بھئی بہت بھول بھلیاں ہیں اس ترتیبات کے سیکشن میں تو ۔ ڈھونڈ ڈھانڈ کر اب ٹھیک کر دیا ہے ۔ میں پھر کہوں گی کاش کوئی ایسی جامع لڑی ہوتی کہ جہاں اس ویب سائٹ کی "ترکیب ِ استعمال" ایک ہی جگہ مل جاتی ۔:):)
مکرم ابن سعید صاحب ! کچھ چارہ گری کیجئے ۔ کسی کو لگائیے اس کام پر ۔ :):)
کچھ احباب ایسی کوششیں کرتے ہوئے پائے تو گئے ہیں۔ امید ہے کہ ایسا مواد دیر سویر تیار ہو ہی جائے گا۔ ویسے تھوڑی سی کوشش اور کچھ تجربات کرنے سے چیزیں خود سمجھ میں آ جانی چاہئیں۔ :) :) :)
 

خرم انصاری

محفلین
عالی جناب محمد یعقوب آسی صاحب! ماشاء اللہ آپ نے بہت نفع مند باتیں بتائیں مگر اس نافہم کی فہم میں پوری طرح نہ آ سکیں۔ اس لیے فقط سمجھنے کی غرض سے کہ نہ اعتراض اور نہ رد سے ہے ہم کو مطلب، ان پر کچھ اشکالات وارد کر رہا ہوں امید ہے ملول نہ ہوں گے اور تشفی بخش جواب سے نواز کر وسعت نظر و فکر کا ثبوت دیں گے، تو جناب آپ نے درج ذیل عبارت میں
نہ نافیہ ہے: یوں نہ کیجئے، "نہ جان نہ پہچان خالہ جی سلام، نہ دیکھا نہ بھالا صدقے گئی خالہ"، ہر بات پر نہ نہیں کیا کرتے
نا سابقہ کے طور پر تضاد کے معانی دیتا ہے: ناانصافی، ناپائیدار، ناپید، نارسا، ناکام، ناساز، ناکارہ
”نہ“ اور ”نہیں“ کے معانی میں فرق بالترتیب ”نفی“ اور ”تضاد“ کا بیان فرمایا۔ اس پر معروض ہے کہ بیان کردہ مثالوں میں تضاد سے بھی تو نفی کا معنی پیدا ہو رہا ہے مثلاً ”زید نے ناانصافی کی“ یا یوں کہہ لیجیے: ”زید نے انصاف نہیں کیا“ دونوں ایک ہی معنی دے رہے ہیں، زید سے انصاف کی نفی کر رہے ہیں اور نفی و نفی میں تضاد کیسا!!! لہٰذا معناً تو کوئی فرق معلوم نہیں پڑ رہا۔
نظر بر ایں امثال فقیر کو یہ بات سمجھ آ رہی ہے کہ ”نہ“ فعل کے ساتھ آتا ہے جبکہ ”نا“ اسم کے شروع میں بطور سابقہ مل کر اسے ”متضاد اسم“ بنا دیتا ہے اور یہ (نا) ”نہ“ کی ہی تبدیل شدہ صورت معلوم ہوتی ہے۔
"یہ قرضِ محبت ہے ادا ہو کے رہے گا" سید علی مطہر اشعر
یہاں "کے" کا ایک اور معنی ذہن میں تازہ ہو گیا: یعنی فعل کی تجری۔ دیکھ کر، دیکھ کے؛ سن کر، سن کے؛
اس میں دو فعل جڑتے ہیں: دیکھ کر چلو یار!، کھا کر تو دیکھو!، جب میں سو کر اٹھا، گھر آ کر دیکھا کہ ۔۔۔، ایسے جملوں میں "کے" اور "کر" ہم معنی ہوتے ہیں۔
مثالوں میں تو واقعی ”فعل کی تجری“ پائی جا رہی ہے لیکن ذکر کردہ مصرعے میں تو ”فعل میں قوت“ پیدا ہو رہی ہے۔
 
