گرمی کی چھٹیوں میں بچوں کے معمولات کیا ہونے چاہئیں: ماہرین کی رائے

گرمی کی چھٹیوں میں بچوں کے معمولات کیا ہونے چاہئیں: ماہرین کی رائے
والدین بچوں کا ٹائم ٹیبل اس طرح ترتیب دیں کہ انہیں نصابی اور غیر نصابی دونوں طرح کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا موقع ملے

دوسری طرف بچوں کی نشوونما گرمیوں میں زیادہ ہوتی ہے اور خاص طور پر چھٹیوں میں جب ان پر سکول کا بوجھ بھی نہیں ہوتا ان کی نشوونما مزید بہتر ہو جاتی ہے اس لئے اگر چھٹیوں میں بچوں کے معمولات اور خوراک کو توازن میں رکھا جائے تو بچوں کی جسمانی اور ذہنی نشو ونما میں بہت بہتر نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔
ایکسپریس فورم میں بچوں کو چھٹیاں کیسے گذرانی چاہئیں کے موضوع پر ایک سیر حاصل گفتگو ہوئی جس میں ماہرین تعلیم‘ ماہر نفسیات اور سپورٹس کے استاد نے حصہ لیا‘ گفتگو میں حصہ لینے والوں میں ڈاکٹر اعجاز بٹ‘ پروفیسر عبدالعزیز خان‘ پروفیسر وحید احمد ڈھلوں اور ایک کالج کے چیف پراکٹروسپورٹس کے استاد نسیم بشیر ڈوگر نے حصہ لیا۔ ان ماہرین کا کہنا تھا کہ بچوں کی چھٹیوں میں روٹین خراب ہو جاتی ہے اور سکول نہ جانے کی وجہ سے اکثر بچے صبح دیر تک سوئے رہتے ہیں۔

کچھ چھٹیوں میں کچھ بھی حاصل نہیں کرتے اور چھٹیوں کے بعد جب سکول یاکالج جاتے ہیں تو سب پڑھا لکھا بھول چکے ہوتے ہیں۔ دوسری قسم کے بچوں کو والدین چھٹیوں میں اکیڈمیوں میں داخل کرا دیتے ہیں جہاں ان پر چھٹیوں کے دنوں میں بھی سلیبس کا بوجھ پڑا رہتا ہے اور وہ صرف پڑھائی کے ہو کر رہ جاتے ہیں اور نہ تو کوئی تجربہ حاصل کرتے ہیں اور نہ کوئی چیز دیکھتے یا سیکھتے ہیں جبکہ چھٹیوں کو بچوں میں اعتماد بڑھانے اور بہتر نشو ونما کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ان کا جنرل نالج بڑھتا ہے لیکن اگر بچوں کو چھٹیوں کے لئے ایک ٹائم ٹیبل سیٹ کر دیا جائے۔

جس میں انہیں نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں برابر حصہ لینے کا موقع ملے تو وہ عملی زندگی میں زیادہ کامیاب انسان ثابت ہو سکتے ہیں۔ چھٹیوں میں بچوں کو دینی تعلیمات کی طرف بھی راغب کرنا چا ہئے اور انہیں گرمی کی وجہ سے گھروں میں گھسا کر نہیں رکھنا چاہئے بلکہ انہیں سکھانا چاہئے کہ مشکل موسم میں بھی زندگی کے کام نہیں رکتے دنیا کے کئی ممالک میں سردیوں میں موسم انتہائی سرد ہوتا ہے لیکن معمولات زندگی جاری رہتے ہیں۔ شرکاء فورم نے جن خیالات کا اظہار کیا وہ قارئین کی خدمت میں پیش ہے
ڈاکٹر اعجاز بٹ
(ماہر تعلیم)
