گلوں کی پالکی۔

رشید حسرت

محفلین
گُلوں کی پالکی میں ھے، بہاروں کی وہ بیٹی ھے
چہیتی چاند کی، روشن ستاروں کی وہ بیٹی ھے

ھماری عزّتیں سانجھی ہیں بولی کوئی بھی بولیں
کسی بھی ایک کی عفّت، سو چاروں کی وہ بیٹی ھے

وہ چلتی ھے تو راہوں میں سُریلے ساز بجتے ہیں
کسی اجلی ندی کے شوخ دھاروں کی وہ بیٹی ھے

کیا ھے بے رِدا جس نے مِرے دہقاں کی بیٹی کو
وطن کے نام لیوا غمگُساروں کی وہ بیٹی ھے

بڑی مدّت تلک جس بہن کو ھم نے عدو سمجھا
ستم سہتی رہی ھے، کوہساروں کی وہ بیٹی ھے

سُریلی بانسری کی تان اُس کی گفتگو ٹھہری
تراشِیدہ پری رُخ شاہکاروں کی وہ بیٹی ھے۔

ھماری زندگی بے کیف گزری ھے رشید حسرتؔ
نہیں جس میں کوئی سُکھ، ریگزاروں کی وہ بیٹی ھے۔

رشید حسرتؔ۔
 
Top