گرمی کی چھٹیوں میں پہچان کا لمحہ (کالم از شاہد ملک)

عاطف بٹ

محفلین
گرمی کی چھٹیوں میں پہچان کا لمحہ

شاہد ملک
روزنامہ پاکستان، لاہور۔ 02 ستمبر 2012ء​


ستمبر 1965ءکے موضوع پر دلوں کو گرمانے والی کہانیوں میں وہ اخباری رپورٹیں بھی ہیں جو فائر بندی کے بعد میدان کارزار کا دورہ کرنے والے سیکرٹری اطلاعات الطاف گوہر کے نام کے ساتھ مختلف محاذوں کی ڈیٹ لائن سے شائع ہوتی رہیں ۔ ان خبروں کو دیکھ کر اپنے زمانے کے خوش فکر صحافی اور بعد ازاں پاکستان ٹیلی ویژن کے ڈائریکٹر نیوز مصلح الدین نے الطاف گو ہر پر ”پوسٹ وار کارسپانڈنٹ“ کی پھبتی کسی تھی ۔ جنگی وقائع نگار کی معروف اصطلاح کے بر عکس اس اچھوتی ترکیب میں جو بے ساختہ پن ، تمسخر اور ایک گونہ تشکیک ہے، اس پر مصلح الدین مرحوم کی تخلیقی ذہانت کی مہر لگی ہوئی ہے ۔ بہر حال یہ الفاظ ایک حکومتی شخصیت کے بارے میں تھے ، وگرنہ احمد ندیم قاسمی کی نظم ’ ’چھ ستمبر“ کو ذہن میں لائیں تو :
میری تاریخ کا وہ بابِ منور ہے یہ دن
جس نے اک قوم کو خود اس کا پتا بتلایا
یہ جنگ کیوں شروع ہوئی ؟ اس کے پیچھے کون سے مقاصد تھے اور وہ کس حد تک پورے ہوئے ؟ اندرون ملک اس کا پولیٹکل فال آﺅٹ کیا تھا ؟ اور پھر ہمارے دونوں بازﺅں کے باہمی تعلق پر پڑنے والے وہ تاریخی اثرات، جنہوں نے ہمارا جغرافیہ ہی نہیں بدلا ، نفسیات بھی بدل ڈالی ؟ یہ سوالات اتنے ہی اہم ہیں جتنا جواب طلب یہ سوال کہ جنگ سے پہلے ہم نے جو ”آپریشن جبرالٹر“ شروع کیا، اس کے لئے خود وادی ءکشمیر کی سیاسی فضا کتنی سازگار تھی اور اس کے مخالف ، آزاد کشمیر کے اولین منتخب صدر کے ۔ ایچ ۔ خورشید کو کیا دلائی کیمپ کے اندر قید تنہائی میں ڈال دینا ضروری تھا ۔ یہ مفروضہ بھی ناقابل فہم ہی رہا کہ بھارت ، جس کے عزائم پر آپ زمانہ ءامن میں بھی اعتبار نہیں کرتے ، سنگین مشکل سے دوچار ہو کر بین الاقوامی سرحد عبور نہیں کرے گا ۔
یہاں مجھے یہ اعتراف کرنے دیجئے کہ میرے ذہن میں یہ سوالات بہت بعد میں پیدا ہوئے ۔ اس وقت جماعت نہم کے اس طالب علم کو ان سوالوں کا شعور نہیں تھا ، نہ ابتدا میں یہ اندازہ تھا کہ کوئی بھی جنگ صرف عسکری فرنٹ پر نہیں لڑی جاتی ۔ جیسے فوجی محاذ پر توپخانہ ، لڑاکا اور بمبار طیارے ، فریگیٹ اور ڈسٹرائر ہی آپ کے ہتھیار ہیں ، مگر ان کے ساتھ ساتھ لا جسٹکس ، حکمت عملی ، منصوبہ بندی اور خارجہ پالیسی کے لا تعداد ملحوظات کا خیال بھی رکھنا پڑتا ہے ۔ پھر بھی سب سے بڑی لڑائی وہ ہے جو آپ اپنے باطن کے اندر مورچہ بند ہو کر لڑتے ہیں ۔ اس لڑائی کی جیت بیرونی جنگ میں آپ کی فتح کا پیش خیمہ ہوتی ہے ، اور اسی کے نشے میں وہ بہت سے سوال جن کی طرف اشارہ کیا گیا محض ذیلی اہمیت کے نکتے بن کر رہ جاتے ہیں ۔
