فیصل عظیم فیصل
محفلین
مندرجہ ذیل باب یکے از ابواب کتاب پبلک سیفٹی ریزر کا ہے جو ابراہیم جلیس کی تحریر ہے ۔ ایک ایک فقرہ ایک ایک لفظ درد سے بھرا ہوا ہے جو صرف سمجھنے والوں کے لیئےہے دیگراں اس کے مزاح سے لطف اندوز ہوں - ناقل
تقسیم ہندوستان کا اثراردو زبان و ادب اور اردو ادیبوں پر جیسا کچھ پڑا ہے اس کا اندازہ کرنا اس لیئے مشکل ہے کہ اندازہ ہی نہیں کیا جا سکتا۔ ہندوستان میں تو حکومت کی طرف سے اردو کو -- دیس نکالا-- دیا گیا ۔ اور پاکستان میں اردو بیچاری سرکاری زبان بن گئی ۔ مگر سرکاری زبان ہونے کے باوجود بیچاری ۔۔ مہاجرہ۔۔ ہے کیونکہ پاکستان میں اس کی بہت سی سوکنیں ہیں ۔ پنجاب میں پنجابی ہے ۔ سندھ میں سندھی ہے- سرحد میں پشتو ہے۔ بلوچستان میں بلوچی ہے۔ اور بنگال میں بنگالی ۔ اسی لیئے اردو کو ابھی اس کا اپنا گھر الاٹ نہ ہو سکااور وہ مجبورا سرکاری کیمپ میں مقیم ہے۔ کوششیں کی جا رہی ہیں- یعنی میرا مطلب یہ ہے کہ نواب زادہ لیاقت علی خاں اور خواجہ ناظم الدین تقریریں فرما رہے ہیں کہ اردو کو ہر گھر میں جگہ ملنی چاہیئے مگر چونکہ تقریریں تو تقریریں ہوتی ہیں اس لیئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ویسے اردو کی یہ زبوں حالی کوئی نئی نہیں ۔ بہت پرانی ہے ۔ جب سے قلعہ معلی اجڑا اور داغِ فراقِ صحبتِ شب کی جلی ہوئی آخری شمع یعنی حضرت بہادر شاہ ظفر کے بعد مغلیہ جاہ و حشم کا شیرازہ بکھر گیا۔ تبھی سے اردو کی حالت بڑی زار اور بڑی زبوں ہے ۔ہائے ہائے وہ زبان جس میں حضرتِ میر تقی میر ۔ حضرت شیفتہ۔ حضرت انیس۔ حضرت انشا شاعری فرماتے تھے ۔ استاد شہ حضرت ذوق اور میرزا نوشہ اسد اللہ خاں غالب نے جس کی نوک پلک سنواری تھی ۔ جو نواب سعادت علی خاں کے گھر میں پلی ۔ جسے بیگماتِ شاہانِ مغلیہ نے لہجہ او رلوچ عطا کیا ۔ جو قیصر باغ میں جوان ہوئی ۔۔۔ وہی زبان آج بھٹیاروں کے منہ میں آگئی ہے ۔ برا ہو ان ترقی پسند مصنفین کا ۔۔۔ انہوں نے زبان کو شاہی درباروں سے نکال کر بیچ بازار وں میں کھڑا کر دیا۔ کہاں یہ زبان شاہزادوں اور شہزادیوں کی تھی اور کہاں یہ زبان مزدوروں اور کسانوں میں آگئی۔ کہاں تو میر تقی میرجیسے اہل زبان شاعر تھے اور کہاں ان ترقی پسند مصنفوں نے نظیر اکبر آبادی جیسے پھکڑ شاعر کو بانس پر چڑھایا تھا ۔ان ترقی پسندوں نے جوکچھ کیا جیسے وہ کم نہ تھا کہ آج تقسیم کے بعد بیچاری اردو کے پیچھے نئی ساڑستی لگی ہوئی ہے۔ شین قاف و پہلے ہی بگڑ چکے تھے اور اب یہ خانماں بربادی ۔ خدا کی سنوار اس موئے فرنگی لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو جس کی بدولت اب برس روز سے اردو یوں سڑکوں کی خاک پھانکتی پھر رہی ہے۔
واللہ کیا عرض کریں حضور۔ اب تو اردو کی ساری اٹھان کا ستیا ناس ہو کر رہ گیاہے۔ نہ و صنائع بدائع رہے نہ وہ ضلع جگت۔ نہوہ تشبیہات نہ وہ استعارے۔ نہ وہ سلطان العلوم رہے نہ سعادت علی خان کے ادبی درباررہے۔ نہ وہ مشاعرے ہیں نہ وہ شعر و سخن کی محفلیں ہیں ۔ ہائے ہائے حضور ۔ اب تو اہل فن اٹھ گئے ۔ بس کٹھ ملا رہ گئے۔
