گلالئی اسماعیل پاکستان سے ’فرار‘ ہو کر امریکہ پہنچ گئیں

جاسم محمد

محفلین
گلالئی اسماعیل پاکستان سے ’فرار‘ ہو کر امریکہ پہنچ گئیں
  • 19 ستمبر 2019
Image copyright Getty Images
_108873324_gettyimages-625498620.jpg

Image caption گلالئی اسماعیل کو ان کی خدمات کے صلے میں اعزازات بھی ملے ہیں

سماجی کارکن گلالئی اسماعیل پاکستان سے ’فرار‘ ہو کر امریکہ پہنچ گئی ہیں جہاں وہ اپنی بہن کے پاس نیو یارک میں رہ رہی ہیں۔

اخبار دی نیو یارک ٹائمز سے بات کرتے ہوئے انھوں نے یہ تو نہیں بتایا کہ وہ پاکستان سے کیسے نکلیں لیکن انھوں نے اپنے انٹرویو میں یہ کہا کہ ’میں کسی ہوائی اڈے سے نہیں اڑی۔‘

اس کے علاوہ ان کا کہنا تھا کہ ’میں آپ کو مزید کچھ نہیں بتا سکتی۔ میری ایگزٹ سٹوری سے بہت سے لوگوں کی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔‘

گلالئی اسماعیل کے والد پروفیسر محمد اسمعیل نے بی بی سی اردو کے نامہ نگار رفعت اللہ اورکزئی کو بتایا ہے کہ ان کی بیٹی کے خلاف پاکستان کے مختلف عدالتوں میں چھ مقدمات زیر سماعت تھے۔

یاد رہے کہ مئی میں اسلام آباد کی پولیس نے 10 سالہ بچی فرشتہ کے واقعے پر احتجاج میں شامل سماجی کارکن گلالئی اسماعیل کے خلاف مختلف الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔ ان پر الزام تھا کہ اُنھوں نے 'اس واقعے کی آڑ میں لوگوں کو حکومت وقت اور فوج کے خلاف بھڑکایا ہے'۔ اس مقدمے میں انسداد دہشت گردی کی دفعات بھی لگائی گئی تھیں۔

نیویارک ٹائمز کے مطابق گذشتہ مئی ان کے ایک دوست نے ان کے گھر پر فون کیا کہ وہاں سکیورٹی فورسز چھاپہ مارنے والی ہیں تو وہ جلدی جلدی گھر سے نکل گئیں۔

’یہ ایسا لمحہ ہوتا ہے جب آپ کے پاس محسوس کرنے کا وقت نہیں ہوتا۔ آپ کے پاس خوف کا وقت نہیں ہوتا، آپ کے پاس بہادر بننے کا بھی وقت نہیں ہوتا، بس آپ کو عمل کرنا ہے۔‘

نیویارک ٹائمز سے بات کرتے ہوئے انھوں نے ایک واقعے کا ذکر کیا کہ جب وہ سکیورٹی فورسز سے بھاگ کر اپنے والد کے ایک دوست کے گھر پہنچی تھیں۔ اور جب اس دوست نے گلالئی کو دیکھا تو وہ سکتے میں آ گئے۔

’وہ اتنے ڈرے ہوئے تھے کہ جیسے وہ ایک دہشت گرد کی حمایت کر رہے ہیں اور ان کے بچے گرفتار کر لیے جائیں گے۔‘

اگلے دن ان کے لیے ٹیکسی منگوائی گئی اور وہ چلی گئیں۔

’چھپنا کوئی خوشگوار کام نہیں‘
Image copyright Getty Images
_107078395_e92e8c29-88cc-47b8-96f2-007e5a2d2ded.jpg

Image caption گلالئی اسماعیل پر اس سے پہلے بھی کیس ہو چکے ہیں

گلالئی اسماعیل نے ایک نیا ریسرچ اور ایڈوکیسی گروپ ’وائسس فار پیس اینڈ ڈیموکریسی‘ کے نام سے شروع کیا ہے۔ وہ لاء سکول میں داخلہ لینے کا بھی سوچ رہی ہیں۔ تاہم انھیں اپنا ملک چھوڑنے کا بہت دکھ ہے۔

’جب میں نکلی تھی تو مجھے پتہ تھا کہ یہ ایک ون وے ٹرپ ہے۔ اور جب میں (ملک) چھوڑ رہی تھی، تو میں نیچے جھکی اور مٹی کو چھوا۔ میں نے اپنے آپ سے کہا کہ میرا تعلق یہاں سے ہے، میرا ملک یہ ہے۔‘

نیویارک ٹائمز کے مطابق ڈیموکریٹ سینیٹر چارلز شومر کا کہنا ہے کہ ’میں گلالئی کی پناہ کی درخواست کی حمایت کے لیے جو کچھ کر سکا کروں گا۔ یہ واضح ہے کہ اگر وہ پاکستان واپس گئی تو ان کی جان کو خطرہ ہوگا۔‘

’میری ابھی گلالئی سے تفصیل سے بات نہیں ہوئی‘
گلالئی اسماعیل کے والد پروفیسر محمد اسمعیل نے بی بی سی اردو کے نامہ نگار رفعت اللہ اورکزئی کو بتایا کہ ان کی بیٹی پر پاکستان کے مختلف عدالتوں میں چھ مقدمات زیر سماعت تھے۔

انھوں نے کہا کہ ان میں اسلام آباد میں ہلاک ہونے والی پشتون بچی فرشتہ کیس میں احتجاج کے سلسلے میں تین مقدمات درج کیے گئے، اس کے علاوہ پی ٹی ایم جلسوں میں شرکت اور وہاں تقریریں کرنے پر دو مقدمات جبکہ این جی او کی رقم مبینہ طور پر کالعدم تتنظیموں میں تقسیم کا ایک مقدمہ بھی زیر سماعت ہے جس میں ان کے والدین (میں اور میری بیوی) کے ناموں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ مئی میں جب گلالئی اسماعیل کی ایک کیس میں ضمانت پر رہائی ہوئی تو انھیں اس وقت اندازہ ہوگیا تھا کہ ’آنے والے دنوں میں پی ٹی ایم کے رہنماؤں محسن داوڑ اور علی وزیر سمیت ان کے خلاف نہ صرف مزید مقدمات درج کیے جائیں گے بلکہ خطرہ تھا کہ انھیں جیلوں میں تشدد کا نشانہ بنائے جائے گا۔‘

انھوں نے کہا کہ 'اس وقت گلالئی نے فیصلہ کیا کہ پاکستان میں اب ان کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہیں لہذا اسے یہ ملک چھوڑنا ہوگا ورنہ ان کے ساتھ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔'

جب ان سے پوچھا گیا کہ گلالئی اسماعیل امریکہ کیسے پہنچیں تو اس پر پروفسیر اسماعیل نے کہا کہ ’میری ابھی گلالئی سے اس ضمن میں کوئی مفصل بات نہیں ہوئی ہے۔'

ان کے مطابق جب سے گلالئی اور ان کے خلاف مقدمات کا اندراج کیا گیا ہے اس کے بعد سے مسلسل ان کے صوابی اور اسلام آباد کے گھروں پر چھاپے پڑ رہے ہیں جس سے ان کی مشکلات روز بروز بڑھتی جا رہی ہیں۔
 
Top