ًٰ1965ءکی لڑائی کو یاد کریں تو فتح صرف یہ نہیں کہ ہم نے دشمن کے کتنے آدمی مارے ، کتنے طیارے اور ٹینک تباہ کئے اور کتنے علاقے پر ہمارا قبضہ ہوا ۔ بلا شبہ یہ سب کے سب فتح کے نمایاں پیرا میٹر ہیں ۔ اس لحاظ سے سیالکوٹ ، لاہور ، قصور اور راجستھان کے محاذوں پر، بلکہ فضا ، زمین اور سمندر میں ہر جگہ پاکستانیوں نے اپنے سے کئی گنا بڑی طاقت کا حملہ پسپا کر دیا اور کئی محاذوں پر پیش قدمی بھی کی ۔ اس کے باوجود اس سے کئی گنا بڑی کامیابی یہ تھی کہ ہم نے اپنے باطن کے خوف پر قابو پا لیا اور سر سے پاﺅں تک اس کا یقین ہو گیا کہ ہم حق پر ہیں ، اس لئے ہم ہر حال میں کامیاب ہوں گے ۔
عین اس وقت یہ تو یاد نہیں آ رہا کہ آیا صدر ایوب نے ریڈیو پر اس دن ساڑھے بارہ بجے تقریر کی یا پانچ دس منٹ آگے پیچھے ، البتہ اتنا ضرور یاد ہے کہ انگریزی اور اردو دونوں متن ان کی اپنی آواز میں تھے ۔ گھن گرج کے بغیر نپی تلی مختصر سی بات کہ رات کی تاریکی میں اعلان جنگ کے بغیر حملہ ہوا ہے ۔۔۔ ہمارے دس کروڑ دلوں میں کلمہ بسا ہواہے ۔۔۔ بھارت کو معلوم نہیں کہ اس نے کس قوم کو للکارا ہے ۔۔۔ پھر کچھ اس طرح کا حکم کہ جاﺅ اور دشمن پر ٹوٹ پڑو ۔ تقریر کے بعد میاں شہریار کی موسیقی میں ملکہ ءترنم کا ”اے وطن کے سجیلے جوانو“ سنا تو اس سیسہ پلائی ہوئی قوم کو پتا ہی نہیں چل رہا تھا کہ ان ”سجیلوں“ میں کون فوجی ہے اور کون سویلین ۔ یہاں تک کہ لوگ آٹھ ماہ پہلے صدارتی الیکشن کی دھاندلی کو بھی بھول گئے ۔
اس موقع پر نویں جماعت کے طالب علم کے لئے ہمت و ولولے کا ایک ذاتی ذریعہ اور بھی تھا ۔ وہ ہیں ہیڈ ماسٹر شمیم صدیقی کے الفاظ کہ عزیز بچو ، تم تلوار ہو ، تم ٹینک ہو ، تم توپ ہو ، تم اس قوم کے بازو ہو ! ہیڈ ماسٹر صاحب نے ”توپ“ کے لفظ میں نون غنہ کی ہلکی سی آواز شامل کر دی ۔ شائد آپ کو یاد ہو کہ ہمارے بچپن میں بعض عمر رسیدہ لوگ ”چانول اور کرانچی “ہی بولا کرتے تھے ، مگر اس دن تو یہ فالتو تنوین ہمیں اپنے ہیڈ ماسٹر کی اضافی حب الوطنی کا اظہار لگی۔ اس دن تک گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد ابھی سکول نہیں کھلے تھے ، البتہ ہمیں یہ کہہ کر بلا لیا گیا کہ دفاعی فنڈ ، فوجیوں کے لئے تحفے اور سرحدی علاقوں کے متاثرہ کنبوں کے لئے سامان جمع کرنے کی خاطر ہر کلاس کے چار چار طالب علم درکار ہیں ۔