ہمارے ملک میں بچوں کے پڑھنے کا طریقہ ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں بہت مختلف ہے۔ جس طرح ہمارے بچے پڑھتے ہیں باہر اسے روٹن سٹڈی کہتے ہیں۔ ہمارے بچے رٹے پر زیادہ زور دیتے ہیں اوران کی ساری توجہ کسی نہ کسی طرح زیادہ سے زیادہ نمبر لینے پر مرکوز ہوتی ہے۔ اس طریقے سے بچے زیادہ نمبر تو لے لیتے ہیں لیکن ان کی شخصیت کی نشوونما نہیں ہوپاتی۔ سکول میں بھی سارا زور صرف پڑھائی پر دیاجاتا ہے تاکہ سکول کا رزلٹ اچھا آجائے جبکہ پڑھائی کے ساتھ ساتھ غیر نصابی سرگرمیاں بچوں کی شخصیت کو نکھارنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
کچھ عرصے سے ہمارے ملک میں کے والدین کی سوچ بھی عجیب ہوگئی، بچوں کو صرف پڑھائی میں الجھا کر رکھتے ہیں اور انہیں دنیا کی دیگر چیزوں کا پتہ نہیں لگنے دیتے جس سے بچہ نصابی کتب کے متعلق تو سب جانتا ہے لیکن اس کا جنرل نالج بہت کمزو ہوتا ہے جس کا نقصان اسے عملی زندگی میں جاکر ہوتا ہے۔ چھٹیوں میں والدین بچوں کو دیگر سرگرمیوں کا موقع دینے کی بجائے انہیں اکیڈمیوں میں داخل کرادیتے ہیں اور وہ چھٹیوں میں بھی اسی چکی میں پس رہے ہوتے ہیں جس میں وہ سکول جاتے ہوئے پستے ہیں جبکہ والدین کو چاہیے کہ چھٹیوں میں بچوں کا ایک بیلنس ٹائم ٹیبل بنائیں جس میں نصابی اور غیر نصابی دونوں طرح کی سرگرمیاں شامل ہوں نہ کہ بچوں کو صرف اچھے نمبر لینے کیلئے پڑھائی کے دباؤ میں رکھ کر ان کی ذہنی اور جسمانی نشوونما ہی روک دیں۔
سارا زور اچھے نمبر لینے پر ہی نہیں ہونا چاہیے بچوں کو سپورٹس، سیاحت، شاعری، مصوری جیسے مشاغل بھی پڑھائی کے ساتھ جاری رکھنے چاہئیں اس سے ان کی تخلیقی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے جبکہ صرف رٹا لگا کر اچھے نمبر لینے والوں میں تخلیقی صلاحیتوں کا فقدان ہوتا ہے۔ ہائی کنگ اور اسکاؤٹنگ کرنے والے بچوں میں لیڈر شپ کوالٹی پیدا ہوتی ہے بچوں کا ماحول بدلے تو ان کی نصابی سرگرمیوں اور ان کی صحت پر مثبت اثر پڑتا ہے صرف پڑھائی کرنے والے ایک مشین جیسے ہوجاتے ہیں۔ بچے 90 فیصد نمبر تو لے لیتے ہیں لیکن ان کی شخصیت متوازن نہیں رہتی اور آگے جاکر وہ زندگی کے معمولات میں مشکلات میں گھر جاتے ہیں۔
میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ والدین چھٹیوں میں بچوں کو صرف اکیڈمیوں میں نہ بھیجیں بلکہ بچوں کے رویے میں توازن لانے کیلئے انہیں غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی مصروف کریں۔ ہماری پوری قوم جذباتی ہے اور بچے بھی اسی ڈگر پر چل رہے ہیں۔ دوسری طرف بچے کے دماغ میں کسی چیز کوجذب کرنے کی ایک خاص کپیسٹی ہوتی ہے آپ اسے بڑھا نہیں سکتے۔