آخری تدوین:
محترمہ، یہ آپ کی ذرہ نوازی و انکسار ہے ورنہ آپ کی لگائی ہوئی گرہ واقعتاً حسد میں مبتلا کر گئی :laughing:
وہ جو کسی نے کہا تھا نا کہ جب قدرت کسی اچھے شاعر کو سزا دیتی ہے تو اس پر بُرا شعر نازل کردیا جاتا ہے ۔ اور جب کسی اچھے شعر کو سزا دینا مقصود ہو تو اسے کسی بُرے شاعر پر نازل کردیا جاتا ہے ۔ تو بات یہ ہے کہ اس شعر کے پہلے مصرع کو سخت سزا دی جارہی ہے اور بس ۔ اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ۔ :):):)
 

خرم انصاری

محفلین
”نہ“ اور ”نہیں“ کے معانی میں فرق بالترتیب ”نفی“ اور ”تضاد“ کا بیان فرمایا۔ اس پر معروض ہے کہ بیان کردہ مثالوں میں تضاد سے بھی تو نفی کا معنی پیدا ہو رہا ہے مثلاً ”زید نے ناانصافی کی“ یا یوں کہہ لیجیے: ”زید نے انصاف نہیں کیا“ دونوں ایک ہی معنی دے رہے ہیں، زید سے انصاف کی نفی کر رہے ہیں اور نفی و نفی میں تضاد کیسا!!! لہٰذا معناً تو کوئی فرق معلوم نہیں پڑ رہا۔
ابھی ایک خیال بجلی کوندنے کی طرح ذہن کی تاریکیوں میں چمکا کہ ”نا“ چونکہ اسم کے ساتھ بطورِ سابقہ مل کر اسے ”متضاد اسم“ بنا دیتا ہے اس لیے اس کے استعمال سے جملہ مثبت رہے گا جبکہ ”نہ“ جملے کو منفی بنا دے گا۔۔۔۔۔۔۔اس طرح ان دو جملوں میں نفی اور اثبات کا فرق پایا جائے گا نتیجہ اگرچہ ایک ہی نکلے گا۔۔۔۔۔۔۔مگر یہ فرق بھی تو لفظی ہی ہو گا۔۔۔۔۔۔واللہ ورسولہ اعلم عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم
 
اس طرح ان دو جملوں میں نفی اور اثبات کا فرق پایا جائے گا نتیجہ اگرچہ ایک ہی نکلے گا
چلئے کچھ کچھ آپ بھی مائل بہ کرم لگے۔ بات الفاظ اور ساختیات کی ہو رہی ہے۔ جملے کے معانی و مفاہیم میں وہی ایک لفظ نہیں ہوتا ایک پورا نظام ہوتا ہے۔
اس فقیر نے "نہ" اور "نہیں" کا تقابل تو نہیں کیا؛ "نہ" اور "نا" کی بات کی ہے۔ آپ نے خود فرما دیا کہ: فلاں نے ناانصافی کی : فلاں نے انصاف نہیں کیا؛ ان دونوں جملوں سے ایک مفہوم لینے کے لئے دوسرے جملے میں لفظ "نہیں" لانا پڑا ہے۔ اگر فرض کیجئے ایسا ہوتا کہ : فلاں نے ناانصافی نہیں کی؟ ۔۔۔ میرا خیال ہے آپ میرا نکتہ پا گئے ہیں۔
دعاؤں میں یاد رکھئے گا۔
 
مثالوں میں تو واقعی ”فعل کی تجری“ پائی جا رہی ہے لیکن ذکر کردہ مصرعے میں تو ”فعل میں قوت“ پیدا ہو رہی ہے۔
یہاں بھی وہی گزارش! "ہو کے رہے گا" ۔۔۔ ہونا اور رہنا کو ملایا ہے "کے" نے ۔۔ قوت کا عنصر رہنا کے معانی میں ہے؛ دو فعلوں کے ملنے سے مشروط نہیں۔
وہ چٹنی کی پیالی اٹھا کر (اٹھا کے) بھاگ گئی۔ بچے نے چلّا کر کہا۔ میں سو کر اٹھا۔ تم نے کھا کے دیکھا؟ وہ چکرا کر گرا۔۔ ان میں وہ قوت نہیں ہے۔
میں یہ پتھر توڑ کر دکھاؤں گا (توڑ کے دکھاؤں گا) ۔ اس میں بھی قوت ہے جو "دکھانا" کی مرہون ہے، "کے" یا "کر" کی نہیں۔ زیرِ بحث کے اور کر تھا، رہنا دکھانا نہیں۔
بارے پھر دعاؤں کا طالب ہوں
 
