گلزار سندیلوی اینڈ کو ، جنرل مرچنٹ اردو ادب موچی دروازہ لاہور --- ، یکے از ابواب کتاب ۔ پبلک سیفٹی ریزر - از ابراہیم جلیس

مندرجہ ذیل باب یکے از ابواب کتاب پبلک سیفٹی ریزر کا ہے جو ابراہیم جلیس کی تحریر ہے ۔ ایک ایک فقرہ ایک ایک لفظ درد سے بھرا ہوا ہے جو صرف سمجھنے والوں کے لیئےہے دیگراں اس کے مزاح سے لطف اندوز ہوں - ناقل​
تقسیم ہندوستان کا اثراردو زبان و ادب اور اردو ادیبوں پر جیسا کچھ پڑا ہے اس کا اندازہ کرنا اس لیئے مشکل ہے کہ اندازہ ہی نہیں کیا جا سکتا۔ ہندوستان میں تو حکومت کی طرف سے اردو کو -- دیس نکالا-- دیا گیا ۔ اور پاکستان میں اردو بیچاری سرکاری زبان بن گئی ۔ مگر سرکاری زبان ہونے کے باوجود بیچاری ۔۔ مہاجرہ۔۔ ہے کیونکہ پاکستان میں اس کی بہت سی سوکنیں ہیں ۔ پنجاب میں پنجابی ہے ۔ سندھ میں سندھی ہے- سرحد میں پشتو ہے۔ بلوچستان میں بلوچی ہے۔ اور بنگال میں بنگالی ۔ اسی لیئے اردو کو ابھی اس کا اپنا گھر الاٹ نہ ہو سکااور وہ مجبورا سرکاری کیمپ میں مقیم ہے۔ کوششیں کی جا رہی ہیں- یعنی میرا مطلب یہ ہے کہ نواب زادہ لیاقت علی خاں اور خواجہ ناظم الدین تقریریں فرما رہے ہیں کہ اردو کو ہر گھر میں جگہ ملنی چاہیئے مگر چونکہ تقریریں تو تقریریں ہوتی ہیں اس لیئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ویسے اردو کی یہ زبوں حالی کوئی نئی نہیں ۔ بہت پرانی ہے ۔ جب سے قلعہ معلی اجڑا اور داغِ فراقِ صحبتِ شب کی جلی ہوئی آخری شمع یعنی حضرت بہادر شاہ ظفر کے بعد مغلیہ جاہ و حشم کا شیرازہ بکھر گیا۔ تبھی سے اردو کی حالت بڑی زار اور بڑی زبوں ہے ۔ہائے ہائے وہ زبان جس میں حضرتِ میر تقی میر ۔ حضرت شیفتہ۔ حضرت انیس۔ حضرت انشا شاعری فرماتے تھے ۔ استاد شہ حضرت ذوق اور میرزا نوشہ اسد اللہ خاں غالب نے جس کی نوک پلک سنواری تھی ۔ جو نواب سعادت علی خاں کے گھر میں پلی ۔ جسے بیگماتِ شاہانِ مغلیہ نے لہجہ او رلوچ عطا کیا ۔ جو قیصر باغ میں جوان ہوئی ۔۔۔ وہی زبان آج بھٹیاروں کے منہ میں آگئی ہے ۔ برا ہو ان ترقی پسند مصنفین کا ۔۔۔ انہوں نے زبان کو شاہی درباروں سے نکال کر بیچ بازار وں میں کھڑا کر دیا۔ کہاں یہ زبان شاہزادوں اور شہزادیوں کی تھی اور کہاں یہ زبان مزدوروں اور کسانوں میں آگئی۔ کہاں تو میر تقی میرجیسے اہل زبان شاعر تھے اور کہاں ان ترقی پسند مصنفوں نے نظیر اکبر آبادی جیسے پھکڑ شاعر کو بانس پر چڑھایا تھا ۔ان ترقی پسندوں نے جوکچھ کیا جیسے وہ کم نہ تھا کہ آج تقسیم کے بعد بیچاری اردو کے پیچھے نئی ساڑستی لگی ہوئی ہے۔ شین قاف و پہلے ہی بگڑ چکے تھے اور اب یہ خانماں بربادی ۔ خدا کی سنوار اس موئے فرنگی لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو جس کی بدولت اب برس روز سے اردو یوں سڑکوں کی خاک پھانکتی پھر رہی ہے۔
واللہ کیا عرض کریں حضور۔ اب تو اردو کی ساری اٹھان کا ستیا ناس ہو کر رہ گیاہے۔ نہ و صنائع بدائع رہے نہ وہ ضلع جگت۔ نہوہ تشبیہات نہ وہ استعارے۔ نہ وہ سلطان العلوم رہے نہ سعادت علی خان کے ادبی درباررہے۔ نہ وہ مشاعرے ہیں نہ وہ شعر و سخن کی محفلیں ہیں ۔ ہائے ہائے حضور ۔ اب تو اہل فن اٹھ گئے ۔ بس کٹھ ملا رہ گئے۔