پڑھائی کے ساتھ ساتھ جسمانی کام بھی کرنے والے زیادہ کامیاب ثابت ہوتے ہیں کیونکہ وہ عملی زندگی میں پڑھاکو بچوں سے زیادہ محنت کرسکتے ہیں اچھے نمبر لینے والے اچھی نوکری تو لے لیتے ہیں لیکن کامیاب زندگی نہیں گزار سکتے اور نہ ہی زندگی کے کسی شعبے میں نام کماسکتے ہیں لیکن اگر بچوں کو صرف اکیڈمیوں کے چکر لگوانے کی بجائے ان کے معمولات میں توازن رکھا جائے تو ان کے حاصل کردہ نمبروں میں بھی کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ البتہ ان کی شخصیت میں نکھار آئے گا، اعتماد پیدا ہوگا، اس کا جنرل نالج دوسروں سے بہتر ہوگا بچوں کو کتابوں سے زیادہ زندگی کے مختلف معاملات کے مشاہدے کی عادت ڈالی جائے تو شخصیت کو متوازن کرنے میں بہت معاون ثابت ہوگی۔
غیر نصابی سرگرمیوں کی ضرورت سے حکومت بھی آگاہ ہے اسی لیے چار سال پہلے حکومت نے کالج کی سطح پر کیریکٹر بلڈنگ کے نام سے پروجیکٹ شروع کیا اس پروجیکٹ کے تحت چھٹیوں میں ایک مہینے کی فری کلاسیں شروع کی گئیں جس میں بچوں کیلئے کمیونیکیشن سکلز، ٹریفک رولز، فرسٹ ایڈ، سول ڈیفنس، کمپیوٹر سکلز جیسے کورسز کرائے جاتے ہیں لیکن اس پروجیکٹ میں کالجوں کے صرف 30 فیصد طالب علموں نے دلچسپی لی اور اس غیر نصابی سرگرمی کا رسپنس وہ نہیں ملا جس کی توقع تھی کیونکہ بات پھر وہی ہے کہ بچوں کا رجحان صرف اکیڈمیوں کی طرف ہے جبکہ اگر ایک مہینے کی اکیڈمی کی سٹڈی اور ایک مہینے کے یہ کورسز دیکھیں تو سیکھنے کے عمل میں بہت واضح فرق نظر آئے گا۔
اسی طرح بچیوں کا معاملا ہے وہ بھی اپنی چھٹیاں گھر فارغ بیٹھ کر یا اکیڈمیوں میں جاکر گزار دیتی ہیں اور اکثر ان چھٹیوں میں کوئی نئی چیز سیکھ نہیں پاتیں۔ ہوم اکنامکس کالج میں بچیوں کیلئے سکلز پروگرام شروع ہوتے ہیں لیکن ادھر بھی رجحان کچھ زیادہ نہیں اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ والدین کا رجحان بھی صرف اکیڈمیوں کی طرف ہے اور وہ بھی غیر نصابی سرگرمیوں کو کوئی خاص اہمیت نہیں دیتے اسی وجہ سے ہماری بچیوں میں دنیا کا سامنا کرنے کا اعتماد نہیں پیدا ہوتا اور نہ ہی ان کا جنرل نالج ہوتا ہے۔ وہ صرف نصابی کتا ب پڑھ کر زیادہ نمبر تو لے لیتی ہیں لیکن دنیا کا بالکل سامنا نہ کرنے کی وجہ سے عملی زندگی میں مشکلات کا شکار رہتی ہیں۔
