گرو دکھشنا پیش کیجیئے

پاکستانی

محفلین
وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، بیروت

جنگ بندی تو ہونی ہی ہے اب نہیں تو سات دن بعد سہی۔ ساڑھے پانچ سو لاشوں پر نہ سہی نو سو پوری ہونے پر سہی مگر لبنان کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔اسے بہرحال کئی برسوں تک اس ایک مہینے کی قیمت چکانی پڑے گی۔
اس ملک کو سولہ برس کی خانہ جنگی کے بعد مرحوم وزیرِاعظم رفیق الحریری نے بہت محنت سے سنوارا تھا۔ بیروت کی تعمیرِ نو پر اربوں ڈالر لگے تھے۔ بین الاقوامی معیار کی شاہراہوں کا جال بچھانے پر بہت محنت کی گئی تھی اور ہتھیار بند شیعہ ، سنی اور عیسائی ملیشیاؤں کو یہ سمجھانے میں پسینے چھوٹ گئے تھے کہ آئندہ وہ سب لبنانی بن کر سوچیں گے۔
لیکن گزشتہ تین ہفتے میں یہ ملک کم ازکم مادی طور پر تیس برس پیچھے چلا گیا ہے۔ اب تک لگ بھگ دس ارب ڈالر کا انفراسٹرکچر تباہ ہوگیا ہے۔ صرف سیاحت کی مد میں اس برس جو دو ارب ڈالر کی متوقع آمدنی تھی وہ ہوٹلوں کے خالی کمروں اور ریستورانوں کی خالی میزوں میں بدل چکی ہے۔ نیلا سمندر تیل کے ذخائر کی بربادی کے بعد سیاہی مائل ہو رہا ہے۔
پورے ملک میں آدھے سے زائد کاروبار بند ہیں۔ اسکول جانے والے بچے جمائیاں لے رہے ہیں۔ آٹھ لاکھ لوگ گھروں کو چھوڑ چکے ہیں اور پانچ لاکھ کے لگ بھگ جنگی علاقے میں یرغمال بنے ہوئے ہیں۔ شاہراہیں موجود ہیں تو پل اڑ گئے ہیں۔گاڑیاں ہیں تو پٹرول نہیں۔ پٹرول مل بھی جائے تو اسرائیلی جیٹ طیارے نہیں چھوڑتے۔اس لیئے بھاگنا یا نہ بھاگنا سب بے سود ہے۔
اب سے ایک برس قبل امریکہ بے حد خوش تھا کہ تیس برس بعد لبنان کو شام کے فوجی تسلط سے چھٹکارا مل گیا۔ لبنانیوں نے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے ذریعے ایک ایسی حکومت منتخب کرلی جو امریکہ کی بھی دوست ہے۔ بیروت وہ شہر تھا جہاں صرف بیس روز پہلے تک پچیس ہزار امریکی باشندے رہتے تھے۔ لیکن امریکہ کا لبنانی حکومت اور جمہوریت پر اعتماد بھی اسے توڑ پھوڑ سے نہ بچا سکا۔
کونڈولیزا رائس کے بارے میں کم لوگ جانتے ہیں کہ وہ جتنی اچھی سفارت کار ہیں اس سے کہیں اچھا پیانو بجانا جانتی ہیں۔جتنے انہیں سفارتی داؤ پیچ آتے ہیں اس سے زیادہ انہیں سر سے آگہی ہے۔
میاں تان سین جب سر لگاتا تھا تو شعلہ بجھ جاتا تھا۔گلاس ٹوٹ جاتا تھا مگر کونڈولیزا رائس نے تو اپنے پیانو سے ایسا سر چھیڑا ہے کہ ایک پورا ملک شعلوں کی لپیٹ میں آ گیا ہے۔
مجھے یقین ہے کہ اگر میاں تان سین زندہ ہوتے تو مس رائس کوگرو دکھشنا پیش کر رہے ہوتے اور جلتے روم کو دیکھ کر بانسری بجانے والا نیرو مس رائس کے قدموں میں لوٹ رہا ہوتا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
جزاک اللہ پاکستانی بھائی، ویسے وسعت اللہ خان شاید بھول رہے ہیں‌کہ میاں‌تان سین کا مشہور راگ، یہی دیپک راگ تھا۔ یعنی دیا جلانا۔ کنڈولیزا رائس البتہ اپنے سر سے پورا ملک کیا پورا خطہ جلا رہی ہیں
قیصرانی
 
Top