دہلی اور لکھنؤ کے کچھ ٹکسالی اشراف ایسے بھی تھے۔ جنہوں نے اردو کو اس کا کھویا ہوا مقام پھر سے دلانے کی حتیٰ المقدور کوشش کی ۔ مگر نیرنگئی زمانہ کی بابت کیا کہیئے ۔ کہ کل تک جو تتلانا بھی نہیں جانتے تھے۔ آج اردو کے بڑے بڑے جغادری ادیب بن بیٹھے ہیں۔ بقول کسے-- پڑھے نہ لکھے نام محمد ترقی پسند -- اور پڑ گئے اردو کے پیچھے ڈنڈا لے کے ۔ ارے خدا کے بندو۔ اردو بھی کوئی گائے بکری ہے! غضب خدا کا ! یہ صنف نازک ہے۔ صنف نازک ۔ ہوش کے ناخن لو محلوں کی پلی نازک اندام کو کہاں عام لوگوں اور عامیوں میں کھینچ لائے۔ جواب اس کا کون دے ؟

جانے کس کم بخت نے (ادب برائے ادب) کی بجائے(ادب برائے زندگی) کا نعرہ لگایا اور لگا اردو کے جسم کا سارا زیور لوٹنے ۔ صنائع بدائع ، تشبہیہیں، استعارے ،محاورے، ضلع جگت سب لوٹ لیئے تو پھر اس کے خدو خال بگاڑنے شروع کئے، ہر ایرا غیرا نتھو خیرا قسم کا ادیب کان پر قلم رکھ کر نکلا اور خرافات نگاری کے پل باندھنے لگا ۔ پہلے کسی اہل زبان سے بات کرتے تو یوں محسوس ہوتا جیسے پھول جھڑ رہے ہیں اور پھول چنے جا رہے ہیں۔ اب یوں معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اردو نہیں روڑے اور کنکر مار رہا ہے ۔ ان ترقی پسند ادیبوں کی کوئی تحریر اٹھا کر دیکھو تو صاف معلوم ہو جائے گا ۔ جھوٹا مصالحہ کھوٹا کام اجی قبلہ وہ کعبہ ہم دریافت کریں کہ ادب کا زندگی سے کیا تعلق ہے؟ادب کا تو صرف ادب سے تعلق ہو سکتا ہے ۔ ادب اگر ادب سے متعلق نہ رہے تو پھر وہ کہاں کا ادب اور کیسا ادب۔ یا اگر ادب کے تعلق کے لیئے اسی کے شایان شان زندگی بھی ہو ۔ یعنی بادشاہوں کی زندگی۔ امرا کی زندگی ۔۔ یہ فضلو خیرو کی زندگی سے اردو زبان و ادب کو کیا تعلق؟
اب اللہ میاں ہی ان ترقی پسند ادیبوں سے سمجھیں ۔ ایک دو حرف کیا لکھنا آیا خود کو شیخ معجونی سمجھنے لگے ۔ شیخ معجونی نے ہلدی کی ایک گرہ کیا پائی کہ خود کو عطار سمجھ بیٹھے ۔ بس شیخی اور نمود کی تصویر ہیں یہ لوگ ۔ نہ بڑوں کا پاس نہ بزرگوں کا کچھ ادب۔ میر تقی میر کو قنوطی اور غیر ترقی پسند شاعر کہتے ہیں اور اس پھکڑ باز ، بے سرے ، یاوہ گو نظیر اکبر آبادی کو سب سے بڑا ترقی پسند شاعر بنا بیٹھے ۔ حالانکہ حضرت شیفتہ نے اس کے بارے میں دو ٹوک فیصلہ دے دیا تھا کہ یارو وہ شاعر نہیں پھکڑ باز ہے۔
اللہ اللہ کیا زبان دان تھے وہ لوگ! مرگئے مگر زبان کی اینٹھن نہ گئی ، کوثر و تسنیم میں دھلی ہوئی زبان ۔ ہیروں جواہرات کی طرح جگمگاتی زبان ۔ وہ زبان جو رگ گل سے بلبل کے پر باندھتی تھی ۔ وہ زبان جس کی شاعری کے ہزاروں بحر پھیلے ہوئے تھے ۔ وہ زبان جس کے دامن میں الفاظ کا بہت بڑاخزانہ چھپا ہوا تھا ۔ وہی زبان آج لٹی ہاری نوچی کھسوٹی ژولیدہ زلفیں لئے یوں چوراہے پر کھڑی ہے ۔ آج میر و غالب ، مومن و سودا، انیس و دبیر ، انشا و شیفتہ کی روحیں بہشت میں پریشان اور لشتم پشتم پھر رہی ہونگی کہ ہائے ہائے یہ اردو کی کیا حالت ہو گئی؟
 