تین مہینے کی چھٹیاں بچوں کیلئے نعمت ہیں اگر ان چھٹیوں کا استعمال درست ہو تو بچے کی شخصیت میں نکھار پیدا ہوسکتا ہے اور ان کی جسمانی نشوونما میں اضافہ کیا جاسکتا ہے اس میں اگر بچوں کو غیر نصابی سرگرمیوں کے ذرائع سے دوسرے بچوں سے میل جول بڑھانے کا موقع ملے تو آپس میں اکٹھے وقت گزارنے والے بچے ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھتے ہیں کیونکہ ہر بچے میں قدرت نے کوئی نہ کوئی خوبی رکھی ہوتی ہے اس خوبی کو نکھارنے کیلئے اس کی حوصلہ افزائی ضروری ہوتی ہے اور ایک مناسب حد میں رہتے ہوئے اگر بچے کو غیر نصابی شوق پورے کرنے کا موقع دیں تو اس کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو باہر نکالا جاسکتا ہے۔ ویسے بھی ہمارے ملک میں یکجہتی کا فقدان ہے۔
مستقبل میں قومی یکجہتی پیدا کرنے کیلئے اگر کوئی ایسا پروگرام شروع کیا جائے جس میں چاروں صوبوں کے بچوں کو باہم ملنے کا موقع دیا جائے تو کلچرل گیپ کم ہوسکتا ہے بچے ایک دوسرے کی زبانیں سیکھ سکتے ہیں۔ یکجہتی کو فروغ مل سکتا ہے کیونکہ اوائل عمر کی دوستیاں اور پیار آگے چل کر انسان کے کام آتی ہیں۔ محبت اور پیار بڑھتا ہے اگر اکیڈمیوں میں جانے کا سلسلہ کم کرکے بچوں کو چھٹیوں میں دیگر مشاغل کی طرف لگایا جائے تو اس کی تخلیقی صلاحیتیں بڑھتی ہیں جو اس کے اپنے اور ملک و قوم کے کام آتی ہیں۔
صوبوں میں اگر بچوں کا ایکسچینج پروگرام شروع کردیا جائے تو اس سے نیشنلزم کو فروغ ملے گا ہمارے اور ترقی یافتہ ملکوں کی تعلیم میں بنیادی فرق یہی ہے کہ ہم رٹے کو فروغ دیتے ہیں اور عملی تربیت پر توجہ نہیں دیتے جبکہ ہمارے ہاں تعلیم بھی چار طرح کی ہے جبکہ دیگر ممالک میں ایک ہی طرح کا طریقہ تعلیم ہے جس سے آپس میں دوریاں پیدا نہیں ہوتیں اگر ہم بھی اپنے طریقہ تعلیم میں یکسانیت پیدا کرینگے تو اس سے پاکستانیت پیدا ہوگی۔ اگر بچے کہیں سیاحت پر جاتے ہیں تو ان سے اس کے متعلق مضمون لکھوانا چاہیے یہ کام سکول اور کالج کے لیول پر بھی ہوسکتا ہے کہ انہیں چھٹیوں کا روایتی کام دینے کی بجائے کسی سیاحتی مقام پر جانے اور پوری صورتحال پر مضمون لکھنے کا کام دیا جائے اور اچھا مضمون لکھنے والے دس بچوں کو انعام دیا جائے تو ایک اچھا غیر نصابی سلسلہ شروع ہوسکتا ہے۔ اسی طرح چھٹیوں میں یہ کام بھی دیا جاسکتا ہے کہ بچے اپنی پسند کی کتابیں پڑھیں اور پھر اس پر تبصرہ لکھ کر لائیں۔
پروفیسر وحید احمد ڈھلوں
(ماہر نفسیات)
چھٹیوں کو بچے آرام کرنے کیلئے سمجھتے ہیں اور والدین کی جانب سے کوئی لائحہ عمل نہ بنانے پر ان کے سونے اور اٹھنے کے معمولات خراب ہوجاتے ہیں حالانکہ پورا سال سکول، ہوم ورک اور تعلیمی سرگرمیوں کی وجہ سے بہت سے ایسے کام اور مشاغل ہوتے ہیںجن پر بچے توجہ نہیں دے سکتے، بچوں کو چھٹیاں نعمت جانتے ہوئے وہ کام اور مشاغل اختیار کرنے چاہئیں جن پر وہ پورا سال توجہ نہیں دے پاتے۔ ایک ہی روٹین کی وجہ سے بچے چڑچڑے ہوجاتے ہیں۔ پڑھائی کے بوجھ کی وجہ سے ان کی نشوونما نہیں ہوتی۔