ہمارے گروپ نے ، جس کے ذمے واہ کے سیکٹر سولہ ای اور ای وی کا علاقہ تھا ، اپنے طور پر مانگ تانگ کے فوجی وردیاں پہن لیں ، اور یہ بھی نہ سوچا کہ اس حرکت سے یونیفارم ایکٹ کی خلاف ورزی ہو رہی ہے ۔ اصل میں ساری قوم ہی بھارت سے ”بائی ہینڈ“ لڑنے کو بے چین تھی ، یونیفارم ایکٹ کو کون پوچھتا ۔ پھر ہمارے دلوں میں غلام سرور نامی مگر ”کنڈور“ کے عرف سے جانے گئے جنگ عظیم والے بینڈ ماسٹر کا عطا کردہ جذبہ بھی تھا ، جو ہر صبح سارے سکول کو پی ٹی کرایا کرتے تھے۔ نظریں سامنے ، چھاتی باہر ،پورے زور سے۔ مزید غیرت دلانے کے لئے کہتے ....نہیں ہے جان ، خدا کی زمین دکھتی نہیں اور ساتھ ہی فوج کے ”قبول اسلام“ سے پہلے کے گورے سارجنٹوں والے ”کاشن“ شروع ہو جاتے، مگر پاٹدار پوٹھواری لہجے میں ۔ یعنی ’ہوشیار باش‘ کی جگہ ’ٹین چھا‘ او ر ’آسان باش‘ کی بجائے ’ٹنڈے ٹیز‘ ۔
٭٭٭
سکول کے لڑکوں میں ایسی شہرت والے بھی ہوتے ہیں کہ محلے کی کرکٹ ٹیم بنائی اور چندہ جمع کر کے کھا گئے ۔ ہم چاروں میں ایسا ”افلاطو گولہ“ کوئی نہیں تھا ، اس لئے نقد رقم ، بسکٹوں کے پیکٹ ، متاثرین کے لئے پتلون ، قمیصیں ، چادریں ، یہاں تک کہ جوتے ، جو کچھ بھی ملتا ایک چھپے ہوئے فارم پر نام اور پتے کے ساتھ سب کے سامنے درج کر لیا جاتا ۔ اس انتہائی سنجیدہ کام میں بھی خوشدلی کے کئی پہلو تھے ۔ جیسے ہمارے ایک استاد عبدالماجد خان کی دونوں ٹانگیں چھوٹی بڑی تھیں ، چنانچہ چال کو متوازن رکھنے کے لئے ایک پاﺅں میں عام ”آکسفورڈ شو “ پہنتے، جبکہ دوسرے میں کوئی چھ انچ فالتو سول والا ۔ ہمیں دیکھا تو اپنے خصوصی بوٹ کا خود ہی مذاق اڑائے بغیر نہ رہ سکے ....”بھئی ، ایسے جوتے چاہئیں تو ہمارے پاس بہت ہیں ، کسی کی ٹانگ کام آ گئی ہو تو پہن لے گا‘ ‘۔
دوران جنگ حکومت نے زیادہ سے زیادہ دفاعی فنڈ اکٹھا کر نے کے لئے ”ایک پیسے میں دو ٹینک “کی انوکھی سکیم چلائی تھی ۔ وہ اس طرح کہ اگر دس کروڑ کی کل آبادی میں سے ہر شخص ایک ایک ”ٹیڈی“ پیسہ دے تو یہ دس لاکھ روپے ہو گئے ، اور دو نئے ٹینک خریدنے کے لئے بس اتنی رقم کافی تھی ، اسی لئے جب ہم گھروں ، دفتروں اور دکانوں میں ”مانگنے“ جاتے تو پوری کوشش ہوتی کہ دو تین سو ٹینکوں کا بندوبست کر کے اٹھیں ۔ ہمارے رہائشی علاقے کے بیشتر مکین آج کے حساب سے گریڈ چودہ سے سولہ تک کے سرکاری ملازم تھے ۔ الحمد للہ کسی در سے مایوس نہ لوٹے ۔ صرف ہماری سامنے والی ہمسائی نے ، جنہیں سب چندا کی امی کہتے ، دفاعی فنڈ کی سرکاری کٹوتی کا عذر پیش کرتے ہوئے ایک کھنکتی ہوئی اٹھنی یہ کہہ کر اچھال دی تھی کہ”دفتر والوں نے تمہارے چچا کی ایک دن کی تنخواہ کاٹ لی ہے“....ہمیں لگا کہ ہمارے کچھ نہیں تو سو ٹینک تباہ ہو گئے ہیں ۔
ٹینکوں کی اس گنتی میں ہمیں کئی طرح کا منافع ہوا ، جیسے انتہائی ذمہ داری کی کیفیت ، ایک خود کار نظم و ضبط ، بلا نگرانی انتظامی کام کرنے کا تجربہ ، مگر سب سے بڑھ کر اپنے عام لوگوں کے ساتھ مکمل یگانگت کا ایک توانا احساس۔ مثال کے طور پر ، دوپہر کی چلچلاتی دھوپ میں ایک کے بعد دوسرے گھر پر دستک دے رہے ہیں کہ دور سے ایک شخص اشارہ کرتا ہے ۔ شکل پڑھے لکھوں والی نہیں ۔ قمیض کے نیچے معمولی سفید رنگ کا سفید تہبند باندھ رکھا ہے ۔ آواز میں نہ طنطنہ ہے، نہ عاجزی ۔ ”اوئے لڑکو ، کیا کر رہے ہو “؟ ہم بتاتے ہیں کہ دفاعی فنڈ جمع ہو رہا ہے ۔ ”اچھا ، یہ لو“ اور پانچ کا نوٹ تھما دیا ۔ اب بزرگوں کی طرح پورا زور لگا کر یہ کہنے کو دل چاہ رہا ہے ”بالکل عام بندہ ، تے پنج روپئیے اوس زمانے وچ ۔ ہمیں واقعی یہ ایک خطیر رقم لگی، کیونکہ تب تک مزدور کی دیہاڑی ساڑھے تین اور چار روپے کے درمیان تھی ۔
پہچان کے اس لمحے میں وہ نیم شہری ، نیم دیہاتی سا آدمی ہم چاروں لڑکوں کے لئے اس آزاد مملکت کی تجسیم بن گیا تھا ۔ مجھے لگا کہ ہم اسی گھڑی پاکستانی ہو ئے اور اس وقت تک رہیں گے، جب تک کانوں میں یہ الفاظ گونج رہے ہیں:”عزیز بچو ! تم تلوار ہو ، تم ٹینک ہو ، تم توپ ہو ، تم اس قوم کے بازو ہو“۔ میرے تین ساتھیوں میں سے ایک ہے جس کا اتا پتا معلوم نہیں ، دوسرا آبائی صوبے سے باہر چیف سیکرٹری بن کر ریٹائر ہوا اور تیسرا سپریم کورٹ کا سینئر وکیل ہے ۔ ذرا اعلان جنگ کی سینتالیسویں سالگرہ گزر جائے تو ان دونوں کو ضرور پوچھوں گا کہ 1965ءکی اس تپتی ہوئی دوپہر کو لوسر باﺅلی کے بس اسٹاپ سے پچاس گز ہٹ کر ملنے والا وہ مانوس اجنبی کیا انہیں بھی اب تک یاد ہے ؟ میرے دوستوں کا جواب اثبات میں ہوا تو مجھے یقین آ جائے گا کہ ہم نے پہچان کا وہ لمحہ ضائع نہیں ہونے دیا۔
 

نایاب

لائبریرین
زبردست
جوش و جذبے اور حب الوطنی کو ابھارتا اک بہترین کالم ۔
بٹ بھائی بہت شکریہ شراکت پر
 
Top