دہلی اور لکھنؤ کے کچھ ٹکسالی اشراف ایسے بھی تھے۔ جنہوں نے اردو کو اس کا کھویا ہوا مقام پھر سے دلانے کی حتیٰ المقدور کوشش کی ۔ مگر نیرنگئی زمانہ کی بابت کیا کہیئے ۔ کہ کل تک جو تتلانا بھی نہیں جانتے تھے۔ آج اردو کے بڑے بڑے جغادری ادیب بن بیٹھے ہیں۔ بقول کسے-- پڑھے نہ لکھے نام محمد ترقی پسند -- اور پڑ گئے اردو کے پیچھے ڈنڈا لے کے ۔ ارے خدا کے بندو۔ اردو بھی کوئی گائے بکری ہے! غضب خدا کا ! یہ صنف نازک ہے۔ صنف نازک ۔ ہوش کے ناخن لو محلوں کی پلی نازک اندام کو کہاں عام لوگوں اور عامیوں میں کھینچ لائے۔ جواب اس کا کون دے ؟
جانے کس کم بخت نے (ادب برائے ادب) کی بجائے(ادب برائے زندگی) کا نعرہ لگایا اور لگا اردو کے جسم کا سارا زیور لوٹنے ۔ صنائع بدائع ، تشبہیہیں، استعارے ،محاورے، ضلع جگت سب لوٹ لیئے تو پھر اس کے خدو خال بگاڑنے شروع کئے، ہر ایرا غیرا نتھو خیرا قسم کا ادیب کان پر قلم رکھ کر نکلا اور خرافات نگاری کے پل باندھنے لگا ۔ پہلے کسی اہل زبان سے بات کرتے تو یوں محسوس ہوتا جیسے پھول جھڑ رہے ہیں اور پھول چنے جا رہے ہیں۔ اب یوں معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اردو نہیں روڑے اور کنکر مار رہا ہے ۔ ان ترقی پسند ادیبوں کی کوئی تحریر اٹھا کر دیکھو تو صاف معلوم ہو جائے گا ۔ جھوٹا مصالحہ کھوٹا کام اجی قبلہ وہ کعبہ ہم دریافت کریں کہ ادب کا زندگی سے کیا تعلق ہے؟ادب کا تو صرف ادب سے تعلق ہو سکتا ہے ۔ ادب اگر ادب سے متعلق نہ رہے تو پھر وہ کہاں کا ادب اور کیسا ادب۔ یا اگر ادب کے تعلق کے لیئے اسی کے شایان شان زندگی بھی ہو ۔ یعنی بادشاہوں کی زندگی۔ امرا کی زندگی ۔۔ یہ فضلو خیرو کی زندگی سے اردو زبان و ادب کو کیا تعلق؟
اب اللہ میاں ہی ان ترقی پسند ادیبوں سے سمجھیں ۔ ایک دو حرف کیا لکھنا آیا خود کو شیخ معجونی سمجھنے لگے ۔ شیخ معجونی نے ہلدی کی ایک گرہ کیا پائی کہ خود کو عطار سمجھ بیٹھے ۔ بس شیخی اور نمود کی تصویر ہیں یہ لوگ ۔ نہ بڑوں کا پاس نہ بزرگوں کا کچھ ادب۔ میر تقی میر کو قنوطی اور غیر ترقی پسند شاعر کہتے ہیں اور اس پھکڑ باز ، بے سرے ، یاوہ گو نظیر اکبر آبادی کو سب سے بڑا ترقی پسند شاعر بنا بیٹھے ۔ حالانکہ حضرت شیفتہ نے اس کے بارے میں دو ٹوک فیصلہ دے دیا تھا کہ یارو وہ شاعر نہیں پھکڑ باز ہے۔ویسے اردو کی یہ زبوں حالی کوئی نئی نہیں ۔ بہت پرانی ہے ۔ جب سے قلعہ معلی اجڑا اور داغِ فراقِ صحبتِ شب کی جلی ہوئی آخری شمع یعنی حضرت بہادر شاہ ظفر کے بعد مغلیہ جاہ و حشم کا شیرازہ بکھر گیا۔ تبھی سے اردو کی حالت بڑی زار اور بڑی زبوں ہے ۔ہائے ہائے وہ زبان جس میں حضرتِ میر تقی میر ۔ حضرت شیفتہ۔ حضرت انیس۔ حضرت انشا شاعری فرماتے تھے ۔ استاد شہ حضرت ذوق اور میرزا نوشہ اسد اللہ خاں غالب نے جس کی نوک پلک سنواری تھی ۔ جو نواب سعادت علی خاں کے گھر میں پلی ۔ جسے بیگماتِ شاہانِ مغلیہ نے لہجہ او رلوچ عطا کیا ۔ جو قیصر باغ میں جوان ہوئی ۔۔۔ وہی زبان آج بھٹیاروں کے منہ میں آگئی ہے ۔ برا ہو ان ترقی پسند مصنفین کا ۔۔۔ انہوں نے زبان کو شاہی درباروں سے نکال کر بیچ بازار وں میں کھڑا کر دیا۔ کہاں یہ زبان شاہزادوں اور شہزادیوں کی تھی اور کہاں یہ زبان مزدوروں اور کسانوں میں آگئی۔ کہاں تو میر تقی میرجیسے اہل زبان شاعر تھے اور کہاں ان ترقی پسند مصنفوں نے نظیر اکبر آبادی جیسے پھکڑ شاعر کو بانس پر چڑھایا تھا ۔ان ترقی پسندوں نے جوکچھ کیا جیسے وہ کم نہ تھا کہ آج تقسیم کے بعد بیچاری اردو کے پیچھے نئی ساڑستی لگی ہوئی ہے۔ شین قاف و پہلے ہی بگڑ چکے تھے اور اب یہ خانماں بربادی ۔ خدا کی سنوار اس موئے فرنگی لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو جس کی بدولت اب برس روز سے اردو یوں سڑکوں کی خاک پھانکتی پھر رہی ہے۔