ان میں برداشت کا مادہ کم ہوجاتا ہے اور اکثر اوقات وہ بدتمیزی پر اتر آتے ہیں، غصیلے ہوجاتے ہیں جس سے مجموعی طور پر معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ مشینی بچے بن جاتے ہیں جو اپنی مرضی سے کچھ نہیں کرسکتے اپنے پسندیدہ مشاغل میں حصہ نہیں لے سکتے کیونکہ سکول اور پڑھائی کے بعد وہ وقت ہی نہیں بچتا جس کی وجہ سے ان میں ادب اور احترام کا مادہ پیدا نہیں ہوتا ان کے احساسات اور قوت مشاہدہ کمزور ہوجاتی ہے اعتماد اور دنیا کا سامنا کرنے کی صلاحیت پیدا نہیں ہوتی اس طرح وہ کارآمد شہری نہیں بن سکتے۔

لڑکوں کوآؤٹ ڈور سرگرمیوں میں بھر پور حصہ لینے چاہیے اور ان کا غصہ گراؤنڈ میں نکلنا چاہیے اور لڑکیوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ کتابیں پڑھیں اور پھر اپنے والدین سے ڈسکس کریں۔ کھانا پکانا سیکھیں، سلائی کڑھائی اور پینٹنگ سے بھی ان کی شخصیت میں نکھار پیدا کیا جاسکتا ہے۔ ایک ہی کام کرتے کرتے انسان بور ہوجاتا ہے اور کام میں اپنی دلچسپی کھودیتا ہے جو کام دلچسپی سے نہ کیاجائے وہ احسن طریقے سے انجام نہیں دیا جاسکتا۔
بچوں کو بوریت سے بچانے کیلئے ان کا ٹائم ٹیبل بنایا جائے اور پڑھائی کے ساتھ ساتھ ان کے مشاغل پورے کیے جائیں۔ انہیں ان کی دلچسپی کے کام کرنے کا آزادانہ موقع دیا جائے اور انہیں اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ وہ پچھلے سال میں پڑھا ہوا سلیبس یاد رکھیں۔ سیرو سیاحت اور نئی سکلز سیکھنے سے بچے کا دماغ کھلتا ہے انہیں اس طرف راغب کیا جائے، بچے کی شخصیت کو نکھارنے کیلئے چھٹیوں کادرست استعمال کرنے میں والدین کا بڑا ہاتھ ہے۔ اگر والدین بچوں پر مکمل توجہ دیں ان کے ساتھ خود بھی زیادہ وقت گزاریں اور دوستوں کے ساتھ کھیلنے کا بھی بھر پور موقع دیں تو نفسیاتی طور پر دبے ہوئے بچے ایک نئے روپ میں سامنے آسکتے ہیں۔
عبدالعزیز خان
(پروفیسر آف اسلامیات )
جو جلدی سوتا نہیں وہ جلدی اٹھتا نہیں۔ بطور مسلمان ہمارے لیے ہمارے نبی کے معمولات مشعل راہ ہیں وہ رات کو جلدی سوتے اور بہت جلد اٹھتے تھے۔ ریسرچ کے مطابق یہ معمول انسان کو صحت مند اور چاک و چوبند رکھتاہے۔ رات کے پردوں میں سکون ہوتا ہے اس لیے رات کے سونے اور دن کے وقت سونے میں بہت فرق ہے۔ ویسے بھی کہا جاتاہے کہ صبح دیر تک سونے سے رزق اور شام کودیر تک سونے سے عقل کم ہوجاتی ہے۔ ہمارا اصل المیہ یہ ہے کہ ہم وقت کی قدر نہیں کرتے اور جو وقت بچوں کو کچھ بامقصد چیزیں سیکھنے میں صرف کرنا چاہیے وہ وقت وہ ضائع کردیتے ہیں اس میں بچوں سے زیادہ ان کے والدین کا قصور ہوتا ہے۔