آخری تدوین:
قلعہ معلیٰ اور قیصر باغ کے بعد اب دہلی - لکھنؤ اور حیدر آباد بھی اجڑ گئے ۔ اب اردو ہے اور پنجابی ہیں ۔ پنجاب میں اردو کو یوں رونکھا سا دیکھ کر تو رہا ہی نہیں جاتا ۔ طرفہ تماشا تو یہ ہے کہ آج کل کے نام نہاد ادیبوں میں ننانوے فیصدی ادیب پنجابی ہیں۔ ایک ڈاکٹر اقبال صاحب کو چھوڑ کر کوئی ایک بھی سچ مچ کا ادیب دکھا دیجئے ۔ سب کے سب مودھو ہیں مودھو ۔ مگر صاحب پنجاب میں ایسے خوبصورت رسالے شائع ہوتے ہیں کہ کچھ نہ پوچھئیے (پنجاب کے رسالے شاید حشرات الارض پر بھی بازی لے جاتے ہوں )۔ پہلا صفحہ الٹ کر دیکھنے کے بعد اخی محترم حضرت وفا سندیلوی صاحب قبلہ و کعبہ اقبالہ مد ظلہ اعلی جنت مکانی کا یہ شعر زبان پر آجاتا ہے۔
کہو اردو کو چت کر دیں کہو اردو کو پٹ کر دیں
زباں داں اور ہوں گے ہم تو پنجابی رسالے ہیں​
لیکن کیا کیا جائے ۔ اب تو ہمیں بھی پنجاب میں رہنے پر مجبور ہونا پڑا ہے ۔ اور ہماری زبان بھی یہاں ٹھوکریں کھا رہی ہے اور اس پر یہ موے چوٹنے ترقی پسند ادیب، شاہان عالی مقام کی زبان کو مزدوروں اور کسانوں کی زبان بنانے والے بقول خود ادیب ! بس خدا ہی ان سے سمجھے۔
خیر حضور یہاں تک تو ٹھیک تھا کہ اردو مزدوروں اور کسانوں کی زبان ہو گی ۔ مگر نیا شگوفہ ملاحظہ ہو کہ آج ان اردو کے نام نہاد ادیبوں میں بڑے بڑے چوٹی کے ادیب ہندو اور سکھ ہیں ۔ جانے اسلامی غیرت کو کیا ہو گیا کہ پریم چند۔ کرشن چندر ۔ راجندر سنگھ بیدی ۔ اور رگھوپتی سہائے فراق کو بھی اردو کے چوٹی کے ادیبوں میں شمار کیا جا رہا ہے۔ یہ تو کچھ کچھ قرب قیامت کے آثار نظر آتے ہیں ورنہ ہندو اور سکھ اردو زبان کے ادیب اور چوٹی کے ادیب کہلائیں ۔۔۔ ھیہات واہیات۔
خداوند عزوجل جس کی بحر و بر پر اور ارض و سما پر حکمرانی ہے ۔ اس کا لاکھ لاکھ اور کروڑ کروڑ شکر ہے کہ پاکستان بنتے ہی اعلان فرما دیا گیا کہ اردو صرف مسلمانوں کی زبان ہے اور اس طرح مسلمانوں کے نئے وطن پاکستان کی سرکاری زبان ہے ۔ چلو یہ اچھا ہوا ۔ ورنہ نیا جھگڑا شروع ہو جاتا کیونکہ حال ہی میں ہندوستان کے ہندو اور سکھ ادیبوں نے ایک صحافتی بیان جاری فرما دیا کہ اردو زبان آدھی ہماری بھی ہے ۔ اس بیان پر کوئی ساٹھ کے قریب ہندو اور سکھ ادیبوں نے بڑی ڈھٹائی سے اپنے اپنے دستخط ٹھونک دیئے تھے ۔ اس بیان کی حمایت میں چند لادینئے، دہریے ، دل میں خدا کا خوف نہ آنکھوں میں عاقبت کا ڈر ۔ چند نام نہاد مسلمان ادیبوں نے بھی مضامین لکھ مارے ۔ مضامین کیا لکھ مارے بس صفحے سیاہ کر ڈالے۔
 