واللہ کیا عرض کریں حضور۔ اب تو اردو کی ساری اٹھان کا ستیا ناس ہو کر رہ گیاہے۔ نہ و صنائع بدائع رہے نہ وہ ضلع جگت۔ نہوہ تشبیہات نہ وہ استعارے۔ نہ وہ سلطان العلوم رہے نہ سعادت علی خان کے ادبی درباررہے۔ نہ وہ مشاعرے ہیں نہ وہ شعر و سخن کی محفلیں ہیں ۔ ہائے ہائے حضور ۔ اب تو اہل فن اٹھ گئے ۔ بس کٹھ ملا رہ گئے۔
دہلی اور لکھنؤ کے کچھ ٹکسالی اشراف ایسے بھی تھے۔ جنہوں نے اردو کو اس کا کھویا ہوا مقام پھر سے دلانے کی حتیٰ المقدور کوشش کی ۔ مگر نیرنگئی زمانہ کی بابت کیا کہیئے ۔ کہ کل تک جو تتلانا بھی نہیں جانتے تھے۔ آج اردو کے بڑے بڑے جغادری ادیب بن بیٹھے ہیں۔ بقول کسے-- پڑھے نہ لکھے نام محمد ترقی پسند -- اور پڑ گئے اردو کے پیچھے ڈنڈا لے کے ۔ ارے خدا کے بندو۔ اردو بھی کوئی گائے بکری ہے! غضب خدا کا ! یہ صنف نازک ہے۔ صنف نازک ۔ ہوش کے ناخن لو محلوں کی پلی نازک اندام کو کہاں عام لوگوں اور عامیوں میں کھینچ لائے۔ جواب اس کا کون دے ؟
جانے کس کم بخت نے (ادب برائے ادب) کی بجائے(ادب برائے زندگی) کا نعرہ لگایا اور لگا اردو کے جسم کا سارا زیور لوٹنے ۔ صنائع بدائع ، تشبہیہیں، استعارے ،محاورے، ضلع جگت سب لوٹ لیئے تو پھر اس کے خدو خال بگاڑنے شروع کئے، ہر ایرا غیرا نتھو خیرا قسم کا ادیب کان پر قلم رکھ کر نکلا اور خرافات نگاری کے پل باندھنے لگا ۔ پہلے کسی اہل زبان سے بات کرتے تو یوں محسوس ہوتا جیسے پھول جھڑ رہے ہیں اور پھول چنے جا رہے ہیں۔ اب یوں معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اردو نہیں روڑے اور کنکر مار رہا ہے ۔ ان ترقی پسند ادیبوں کی کوئی تحریر اٹھا کر دیکھو تو صاف معلوم ہو جائے گا ۔ جھوٹا مصالحہ کھوٹا کام اجی قبلہ وہ کعبہ ہم دریافت کریں کہ ادب کا زندگی سے کیا تعلق ہے؟ادب کا تو صرف ادب سے تعلق ہو سکتا ہے ۔ ادب اگر ادب سے متعلق نہ رہے تو پھر وہ کہاں کا ادب اور کیسا ادب۔ یا اگر ادب کے تعلق کے لیئے اسی کے شایان شان زندگی بھی ہو ۔ یعنی بادشاہوں کی زندگی۔ امرا کی زندگی ۔۔ یہ فضلو خیرو کی زندگی سے اردو زبان و ادب کو کیا تعلق؟
اللہ اللہ کیا زبان دان تھے وہ لوگ! مرگئے مگر زبان کی اینٹھن نہ گئی ، کوثر و تسنیم میں دھلی ہوئی زبان ۔ ہیروں جواہرات کی طرح جگمگاتی زبان ۔ وہ زبان جو رگ گل سے بلبل کے پر باندھتی تھی ۔ وہ زبان جس کی شاعری کے ہزاروں بحر پھیلے ہوئے تھے ۔ وہ زبان جس کے دامن میں الفاظ کا بہت بڑاخزانہ چھپا ہوا تھا ۔ وہی زبان آج لٹی ہاری نوچی کھسوٹی ژولیدہ زلفیں لئے یوں چوراہے پر کھڑی ہے ۔ آج میر و غالب ، مومن و سودا، انیس و دبیر ، انشا و شیفتہ کی روحیں بہشت میں پریشان اور لشتم پشتم پھر رہی ہونگی کہ ہائے ہائے یہ اردو کی کیا حالت ہو گئی؟
آخری تدوین: