تدوین:
Top