گلگت و بلتستان قانون سازی کی راہ پر
بارہ نومبر کے دن گلگت و بلتستان میں پہلی بار قانون ساز اسمبلی کے لیے الیکشن ہو رہے ہیں _ یوں اس علاقہ کا ایک درینہ مطالبہ پورا ہو جائے گا کہ یہاں کے لوگ گلگت و بلتستان میں اپنے وزیر اعلٰی کا انتخاب کر سکیں گے _ تاریخی طور پر یہ علاقے کشمیر کا حصہ ہیں یہاں کی عوام نے ہمارے قبائلی علاقوں کی عوام کی مدد سے ہندوستان سے خود آذادی حاصل کی بہرحال کشمیر کے مسئلے کی وجہ سے ابھی تک اس علاقے کو باقاعدہ طور پر پاکستان میں ضم نہیں کیا جا سکا _ حالانکہ یہاں کے لوگ ایک عرصہ سے اس کا الحاق پاکستان سے کرنے کی تحریک چلا رہے ہیں لیکن اس علاقے میں کسی قد آور سیاسی شخصیت کے نہ ہونے کہ وجہ سے ان کی آواز موثر طور پر حکومتی ایوانوں تک نہ پہنچ سکی _ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ نے اپنے دور حکومت میں کچھ اصطلاحات کا نفاذ کیا لیکن وہ علاقے کی عوام کے مطالبے سے بہت کم تھیں _ پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت نے ایک قدم آگے بڑھ کر مزید کچھ اقدامات کیے ہیں جس کی وجہ سے اب یہاں الیکشن کا انقعاد ممکن ہو رہا ہے _ لیکن یہ الیکشن مقامی حکومت کے قیام تک ہی محدود ہیں قومی سیاست میں ابھی بھی یہاں کے لوگوں کی شمولیت کا مسئلہ ہنوز باقی ہے _ آنے والے وقت میں کیا یہاں کی عوام کو قومی اسمبلی اور سینٹ میں بھی نمائیندگی دی جائے گی یا نہیں اس پر بدستور سوالیہ نشان لگا ہوا ہے _
گلگت و بلتستان چھ اضلاع گلگت،سکردو،گھانچے۔غذر،دیامیر،اور استور پر مشتمل علاقہ ہے _ یہاں اکثریت شینا اور بلت زبانیں بولتی ہے اس کے علاوہ بھی چند زبانہیں اس علاقہ میں رائج ہیں _
گلگت و بلتستان کی سیاست میں پیپلز پارٹی کو سبقت حاصل ہے _ اس کے علاوہ نواز لیگ بھی کافی پاپولر ہے _ ماہرین کے مطابق ایم کیو ایم کو بھی حکومتی اتحاد میں شامل ہونے کی وجہ سے اور پیپلز پارٹی سے ڈیل کی بدولت ایک دو نشستیں مل سکتی ہیں _ چند علاقوں میں اے این پی بھی قسمت آزمائی کر رہی ہے _
کل چوبیس حلقوں میں پیپلز پارٹی 23 ایم کیو ایم 19 اور نواز لیگ 15 نشستوں پر اپنے امیدوار میدان میں لائی ہے _ اصل مقابلہ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے درمیان ہے لیکن ایم کیو ایم بھی اپ سیٹ کر سکتی ہے _
بارہ نومبر کے دن گلگت و بلتستان میں پہلی بار قانون ساز اسمبلی کے لیے الیکشن ہو رہے ہیں _ یوں اس علاقہ کا ایک درینہ مطالبہ پورا ہو جائے گا کہ یہاں کے لوگ گلگت و بلتستان میں اپنے وزیر اعلٰی کا انتخاب کر سکیں گے _ تاریخی طور پر یہ علاقے کشمیر کا حصہ ہیں یہاں کی عوام نے ہمارے قبائلی علاقوں کی عوام کی مدد سے ہندوستان سے خود آذادی حاصل کی بہرحال کشمیر کے مسئلے کی وجہ سے ابھی تک اس علاقے کو باقاعدہ طور پر پاکستان میں ضم نہیں کیا جا سکا _ حالانکہ یہاں کے لوگ ایک عرصہ سے اس کا الحاق پاکستان سے کرنے کی تحریک چلا رہے ہیں لیکن اس علاقے میں کسی قد آور سیاسی شخصیت کے نہ ہونے کہ وجہ سے ان کی آواز موثر طور پر حکومتی ایوانوں تک نہ پہنچ سکی _ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ نے اپنے دور حکومت میں کچھ اصطلاحات کا نفاذ کیا لیکن وہ علاقے کی عوام کے مطالبے سے بہت کم تھیں _ پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت نے ایک قدم آگے بڑھ کر مزید کچھ اقدامات کیے ہیں جس کی وجہ سے اب یہاں الیکشن کا انقعاد ممکن ہو رہا ہے _ لیکن یہ الیکشن مقامی حکومت کے قیام تک ہی محدود ہیں قومی سیاست میں ابھی بھی یہاں کے لوگوں کی شمولیت کا مسئلہ ہنوز باقی ہے _ آنے والے وقت میں کیا یہاں کی عوام کو قومی اسمبلی اور سینٹ میں بھی نمائیندگی دی جائے گی یا نہیں اس پر بدستور سوالیہ نشان لگا ہوا ہے _
گلگت و بلتستان چھ اضلاع گلگت،سکردو،گھانچے۔غذر،دیامیر،اور استور پر مشتمل علاقہ ہے _ یہاں اکثریت شینا اور بلت زبانیں بولتی ہے اس کے علاوہ بھی چند زبانہیں اس علاقہ میں رائج ہیں _
گلگت و بلتستان کی سیاست میں پیپلز پارٹی کو سبقت حاصل ہے _ اس کے علاوہ نواز لیگ بھی کافی پاپولر ہے _ ماہرین کے مطابق ایم کیو ایم کو بھی حکومتی اتحاد میں شامل ہونے کی وجہ سے اور پیپلز پارٹی سے ڈیل کی بدولت ایک دو نشستیں مل سکتی ہیں _ چند علاقوں میں اے این پی بھی قسمت آزمائی کر رہی ہے _
کل چوبیس حلقوں میں پیپلز پارٹی 23 ایم کیو ایم 19 اور نواز لیگ 15 نشستوں پر اپنے امیدوار میدان میں لائی ہے _ اصل مقابلہ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے درمیان ہے لیکن ایم کیو ایم بھی اپ سیٹ کر سکتی ہے _