گھر بھی بچے کی درسگاہ ہوتی ہے بچوں کے متعلق فیصلے کرنے کا اختیار والدین کے پاس ہوتا ہے گو آج کل کے معمولات کی وجہ سے اکثر بچے خود سر ہوجاتے ہیں لیکن ان کی شخصیت کی نشوونما میں ان کے الدین کی بھی اتنی ہی ذمہ داری ہے جتنی استاد کی ہے۔ کالج میں ایک کلاس 60 کے قریب بچوں کی ہوتی ہے استاد اتنے بچوں پر پوری توجہ نہیں دے سکتے۔ بچے نے صرف 5 گھنٹے کالج یا سکول میں گزارنے ہوتے ہیں۔ 19 گھنٹے وہ گھر میں گزارتا ہے صرف چھٹیوں میں ہی نہیں عام دنوں میں بھی بچے جو 19 گھنٹے گھر میں گزارتے ہیں والدین کی ذمہ داری ہے کہ 8 گھنٹے سونے کے نکال کر باقی 11 گھنٹے بچوں کیلئے اس طرح تقسیم کریں کہ عام دنوں میں نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ بچوں کیلئے دینی تعلیم کا وقت بھی نکالیں، بچوں کو نماز کا پابند بنائیں۔
س سے خدا تو راضی ہوگا ہی لیکن بچے نماز سے ڈسپلن بھی سیکھیں گے۔ وقت سب سے بڑا سرمایہ ہے اگر والدین یہ سمجھیں گے کہ اتنی گرمی ہے بچوں کو آرام کرنے دیں تو یہ بچوں کے ساتھ دشمنی ہوگی۔ سخت ترین موسم میں بھی ہمارا دین کسی کام سے نہیں روکتا۔

غزوہ بدر کا مقام مدینے سے 120 میل کے فاصلے پر تھا سواریاں بھی کم تھیں ایک سواری تین افراد کے حصے میں آتی تھی دو آدمی سواری پر بیٹھتے تھے ایک سواری کے ساتھ سخت گرمی میں بھاگتا تھا پھر خاص فاصلے کے بعد بھاگنے والا سواری پر بیٹھتا تھا اور دوسرا ساتھ بھاگتا تھا اس طرح سب باری باری سواری استعمال کرتے تھے۔ رسول اللہﷺ سواری پر بیٹھے تھے جب ان کی باری بھاگنے کی آئی تو ان کے ساتھ سواری شیئر کرنے والے صحابہؓ نے کہا آپ سواری پر ہی بیٹھیں لیکن آپؐ نے انکار کردیا اور سخت گرمی میں وہ بھی دوسروں کی طرح سواری کے ساتھ بھاگتے رہے۔
یہ ہمارے لیے سبق ہے کہ موسم کی سختی سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ایک موٹر سائیکل رکشہ چلانے والے نے بورڈ میں پوزیشن لی اپنے انٹرویو میں اس نے کہا کہ میری کامیابی کا راز ہے کہ میں وقت ضائع نہیں کرتا والدین اسی بات کا جائزہ لیتے رہیں کہ کہیں ان کے بچے کا وقت تو ضائع نہیں ہورہا۔ یہی ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کے وقت کو صحیح طور پر استعمال کرنے کا پلان تیار کریں اور بچوں کو اس کا پابند کریں۔ کالج اور سکول بھی بچوں کو چھٹیوں کیلئے صحیح گائیڈ کریں انہیں خود بھی چھٹیوں کیلئے ٹائم ٹیبل تجویز کریں اور چھٹیوں کا کام اس حساب سے دیں کہ اس میں نصابی کے ساتھ ساتھ غیر نصابی سرگرمیاں اور دینی تعلیم بھی شامل ہو۔
نسیم بشیر ڈوگر
(چیف پراکٹر آف کالج)