تو حضور آپ ہی فرمائیں اور ازراہ انصاف فرمائیں کہ اس ہٹ دھرمی اور ڈھٹائی کا کیا جواب ہو سکتا ہے کہ اردو ہندوؤں اور سکھوں کی زبان ہے جب کہ قبلہ و کعبہ محترم نواب زادہ لیاقت علی خان نے ڈنکے کی چوٹ پر اعلان فرما دیا کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے اب لاکھ چیختے رہا کرو بیٹھے اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ جب کہ چڑیاں چک گئیں کھیت۔

مگر ہم بہ چشم تحیر یہ دیکھتے ہیں کہ اسی پاکستان میں انجمن ترقی پسند مصنفین لاہور نے دسمبر 1947 میں پاکستان بن جانے کے بعد یہ ریزولیوشن پاس کیا کہ اردو ہندوؤں اور مسلمانوں کی مشترکہ زبان ہے۔ جس کے بنانے میں ان دونوں کا برابر کا حصہ ہے ۔ پنڈت رتن ناتھ سرشار ، پنڈت برج نرائن چکبست اور منشی پریم چند کا درجہ اردو ادب میں کسی طرح میر، غالب ، حالی اور اقبال سے کم نہیں ۔

معاذاللہ ! یہ ہم کیا سن رہے ہیں؟ کہاں غالب اور کہاں چکبست ، کہاں حالی اور کہاں رتن ناتھ سرشار۔ کہاں راجہ بھوج اور کہاں گنگو تیلی ؟ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان ترقی پسند ادیبوں نے ذرے کو آفتاب کے مقابلے میں آفتاب کو ستارے کے مقابلے میں پیش کرنے کی مضحکہ خیز قسم کھا رکھی ہے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کے ترقی پسند ادیب ہندوستان کے ایجنٹ ہیں
 
ان خرابوں کے خراب ترقی پسند ادیبوں کو غالباً ہندوستان یا روس سے پیسہ بھی بطور رشوت ملتا ہے۔ کیونکہ وہ آج بھی مخالف پاکستانی باتیں کرتے نظر آتے ہیں کہ تقسیم ہند اپنی تہذیب و تمدن اور بالخصوص اردو زبان کو تقسیم نہیں کر سکتا ۔اب ان لوگوں کو کیا کہا جائے ۔ کھائیں گے پاکستان کا اور گن گائیں گے ہندوستان کا ۔ یا روس کا ۔ اے واہ !!

اب ذرا حکومت نے ادیبوں اور شاعروں کے پیچھے خفیہ پولیس لگا دی تو بس ایک بیان دے مارا کہ حکومت ادیبوں اور شاعروں پر ظلم کر رہی ہے۔ بھلا بتائیے یہ ادیب اور شاعر ملک کے مزدوروں اور کسانوں میں اردو زبان پھیلانے کے لیئے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ ان کم بختوں خِفتہ نصیبوں کو کیا معلوم کہ سرمایہ دار اور جاگیردار تو پاکستان کی رونق ہیں یہ نہ ہوں تو ہزاروں مزدور اور کسان زندہ رہ جائیں۔ مزدوروں اور کسانوں کا کیا ہے ۔ وہ نیچ لوگ انسان تھوڑے ہی ہیں ۔ وہ تو کیڑے مکوڑے ہیں ۔ ان کا مر جانا ہی اچھا ہے ۔ چہ جائیکہ وہ اردو بولتے ہوئے زندہ رہیں ۔ اردو عامیوں کی زبان نہیں ہے بلکہ نوابوں اور جاگیرداروں کی زبان ہے اور ہمیشہ رہے گی۔