آخری تدوین:
نظر بر ایں امثال فقیر کو یہ بات سمجھ آ رہی ہے کہ ”نہ“ فعل کے ساتھ آتا ہے جبکہ ”نا“ اسم کے شروع میں بطور سابقہ مل کر اسے ”متضاد اسم“ بنا دیتا ہے اور یہ (نا) ”نہ“ کی ہی تبدیل شدہ صورت معلوم ہوتی ہے۔
ان دونوں میں رشتہ تو نفی کا ہے! فرق استعمال اور مقام کا ہے جسے واضح کرنا مقصود تھا۔
ایک مفہوم ہے کہ: "انصاف کرو" یہی قریب قریب یوں بھی ہو سکتا ہے: "ناانصافی نہ کرو" ۔۔ ہم نے اسم کی ضد (نا) کو اختیار کیا تو فعل کے ساتھ بھی نفی (نہ) وارد ہوا، تب مفہوم اصل کے قریب رہا۔ یعنی نفی کی نفی ۔
ایک مفہوم کو سو طریقوں سے ادا کیا جا سکتا ہے۔ ساختیات کا معاملہ ساختیات کا معاملہ ہے مفاہیم میں اور بہت سے عناصر ہو سکتے ہیں۔
دعاؤں کا طالب رہا کرتا ہوں۔
 
معذرت خواہ ہوں، آپ کا مصرع مجھ پر کھلا نہیں۔
اب عشق عداوت سے جدا ہو کے رہے گا؟
یہ بات کسی کہانی کے پس منظر میں ہوسکتی ہے کہ اپنی محبت کو پانے کی خاطر عاشق اپنی دشمنی فراموش کر دے۔
میرے لئے یہ اہم ہے کہ اگر استاد محترم پر مصرع کھلا نہیں تو عوام پر کیا کھلے گا!! اور جو شعر ایسا غیر واضح ہو اسے کالعدم ہی کر دینا چاہئے۔ :) تو میری طرف سے یہ کالعدم ہے۔
 

ابن رضا

لائبریرین
السلام علیکم ، استادِ محترم
چلئے ہم مصرع دیتے ہیں:
"یہ قرضِ محبت ہے ادا ہو کے رہے گا" سید علی مطہر اشعر
مفعول مفاعیل مفاعیل فعولُن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انجامِ وفا تجھ سے میں غافل تو نہیں ہوں
"یہ قرض ِ محبت ہے ادا ہو کے رہے گا"
 

اکمل زیدی

محفلین
یہ بات کسی کہانی کے پس منظر میں ہوسکتی ہے کہ اپنی محبت کو پانے کی خاطر عاشق اپنی دشمنی فراموش کر دے۔
میرے لئے یہ اہم ہے کہ اگر استاد محترم پر مصرع کھلا نہیں تو عوام پر کیا کھلے گا!! اور جو شعر ایسا غیر واضح ہو اسے کالعدم ہی کر دینا چاہئے۔ :) تو میری طرف سے یہ کالعدم ہے۔

کالعدم ..سے..ذہن میں آیا کے آپ اسے کالعدم...کر کے کسی اور نام سے آجائیں....ہم نے تو یہی ہوتے دیکھا تو خیال آیا یہ اصطلاح ..آپ پر استمال کروں ....:)
 

اکمل زیدی

محفلین
یہ بات بالکل مجھ پر واضح نہیں ہوئی :)
میں کہنا یہ چہ رہا تھا جو یعقوب صاحب ...نے یکبارگی مجھے یھاں مشورے سے نوازا تھا کے...کوئی نیا خیال کوئی نئی گرہ باندھ دیں .... کالعدم میں بھی یہی ہوتا ہے آتی وہیں سے ہے جہاں سے کالعدم ہوجائے .....
 