جو روٹین والدین کی ہو وہی بچوں کی بن جاتی ہے۔ اگر والدین جلدی سوئیں گے اور جلدی اٹھیں گے تو بچوں کا معمول بھی یہی ہوگا لیکن اگر والدین دیر سے سوتے اور دیر سے اٹھتے ہوں گے تو بچے بھی ایسا ہی کریں گے۔ اگر چھٹیوں کو مدنظر رکھیں تو یہ بچوں کیلئے ایک سنہری موقع ہوتا ہے کہ وہ اپنی شخصیت کو نکھار سکیں۔ والدین کوچاہیے کہ وہ چھٹیوں میں اپنے معمولات بھی ایسے بنالیں جس سے بچوں کو بھی فائدہ پہنچ سکے والدین صبح نماز کے بعد بچوں کو اپنے ساتھ واک پر لیجائیں اور اپنی نگرانی میں انہیں ہلکی ورزش کرائیں۔
ان کے کھانے پینے کے معمولات بہتر بنائیں۔ ان کی خوراک میں دودھ اور دودھ کی پراڈکٹس جیسے دہی اور پنیر شامل کریں۔ اگر کوئی بچہ دودھ نہیں پیتا تو اسے ملک شیک بنادیں۔ سلاد کی شکل میں کچی سبزیاں ان کی خوراک میں شامل کریں۔ دوپہر کو سوکر اٹھیں تو چاک و چوبند کرنے کیلئے زیادہ دودھ والی چائے دیں اور شام کے کھانے سے دو گھنٹے پہلے انہیں پھل دیں جو س کی جگہ پھل کھائے جائیں تو زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ کھانے میں انہیں برگر، پنیر اور جنک فوڈ کم سے کم دیں خوراک سادہ اور ذود ہضم ہونی چاہیے ۔
اس سے بچے کا وزن نہیں بڑھتا اور وہ نہ صرف چاک و چوبند رہتا ہے بلکہ اس کا دماغ زیادہ تیز کام کرتا ہے۔ سونے، جاگنے، پڑھنے اور کھانے میں اعتدال لے کر آئیں اگر اسی عمر میں ان کے معمولات صحت مند ہوں گے تو وہ ساری زندگی اسی پر کاربند رہ کر صحت مند زندگی گزار سکتے ہیں اور ہمارے بچوں میں جو چڑچڑا پن پیدا ہورہا ہے اس سے بھی بچاسکتا ہے۔
بازاری کھانا ہوسکتا ہے بچوں کو زیادہ لذیز لگتا ہو لیکن بازار سے کھانا کھانا بچے کا معمول نہیں ہونا چاہیے کھانے کی مقدار بچے کو اتنی ہی دیں جتنی اسے ضرورت ہے یا جتنی وہ آسانی سے کھاسکتا ہے کیونکہ بعض والدین بچوں کو زبردستی بھی کھلاتے ہیں جس سے بچے کا وزن اور حجم تو بڑھ سکتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ وہ صحت مند بھی کہلائے۔
بچوں کا وزن اور قد چیک کرتے رہیں عمر قد اور وزن میں جو معیار قائم ہیں ان کا جائزہ لیتے رہیں اگر اس معیار میں غیر معمولی فرق نظر آئے تو ڈاکٹر سے مشورہ کریں غیر ضروری طور پر وٹامن نہ کھلائیں اسے خوراک سے ہی اپنے وٹامن پورے کرنے دیں اور خاص طور پر بچے کو ایک ٹائم ٹیبل کے مطابق کھانے، پڑھنے، کھیلنے اور دل پسند مشاغل میں حصہ لینے کا بھر پور موقع دیں گے تو بچے کی زندگی میں ڈسپلن آئے گا اس کا ذہن طاقتور ہوگا جسمانی نشوونما بڑھے گی۔ چھٹیوں کا صحیح استعمال آپ کے بچے کو سنوار سکتا ہے لیکن اگر چھٹیوں میں بچے کو نظر انداز کرکے صرف چھٹیوں کے دن پورے کرنے پر لگا دیا جائے ایک ایسا وقت ضائع ہوجائے گا جو دوبارہ نہیں آسکتا۔
 
Top