اختر شیرانی گلزارِ جہاں میں گُل کی طرح، گو شاد ہیں ہم شاداب ہیں ہم

گلزارِ جہاں میں گُل کی طرح، گو شاد ہیں ہم شاداب ہیں ہم​
کہتی ہے یہ ہنس کر صبحِ خزاں،سب ناز عبث اک خواب ہیں ہم​
دو دن کے لئے ہم آئے ہیں، اک شب کی جوانی لائے ہیں​
فردوسِ سرائے ہستی میں، ہم رنگ گُلِ مہتاب ہیں ہم​
ادائے پردہ کتنی دلنشیں معلوم ہوتی ہے​
پسِ پردہ کوئی نازِ آفریں معلوم ہوتی ہے​
یہ کس کو دیکھ کر دیکھا ہے میں نے بزمِ ہستی کو​
کہ جو شئے ہے نگاہوں کو حسیں معلوم ہوتی ہے​
کس کا عشق آ پہنچا ہے رسوائی کی منزل تک​
نگاہِ شوخ! اب کچھ شرمگیں معلوم ہوتی ہے​
مجھے میخانہ تھراتا ہوا محسوس ہوتا ہے​
وہ میرے سامنے اُٹھلا کے جب پیمانہ رکھتے ہیں​
جوانی بھی تو ایک موجِ شرابِ تُند و رنگیں ہے​
بُرا کیا ہے اگر ہم مشربِ رندانہ رکھتے ہیں​
چمن کی ہر کلی سے نور کی مستی جھلکتی ہے​
در و دیوار سے مہتاب کی شوخی جھلکتی ہے​
ہیں بحرِ مئے سے بہم، میکدے میں شام و سحر​
کہ ماہتاب قدح، آفتاب ہے ساقی​
خُدائی کہکشاں کہتی ہے جس کو​
وہ سلمٰی کا خرامِ رائیگاں ہے​
 

فرخ منظور

لائبریرین
واہ واہ! بہت خوب انتخاب ناصر صاحب۔ اختر شیرانی کی تمام تخلیقات کا مطالعہ یہاں سے کیجیے اور جو کلام پسند آئے وہ اردو محفل پہ ضرور پوسٹ کیجیے۔ اس پوسٹ کو ذرا دوبارہ دیکھیے کیونکہ میرے خیال میں آپ نے شیرانی کے مختلف کلام ضم کر دیے ہیں۔ بہت شکریہ!
 

فرخ منظور

لائبریرین
ناصر صاحب، پہلی غزل جو آپ نے شروع میں پوسٹ کی ہے۔ وہ مکمل دوبارہ پوسٹ کر رہا ہوں۔ امید ہے ناگوارِ خاطر نہ ہو گا۔​
گلزار ِ جہاں میں گُل کی طرح گو شاد ہیں ہم شاداب ہیں ہم
کہتی ہے یہ ہنس کرصبحِ خزاں،سب نازعبث اک خواب ہیں ہم
کِس ماہِ لقا کے عشق میں یوں بے چین ہیں ہم، بے تاب ہیں ہم
کرنوں کی طرح آوارہ ہیں ہم، تاروں کی طرح بےخواب ہیں ہم
مٹ جانے پہ بھی مسرور ہیں ہم ، مرجھانے پہ بھی شاداب ہیں ہم
شب ہائے شباب و عشق کا اک بھولا ہؤا رنگیں خواب ہیں ہم
فطرت کے جمالِ رنگیں سے ہم نے ہی اٹھائے ہیں پردے
بربط ہے اگر فردوسِ جہاں اس کے لیے اک مضراب ہیں ہم
خوش وقتی ہے وجہِ رنج و الم گلزارِ جہاں میں اے ہمدم
طائر نہ پکاریں شاد ہیں ہم ، غنچے نہ کہیں شاداب ہیں ہم
ملنے پہ گر آئیں کوئی مکاں خالی نہیں اپنے جلووں سے
اور گوشہ نشیں ہو جائیں اگر ، کمیاب نہیں نایاب ہیں ہم
دو دن کے لئے ہم آئے ہیں ، اک شب کی جوانی لائے ہیں
فردوس سرائے ہستی میں ہمرنگ ِ گل و مہتاب ہیں ہم
رُسوائی شعر و عشق نے وہ رتبہ ہمیں اختر بخشا ہے
فخرِدکن و بنگال ہیں ہم ، نازِ اودھ و پنجاب ہیں ہم
(اختر شیرانی)
 
ناصر صاحب، پہلی غزل جو آپ نے شروع میں پوسٹ کی ہے۔ وہ مکمل دوبارہ پوسٹ کر رہا ہوں۔ امید ہے ناگوارِ خاطر نہ ہو گا۔​
گلزار ِ جہاں میں گُل کی طرح گو شاد ہیں ہم شاداب ہیں ہم
کہتی ہے یہ ہنس کرصبحِ خزاں،سب نازعبث اک خواب ہیں ہم
کِس ماہِ لقا کے عشق میں یوں بے چین ہیں ہم، بے تاب ہیں ہم
کرنوں کی طرح آوارہ ہیں ہم، تاروں کی طرح بےخواب ہیں ہم
مٹ جانے پہ بھی مسرور ہیں ہم ، مرجھانے پہ بھی شاداب ہیں ہم
شب ہائے شباب و عشق کا اک بھولا ہؤا رنگیں خواب ہیں ہم
فطرت کے جمالِ رنگیں سے ہم نے ہی اٹھائے ہیں پردے
بربط ہے اگر فردوسِ جہاں اس کے لیے اک مضراب ہیں ہم
خوش وقتی ہے وجہِ رنج و الم گلزارِ جہاں میں اے ہمدم
طائر نہ پکاریں شاد ہیں ہم ، غنچے نہ کہیں شاداب ہیں ہم
ملنے پہ گر آئیں کوئی مکاں خالی نہیں اپنے جلووں سے
اور گوشہ نشیں ہو جائیں اگر ، کمیاب نہیں نایاب ہیں ہم
دو دن کے لئے ہم آئے ہیں ، اک شب کی جوانی لائے ہیں
فردوس سرائے ہستی میں ہمرنگ ِ گل و مہتاب ہیں ہم
رُسوائی شعر و عشق نے وہ رتبہ ہمیں اختر بخشا ہے
فخرِدکن و بنگال ہیں ہم ، نازِ اودھ و پنجاب ہیں ہم
(اختر شیرانی)
اللہ آپ کو خوش رکھے فرخ صاحب
آپ کی وجہ سے مجھے یہ غزل صحیح حالت میں پڑھنے کو ملی
اس میں ناگواری کی بات کہاں سے آ گئی
شرمندہ ہوں کہ مجھ سے مکّرر پوسٹ ہو گئی اور وہ بھی غلط
اور مجھے یہ بھی معلوم ہے اس سے آپ کی ذمہ داریوں پر اضافی بوجھ پڑتا ہے
شاید میرا سرچ کرنے کا طریقہ کار کچھ ٹھیک نہیں
خیر آئندہ ایسی غلطی نہیں ہو گی
 
Top