اردو کے جو ادیب جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں ۔ وہ دراصل پاکستن کے دشمن ہیں ۔ اور پاکستان کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں ۔ پاکستان ایک مالدار ملک ہے۔ وہ فقیروں اور بھکاریوں کا ملک نہیں ہو سکتا۔ بھلا یہ بھی کوئی بھلمنسائی ہے کہ ایک اچھے خاصے اشراف انسانوں کے ملک میں مزدوروں اور کسانوں اور اسی طرح کے عام لوگوں کی حکومت قائم ہو ۔ اگر پاکستان میں مزدوروں اور کسانوں کی حکومت قائم ہو گئی تو پاکستان ، انگلستان اور امریکہ جیسے ٹکسالی اشراف ممالک کو کیا منہ دکھا سکے گا ۔ کہ یہاں مزدور اور کسان راج کرتے ہیں اور جاگیردار اور سرمایہ دار بھوکے مرتے ہیں۔ بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ آپ کے اناج کی بوری اٹھانے والا مزدور راہ چلتے چلتے اچک کر وزیر اعظم کی کرسی پر جا بیٹھے اور کھیت میں ہل چلانے والا کسان اپنے بیل ہانکتا گورنر کنرل کے محل میں داخل ہو اور گورنر جنرل کے تخت پر ننگے بدن متمکن ہو جائے ۔
ایسا ہوگا تو پھر --اشرافیہ-- میں پاکستان کا سر شرم سے جھک جائے گا اور پاکستان کی عزت ایک ڈالر کی تو کیا دو کوڑی کی بھی نہ رہے گی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اردو کی آبادکاری اور بحالی کے لیے ہم مسلمان پاکستانیوں کو یا پھر پاکستانی مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیئے ۔
یہ سوال آج کل بہت پوچھا جا رہا ہے۔ بہت سوچا جا رہا ہے ۔ بہت معرض بحث میں آ رہا ہے ۔ چونکہ یہ سوال بہت اہم ہے اور جیسا کہ معمولی سوال بھی بہت اہم ہوتا ہے ۔ اسی طرح ہم نے اس سوال کی اہمیت کے مدنظر یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ یہاں مملکت خداداد پاکستان میں جو بھی ادیب ہے وہ پاکستان کی حکومت یعنی جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی حکومت کا وفادار رہے گا ۔ وہ اپنے ذہن و قلم کی تمامتر قوتیں پاکستان میں جاگیرداری اور سرمایہ داری کی بقاء کے لیئے استعمال کرے گا۔ اسے پاکستان کی محنت کش آبادی سے قطعا کوئی سروکار نہیں ہوگا ۔ کیونکہ یہ ضروری ہے کہ ہم ادیب اور شاعر دیانت داری سے یہ فیصلہ کر لیں کہ سرمایہ دار کے وجود سے مزدوروں کا وجود اور جاگیرداروں کے وجود سے کسانوں کا وجود قائم ہے۔ اس لئیے ہم ادیب یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم پاکستانی حکمرانوں کے ادیب ہیں عوام نے ادیب نہیں ہیں ۔ کیونکہ اردو قلعہ معلیٰ کی زبان ہے ۔ بادشاہوں اور شہزادیوں کی زبان ہے، اردو اشرافوں امراء اور جاگیرداروں کی زبان ہے۔ اس لئے ہم حکومت کے وفادار ہیں عوام کے وفادار نہیں ۔ اس سلسلے میں دنیا کے سارے بڑے ادیب مثلاً آندرے ژید- بوڈیلر۔سامرسٹ ماہم ۔ مارشل پردست وغیرہ وغیرہ کی بھی مردہ مثالیں بھی رکھی ہوئی ہیں ۔
اس سلسلے میں ہم پاکستان کے وفادار ادیبوں نے فیصلہ کیا ہے کہ ایک اردو کی انجمن اور ایک اردو کی دکان قائم کی جائے۔