یہ بات کسی کہانی کے پس منظر میں ہوسکتی ہے کہ اپنی محبت کو پانے کی خاطر عاشق اپنی دشمنی فراموش کر دے۔
میرے لئے یہ اہم ہے کہ اگر استاد محترم پر مصرع کھلا نہیں تو عوام پر کیا کھلے گا!! اور جو شعر ایسا غیر واضح ہو اسے کالعدم ہی کر دینا چاہئے۔ :) تو میری طرف سے یہ کالعدم ہے۔
ایسے نہ کہئے حضرت! میرا "مزاجِ فکر" خاصا پرانا ہے اور کلاسیک سے متاثر ہے۔ "فکرِ جدید" نے بہت سے نئے راستے بنائے ہیں، میں ان سے شناسا نہیں تو بھی میں ان کے وجود کا انکار تو نہیں کر سکتا۔ اپنے شعر کو آج کے دور کے دوستوں کے سامنے پیش کریں۔
 

خرم انصاری

محفلین
زید نے انصاف نہیں کیا
اس فقیر نے "نہ" اور "نہیں" کا تقابل تو نہیں کیا؛
دراصل میں اسے اس طرح لکھنا چاہتا تھا: زید نے انصاف نہ کیا۔
بہرصورت آپ وضاحت فرما چکے ہیں۔
بات الفاظ اور ساختیات کی ہو رہی ہے۔ جملے کے معانی و مفاہیم میں وہی ایک لفظ نہیں ہوتا ایک پورا نظام ہوتا ہے۔
ساختیات کا فرق تو سمجھ رہا ہوں لیکن آہ میری غباوت! ان دونوں میں معانی ومفاہیم کا فرق ابھی تک نہ سمجھ پایا۔۔۔۔ میرا خیال ہے کہ "معنی" حاصل جملہ کو ہی کہیں گے؟؟
ان دونوں میں رشتہ تو نفی کا ہے! فرق استعمال اور مقام کا ہے جسے واضح کرنا مقصود تھا۔
استعمال اور مقام کا تعلق تو لفظ سے ہی ہوتا ہے۔۔۔۔۔آپ کے اس جملے سے ذہن میں بلاغت کی وہ باتیں گھوم گئیں جن میں الفاظ کے محل استعمال سے معانی میں پیدا ہونے والا فرق بیان کیا گیا تھا۔۔۔۔۔لیکن ”نہ“ اور ”نا“ کے استعمال سے معنی میں کیا فرق پڑتا ہے یہ سمجھ میں نہ آیا۔ دراصل میں یہی نکتہ سمجھنا چاہتا ہوں۔
یہاں بھی وہی گزارش! "ہو کے رہے گا" ۔۔۔ ہونا اور رہنا کو ملایا ہے "کے" نے ۔۔ قوت کا عنصر رہنا کے معانی میں ہے؛ دو فعلوں کے ملنے سے مشروط نہیں۔
وہ چٹنی کی پیالی اٹھا کر (اٹھا کے) بھاگ گئی۔ بچے نے چلّا کر کہا۔ میں سو کر اٹھا۔ تم نے کھا کے دیکھا؟ وہ چکرا کر گرا۔۔ ان میں وہ قوت نہیں ہے۔
میں یہ پتھر توڑ کر دکھاؤں گا (توڑ کے دکھاؤں گا) ۔ اس میں بھی قوت ہے جو "دکھانا" کی مرہون ہے، "کے" یا "کر" کی نہیں۔ زیرِ بحث کے اور کر تھا، رہنا دکھانا نہیں۔
بارے پھر دعاؤں کا طالب ہوں
الحمد للہ عزوجل! یہ عقدہ بخوبی کشا ہوا۔ جزاک اللہ خیراً
قابل صد احترام محمد یعقوب آسی صاحب! یہ لکھتے ہوئے شدت سے احساس ہو رہا ہے کہ بندۂ عاجز کے یہ الفاظ آپ کو تکلیف نہ دے رہے ہوں، اگر ایسا ہے تو معذرت خواہ ہوتا ہوں اور آیندہ احتراز کروں گا۔ دعاؤں کی درخواست
 
Top