اردو کی انجمن تو قائم ہو چکی ہے اور ماشاء اللہ برابر کام کیئے جا رہی ہے۔ البتہ اردو کی دکان کل بروز بدھ ہم نے موچی دروازہ لاہور میں ہمارے مہربان وزیر ادبیات کی دستگیری میں قائم کی ہے ۔ جس کا افتتاح مشہور و معروف- دیباچہ خواں- ڈاکٹر شہ زور صاحب نے فرمایا ہے ۔ حاضرین میں پاکستان کے سارے مشہورومعروف ادیب اورشاعراوران کی بیویاں اور بچے بھی شریک تھے

یہ ہماری دکان ایک لمیٹیڈ کمپنی ہے ۔ جس میں بہت سے ادیبوں اور شاعروں کے رقمی حصوں کے علاوہ محنت بھی شامل ہے۔ ہمارا مسلک اور نصب العین یہ ہے کہ :-

1۔ ہم ادب برائے ادب کے قائل ہیں۔
2۔ ہم جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ حکومت کے ہم نوا ہیں۔
3۔ ہم انسان کی سماجی، سیاسی ، معاشی ، معاشرتی زندگی سے متعلق سڑا بًسا متعفن ادب پیش نہیں کریں گے ۔ بلکہ ہمارے پیش نظر انسان کی صرف جنسی اور نفسانی زندگی ہے کیونکہ جنس مرکز حیاتِ انسانی ہے۔
4۔ہمارا اعلان ہے کہ اردو صرف مسلمانوں کی زبان ہے اور اردو کا وطن صرف پاکستان ہے ۔

ہم ہیں آپ کے شہر کے بہترین مضمون تیار کرنے والے
گلزار سندیلوی اینڈ کو​
1۔ ہماری فرم میں ہر قسم کے علمی، ادبی ، غیر سیاسی، غیر معاشی ، تاریخی ، جنسی ، جغرافیائی ، نباتاتی ، حیاتیاتی ، کیمیائی ،طبیعیاتی ریاضیاتی مضامین تیار ہوتے ہیں
2۔ ایک بار آرڈر دیئے ہوئے مضامین کا آرڈر کسی صورت بھی منسوخ نہیں ہو سکتا۔
3۔ ہر مضمون کے آرڈر کے ساتھ مبلغ پانچ روپیہ بیعانہ داخل کرنا ضروری ہے۔
4۔ تیاری مضمون کے دوران اگر فریقین میں کوئی جھگڑا ہو تو یہ جھگڑا لاہور کورٹ میں طے ہوگا اور مجسٹریٹ کا حکم آخری حکم ہوگا۔
5۔ہماری فرم وعدہ کی بڑی پابند ہے ۔ مگر ہرسال کے آغاز میں چونکہ ہر رسالہ کا سالنامہ شائع ہوتا ہے اس لئے ان دنوں تاخیر ہمارے بس کی بات نہیں ہوگی ۔ سالناموں کی اشاعت کے دوران ہماری فرم میں بہت کام ہوتا ہے۔
6۔ ہر مضمون کے دام مقرر ہیں البتہ سیلس ٹیکس علیٰحدہ ۔
7۔شادیوں کے موقعہ پر ہماری فرم میں اعلیٰ سے اعلیٰ کوالیٹی کے سہرے بھی تیار کیئے جاتے ہیں
8۔ اگر راز و نیاز کے افسانے لکھوانے ہوں تو ہمارے پاس پردہ کا بھی معقول انتظام موجود ہے۔
9- ساری خط و کتابت خفیہ رکھی جائے گی
10۔ بچوں کے لیئے مضامین آدھی قیمت پر لکھے جائیں گے اور ہر بدھوار کو مفت مضامین لکھے جائیں گے ۔ ہماری خدمات حاصل کیجئے ۔

گلزار سندیلوی اینڈ کو
جنرل مرچنٹ ۔ اردو ادب ۔ موچی دروازہ لاہور
فون نمبر 9999 ۔ تار کا پتہ سندیلکو

پھر نہ کہنا خبر نہ ہوئی​
 
اس لئیے ہم ادیب یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم پاکستانی حکمرانوں کے ادیب ہیں عوام کےادیب نہیں ہیں ۔

وہ دراصل پاکستا ن کے دشمن ہیں
پہلی بات اصحاب اختیار سے گذارش ہے کہ مندرجہ بالا کی اصلاح بذریعہ تدوین فرما دیں دوسری بات استاد محترم کی پسندیدگی میرے لیے باعث افتخار ہے
 
Top